
ماضی میں لشکر کشی کرنے والی اقوام کو مسلم ریاستوں میں غداروں کی حمایت حاصل رہی۔ ۱۷۵۷ء میں بنگال میں مسلم فوج کے سربراہ میر جعفر نے اپنے سلطان سراج الدولہ کے خلاف غداری کی اور انگریزوں کا ساتھ دیا۔ عربوں پر حملوں کے دوران بھی انگریزوں کو شریف حسین، اس کے بیٹوں اور چند دوسرے غداروں سے بھرپور حمایت اور مدد حاصل رہی۔ فلسطین پر لشکر کشی کے دوران بھی برطانوی فوج میں بیشتر پیادے غیر انگریز تھے۔
میر جعفر اور شریف حسین تو اب اس دنیا میں نہیں مگر دوسرے بہت سے میر جعفر اور شریف حسین مسلم دنیا میں پیدا ہوچکے ہیں جو اپنے معمولی ذاتی مفاد کے لیے پوری قوم کا مفاد داؤ پر لگانے سے ذرا بھی گریز نہیں کرتے۔ مسلم سرزمین کے غداروں کو امریکا اور برطانیہ کی بھرپور حمایت حاصل ہے۔ یہ لوگ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر اپنے ہی بھائیوں کو موت کے گھاٹ اتار رہے ہیں۔ جس طور امریکا اور برطانیہ نے عراق اور افغانستان میں مسلمانوں کو بے دریغ قتل کیا، بالکل اُسی طرح یہ غدار بھی اپنے ہی بھائیوں کو اِس دنیا سے رخصت کر رہے ہیں۔ غداری کی لعنت ختم نہیں ہوئی بلکہ پہلے سے کہیں زیادہ ہمہ گیر اور جامع ہے۔ ان کے پاس ہتھیاروں کی کمی نہیں بلکہ سچ تو یہ ہے کہ امریکا نے ان کی قاتلانہ صلاحیت کو مزید پروان چڑھانے کے لیے جدید ترین ہتھیاروں کی فراہمی کا سلسلہ جاری رکھا ہے۔ مصر کی فوج کو امریکا نے مخالفین کے خلاف بھرپور کریک ڈاؤن کے لیے جدید ترین ٹیکنالوجی والے اپاچی ہیلی کاپٹرز دیے ہیں جبکہ عراق میں نوری المالکی کی حکومت کو ہیل فائر (نارِ جہنم) میزائل دیے گئے ہیں۔ جس طور مصر میں جنرل عبدالفتاح السیسی نے سُنیوں کو قتل و غارت سے دوچار کیا ہے، بالکل اُسی طور عراق میں نوری المالکی نے سُنیوں کو شہید کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔ عراقی شیعوں کے روحانی پیشوا آیت اللہ سیستانی کے قریبی حلقے نوری المالکی کو ’’شیعہ صدام‘‘ کہتے ہیں۔ مغربی دنیا جمہوری اقدار، رواداری اور بنیادی حقوق کا راگ الاپتی رہتی ہے مگر اُس نے مشرقِ وسطیٰ میں عوام پر ڈھائے جانے والے انسانیت سوز مظالم کے خلاف کبھی آواز بلند نہیں کی۔ مصر، سعودی عرب، خلیجی ریاستوں اور شام میں اکثریت کو انتہائی سفاکی سے نشانہ بنایا جارہا ہے مگر مغربی دنیا صرف تماشا دیکھ رہی ہے۔ اِسی طور فلسطینیوں پر اسرائیل کے مظالم سے بھی صرفِ نظر کیا جاتا رہا ہے اور اس سے بھی بڑھ کر دل خراش حقیقت یہ ہے کہ مسلم ممالک پر قابض آمروں کو بھرپور مدد فراہم کی جاتی ہے، ان کی کلنگ مشین کو جدید ترین ہتھیاروں سے مُزیّن رکھا جاتا ہے تاکہ اپنے کام میں اُنہیں کسی دُشواری کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
برطانیہ کے سابق وزیراعظم ٹونی بلیئر نے مصر میں جمہوری حکومت کے خاتمے اور منتخب صدر محمد مرسی کو معزول کرکے اقتدار پر قبضہ کرنے والے جنرل السیسی کی بھرپور حمایت کی۔ فوجی بغاوت عوام کی رائے پر براہِ راست حملے کے سوا کچھ نہیں۔ کسی بھی مہذب معاشرے میں فوجی بغاوت یعنی منتخب حکومت کی بساط لپیٹنا گھناؤنا جرم ہے جس کی سخت سزا مقرر ہے۔ مصر میں جو کچھ ہوا، وہ انتہائی شرمناک تھا۔ منتخب صدر کو معزول کرکے اقتدار پر قابض ہونے کے عمل کو درست وہی شخص قرار دے گا جو خود بھی غیر قانونی اور غیر مہذب طریقے سے سب کچھ ہتھیانے کی ذہنیت رکھتا ہو یعنی ایسا کرنے کو ہر اعتبار سے درست سمجھتا ہو۔ جمہوری روایات سے مغربی دنیا کی دشمنی کوئی ڈھکی چھپی نہیں۔ امریکا اور برطانیہ نے مصر میں جمہوری حکومت کا تختہ الٹنے کو انتہائی درست قرار دینے میں دیر نہیں لگائی اور اس معاملے میں وہ تنہا نہیں تھے۔ نیٹو کے تمام ارکان نے مصر کے عوام کی رائے کی توہین کرتے ہوئے منتخب حکومت کے خاتمے کو درست اقدام قرار دیا۔ یوں مسلم عوام کی رائے سے اُن کی مخاصمت اور نفرت کھل کر سامنے آگئی۔
مغرب کے استعمار پسندوں کے نزدیک جمہوریت، انتخابات اور آئین کا ایک الگ ہی مفہوم ہے۔ غیر معمولی اکثریت سے کامیابی اور عوام کی امنگوں کے مطابق حکومت کی تشکیل اُن کے لیے کوئی معنی نہیں رکھتی۔ مسلم دنیا میں وہی جمہوری حکومت کام کی ہے، جو اُن کے اسٹریٹجک اور معاشی مفادات کی پاسبان اور معاون ہو۔ قبولیت کا ایک اور معیار بھی ہے۔ مسلم دنیا کی وہی حکومت مغرب کے لیے پسندیدہ اور قابل قبول ہوگی جو اسلامی شدت پسندوں کے خلاف جنگ کے نام پر جاری بلا جواز قتل و غارت میں اُس کا بھرپور ساتھ دے۔ مغرب میں اُسی مسلم حکومت کی پذیرائی کی جاتی ہے جو اُس کی مرضی پر چلے۔ جو حکومت مغرب کی مرضی پر نہیں چلتی، اُسے جلد از جلد چلتا کرنے کی بھرپور کوشش کی جاتی ہے۔ یہی سبب ہے کہ ترکی میں نجم الدین اربکان کی اسلامی رفاہ پارٹی، الجزائر میں اسلامک سالویشن فرنٹ اور غزہ میں حماس کی حکومت کو مغرب نے قبول نہیں کیا۔ بیورو کریسی، فوج، عدلیہ اور میڈیا میں مغرب کے پرستاروں اور دوستوں نے اِن منتخب حکومتوں کو زیادہ سے زیادہ کمزور اور غیر متعلق بنانے کی بھرپور کوشش کی۔ مصر میں اخوان المسلمون کی بھرپور انتخابی کامیابی کے بعد بھی یہی ہوا۔ مغربی حکومتیں اسلامی دنیا میں جمہوریت نہیں بلکہ صرف آمریت چاہتی ہیں کیونکہ انہیں اندازہ ہے کہ جمہوریت میں ان کے مفادات کو تقویت نہیں مل سکتی۔ اپنی ہی قوم پر سنگین مظالم ڈھانے والے آمر مغربی حکومتوں کو زیادہ موزوں دکھائی دیتے ہیں کیونکہ وہ اُن کے اسٹریٹجک اور معاشی مفاد کو تحفظ فراہم کرنے میں نمایاں کردار ادا کرتے ہیں۔ مصر میں اقتدار پر قبضہ کرنے والے ٹولے کے سربراہ جنرل عبدالفتاح السیسی کو مغرب کی بھرپور حمایت اور مدد حاصل رہے۔ مصری فوج نے ایک ہی رات میں ڈھائی ہزار مخالفین کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ ایک جج نے صرف ایک دن میں اخوان سے تعلق رکھنے والے ۶۸۹ رہنماؤں اور کارکنوں کو سزائے موت سنادی۔ مگر یہ سب کچھ مغربی حکومتوں کو دکھائی نہیں دیتا۔
سب کچھ اُلٹ پلٹ دینے کی پالیسی
مغربی طاقتوں نے اسلامی دنیا پر سیکڑوں برس اپنا تسلط برقرار رکھا مگر اس دوران بہبودِ عامہ کے حوالے سے کچھ نہ کیا۔ وہ صرف غلامی چاہتے تھے اور یہی سبب ہے کہ ان کے دور میں انسانی کردار کی عظمت سمجھے جانے والے اوصاف کی تعلیم نہ ہونے کے برابر تھی۔ بنگال پر انگریزوں کا راج ۱۷۵۷ء میں شروع ہوا جو ۱۹۴۷ء میں ختم ہوا۔ اس دوران بنگال کے مسلم اکثریتی علاقوں میں پہلی یونیورسٹی ۱۹۲۲ء میں بنائی گئی۔ انگریزوں نے بنگالی مسلمانوں کو کبھی دین کی طرف نہیں آنے دیا۔ یہی سبب ہے کہ بنگال کے مسلمانوں کی اکثریت شریعت، خلافت اور جہاد کے تصور سے نابلد ہیں۔ انگریزوں کی بھرپور (اور کامیاب) کوشش رہی کہ بنگال کے مسلمان اسلام کی اصل تعلیمات سے نابلد رہیں تاکہ مسلم کی حیثیت سے ان کا فکر بلند ہو اور نہ کردار۔ برطانوی دور میں بنگال کے مسلمانوں کے لیے یہ سب سے بڑی Casualty تھی اور ایسا صرف بنگال میں نہیں ہوا بلکہ جہاں بھی انگریزوں اور دیگر مغربی طاقتوں نے حکومت کی، وہاں مسلمانوں کو اسلام کی اصل تعلیمات سے بے بہرہ رکھنے کی بھرپور کوشش کی گئی۔ اسلام کے راستے سے دور لے جانے کے لیے جو کچھ بھی درکار تھا اور جو کچھ بھی خرچ کرنا تھا، وہ کیا گیا۔ قادیانیت کے فتنے کو برطانوی دور ہی میں بھرپور فروغ پانے کا موقع ملا۔
استعماری قوتیں آج بھی اسلامی دنیا میں اپنے مقاصد کے حصول کے لیے اسلامی تعلیمات اور اسلام پسند افراد کو بھرپور قوت سے نشانہ بنا رہی ہیں۔ ٹونی بلیئر کو اس مقصد کے حصول کے لیے عرب دنیا میں ایک اور پارٹنر مل گیا ہے۔ یہ بشار الاسد ہے جو شام کے سُنّیوں کو نشانہ بنانے میں مغربی طاقتوں بالخصوص برطانیہ سے بھرپور مدد لے رہا ہے۔ صدام حسین نے اپنے ہی لوگوں کا قتل عام نہیں کیا اور شہروں کو تاراج کرنا بھی اُن کی روش نہ تھی مگر بشار الاسد نے شام کے طول و عرض میں سُنّیوں کو نشانہ بنانے اور شہروں، قصبوں اور دیہات کو صفحۂ ہستی سے مٹانے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔ بشار نے چونکہ شام میں قتل و غارت کا بازار گرم کر رکھا ہے، اس کی فوج اب تک ڈیڑھ لاکھ افراد کو موت کے گھاٹ اتار چکی ہے اور ملک کی ریڑھ کی ہڈی توڑی جاچکی ہے اس لیے مغربی طاقتوں کی نظر میں بشار اچھا حکمران ہے۔ اپنے لوگوں کو قتل کرکے اور اپنے ہی ملک کی ریڑھ کی ہڈی توڑ کر ایسی ’’نیکی‘‘ کی ہے کہ اُس کے باقی سارے گناہ دُھل گئے ہیں۔
۱۹۴۸ء میں ناجائز طریقے سے معرض وجود میں آنے کے بعد اسرائیل نے فلسطینیوں پر بے پناہ اور انسانیت سوز مظالم ڈھائے ہیں مگر اس کے باوجود مغربی دنیا اسے روکنے کے لیے تیار نہیں۔ اسرائیل وہی کچھ تو کر رہا ہے جو مغربی ممالک چاہتے تھے۔ مقبوضہ فلسطین میں پورے دیہات صفحۂ ہستی سے مٹا دیئے گئے مگر مغربی طاقتیں خاموش رہی ہیں۔ جہاں اُن کے مفاد کی بات آجائے وہاں معصوم انسانوں کی جان بچانا کچھ اہمیت نہیں رکھتا۔ بشار الاسد مغرب کے لیے انتہائی قابل قبول ہے کیونکہ وہ مغرب کے لیے خطرہ ہے نہ اسرائیل کے لیے۔ یہ ہے مغرب کی منافقت۔
مغربی طاقتوں نے بنگلہ دیش، برما اور افغانستان میں بھی یہی کھیل کھیلا ہے۔ افغانستان میں اُنہیں انسانیت سوز مظالم ڈھانے والے جنگجو سرداروں کے ساتھ کام کرنے میں کوئی قباحت محسوس نہیں ہوئی۔ ازبک جنگجو سردار جنرل رشید دوستم کے سفاک ہتھکنڈوں اور انسانیت سوز مظالم کے بارے میں کون نہیں جانتا، مگر پھر بھی اُن کے سارے کرتوت بھلاکر شمالی اتحاد میں انہیں حکومتی منصب دیا گیا۔ یہ گویا اس امر کا اعلان تھا کہ مغرب کے لیے ہر وہ شخص قابل قبول ہے جو اُس کے مفادات کی پاس داری کرسکتا ہو اور کرتا ہو۔ مغربی میڈیا نے بھی رشید دوستم کے مظالم کھل کر بیان کئے ہیں۔ دوستم کے ساتھیوں نے ہزاروں طالبان قیدیوں کو انتہائی سفاکی اور بے دردی سے قتل کیا۔ یخ بستہ کر دینے والی سردی میں انہیں کنٹینرز میں بوریوں میں بھر کر ویرانوں میں چھوڑ دیا گیا۔ افغانستان پر قابض امریکیوں نے اس سنگین جرم کی تحقیقات کرنا مناسب اور ضروری نہیں سمجھا۔ اور اس سے بھی ایک قدم آگے جاکر، جنرل دوستم اور اس کے رفقا کو اسلام اور اسلامیان کے خلاف جنگ میں اسٹریٹجک پارٹنر کی حیثیت سے قبول کرلیا گیا۔ مفادات کے حصول کی خاطر اور انہیں تحفظ فراہم کرنے کے لیے استعماری قوتیں کسی بھی حد تک جاسکتی ہیں۔ تسلیم شدہ شیطانوں کو بھی اپنانے میں کوئی قباحت محسوس نہیں کی جاتی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں بھی ایسا ہوا تھا۔ عرب کے یہودیوں نے استعماری قوتوں کا ساتھ دیا تاکہ نو زائیدہ اسلامی ریاست کامیاب نہ ہوسکے۔
سازش اور دباؤ
ٹونی بلیئر اور دیگر مغربی استعمار پسندوں کو اپنے مقاصد کے حصول کے لیے اسلام اور اسلامیان کے خلاف ایک وسیع اور بھرپور جنگ درکار ہے۔ جنگ ہی سے ان کے مفادات کو تحفظ مل سکتا ہے۔ اس حوالے سے عزائم کو بھی ڈھکا چھپا رکھنے کی ضرورت محسوس نہیں کی جاتی۔ ٹونی بلیئر کہہ چکے ہیں کہ ایک ایسی جدوجہد درکار ہے جس میں ہمارے اپنے اسٹریٹجک مفادات بھی اولیت رکھتے ہوں۔ اس کے لیے لازم ہے کہ لوگوں کو گمراہ کیا جائے، ورغلایا جائے۔ جس طور افغانستان اور عراق کے معاملے میں جھوٹ بولا گیا تھا بالکل اسی طور اب اسلام اور اسلام پسندوں کے بارے میں بھی جھوٹ ہی کا سہارا لیا جارہا ہے۔ ٹونی بلیئر اسلام کی تشریح کا مشن لے کر میدان میں آئے ہیں۔ وہ اسلامی اسکالرز کے سے انداز سے لوگوں کو بتا رہے ہیں کہ دراصل ’’دو اسلام‘‘ پائے جاتے ہیں۔ جہادیوں کے اسلام سے اصل اسلام بہت مختلف ہے۔ وہ دنیا کو باور کرانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ اصل اسلام وہ ہے جس پر سعودی فرماں روا، عرب امارات کے شیوخ، مصر کے جنرل عبدالفتاح السیسی، بنگلہ دیش کی شیخ حسینہ واجد اور شام کے بشار الاسد عمل پیرا ہیں۔ ٹونی بلیئر جس اسلام کو اصل اسلام قرار دے رہے ہیں اس میں شریعت، خلافت، جہاد اور اتحاد بین المسلمین کی کوئی گنجائش نہیں۔ اس اسلام کے پیروکاروں کو فلسطین پر اسرائیلی قبضے، افغانستان پر امریکی قبضے، چیچنیا پر روسی قبضے اور جموں و کشمیر پر بھارتی قبضے سے کوئی شکوہ نہیں، کوئی سر و کار نہیں۔ ٹونی بلیئر کا خیال یہ ہے کہ جو اسلام بیرونی حملہ آوروں کے خلاف جہاد، شریعت کے نفاذ اور خلافت کے قیام کی تعلیم دیتا ہے وہ سِرے سے اسلام ہی نہیں ہے۔ جو لوگ اسلام کو دین کی حیثیت سے زندگی کے ہر معاملے پر منطبق کرنے کی بات اور کوشش کرتے ہیں وہ ٹونی بلیئر کے نزدیک گردن زدنی ہیں۔ ان کے نزدیک کوئی بھی شخص صرف اُس وقت مہذب قرار دیا جاسکتا ہے جب وہ تہذیب، شائستگی اور بنیادی حقوق کے مغربی معیارات کو تسلیم کرتا ہو۔ قرآن کی تعلیمات پر عمل کرنے والے چونکہ اِس معیار پر پورے نہیں اُترتے اِس لیے وہ غیر مہذب قرار پاتے ہیں۔
ٹونی بلیئر کے پاس دہشت گردی کی بھی اپنی تعریف و توضیح ہے۔ ان کے نزدیک ہر وہ شخص دہشت گرد ہے جو مغرب کے معیارات کو نظر انداز یا مسترد کرکے اسلام کی بنیادی تعلیمات کو زندگی کی اساس کے طور پر متعارف کرانا چاہتا ہے۔ یہ صرف ٹونی بلیئر ہی کا نہیں بلکہ تمام استعمار پسندوں کا معاملہ ہے۔ انہیں یہ بات کوئی سمجھا نہیں سکتا کہ اسلامی تعلیمات پر عمل کوئی انفرادی معاملہ نہیں۔ اجتماعیت کی صورت ہی میں اسلام کو نافذ اور قبول کیا جاسکتا ہے۔ اسلام صرف یہ نہیں ہے کہ کوئی مُصلّے پر صلوٰۃ ادا کرلے۔ اسلام کی تعلیمات پر عمل کرنا اور کرانا ریاست کا فرض ہے۔ اسلام اور دیگر مذاہب یا ادیان میں بنیادی فرق یہی ہے۔ اسلام واضح طور پر اس امر کی تلقین کرتا ہے کہ ریاست دینی تعلیمات کی قوتِ نافذہ کی حیثیت سے سامنے آئے۔ شریعت، جہاد، بنیادی تعلیمات اور ثقافت سے متعلق دینی احکام پر عمل کے لیے ریاست کا میدان میں آنا اور متحرک ہونا ناگزیر ہے۔ ایسا نہ ہونے کی صورت میں اسلام کو زندگی بسر کرنے کے ایک بہتر طریقے کی حیثیت سے اپنانا انتہائی دشوار ہوتا ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری زندگی اِس امر کی گواہی دیتی ہے کہ اسلام کو اجتماعی شکل ہی میں نافذ کیا جاسکتا ہے۔ آپؐ نے ہمیشہ دینی احکام کو اجتماعی حیثیت میں نافذ کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ جو شخص آپؐ کا پیرو ہونے کا دعویٰ کرتا ہو اُس کے لیے ناگزیر ہے کہ اسلام کے تمام بنیادی احکام پر خود بھی عمل کرے اور دوسروں کو بھی عمل کرنے کی تحریک دے، یعنی اجتماعیت کی بات کرے۔
اسلام میں اقتدار کا مفہوم یہ نہیں ہے کہ کوئی کسی منصب پر بیٹھے اور اپنی زندگی کا معیار بلند کرے۔ اسلامی تعلیمات کی رُو سے اقتدار کی غایت یہ ہے کہ اللہ کے دین کو زندگی کے ہر معاملے میں نافذ کیا جائے۔ اب حالت یہ ہے کہ جو بھی اسلام کی بنیادی تعلیمات پر عمل کو زندگی کا مقصد بناتا ہے اُسے ٹونی بلیئر اور اُن کے ساتھی دہشت گرد قرار دے کر اِس دنیا سے اُس کا نام و نشان مٹانے پر تُل جاتے ہیں۔ مگر یہ کوئی نئی بات نہیں۔ نمرود کے دربار میں ابراہیم علیہ السلام اور فرعون کے دربار میں موسٰی علیہ السلام کو بھی اِسی نوع کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ معاملہ اسلام کو سمجھنے کا نہیں بلکہ اسلام کو جہالت کی عینک سے دیکھنے کا ہے۔ یہ تو طے ہے کہ اسلام مخالف قوتیں بھرپور قوت کے ساتھ جنگ چھیڑ کر رہیں گی اور دوسری طرف اسلام پسندوں کے پاس، اپنے اجداد کی طرح، اِس کے سِوا کوئی آپشن نہیں کہ اِس جنگ میں بھرپور دادِ شجاعت دیں۔ اسلام کی حقیقی تعلیمات کا اقتضا یہی ہے۔
“The War against the Islamists”. (“drfirozmahboobkamal.com”. May 3, 2014)
Leave a Reply