
سی آئی اے کے سابق عہدیدار بروس ریڈل کی کتاب ’’واٹ وی ون : امریکاز سیکریٹ وار اِن افغانستان ۱۹۷۹ء تا ۱۹۸۹ء‘‘ نام کے اعتبار سے طویل مگر درحقیقت مختصر ہے۔ بروس ریڈل نے ۱۵۶ صفحات میں ایک ایسی جنگ کا حال بیان کیا ہے، جو دوسروں نے لڑی اور امریکا صرف مدد کے لیے ساتھ رہا۔ افغانستان سے سابق سوویت یونین کی فوج کو نکال باہر کرنے میں سی آئی اے کے کسی بھی افسر کو جان سے ہاتھ نہیں دھونے پڑے کیونکہ سی آئی اے کا کوئی بھی افسر افغانستان کی حدود میں رہ کر کام نہیں کرتا تھا۔ بروس ریڈل نے یہ بات وضاحت سے بیان کی ہے کہ امریکا نے انتہائی خوب صورتی سے سوویت یونین کے خلاف اپنی بقا کی جنگ افغانستان کی سرزمین پر لڑی اور کسی بھی مرحلے پر اپنے جانی نقصان کی راہ ہموار نہیں ہونے دی۔ اس جنگ میں جانی اور مالی نقصان دوسروں کا ہوا مگر بیشتر فائدہ امریکا نے بٹور لیا۔
حال ہی میں بروکنگز انسٹی ٹیوشن میں سابق امریکی سفارت کار اور ادارے کے سربراہ بروس ریڈل نے ایک مذاکرے میں حصہ لیا جس میں بروس ریڈل نے کہا کہ سوویت یونین کے خلاف افغانستان میں جنگ میں سی آئی اے نے کوارٹر ماسٹر کا کردار ادا کیا تھا۔ امریکا نے اس جنگ سے جو کچھ بھی حاصل کیا اس میں بیرونی کرداروں نے مرکزی کردار ادا کیا۔ جنگ کے فریقین میں سابق سوویت یونین، امریکا، پاکستان، افغانستان اور اس کی سرزمین پر لڑنے والے مجاہدین شامل تھے۔
بروس ریڈل نے اس نکتے پر زور دیا کہ سی آئی اے نے سابق سوویت یونین کے قبضے کے دوران افغان سرزمین پر کبھی قدم نہیں رکھا اور نہ ہی کسی کو تربیت دی۔ سی آئی اے کو اس جنگ میں کسی بھی قسم کا جانی نقصان نہیں اٹھانا پڑا۔ اس کا سبب یہ تھا کہ سی آئی اے نے کوئی خطرہ مول لیا ہی نہیں تھا۔ یہ پوری کی پوری جنگ پاکستان اور افغانستان کے لوگوں نے لڑی۔ خطرات بھی اُنہوں نے مول لیے اور جانی نقصان بھی اُنہی کو اُٹھانا پڑا۔ پاکستان کی انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) نے مجاہدین کی تربیت اور حربی تدابیر کا اہتمام کیا۔ بروس ریڈل کے خیال میں بہت سے لوگوں کا یہ خیال ہے کہ یہ چارلی ولسن کی جنگ تھی۔ ایسا نہیں ہے۔ یہ جنگ پاکستان کے چھٹے صدر محمد ضیاء الحق نے لڑی تھی۔ بروس ریڈل کے مطابق محمد ضیاء الحق راسخ العقیدہ مسلمان تھے۔ انہوں نے اس خیال سے مجاہدین کی بھرپور تربیت اور مدد کا اہتمام کیا کہ لادینی ریاست کے خلاف لڑنا ہر مسلمان کا بنیادی فرض ہے۔ سابق سوویت یونین کے خلاف جنگ میں سعودی عرب نے بھی بھرپور کردار ادا کیا۔ جس قدر ڈالر امریکا نے دیے اُسی قدر سعودی حکومت نے بھی ادا کیے۔ سعودی عرب میں افغان مجاہدین کے لیے نجی سطح پر بھی عطیات کا اہتمام کیا جاتا تھا۔ کبھی کبھی تو یہ عطیات دو کروڑ ڈالر ماہانہ کے سطح پر بھی پہنچ جاتے تھے۔
سابق سوویت یونین کے خلاف افغانستان کی سرزمین پر لڑی جانے والی جنگ میں سی آئی اے کے کردار کی وضاحت کرتے ہوئے بروس ریڈل نے اس نکتے پر بھی زور دیا کہ القاعدہ کسی بھی اعتبار سے امریکا یا سی آئی اے کی تخلیق نہیں۔ بروس ریڈل نے بروکنگز انسٹی ٹیوشن کے مباحثے میں یہ بات بالتصریح بیان کی کہ القاعدہ دراصل عالمگیر جہاد کے تصور کی پیداوار تھی۔ انہوں نے بتایا کہ فلسطین کے معروف اسکالر عبداللہ عزام نے اسلامی دنیا کی سرزمین کی حفاظت کا تصور پیش کیا۔ اس تصور کو پروان چڑھانے کے نتیجے میں القاعدہ جیسی تنظیموں نے جنم لیا۔ بروس ریڈل کے خیال میں عالمگیر جہاد کے لیے عبداللہ عزام کا جاری کردہ فتوٰی ویسا ہی ہے جیسا امریکی انقلاب کے لیے تھامس پائن کا مقالہ ’’کامن سینس‘‘ ہے۔ عبداللہ عزام نے جہاد کا فتویٰ ۱۹۷۹ء میں جاری کیا تھا جس میں فلسطین اور افغانستان کی سرزمین سے غیر مسلم قوتوں کو نکال باہر کرنے پر زور دیا گیا تھا۔
بروس ریڈل نے اسامہ بن لادن کا ذکر کرتے ہوئے بتایا ہے کہ انہوں نے افغانستان میں سوویت افواج کے خلاف لڑنے کے لیے مجاہدین کی بھرپور مدد کی۔ تربیت اور سپلائی کا اپنا نظام قائم کیا۔ جدید ترین سہولتوں سے آراستہ اسپتال کے ساتھ اسلحے اور گولہ بارود کے وافر ذخائر کا بھی اہتمام کیا۔
جب افغانستان سے سابق سوویت افواج کو نکال باہر کیا گیا تب اسامہ بن لادن اور عبداللہ عزام نے مل کر القاعدہ کی بنیاد رکھی تاکہ عالمگیر سطح پر جہاد جاری رکھا جاسکے۔ بروس ریڈل کے خیال میں عالمگیر جہاد کے خطرے کو بر وقت نہ پہچاننا امریکا کی بہت بڑی غلطی تھی مگر ساتھ ہی ساتھ انہوں نے اس نکتے پر بھی زور دیا کہ ۱۹۸۰ء کے عشرے میں امریکی خوش نصیب تھے کہ مجاہدین کے سامنے امریکا سے بڑی بُرائی سوویت یونین کی شکل میں موجود تھی اور وہ اُس کے خلاف لڑنے کے لیے ہمہ وقت تیار تھے۔ جب سے یہ بُرائی ختم ہوئی ہے، عالمگیر جہاد پر یقین رکھنے والوں کا رُخ مغرب کی طرف ہوگیا ہے۔
“Riedel: The war against the Soviets in Afghanistan was run by Zia, not by us”. (“Foreign Policy Mag.”. July 14, 2014)
Leave a Reply