امریکا ’’کرزئی طالبان مذاکرات‘‘ کی کامیابی کے لیے کوشاں

امریکا نے افغانستان میں اتحادی فوجیوں کی ہلاکت کا دائرہ وسیع ہوتا ہوا دیکھ کر ایک بار پھر افغان حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات کی کامیابی کے لیے اقدامات شروع کردیے ہیں۔ برسلز میں نیٹو حکام نے بتایا کہ طالبان رہنماؤں کو مذاکرات میں شرکت کے لیے نقل و حرکت کی مکمل آزادی دی جارہی ہے۔ افغانستان میں بعض طالبان رہنماؤں کے لیے یہ ممکن ہی نہیں کہ نیٹو کی بھرپور معاونت کے بغیر کابل تک پہنچ سکیں۔ نیٹو حکام کا کہنا ہے کہ افغانستان میں سیکورٹی اسسٹنس فورس کے تعاون کے بغیر مذاکرات کی کامیابی ممکن نہیں۔ نیٹو کے حکام نے جو کچھ بتایا ہے اس کی روشنی میں یہ واضح ہو جاتا ہے کہ امریکا اب افغان جنگ کو جلد از جلد ختم کرنے کے لیے مذاکرات کے عمل کو تیزی سے نتیجہ خیز بنانا چاہتا ہے تاکہ انخلا کی راہ ہموار ہو۔

۱۴؍ اکتوبر کو برسلز میں نیٹو وزرائے خارجہ و دفاع کے اجلاس میں شرکت کے بعد امریکی وزیر خارجہ ہیلر ی کلنٹن اور وزیر دفاع رابرٹ گیٹس نے بھی مذاکرات میں امریکا کی بھرپور دلچسپی کی تصدیق کردی۔ برسلز میں نیٹو کے سربراہ اینڈرز فوگ راسموسن کے ساتھ نیوز کانفرنس کرتے ہوئے ہیلری کلنٹن اور رابرٹ گیٹس نے کہا کہ طالبان سے کرزئی حکومت کے مذاکرات کی کامیابی کے لیے امریکی حکومت کسی بھی حد تک جاسکتی ہے، کچھ بھی کرسکتی ہے۔ امریکا چاہتا ہے مفاہت کا عمل تیزی سے آگے بڑھے اور معاملات سلجھنے کی راہ پر گامزن ہوں۔ دونوں نے تسلیم کیا کہ افغانستان میں مفاہمت مسائل کا حل ہے اور اس کے لیے امریکا ہر سطح پر بھرپور تعاون کرے گا۔ امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن کا کہنا تھا کہ مذاکراتی کوششوں کا ابھی آغاز ہوا ہے اور اس راہ میں بہت سی دشواریاں حائل ہیں۔ حقیقتاً مفاہمت آسان نہیں۔ اینڈر فوگ راسموسن نے کہا کہ اتحادی افواج مفاہمت میں آسانی پیدا کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کریں گی۔

معاملات ابھی ابتدائی مرحلے میں ہیں۔ کچھ واضح نہیں کہ معاملہ کہاں تک پہنچ سکے گا۔ یہ بات تو طے ہے کہ امریکا کرزئی طالبان مذاکرات کی بھرپور کامیابی کے حق میں ہے۔ دفتر خارجہ کے ترجمان فلپ کرولے نے ایک بیان میں یہ ضرور کہا کہ طالبان کے سپریم لیڈر ملا عمر مذاکرات میں حصہ لینے کے لیے امریکا کے طے کردہ معیار پر بظاہر پورے نہیں اترتے۔ بات چیت صرف ان طالبان رہنماؤں سے ہوگی جو تشدد ترک کرکے ہتھیار ڈال دیں گے۔ امریکا کی ترجیح یہ ہے کہ مفاہمت کا عمل جلد از جلد مکمل ہو، امن معاہدہ ہو، نچلی سطح کے طالبان ہتھیار پھینک دیں اور مکمل جنگ بندی نافذ ہو، تاکہ افغانستان سے نیٹو افواج کے مکمل انخلا کی راہ ہموار ہو اور یہ عمل جلد ازجلد شروع کیا جاسکے۔ امریکی حکام نے اب تک جو کچھ بھی کہا تھا اس میں احتیاط کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا تھا۔ اب وہ برملا کہنے لگے ہیں کہ حکومت فوری مفاہمت کی خواہاں ہے۔ اس کا ایک بنیادی سبب یہ بھی ہے کہ امریکی فوجیوں کی تعداد بڑھاکر افغانستان میں طالبان کے خلاف بہتر نتائج حاصل کرنے کی جو منصوبہ بندی کی گئی تھی وہ بظاہر ناکامی سے دوچار ہوچکی ہے اور اس حوالے سے مایوسی ہر طرف واضح دکھائی دے رہی ہے۔

امریکی صدر بارک اوباما دسمبر میں افغان جنگ کا جائزہ لے کر حکمت عملی میں ممکنہ تبدیلیوں پر مشاورت کرنے والے ہیں۔ افغانستان میں امریکی اور نیٹو افواج کے نئے کمانڈر جنرل ڈیوڈ پیٹریاس کی کوشش ہے کہ دسمبر تک کچھ نہ کچھ کرکے دکھایا جائے۔ انہوں نے اسپیشل فورسز کے ذریعے طالبان کمانڈروں کو ہلاک کرنے کا سلسلہ تیز کردیا ہے۔ دوسری جانب طالبان نے بھی اتحادیوں پر حملے تیز کردیے ہیں۔ کمانڈروں کی ہلاکت سے طالبان کے لیے وہ خرابی پیدا نہیں ہو رہی جو اتحادی فوجیوں کی ہلاکت سے امریکا اور یورپی طاقتوں کے لیے اندرونی سطح پر پیدا ہو رہی ہے۔ نیٹو کے بیشتر رکن ممالک میں اپوزیشن اور رائے عامہ نے اپنی اپنی حکومت پر زور دیا ہے کہ افغانستان سے فوجی جلد ازجلد واپس بلائے جائیں کیونکہ ہلاکتوں کا دائرہ تیزی سے وسیع ہو رہا ہے۔ اس حوالے سے پیٹریاس پر بھی دباؤ بڑھ رہا ہے۔ انہیں سینٹرل کمانڈسے لایا گیا ہے۔ اب اگر وہ مطلوبہ نتائج دینے میں ناکام رہے تو ان کے پیشہ وارانہ کیریئر پر بھی داغ لگ جائے گا۔

افغانستان کے صدر حامد کرزئی کئی ماہ سے طالبان کو مذاکرات کے لیے رام کرنے اور حکومت کا حصہ بننے پر آمادہ کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں۔ امریکا اب تک یہ کہتا رہا ہے کہ طالبان سے مذاکرات کے نتیجے میں افغانستان میں جاری جنگ پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ امریکی یہ بھی کہتے رہے ہیں کہ طالبان مذاکرات کے لیے اس وقت تک راضی نہیں ہوسکتے جب تک انہیں اتحادی افواج کے ہاتھوں زیادہ جانی نقصان نہ اٹھانا پڑے۔

امریکی حکام کا کہنا ہے کہ افغانستان کے حوالے سے پاکستان کا کردار دن بہ دن بد سے بدتر ہوتا جارہا ہے۔ پاکستان چاہتا ہے کہ جنگ ختم ہونے پر افغانستان میں معاملات اس کی مرضی کے مطابق چلائے جائیں۔ جنگ کے بعد کی صورت حال میں پاکستان جو کچھ کرنا چاہتا ہے اس کے پیشِ نظر امریکا مذاکرات کے عمل کو تیزی سے مکمل کرنے کے حق میں ہے۔ پاکستان کا مؤقف یہ ہے کہ طالبان سے مفاہمت کے بغیر افغانستان میں پائیدار امن قائم نہیں ہوسکتا۔ وہ چاہتا ہے کہ امریکا بھی طالبان اور کرزئی حکومت کے درمیان ہونے والے مذاکرات میں شریک ہو۔ حامد کرزئی نے پاکستان میں موجود طالبان قیادت سے رابطے کیے تھے جن پر پاکستانی حکومت جزبز ہوئی کیونکہ اس سے اجازت نہیں لی گئی تھی۔ کرزئی کے اقدامات کے جواب میں پاکستان نے بات چیت کی کوششوں پر پانی پھیر دیا۔

امریکی صدر باراک اوباما نے سال رواں کے اوائل میں ایک نئی پالیسی کی منظوری دی تھی جس کا مقصد تشدد کرکے ہتھیار پھینکنے والے طالبان سے مذاکرات کی راہ ہموار کرنا تھا۔ مذاکرات کے لیے ایک شرط یہ بھی رکھی گئی کہ عسکریت پسند افغانستان کے آئین کی بالادستی تسلیم کریں۔ دو ماہ قبل صدر اوباما کو بریفنگ دی گئی جس میں انہوں نے اس نکتے سے اتفاق کیا کہ مذاکرات میں ان طالبان کو بھی شریک کیا جائے جو اپنی قیادت سے اختلافات کے باعث الگ ہوچکے ہوں۔

نیٹو کا سربراہ اجلاس آئندہ ماہ پرتگال کے دارالحکومت لکسمبرگ میں ہو رہا ہے جس میں صدر اوباما افغانستان میں جاری جنگ کے حوالے سے شدید بدحواس یورپی قوتوں کو یقین دلانے کی کوشش کریں گے کہ افغانستان میں مزید علاقے افغان فوج کے حوالے کرنے کی تیاریاں مکمل کرلی گئی ہیں۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ افغانستان میں نچلی سطح کے طالبان کو ساتھ ملائے بغیر حقیقی امن کے خواب کو شرمندہ تعبیر نہیں کیا جاسکتا۔

افغانستان میں امریکا کے سفیر کارل ایکن بری کا کہنا ہے کہ افغانستان میں امن اور استحکام کا انحصار پڑوسی ممالک پر ہے۔ افغان ٹی وی چینل کو انٹرویو میں ایکن بری نے کہا کہ افغانستان میں جنگ کے خاتمے کے لیے وہ حکومت مخالف قوتوں کے ساتھ بات چیت کے حق میںہیں جبکہ شورش زدہ ملک میںجنگ کے خاتمہ کا ایک اور حل یہ ہے کہ مقامی سیکورٹی فورسز کو بااختیار بنایا جائے۔ امریکا اس وقت تک افغانستان سے اپنی فوج واپس نہیں بلائے گا جب تک واشنگٹن کو یہ یقین نہ ہو جائے کہ اب افغان فورسز ملک کی سیکورٹی کی ذمہ داریاں سنبھالنے کے قابل ہوگئی ہیں۔ صدر اوباما نے افغانستان سے فوج کے انخلا کے لیے جولائی ۲۰۱۱ء کی جو ڈیڈ لائن دی ہے اس پر عمل سے قبل زمینی حقائق کا بھرپور جائزہ لیا جائے گا۔ مذاکرات کے باوجود افغانستان میں جنگ کے حوالے سے حکمتِ عملی میں تبدیلی کی کوئی تجویز زیر غور نہیں۔

(بشکریہ: ’’نیویارک ٹائمز‘‘۔ ۱۴؍ اکتوبر ۲۰۱۰ء)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*