
طالبان نے افغانستان کے طول و عرض میں یوں کامیابی حاصل کی گویا بجلی سی کوند گئی ہو۔ ایک ماہ سے بھی کم مدت میں افغان نیشنل سیکورٹی فورسز موم کی طرح پگھل گئیں اور صدر اشرف غنی نے فرار ہوکر متحدہ عرب امارات میں پناہ لی۔ سوال یہ ہے کہ افغانستان میں امریکا کے مادّی و ’’انسانی‘‘ اثاثوں کا کیا ہوگا۔ طالبان امریکی فوجیوں کی چھوڑی ہوئی گاڑیوں میں گھوم رہے ہیں۔ ہیلی کاپٹر اور دوسرا بہت سا جنگی ساز و سامان بھی طالبان کے ہاتھ لگا ہے۔ کابل ایئر پورٹ پر دل دہلا دینے والے مناظر دکھائی دیے۔ امریکی صدر جو بائیڈن پر شدید تنقید کی جارہی ہے کہ انہوں نے افغانستان سے انخلا مکمل کرنے کے لیے جامع منصوبہ سازی نہیں کی۔ فورسز کے حوالے سے یہ تو کہا جارہا تھا کہ وہ تادیر بھرپور مزاحمت نہیں کرسکیں گی۔ مگر وہ یوں راتوں رات پگھل جائیں گی، یہ تو کسی نے سوچا بھی نہ تھا۔
امریکی صدر جو بائیڈن نے تسلیم کیا ہے کہ افغان جنگ میں امریکا کو غیر معمولی جانی و مالی نقصان برداشت کرنا پڑا اور یہ کہ نئی نسل سے تعلق رکھنے والے مزید فوجیوں کو اس لامتناہی جنگ کی بھٹی میں نہیں جھونکا جاسکتا۔
امریکی اخبار ’’واشنگٹن پوسٹ‘‘ کے لیے کریگ وٹلاک نے ’’افغانستان پیپرز‘‘ کے زیر عنوان ایک کتاب لکھی ہے، جس میں اس جنگ کے شدید منفی اثرات کے حوالے سے تفصیلات بیان کی گئی ہیں۔ ۳۱؍اگست کو شائع ہونے والی اس کتاب میں بتایا گیا ہے کہ امریکی حکام کو بہت پہلے یہ اندازہ ہوچکا تھا کہ افغانستان میں جس فوج کو انہوں نے پروان چڑھایا ہے، فنڈنگ کی ہے اور تربیت بھی فراہم کی ہے وہ طالبان کا سامنا نہیں کرسکے گی۔ ایک طرف تو کرپشن بہت بڑے پیمانے پر کی گئی اور دوسری طرف نا اہلی تھی۔ بہت سی چوکیوں پر تعینات فوجی بہت پہلے فرار ہوچکے تھے کیونکہ خود اُن میں اِتنی اخلاقی جرأت نہ تھی کہ طالبان کا سامنا کرسکتے اور پھر وہ ایسی حکومت کا ساتھ کیوں دیتے جس نے کرپشن کے سوا کچھ نہیں کیا۔ چوکیوں کا یہ حال تھا کہ اُن میں گولا بارود تھا نہ راشن۔ افغان فوج کے طاقتور ہونے سے متعلق دعوے امریکا میں عوام کو دھوکا دینے کے لیے کیے گئے تھے۔
امریکا میں ایک مدت سے یہ آواز اٹھائی جارہی ہے کہ خارجہ پالیسی کو عسکریت کی بنیاد پر استوار رکھنے سے گریز کیا جائے۔ امریکا نے دنیا بھر میں پیر پسار رکھے ہیں۔ اس کے نتیجے میں اس کی ذمہ داریاں بھی بڑھی ہیں اور اخراجات بھی۔ نائن الیون کے بعد سے اب تک بیرونی جنگوں پر امریکا کے ۶۴۰۰؍ارب ڈالر خرچ ہوچکے ہیں۔ فریقین کی لاکھوں ہلاکتیں ہوئی ہیں۔ لاکھوں افراد زخمی ہونے کے بعد جسمانی یا ذہنی معذوری اور نفسیاتی پیچیدگیوں کا شکار ہوئے ہیں۔ عراق میں امریکی مداخلت کے نتیجے میں بدعنوان، نا اہل اور فرقہ پرست حکومت قائم ہوئی جس کے ردِعمل میں داعش پیدا ہوئی اور القاعدہ نے بھی سر اٹھایا۔ ۲۰۱۴ء کے قتلِ عام میں ملوث ہونے والی عراقی فورسز میں اتنی اخلاقی جرأت نہ تھی کہ داعش کے سامنے ٹِک سکتیں۔
افغانستان، عراق اور شام کی صورتِ حال میں امریکا کے لیے ایک بڑا سبق یہ تھا کہ ہر معاملے میں عسکری قوت پر بھروسا نہیں کیا جاسکتا۔ دنیا بھر میں مداخلت کے نتیجے میں نااہل اور کرپٹ حکومتیں معرضِ وجود میں آتی ہیں۔ امریکا جہاں بھی مداخلت کرتا ہے وہاں معاملات زیادہ خراب ہو جاتے ہیں جس کے نتیجے میں امریکا کے دشمن زیادہ قوت کے ساتھ ابھرتے ہیں اور جنگ کی لاگت بڑھ جاتی ہے۔ امریکا نے افغانستان پر سوویت لشکر کشی کے بعد مجاہدین کی مدد کی جن کی کوکھ سے بعد میں القاعدہ اور طالبان نے جنم لیا۔ عراق اور شام میں امریکی مداخلت کے نتیجے میں داعش ابھری اور کسی حد تک القاعدہ نے بھی جڑ پکڑی۔
امریکا کے خلاف بہت سے خطرناک منصوبے اُن جیلوں میں تیار کیے گئے جو امریکی فوج نے قائم کیں۔ امریکا جو کچھ کرتا آیا ہے وہ اب پلٹ کر اُس کی طرف آرہا ہے۔ اِسے ہم مکافاتِ عمل بھی کہہ سکتے ہیں اور یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ جو دوسروں کے لیے گڑھا کھودتا ہے وہ خود اُس میں گرتا ہے۔ امریکا نے جن لوگوں کو فنڈ اور تربیت کے علاوہ ہتھیار بھی دیے وہ بعد میں اُسی کے خلاف ہوگئے اور اُس کے مفادات کو نقصان پہنچانے پر تُل گئے۔ امریکا کے علاوہ اُس کے یورپی حاشیہ برداروں کے مفادات پر بھی ضرب لگائی جاتی رہی ہے۔
نائن الیون کے بعد امریکا نے افغانستان میں دو عشروں کے دوران کم و بیش دو ہزار ارب ڈالر دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر خرچ کیے ہیں۔ گویا ۲۰ سال تک یومیہ ۳۰ کروڑ ڈالر اس جنگ پر خرچ کیے گئے۔ انکل سام نے طالبان کو افغانستان میں ریاستی و حکومتی امور سے الگ تھلگ رکھنے پر جو رقم خرچ کی وہ جیف بیزوز، ایلون مسک، بل گیٹس اور دیگر ۳۰؍امیر ترین امریکیوں کی مجموعی دولت سے زیادہ ہے۔ ۸۰۰؍ارب ڈالر سے بھی زیادہ رقوم جنگ کی براہ راست لاگت کی مد میں خرچ ہوئیں۔ کم و بیش ۸۰؍ارب ڈالر افغانستان کی اس فوج کی تربیت پر خرچ کیے گئے جو طالبان کی پیش رفت دیکھتے ہی منظر سے غائب ہوگئی۔ افغان فوج کے منظر سے غائب ہونے کا عمل جولائی کے اوائل میں امریکا کی جانب سے بگرام ایئر بیس کے خالی کردیے جانے سے تیز ہوا کیونکہ بگرام ایئر بیس خالی کرنے کا مطلب یہ تھا کہ طالبان کی پیش قدمی روکنے کے لیے فضائی کارروائیاں نہیں کی جائیں گی۔ امریکی ٹیکس دہندگان افغان فوجیوں کی تنخواہوں کی مد میں سالانہ ۷۵ کروڑ ڈالر دیتے آئے ہیں۔
براؤن یونیورسٹی کے ’’کاسٹ آف وار‘‘ پراجیکٹ سے وابستہ محققین کے مطابق افغانستان پر امریکا نے مجموعی طور پر ۲۲۶۰؍ارب ڈالر خرچ کیے۔ جانی نقصان کو بھی ذہن نشین رکھا جائے تو جنگ کی لاگت مزید بڑھ جاتی ہے۔ افغانستان میں ۲۵۰۰؍امریکی فوجی ہلاک ہوئے۔ ۴ ہزار امریکی سویلین کنٹریکٹر بھی موت کے گھاٹ اترے۔ افغان ملٹری پولیس کا جانی نقصان ۶۹ ہزار نفوس کا ہے۔ ۴۷ ہزار عام شہری مارے گئے اور اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے ۵۱ ہزار مزاحمت کار بھی ہلاک ہوئے۔
افغان جنگ میں زخمی ہونے والے ۲۰ ہزار فوجیوں اور سویلین کنٹریکٹرز کی دیکھ بھال پر ۳۰۰؍ ارب ڈالر خرچ ہوئے اور مزید ۵۰۰؍ارب ڈالر خرچ ہونے کا امکان ہے۔ امریکا کے لیے ایک مصیبت یہ بھی ہے کہ افغانستان سے مکمل انخلا کے بعد بھی بہت کچھ خرچ کرنا پڑے گا۔ صاف بات ہے کہ امریکا نے افغان جنگ میں ادھار لی ہوئی رقم لگائی ہے۔ براؤن یونیورسٹی کے محققین کہتے ہیں کہ قرضوں پر سود کی مد میں ۵۰۰ ڈالر پہلے ہی خرچ کیے جاچکے ہیں۔ یہ ۵۰۰ ڈالر جنگ کی مجموعی لاگت (۲۲۶۰ ڈالر) کا حصہ ہے۔ ۲۰۵۰ء تک جنگ کے قرضوں پر سود ۶۵۰۰؍ارب ڈالر تک پہنچ سکتا ہے۔ گویا ہر امریکی شہری کے حصے میں ۲۰ ہزار ڈالر کی ذمہ داری آئے گی۔
جو بائیڈن پر تنقید کی جارہی ہے کہ انہوں نے افغانستان سے مکمل امریکی انخلا کی جامع منصوبہ سازی نہیں کی جس کے نتیجے میں ہڑبونگ مچی۔ یہ انخلا ہونا ہی چاہیے تھا کیونکہ افغانستان میں جنگ کو کو مزید جاری رکھنا ممکن نہ تھا۔ امریکا نے افغانستان، عراق اور شام میں ہزاروں ارب ڈالر کا خسارہ بھگتا ہے۔ اب اُسے اپنی خارجہ پالیسی پر نظرِ ثانی کرنی ہی چاہیے۔ عسکری قوت پر اندھا اعتماد کرنا مزید خطرناک نتائج پیدا کرسکتا ہے۔ سفارت کاری کو بہت پیچھے دھکیل دیا گیا ہے۔ لازم ہے کہ اب سفارت کاری کو موقع دیا جائے۔ امریکا عسکری قوت پر بھروسا کرنے کے بجائے عالمگیر اشتراکِ عمل کی راہ پر گامزن ہو تو بات بنے۔
(ترجمہ: محمد ابراہیم خان)
“The war in Afghanistan cost America $300 million per day for 20 years, with big bills yet to come”. (“Forbes Magazine”. August 16, 2021)
Leave a Reply