
جب لندن کے باشندوں نے پاکستانی نژاد صادق خان کو میئر منتخب کیا، تب یہ بحث ایک بار پھر زور پکڑ گئی کہ برطانوی معاشرے میں اسلام اور مسلمانوں کا مقام کیا ہے۔ لندن کے میئر کے انتخاب میں ۵۷ فیصد سے بھی زائد ووٹ لے کر صادق یورپ کے مقبول ترین مسلم سیاست دانوں کی صف میں شامل ہوئے۔ زیک گولڈ اسمتھ ان کے مدمقابل تھے، جن پر معاشرے کو نسلی یا ثقافتی بنیاد پر تقسیم کرنے کی کوشش کا الزام عائد کیا گیا۔
آج برطانیہ میں کم و بیش ۲۷ لاکھ مسلمان آباد ہیں۔ انگلینڈ اور ویلز میں بسے ہوئے یہ مسلمان نسلی، لسانی اور ثقافتی اعتبار سے ایک دوسرے سے خاصے مختلف ہیں۔ ملکہ وکٹوریہ کے عہد کے آخر میں برطانیہ نے مشرق میں ایک وسیع سلطنت پر حکمرانی کی۔ اس سلطنت میں کروڑوں مسلمان بھی شامل تھے۔ جب برطانوی سلطنت کے چند انتہائی مراعات یافتہ اور مہذب افراد نے اسلام قبول کیا، تب برطانیہ میں اُن کے حوالے سے اشتعال کم اور تجسّس زیادہ پایا گیا۔ لوگ یہ جاننے کے لیے بے تاب تھے کہ آخر اسلام میں ایسی کیا بات ہے کہ مسلمانوں کو فتح کرنے کے باوجود اسلام کو فاتح بننے سے روکا نہ جاسکا!
۱۹۱۳ء میں لارڈ ہیڈلے نے اسلام قبول کیا تو ڈیلی ’’مرر‘‘ نے سرخی لگائی کہ آئر لینڈ کا ایک بزرگ اسلام کے آغوش میں چلا گیا۔ متعلقہ مضمون میں لکھا تھا کہ مشرق کے مذاہب سے مرتب ہونے والے اثرات کو ثابت کرنے والی ایک حقیقت یہ ہے کہ انڈیا میں کئی سال گزارنے والے لارڈ ہیڈلے نے اسلام قبول کرلیا ہے۔
لارڈ ہیڈلے کی طرح اسلام قبول کرنے والے ابتدائی برطانوی باشندوں میں اکثریت نوجوان سیاست دانوں یا پھر تجارت پیشہ طبقے کی اولاد کی تھی۔ ان میں اکثریت اُن مہم جُو افراد، دانشوروں یا پھر اعلیٰ حکام کی تھی جو برطانیہ کے مفتوح علاقوں میں مسلمانوں کے درمیان طویل مدت تک کام کرتے رہے تھے۔
لندن کی ہولووے یونیورسٹی کے پروفیسر ہمایوں انصاری کہتے ہیں کہ برطانیہ کے اعلیٰ طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد کے قبولِ اسلام سے متعلق کہانیاں ہمیں یہ جاننے کا موقع عطا کرتی ہیں کہ اُس زمانے میں حالات کتنی تیزی سے تبدیل ہو رہے تھے، جدید علوم و فنون کی روشنی میں سوچنے والوں کا فکری انتشار بڑھ رہا تھا۔ مختلف شعبوں میں تحقیق کے نتیجے میں مذہب اور آفرینش سے متعلق سوالات ذہنوں میں خلفشار پیدا کر رہے تھے۔
پروفیسر ہمایوں انصاری مزید کہتے ہیں کہ پہلی جنگِ عظیم نے یورپ اور دیگر خطوں میں بہت بڑے پیمانے پر تباہی پھیلائی۔ ایسے میں یہ سوال اٹھا کہ استعماری قوتوں کو لازمی طور پر کیوں برقرار رہنا چاہیے اور برطانیہ و دیگر استعماری قوتوں کو یہ حق کس نے دیا کہ وہ دنیا کے بڑے اور دور افتادہ خطوں پر حکمرانی کریں۔ برطانیہ کی جن اعلیٰ شخصیات نے اسلام قبول کیا، انہوں نے پہلے افغانستان اور سوڈان میں اور پھر یورپ میں جنگ دیکھی اور ان کا مشاہدہ تھا کہ بہت بڑے پیمانے پر افواج تیار کرکے قتل و غارت کا بازار گرم کیا گیا اور دعویٰ یہ کیا گیا کہ خدا ان کے ساتھ ہے۔ ان جنگوں نے اتنے بڑے پیمانے پر تباہی پھیلائی کہ حساس دل رکھنے والے دیکھ کر لرز گئے۔ مغرب کے اعلیٰ اذہان نے جب مسلم معاشروں میں امن و سکون، روحانیت اور سادگی کے درشن کیے تو بہت متاثر ہوئے اور اس کے نتیجے میں وہ اسلام سے قریب ہوگئے۔
آج مغرب میں اسلام کو کسی اور تناظر میں دیکھا جارہا ہے یا دکھایا جارہا ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ برطانوی سامراج کے دور میں اسلامی معاشروں کی ساخت اور نوعیت کچھ اور تھی۔ اس دور میں مغرب کے بہت سے مہم جُو، دانشور اور سیاست دان اپنے معاشروں کے فکری و روحانی انتشار سے پریشان ہوکر مشرقی معاشروں کی طرف دیکھ رہے تھے۔ اسلامی دنیا میں انہیں اقدار بھی دکھائی دیں اور انسانیت کا احترام بھی۔ اس کے لازمی نتیجے کے طور پر انہیں اسلام کی طرف متوجہ ہونا اور جھکنا ہی تھا۔ لارڈ ہیڈلے نے بھی کہا تھا کہ اسلام امن، اخوت اور عالمگیر اقدار کا مذہب ہے۔
وکٹورین دور میں برطانیہ کی جن شخصیات نے اسلام قبول کیا، وہ آج بہت دور کی ہستیاں ہیں۔ ایک طویل مدت گزر چکی ہے مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ اُس دور میں جن سوالوں کی بنیاد پر یہ لوگ حق کی تلاش میں نکلے اور اسلام کے دامن میں پناہ لی، ویسے ہی سوال آج بھی سر اٹھا رہے ہیں۔ روحانیت بحران کا شکار ہے۔
آیے! ملکہ وکٹوریہ کے دور میں اسلام قبول کرنے والی چند برطانوی شخصیات پر ایک نظر ڈالیں۔
ولیم کوئلیم
اسلام اور برطانوی سلطنت کے رابطہ و تفاعل پر اظہار خیال کرتے ہوئے عبداللہ کوئلیم کہتے ہیں ’’جب یہ دیکھتے ہیں کہ برطانوی سلطنت کے زیر نگیں لاکھوں، کروڑوں مسلمان زندگی بسر کرتے ہیں، تب یہ بات بہت عجیب لگتی ہے کہ ہم (یعنی برطانوی سلطنت کے باشندے) اسلام کے بارے میں بہت ہی کم جانتے ہیں۔ عوام کو اگر کسی معاملے میں بہت کم معلوم ہو تو اُنہیں گمراہ کرنا بہت آسان ہوتا ہے‘‘۔
وکٹورین عہد کی جن ممتاز ترین برطانوی شخصیات نے اسلام قبول کیا، اُن میں ولیم (عبداللہ) کوئلیم بھی شامل تھے۔ وہ ۱۸۵۶ء میں ایک میتھڈسٹ مبلغ کے گھر میں پیدا ہوئے اور ۱۸۸۰ء کی دہائی میں حلقہ بہ گوش اسلام ہوئے۔ انہوں نے ۱۷؍سال کی عمر میں ایک بیماری سے نجات پانے کے سلسلے میں مراکش، تیونس اور الجزائر کا سفر کیا تھا۔
ان تینوں مسلم ممالک کے سفر کے دوران وہ مسلمانوں کے طرزِ عمل سے متاثر ہوئے اور اسلام کے حوالے سے پڑھنا شروع کیا۔ عبداللہ کوئلیم اپنی عمر کی تیسری دہائی کے اوائل ہی میں وکالت کا پیشہ اختیار کرچکے تھے۔ انہوں نے ۱۸۸۹ء میں لیور پول میں برطانیہ کی پہلی مسجد تعمیر کی اور ۱۸۹۴ء میں آخری ترک خلیفہ سلطان عبدالحمید ثانی نے انہیں برطانوی مسلم کمیونٹی کا سربراہ مقرر کیا۔ برطانوی باشندوں میں اسلام کو بہتر انداز سے متعارف کرانے کے لیے عبداللہ کوئلیم نے کتب تحریر کیں اور کہا جاتا ہے کہ انہوں نے ملکہ وکٹوریہ کو قرآن کا ایک نسخہ بھیجا جسے انہوں نے پسند کیا اور اپنے بچوں کے لیے بھی کئی نسخے بھیجنے کی فرمائش کی۔
عبداللہ کوئلیم کا انتقال ۱۹۳۲ء میں لندن میں ہوا اور انہیں ووکنگ کے نزدیک بروک وڈ سیمیٹری میں سپردِ خاک کیا گیا۔ اس قبرستان میں کئی دوسرے ممتاز برطانوی نومسلم بھی آسودۂ خاک ہیں۔
لیڈی ایویلن کوبولڈ (۱۸۶۷ء تا ۱۹۶۳ء)
وکٹورین عہد کی جن نمایاں برطانوی سیاسی شخصیات نے اسلام قبول کیا، اُن میں لیڈی ایویلن کوبولڈ (زینب) شاید آخری تھیں۔ سیونتھ ارل آف ڈنمور کی صاحبزادی ایڈنبرگ، اسکاٹ لینڈ میں پیدا ہوئیں۔ کہا جاتا ہے کہ وہ مے فیئر اور پیرس کے جدید ترین فیشن ایبل سیلونز میں جس قدر آرام محسوس کرتی تھیں، ویسا ہی آرام لیبیا کے صحرائی ماحول میں بھی محسوس کیا کرتی تھیں۔ وہ اچھی کھلاڑی اور نشانہ باز تھیں۔
زینب کوبولڈ لکھتی ہیں ’’میں اپنی گورنس کی نظروں سے بچ کر الجزائری سہیلیوں کے ساتھ مسجد چلی جایا کرتی تھی اور دل ہی دل میں محسوس کرتی تھی کہ میں تھوڑی تھوڑی مسلمان ہوگئی ہوں‘‘۔
۱۹۳۳ء میں ۶۵ سال کی عمر میں لیڈی ایویلن کوبولڈ اسلام قبول کرکے زینب بن گئیں اور پھر وہ حج پر جانے والی پہلی یورپی خاتون بھی بن گئیں۔ اس عظیم سفر کا احوال انہوں نے کتابی شکل میں قلم بند کیا۔ ’’پلگریمیج ٹو مکہ‘‘ بیسٹ سیلر ثابت ہوئی۔
زینب کوبولڈ کا انتقال ۹۶ سال کی عمر میں ہوا۔ انہوں نے وصیت کی کہ اسکاٹ لینڈ کے دور افتادہ مقام انورنیس کی پہاڑی پر ان کی قبر کے کتبے پر یہ الفاظ ’’اللہ ہی زمینوں اور آسمانوں کا نور ہے‘‘ کندہ کیے جائیں۔
زینب کوبولڈ نے بچپن الجزیرہ اور قاہرہ میں گزارا۔ وہاں وہ بزرگ خواتین کے ساتھ رہتی تھیں اور ان سے اسلام کے بارے میں بہت کچھ سیکھتی تھیں۔ وہ یہ تسلیم کرتی تھیں کہ انہوں نے بچپن ہی سے طے کرلیا تھا کہ وہ مسلم کی حیثیت سے زندگی بسر کریں گی مگر اپنے قبول اسلام کا معاملہ انہوں نے پوپ سے ملاقات کے دوران طشت ازبام کیا۔ اس ملاقات کو انہوں نے ’’پلگریمیج ٹو مکہ‘‘ میں بیان کیا ہے۔ وہ لکھتی ہیں ’’میں جب اعلیٰ تعلیم کے لیے اٹلی گئی تو ایک دن میرے ساتھیوں نے مجھ سے کہا کہ پوپ سے ملنا پسند کروگی؟ میں نے بخوشی رضامندی ظاہر کردی۔ ہم لوگ وہاں گئے۔ پوپ نے خطاب کیا اور پھر جب مجھ سے پوچھا کیا تم کیتھولک ہو؟ میں ایک لمحے کے لیے حیرت زدہ سی رہ گئی اور پھر میرے منہ سے نکلا ’’میں تو مسلم ہوں‘‘۔ میں نے مسلم ہونے کا اعلان کس چیز کے زیر اثر کیا، یہ میں نہیں جانتی اور سچ تو یہ ہے کہ میں نے برسوں سے کبھی اسلام قبول کرنے کے بارے میں باضابطہ سوچا بھی نہیں تھا۔ مجھ میں ایک شمع روشن ہوگئی اور میں نے طے کرلیا کہ میں اسلام کے بارے میں جس قدر بھی تفصیل سے پڑھنا ممکن ہوا، پڑھوں گی‘‘۔
رولینڈ ایلینسن ون، پانچویں بیرن (۱۸۵۵ء تا ۱۹۳۵ء)
رولینڈ ایلینسن ون عام طور پر لارڈ ہیڈلے کے نام سے معروف ہیں۔ ۱۹۱۳ء پانچویں بیرن بنائے جانے پر وہ برطانوی دارالامراء میں بیٹھنے والے پہلے مسلم تھے۔ اُنہوں نے ۱۹۱۳ء ہی میں اسلام قبول کیا اور شیخ رحمت اللہ الفاروق بن گئے۔
لارڈ ہیڈلے لندن میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے پروٹیسٹنٹ عیسائی کی حیثیت سے ویسٹ منسٹر اسکول اور ٹرینٹی کالج میں تعلیم پائی۔ اس کے بعد وہ آئر لینڈ میں آبائی جاگیر پر رہنے گئے، جہاں انہوں نے رومن کیتھولزم کی تعلیمات کا مطالعہ کیا۔ لارڈ ہیڈلے قابل انجینئر، مارشل آرٹس کے ابتدائی متعارف کنندگان میں سے ایک، سیاح اور صحافی تھے۔ وکٹورین عہد کے اس مایہ ناز اینگلو آئرش ماہر امور مملکت کو نشاۃِ ثانیہ کا آدمی کہا جاتا تھا۔ انڈیا میں برطانوی راج کے لیے کام کرتے ہوئے انہیں اسلام سے پہلی بار متعارف ہونے کا موقع کشمیر میں ملا۔ لارڈ ہیڈلے نے محسوس کیا کہ اسلام امن اور رواداری کا درس دیتا ہے۔ دلچسپی بڑھنے پر انہوں نے پہلی جنگ عظیم سے قبل انگلینڈ میں اپنے استاد مشہور ہندوستانی قانون دان اور مذہبی اسکالر خواجہ کمال الدین سے اسلام کے بارے میں بہت کچھ معلوم کیا۔
جتنے بھی بیانات ملتے ہیں، اُن کی روشنی میں لارڈ ہیڈلے جنونی انسان تھے۔ وہ جس شعبے میں بھی قدم رکھتے تھے، اُس میں ڈوب جاتے تھے اور کچھ نہ کچھ بن کر ابھرتے تھے۔ کیمبرج کے دنوں میں وہ مڈل ویٹ باکسنگ چمپئن رہے۔ انہیں سفر کرنا بہت اچھا لگتا تھا۔ شکار سے بھی شغف تھا۔ لکھنے کا شوق تھا جو انہیں صحافت کی طرف لے گیا۔ انہوں نے باکسنگ کے بارے میں کئی کتب لکھنے سے قبل عام آدمی کے لیے ذاتی دفاع ممکن بنانے کے حوالے سے بھی ایک کتاب ’’براڈ سورڈ اینڈ سنگل اسٹک‘‘ لکھی۔
لارڈ ہیڈلے نے ۱۹۲۳ء میں حج کیا۔ جون ۱۹۳۵ء میں لارڈ ہیڈلے کا انتقال ہوا۔ انہوں نے بستر مرگ پر اپنے بیٹے کو وصیت لکھوائی کہ اُنہیں مسلم قبرستان میں سپردِ خاک کیا جائے۔
مارما ڈیوک پکتھال (۱۸۷۵ء تا ۱۹۳۶ء)
محمد مارماڈیوک پکتھال چرچ کے عہدیدار کے گھر پیدا ہوئے۔ اسلام قبول کرنے سے قبل انہوں نے انڈیا اور مشرق وسطیٰ میں بہت سے مقامات کا سفر کیا اور اسلام سمیت کئی مذاہب کے بارے میں غیر معمولی مطالعہ کیا۔ پکتھال نے لکھا ’’اس دنیا کو دوسروں کی آنکھ سے دیکھنے کے بجائے ہر شخص کو اپنی آنکھوں سے دیکھنا چاہیے۔ دنیا کو دیکھنے اور سمجھنے کا یہی بہتر طریقہ ہے۔ لوگ ویسے ہی ہوتے ہیں جیسا کوئی بھی شخص انہیں دیکھتا اور پاتا ہے۔ وہ ہر شخص کے تصور کے مطابق تبدیل ہوتے ہیں مگر رہتے وہی ہیں جو وہ ہوتے ہیں‘‘۔
مارما ڈیوک پکتھال کامیاب ناول نگار بھی تھے۔ ان کے مداحوں میں ڈی ایچ لارنس، ایچ جی ویلز اور ای ایم فوسٹر بھی شامل تھے۔ مارماڈیوک پکتھال نے ۱۹۱۷ء میں اسلام قبول کیا اور کئی برس کی محنت کے بعد قرآن کا ایک معیاری انگریزی ترجمہ تیار کیا۔ اس ترجمے کو جامعہ ازہر نے بھی قبولیت کی سند عطا کی اور آج بھی اس ترجمے کا شمار انگریزی زبان کے انتہائی معیاری تراجم قرآن میں ہوتا ہے۔ جب یہ ترجمہ شائع ہوا، تب ٹائمز لٹریری سپلیمنٹ نے اسے ایک معیاری علمی و ادبی دستاویز قرار دیا۔ پکتھال نے تسلیم کیا کہ قرآن کا ترجمہ نہیں کیا جاسکتا۔ جو کچھ انہوں نے انگریزی میں پیش کیا، وہ قرآن کے مفہوم کو بیان کرنے کی کوشش ہے کہ لوگ اس عظیم کتاب کو سمجھنے کی طرف مائل ہوں اور اس سے متعلق مواد بھی پڑھیں۔ قرآن کا کوئی بھی ترجمہ اصل عربی متن کی جگہ کبھی نہیں لے سکتا۔ عربی کا ہمہ گیر اثر اپنی جگہ ہے جو کسی بھی صورت کم نہیں ہوتا۔
ہیرو پبلک اسکول میں مارماڈیوک پکتھال عظیم برطانوی سیاست دان اور وزیراعظم سر ونسٹن چرچل کے ہم جماعت تھے۔ پکتھال نے کئی زبانوں میں مہارت حاصل کی جن میں عربی نمایاں تھی۔ وہ اپنے آپ کو مشرق کا آدمی سمجھا کرتے تھے۔
مارماڈیوک پکتھال کا انتقال ۱۹۳۵ء میں کارن وال میں ہوا اور ان کی تدفین بروک وڈ (سرے، انگلینڈ) کے مسلم قبرستان میں کی گئی۔
(ترجمہ: محمد ابراہیم خان)
“The Victorian Muslims of Britain”. (“aljazeera.com”. June 15, 2016)
Leave a Reply