
برطانیہ کے سابق وزیراعظم ٹونی بلیئر نے یورپ کے قائدین پر زور دیا ہے کہ وہ اسلام پسندوں کے حوالے سے اپنا موقف مزید غیر لچکدار کرلیں۔ ۲۳؍اپریل ۲۰۱۴ء کو لندن کے بلوم برگ آفس میں خطاب کرتے ہوئے ٹونی بلیئر نے کہا تھا کہ ’’عالمی نظام اور عالمی امن کو اصل خطرہ اسلام پسندوں سے ہے۔ اس بحران کی جڑ میں وہ انقلابی سوچ ہے جو اسلام کی اصل روح کے بھی منافی ہے۔ اسلام پسندوں سے جو خطرہ پوری دنیا کو لاحق رہا ہے اور لاحق ہے، وہ کسی بھی مرحلے پر کم نہیں ہوا بلکہ مسلسل بڑھتا رہا ہے‘‘۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’عالمگیریت کے زمانے میں انقلاب پسند اسلامی عناصر پرامن بقائے باہمی کی راہ میں دیوار بن کر کھڑے ہیں‘‘۔ ان کے خیال میں ’’اسلام پسندوں کے بڑھتے ہوئے اثرات مختلف معاشروں ہی کے لیے نہیں بلکہ ریاستوں کے لیے خطرہ بن گئے ہیں۔ دنیا بھر میں انقلاب پسند مسلمانوں کو تیزی سے مقبولیت حاصل ہو رہی ہے‘‘۔ ٹونی بلیئر کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’’انقلابی اسلام کی بات کرنے والوں کے سامنے کچھ کہنے سے لوگ کتراتے ہیں اور ان سے نمٹنے کے لیے مؤثر حکمتِ عملی اپنانے میں بھی خاصی جھجھک کا مظاہرہ کیا جارہا ہے‘‘۔
اسلام پسندوں کے خلاف بولتے ہوئے ٹونی بلیئر اس حد تک چلے گئے کہ ’’انہوں نے اسلام پسندوں کو اکیسویں صدی میں عالمی امن کے لیے سب سے بڑا خطرہ قرار دے دیا‘‘۔ ان کا یہ بھی دعویٰ تھا کہ یہ انقلابی اسلام ہی ہے جس نے افریقا اور مشرق بعید میں ترقی اور استحکام کا راستہ روک رکھا ہے۔ انہوں نے یورپ کے قائدین کو مشورہ دیا کہ اب مزید سوچنے کی ضرورت نہیں، بس آنکھ بند کرکے انقلابی اسلام کے سامنے کھڑے ہو جائیے اور اس خطرے کو ختم کرنے کی کوئی سبیل نکالیے۔ برطانیہ کے سابق وزیراعظم نے یہ مشورہ بھی دیا کہ یورپ کو روس اور چین کے ساتھ مل کر جی ٹوئنٹی کے پلیٹ فارم سے انقلابی اسلام کے خلاف آواز بلند کرنی چاہیے جو یورپ کی طرف سے مداخلت کے ہر اقدام کی ناکامی کا بنیادی سبب ہے۔
ٹونی بلیئر کا اصل رنگ اس وقت سامنے آیا جب انہوں نے اپنے دوست اور سابق امریکی صدر جارج واکر بش کے ساتھ مل کر افغانستان اور عراق کے خلاف جنگ چھیڑی۔ دہشت گردی ختم کرنے کے نام پر چھیڑی جانے والی اس جنگ کا بنیادی مقصد دونوں ممالک کو انتہائی کمزور کرنا اور ان کی مسلم آبادی کو نابود کرنا تھا۔ لاکھوں افراد موت کے گھاٹ اتارے گئے۔ جن سے لڑائی مقصود تھی، ان کے ساتھ ساتھ عام شہری بھی لاکھوں کی تعداد میں ہلاک ہوئے۔ برطانیہ میں نصف سے زائد افراد ٹونی بلیئر کو جنگی مجرم سمجھتے ہیں۔ انہیں وزیراعظم کے منصب سے خاصی تذلیل کے بعد مستعفی ہونا پڑا تھا۔ اب وہ جنگ سے حوالے سے اپنی ’’مہارت‘‘ کے نئے پہلو بے نقاب کر رہے ہیں۔ انہوں نے اپنی حالیہ تقریروں میں اعتراف کیا ہے کہ ان کا مشن نئی عالمگیر جنگ کی بنیاد ڈالنا ہے۔ مشرقِ وسطیٰ میں امن کی راہ میں حائل صہیونیوں سے کہیں زیادہ تو ٹونی بلیئر جنگ و جدل کے حامی دکھائی دیتے ہیں۔ اسرائیلی اخبار ’’ہاریز‘‘ کے کالم نگار اینشل فیفر نے لکھا ہے کہ لندن کے بلوم برگ آفس میں ٹونی بلیئر نے جو تقریر کی ہے وہ تو ایسا لگتا ہے کہ اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو کی تقریر ہے۔ دونوں کے نقطۂ نظر میں کوئی بنیادی فرق دکھائی نہیں دیتا۔ اینشل فیفر نے مزید لکھا ہے کہ ٹونی بلیئر نے اپنی تقریر میں یہ رونا رویا ہے کہ اسلام پسند عناصر کمزور ہونے کے بجائے مزید طاقتور ہوتے چلے گئے ہیں اور یہ کہ اکیسویں صدی میں عالمی امن اور استحکام کے لیے سب سے بڑا خطرہ کوئی اور نہیں، اسلامی شدت پسند ہیں۔
برطانیہ کے سابق وزیراعظم کی حیثیت سے یہ ٹونی بلیئر کا انتہائی قنوطیت زدہ تجزیہ ہے۔ دو عالمگیر جنگوں میں برطانیہ نے بہت کچھ پایا تھا مگر اب ٹونی بلیئر اور ان کے ساتھی افغانستان اور عراق میں بے گناہوں کی ہلاکت کے ماتم کے سوا کچھ نہیں کرسکتے۔ ٹونی بلیئر مزید عالمگیر تباہی کے منصوبے کے ساتھ دوبارہ میدان میں آئے ہیں۔ انہوں نے عالمی طاقتوں پر زور دیا ہے کہ وہ باہمی اختلافات بھلا کر اب اسلامی شدت پسندوں کے خلاف متحد ہوجائیں۔ انہوں نے یہ مشورہ بھی دیا ہے کہ اسلامی شدت پسندوں کے خلاف عالمی جنگ میں روس اور چین کو بھی شریک کیا جائے تو بہتر ہے۔ یہ مشورہ ۱۹۹۵ء میں آں جہانی سیموئل ہنگٹنٹن نے بھی اپنی کتاب ’’دی کلیش آف سویلائزیشنز‘‘ کے ذریعے دیا تھا۔
یہ سارا جھگڑا معاشی مفادات کا ہے۔ ٹونی بلیئر نے اسلامی شدت پسندوں کے خلاف جنگ کی للکار دی ہے، جس کی پشت پر چار اسباب گنوائے ہیں۔ سب سے زیادہ زور انہوں نے اس بات پر دیا ہے کہ مغرب کو توانائی کی ترسیل جاری رہنی چاہیے۔ انہوں نے اس امر پر افسوس کا اظہار کیا ہے کہ مغرب کو توانائی کے معاملے میں اب تک مشرقِ وسطیٰ پر انحصار کرنا پڑ رہا ہے اور یہ کہ یہ انحصار مستقبل قریب میں ختم ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔ ٹونی بلیئر کو اس بات کا بھی شدید دکھ ہے کہ مسلم دنیا یورپ سے تقریباً جُڑی ہوئی ہے۔ وہ اسلامی دُنیا اور یورپ میں جغرافیائی فاصلے کے گھٹنے کو خطرناک سمجھتے ہیں۔ تیسرے یہ کہ اسلامی شدت پسندوں کے عروج سے اسرائیل کے وجود کو خطرہ ہے۔ اسرائیل چونکہ اسلامی دنیا کے سینے میں مصنوعی طریقے سے نصب کیا گیا ہے، اس لیے جب بھی خطے میں معاملات بگڑتے ہیں، اسرائیل کے وجود کو شدید خطرات لاحق ہوجاتے ہیں۔ بلیئر کو اسرائیل کی زیادہ فکر لاحق ہے۔
اسلامی دنیا سے برطانیہ کے سابق وزیراعظم کی دشمنی لاعلاج مرض کی سی ہے۔ بغض کا عالم یہ ہے کہ وہ اسلامی شدت پسندوں کے دیگر حقوق تو کیا تسلیم کریں گے، انہیں زندہ رہنے کا حق بھی نہیں دینا چاہتے اور یہ سب کچھ مغرب اور اسرائیل کی بقا کے لیے ہے۔ ٹونی بلیئر کا کہنا ہے کہ اسلام کے مستقبل کا فیصلہ مشرقِ وسطیٰ میں ہوگا۔ اس لیے بہتر یہی ہے کہ اسلامی پسندوں کے خلاف کارروائی کے نام پر اسلامی دنیا کے خلاف جنگ چھیڑ دی جائے تاکہ اسلامی ممالک کو زیادہ سے زیادہ کمزور کیا جاسکے۔
ٹونی بلیئر کی فرسٹریشن سمجھ میں آتی ہے۔ انہوں نے سابق امریکی صدر جارج واکر بش کے ساتھ مل کر اسلامی دنیا کے خلاف طویل ترین صلیبی جنگ چھیڑی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ٹونی بلیئر نے وزیراعظم کی حیثیت سے جتنا طویل زمانۂ جنگ گزارا ہے، اُتنا طویل زمانہ کسی اور برطانوی وزیراعظم نے نہیں گزارا۔ سر ونسٹن چرچل نے بھی وزیراعظم کی حیثیت سے ٹونی بلیئر کے مقابلے میں نصف مدت گزاری تھی۔ ٹونی بلیئر اور جارج واکر بش نے پہلے افغانستان کو تاراج کیا اور اس کے بعد عراق کو تباہی سے دوچار کیا۔ اِس کے بعد انہوں نے صلیبی جنگ کا دائرہ پاکستان، یمن، صومالیہ، مالی اور دیگر اسلامی ممالک تک پھیلا دیا۔
۷؍اکتوبر ۲۰۰۱ء کو افغانستان میں چھیڑی جانے والی جنگ میں برطانیہ نے کھل کر امریکا کا ساتھ دیا۔ افغانستان کے طول و عرض میں زبردست تباہی کی راہ ہموار کی گئی۔ جو چند شہر جدید سہولتوں سے ہمکنار تھے، اُنہیں ٹھکانے لگا دیا گیا۔ اس کے بعد عراق کو بھی تباہی سے دوچار کردیا گیا۔ محتاط ترین اندازوں کے مطابق عراق میں پانچ لاکھ سے زائد غیر متحارب افراد یعنی عام شہری مارے گئے۔ امریکا کے چار ہزار سے زائد فوجی بھی عراق میں مارے گئے۔ امریکا کو یہ جنگ دو ہزار ارب ڈالر سے زائد کی پڑی۔ امریکا اور برطانیہ نے عراق میں سُنیوں کو دبایا اور حکومت ایران نواز شیعہ رہنماؤں کے حوالے کردی۔ مظالم سہتے سہتے عراق کے سُنیوں نے بھی شدید مزاحمت شروع کردی۔ عراق کے سُنی عسکریت پسند اب مضبوط ہوکر شام تک پھیل گئے ہیں، جہاں انہوں نے بشارالاسد انتظامیہ کے خلاف جنگ چھیڑ رکھی ہے۔
بلا جوا ز جارحیت
افغانستان اور عراق پر مسلط کی جانے والی جنگ مکمل طور پر بِلاجواز تھی۔ کسی بھی افغان مرد یا عورت نے امریکا یا برطانیہ کی سرزمین پر حملہ نہیں کیا تھا۔ امریکا نے افغانستان کی سرزمین پر رہنے والے کسی بھی شخص کے نیویارک کے ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر حملے میں ملوث ہونے کا کوئی ثبوت اب تک پیش نہیں کیا۔ استعماری قوتوں کا یہی وتیرہ ہوا کرتا ہے۔ دہشت گردی کی جو بھی تشریح کی جاتی ہے، اس کے تحت امریکا یا برطانیہ پر حملہ وہی کرسکتا ہے جو اس سے زیادہ طاقتور ہو۔ گلیوں میں اور سڑکوں پر وہی لوگ کسی کو نشانہ بناتے ہیں، جو زیادہ طاقتور ہوں۔ یہی حال اقوام کا ہے۔ مضبوط اقوام ہی کسی بھی کمزور ملک پر حملہ کرتی ہیں۔ افغانستان اور عراق کسی بھی اعتبار سے اس قابل نہیں کہ امریکا یا یورپ کے کسی ملک پر حملہ کرسکیں۔ ان استعماری قوتوں نے انتہائی بے شرمی سے دو مسلم ممالک کو نشانہ بنایا، تباہ کردیا اور اس کا کوئی ٹھوس جواب بھی اب تک پیش نہیں کرسکے۔
سابق امریکی صدر اور سابق برطانوی وزیراعظم نے افغانستان اور عراق میں جو کچھ کیا، اسے خود ان کے ہم وطنوں نے استحسان کی نظر سے نہیں دیکھا۔ ۱۵؍فروری ۲۰۰۳ء کو لندن کی سڑکوں پر ۲۰ لاکھ سے زائد افراد نے افغانستان میں جاری جنگ اور عراق پر جنگ مسلط کرنے کی تیاریوں کے خلاف مظاہرہ کیا۔ انہوں نے دہشت گردی کے خاتمے کے نام پر افغانستان میں شروع کی جانے والی جنگ کو بلاجواز قرار دیا۔ ان کا مطالبہ تھا کہ افغانستان سے برطانوی فوجی واپس بلائے جائیں۔ اس جنگ کے خلاف پورے یورپ اور دیگر خطوں میں بھی بڑے پیمانے پر مظاہرے ہوئے۔ انسانی حقوق کے علم بردار بڑی تعداد میں سڑکوں پر آئے اور اپنی اپنی حکومت کی غلط پالیسیوں کے خلاف احتجاج ریکارڈ کرایا۔ دنیا بھر کے ۶۰۰ سے زائد شہروں میں اس بلاجواز جنگ کے خلاف لوگ سڑکوں پر آئے۔ مگر استعماری قوتوں کے لیے اس احتجاج کی کوئی وقعت نہ تھی۔
امریکا اور برطانیہ کی قیادت میں بڑی طاقتوں نے اپنے عوام کے احتجاج کو ذرا بھی اہمیت نہیں دی۔ سوال تیل اور گیس کا تھا۔ طاقتور ممالک تیل اور دیگر معدنی وسائل پر کنٹرول چاہتے تھے۔ افغانستان اور عراق کے خلاف جنگ چھیڑ کر انہوں نے اپنے مقاصد کی بہت عمدگی سے تکمیل کی۔ دکھ کی بات یہ ہے کہ ایسے شخص کو مشرقِ وسطیٰ میں امن کا ثالث مقرر کردیا گیا۔
حملے کا کلچر
استعماری قوتیں غریب ممالک کے وسائل پر ڈاکا ڈالتی رہی ہیں۔ اس مقصد کے حصول کے لیے انہیں جنگ کے کلچر کو فروغ دینا پڑا ہے۔ کسی بھی ملک پر کنٹرول کے لیے سیاسی مہم جوئی لازم ہے۔ استعماری قوتیں کسی بھی کمزور ملک پر حملہ کرکے اسے اپنا مطیع و فرماں بردار بنائے رکھنے کے لیے وہاں اپنی مرضی کی حکومت تشکیل دیتی ہیں۔ مغرب کی تاریخ حملوں اور قبضوں کے تذکروں سے بھری پڑی ہے۔ کمزور ممالک اور خطوں پر حملوں اور ان پر کنٹرول کے لیے جنگی جنون کو پروان چڑھانا لازم تھا۔ اس کے لیے ہتھیار ایجاد کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ روایتی ہتھیاروں سے بات زیادہ نہ بنی تو ایٹمی ہتھیار بنائے گئے۔ اب معاملہ ڈرونز تک جا پہنچا ہے۔ یعنی جن کے سامنے آکر لڑنا ممکن نہ ہو، انہیں فضا سے نشانہ بنانے کا سلسلہ شروع ہوا۔
مغرب نے دو عالمگیر جنگیں لڑیں جن میں ساڑھے سات کروڑ افراد موت کے گھاٹ اتار دیے گئے۔ بہت سے ممالک میں شہر کے شہر تباہ ہوگئے۔ بنیادی ڈھانچا تہس نہس ہوکر رہ گیا۔ مگر اس تباہی کے باوجود زیادہ سے زیادہ کی ہوس ختم نہ ہوئی۔
ونسٹن چرچل، ایڈولف ہٹلر، مسولینی یا ہیری ایس ٹرومین ہی جنگی جنون میں مبتلا نہ تھے۔ فی زمانہ جارج ہربرٹ بش، جارج واکر بش، ٹونی بلیئر اور براک اوباما بھی اِسی جنون کے اسیر ہیں۔ منگول اور تاتار جنگجو تھے مگر ان کے قصے تو ہزاروں سال پرانے ہیں۔ مگر مغرب نے اپنا جنگی جنون ترک نہیں کیا۔ دہشت گردوں کو دہشت گردی کا بازار گرم کیے بغیر سُکون کہاں ملتا ہے؟ استعماری قوتیں کمزور ممالک کو نشانہ بناتی رہتی ہیں۔ کمزور اقوام اور خطوں کو نشانہ بنائے بغیر اِنہیں سکون نہیں ملتا۔ ایک کے بعد دوسری اور دوسری کے بعد تیسری جنگ شروع کی جاتی ہے۔ یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے۔ جن قوتوں کا مدار ہی دوسروں کے مال پر قبضے پر ہو، وہ لشکر کشی کے بغیر کس طور زندہ رہ سکتی ہیں؟ افغانستان پر جنگ مسلط کرنے کے بعد عراق پر جنگ تھوپی گئی۔ اب افغانستان سے مغربی افواج کے انخلا کی باتیں ہو رہی ہیں، تو ضرورت آن پڑی ہے کہ ایک اور جنگ کا سامان کیا جائے تاکہ جنگی جنون برقرار رہے۔ بلیئر جو کچھ کہہ رہے ہیں، وہ مغرب کی ترجمانی کے سوا کچھ نہیں۔ اب انتہا پسند اور انقلابی مسلمانوں کے خلاف کارروائی کے نام پر وسیع البنیاد جنگ کی باتیں ہو رہی ہیں۔ مسلم دنیا کو کمزور رکھنے کے لیے جنگ و جدل کا اہتمام کیا جارہا ہے۔ اور یہ جنگ خیر سے شروع بھی ہوچکی ہے۔ امریکا نے ڈرونز کے ذریعے پاکستان، یمن، صومالیہ اور مالی پر پہلے ہی ہزاروں بم برسا دیے ہیں۔ بڑے پیمانے پر تباہی ہوچکی ہے۔ ہزاروں ہلاکتیں بھی واقع ہوئی ہیں۔ مقصود صرف یہ تھا کہ غیر یقینی صورت حال پیدا کی جائے اور ایسا کرنے میں مغرب ایک بار پھر کامیاب ہوچکا ہے۔ کوشش یہ ہے کہ مسائل حل ہونے کے بجائے، مزید الجھ جائیں، پیچیدہ تر ہوجائیں۔
شدت پسند مسلمانوں کے خلاف کارروائی کے نام پر اب مختلف گروپوں سے تعلق رکھنے والوں کو پریشان کیا جارہا ہے۔ اخوان المسلمون کو کئی ممالک میں غیر معمولی مقبولیت حاصل ہے مگر اب اُسے دہشت گرد تنظیم قرار دینے سے کم پر بات نہیں ہو رہی۔ مصر اور سعودی عرب کی آمرانہ حکومتوں کو اخوان سے شدید خطرہ محسوس ہوتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ مصر، سعودی عرب، شام، متحدہ عرب امارات اور دیگر اسلامی ممالک میں شدت پسند اور انقلابی مسلمانوں کے خلاف کریک ڈاؤن جاری ہے۔ برطانیہ میں وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون نے ایک خصوصی انکوائری کا حکم دیا ہے جس کا مقصد صرف یہ ہے کہ اخوان المسلمون کا کسی نہ کسی انتہا پسند یا دہشت گرد گروپ سے تعلق ثابت کیا جائے۔ ایسی صورت میں اخوان پر پابندی عائد کرنا ممکن ہی نہیں، آسان بھی ہوجائے گا۔
(۔۔۔جاری ہے!)
“The War against the Islamists”. (“drfirozmahboobkamal.com”. May 3, 2014)
Leave a Reply