فلسطینی، صدر ٹرمپ کے فیصلوں کی شدید مخالفت کررہے ہیں، مگر اندرونی تقسیم و سیاست کی وجہ سے فلسطینیوں کی مخالفت کے اثرات نہ ہونے کی برابر ہیں۔ ۲۰۰۴ء میں یاسر عرفات کی موت کے بعد سے فلسطینی قوم تقسیم کا شکار ہے، اس تقسیم نے باہر کے لوگوں کو اپنے ایجنڈے کے تحت فلسطینیوں میں معاملات کرنے کا موقع فراہم کیا ہے۔ یاسر عرفات کی قیادت میں فلسطینیوں کا کردار کمزور تھا مگر انہوں نے اسرائیل کے سامنے ہتھیار نہیں ڈالے، اس کو یاسر عرفات ’’فیصلہ سازی کی فلسطینی خودمختاری‘‘ کہا کرتے تھے۔ یاسر عرفات نے فلسطینیوں کے بنیادی مفادات پر سمجھوتا کیے بغیر ریاست حاصل کرنے کا راستہ اختیار کیا۔ آزادانہ طرزِ عمل نے ہی ان کو رہنما کا درجہ دیا۔ آج عرفات کے وارث پی ایل او کے سربراہ محمود عباس، حماس کے نئے رہنما یحییٰ شنوار اور اسماعیل ہانیہ، اور سب سے اہم فتح کے سابق سکیورٹی چیف محمد دحلان شامل ہیں، یہ سب لوگ یاسر عرفات کی جگہ لینے کے لیے کوششیں کررہے ہیں۔
یہ کہنا کہ حماس قیادت اور دحلان کے درمیان کو ئی دشمنی نہیں غلط ہوگا، دونوں کے درمیان کشیدگی ۲۰۰۷ء میں انتہا پر تھی جس کا نتیجہ مختصر جنگ کی صورت میں نکلا تھا۔ اس جنگ کے نتیجے میں عباس کی فلسطینی اتھارٹی کی فوج کو غزہ چھوڑنا پڑا، اس فوج کی قیادت دحلان کررہے تھے۔فلسطینی مقتدرہ کی فوج تاحال غزہ واپس نہیں آسکی ہے، واشنگٹن کی نئی خارجہ پالیسی اور فلسطین کو لاحق خطرات میں تاریخی اضافے کے بعد ملکی مفاد کے مطابق ایجنڈا تشکیل دینے کی ضرورت بہت بڑھ گئی ہے،اس کے باوجود فلسطینیوں کے درمیان دشمنی میں اضافے کا امکان زیادہ ہے۔ تین فریقوں کے درمیان ’’سب کی جیت‘‘ جیسا حل تلاش کرنابھی مشکل ہے،سب غزہ کا کنٹرول حاصل کرنا چاہتے ہیں۔اقوام متحدہ کے مطابق غزہ ۱۴۱؍اسکوائر میل کے علاقے پر مشتمل ہے،جو کہ مختلف نسلوں سے تعلق رکھنے والے ۱۸؍لاکھ پناہ گزینوں کا گھر ہے، یہ ۲۰۲۰ء تک رہنے کے قابل نہیں رہے گا۔ غزہ پر حکمرانی کرنے والے کو اس خطرے سے بھی نمٹنا ہوگا،حماس اور پی ایل او تین دہائیوں سے سمجھوتہ کرنے کی ناکام کوششوں میں مصروف ہیں، اس حوالے سے آخری کوشش مصر کی نگرانی میں اکتوبر ۲۰۱۷ء میں کی گئی، ان مذاکرات میں عملی اقدام نہ ہونے کے برابر رہے اورنیم دلی سے کوشش کی گئی، فریقین مشترکہ پروگرام پر اتفاق کرنے میں ناکام رہے، بہرحال کچھ لوگوں کے نزدیک حماس کی جانب سے اقوام متحدہ، یورپ، روس اور امریکا کے بنائے اصولوں کو تسلیم کرلینا بڑی کامیابی ہے۔ یہ اصول ۲۰۰۶ء میں حماس کی انتخابی فتح کے بعد بنائے گئے تھے۔ ۲۰۰۷ء میں غزہ سے نکالے جانے کے بعد محمد دحلان کو عباس اور الفتح کی اکثریت نے نظر انداز کردیا، محمد دحلان غزہ کی سکیورٹی کے انچارج تھے، ان کو حماس نے غزہ چھوڑنے پر مجبور کردیا تھا۔ حماس نے غزہ میں ہر ایک کو اسلحہ رکھنے کا حق دیا، اس دوران محمد دحلان غزہ میں اپنے حمایتیوں کو منظم کرنے کی صلاحیت سے محروم رہے۔ رام اللہ میں دحلان کی موجودگی محمود عباس کو غزہ کے کھو جانے کی یاد دلاتی رہتی ہے، اس سے الفتح کے نوجوان جنگجوؤں میں تبدیلی کی شدید خواہش کا اظہار بھی ہوتا ہے، فلسطین میں اپنی سیاست کے خاتمے کے بعد محمد دحلان نے اپنے پرانے تعلقات استعمال کرتے ہوئے کاروبار کا آغاز کردیا، محمد دحلان نے ابوظہبی کے ولی عہد شہزادہ محمد بن زید کے سلامتی کے مشیر کی حیثیت سے اور تاجر کے طور پر زبردست صلاحیت کا مظاہرہ کیا، خان یونس کے پناہ گزین کیمپ سے زندگی کا آغاز کرنے والے محمد دحلان نے جارج ڈبلیو بش کے وائٹ ہاؤس سے مذاکرات بھی کیے، گزشتہ دہائی میں دحلان نے عربوں کی اعلیٰ ترین سیاسی اور تجارتی تنظیموں میں فعال کردار ادا کیا اور اپنی حیثیت کو دوبارہ بحال کرلیا، دوبارہ اہم حیثیت حاصل ہونے کی وجہ سے الفتح اور محمود عباس نے دحلان سے دوری اختیار کرلی۔ جب سے حماس نے غزہ کا انتظام سنبھالا ہے علاقے کی قسمت میں غربت لکھ دی گئی ہے، الفتح غزہ میں غربت ختم کرنے اور مغربی کنارے و یروشلم میں اسرائیلی قبضہ اور یہودی آبادکاری روکنے میں ناکام رہی ہے، جس کی وجہ سے الفتح بہت تیزی کے ساتھ محدود اور بے اثر ہوتی جارہی ہے۔ ۲۰۰۶ء کے انتخابات میں اکثریت حاصل ہونے کے بعد حماس نے معاملات خراب کرنے میں پہل کی، دحلان اپنی تمام تر ناکامیوں کے باوجود غزہ اور مستقبل کے فلسطین میں سیاسی جگہ بنانے کی پوری صلاحیت رکھتے ہیں، شیخ عزالدین القسام اور ۱۹۳۰ء کی بغاوت کے دنوں سے جنگجوؤں فلسطین کے سیاسی منظر نامے پرچھائے ہیں، فلسطینی اتھارٹی کا دارالحکومت رام اللہ اصلاح پسندوں کے لیے بہتر جگہ رہا ہے، جیسے اصلاح پسند سلیم فیاض اور سفارت کار صائب عریقات اس کی مثال ہیں، صائب عریقات الفتح میں اہم عہدہ حاصل کرسکتے ہیں۔
دحلان کی طرح یحییٰ شنوار نے بھی ایک مختلف تنظیم میں تربیت حاصل کی اور اعلیٰ عہدے پر پہنچے، دونوں نے خان یونس کے پناہ گزین کیمپ میں غربت میں پرورش پائی، پھر غزہ اسلامک یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی، یونیورسٹی میں دونوں کے درمیان طلبہ یونین کی قیادت حاصل کرنے کے لیے مقابلہ بھی ہوا، جس کے بعد ایک الفتح کا جنگجو بنا اور دوسرا حماس کا جنگجو، دونوں کو ہی غزہ نے بنایا اور دونوں ہی امریکی پالیسیوں کی پیدا وار ہیں۔ فلسطینی قوم پرستی میں جان انتفادہ کی پہلی تحریک کے بعد پڑی اور اسرائیل کے خلاف فلسطینی جدوجہد کو جائز بھی تسلیم کیا گیا۔ یحییٰ نے ۱۷؍برس اسرائیلی جیل میں گزارے ہیں، وہاں انہوں نے عبرانی بولنا بھی سیکھی، جیل میں ان کو دحلان پسند تھے، دونوں نے اسرائیل سے جنگ لڑی اور مذاکرات بھی کیے، پھر دونوں ایک دوسرے کے ساتھ مذاکرا ت کیوں نہیں کرتے، خاص کر ایسے حالات میں جب حماس اور محمود عباس کے درمیان قابل عمل معاہدے کا امکان نظر نہیں آتا۔ مارچ کی ۵ تاریخ کو فتح کی انقلابی کونسل کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے محمود عباس نے مبینہ طور پر شکایت کی کہ’’ہمیں نہیں پتا کہ حماس مصالحت چاہتی ہے یا ایران مصالحت چاہتا ہے، نہیں معلوم حماس فلسطینی اتھارٹی کا حصہ بننا چاہتی ہے یا اس کی سربراہی چاہتی ہے، کہہ نہیں سکتا کہ حماس مصالحت چاہتی ہے یا ہمیں صرف اپنے اے ٹی ایم کی طرح استعمال کرنا چاہتی ہے‘‘۔ محمود عباس کے بے لچک جواب نے حماس اور دحلان کے درمیان مصالحت کے مشکل کام کا امکان پیدا کردیا ہے، محمود عباس سے معاہدہ ہو یا نہ ہو، حماس کا مقصد ہے اپنی سلامتی اجارہ داری پر سمجھوتہ کیے بغیر کسی طرح محاصرہ ختم کرانا ہے، دحلان کی خواہش ہے کہ قاہرہ اور خلیجی ممالک سے تعلقات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے غزہ پر دوبارہ کنٹرول حاصل کیا جائے، جس کے ذریعے فلسطین کے مستقبل میں اہم کردار حاصل کیا جاسکے۔ اسماعیل ہانیہ کے سابق مشیر احمد یوسف کا حال ہی میں کہنا تھا کہ ’’دحلان اس قوم کا حصہ ہیں، اور وہ فلسطین کی سیاست میں موجودرہنے کے لیے سخت جدوجہد کررہے ہیں، شاید وہ ایک نئی جماعت تشکیل دینے کا فیصلہ کریں، مغربی کنارے میں موجود قیادت اور الفتح کے ساتھ معاملات خراب کیے بغیر دحلان کے ساتھ تعاون کرنا حماس کے مفاد میں ہوگا، اگرچہ دحلان حماس کے مخالف ہیں اور موجودہ حالات میں الفتح سے دور ہیں، غزہ کا انتظام چلانے کے لیے تمام اختلافات ایک طرف رکھ کر حماس دحلان کے ساتھ قومی شراکت داری قائم کرنے کی طرف بڑھ رہی ہے‘‘۔ ان تنازعات کی وجہ سے فلسطینی مستقبل کو پہنچنے والا نقصان سب سے اہم عنصر ہے، یہ تصور کرنا کہ حماس اور الفتح فلسطین کے مستقبل کے لیے جدوجہد کررہے ہیں یا دونوں جماعتیں اپنے فیصلے کرنے میں آزاد ہیں غلط ہوگا۔ اسرائیل کے سابق وزیراعظم ایریل شیرون محمود عباس کو مذاق میں’’بغیرسر کے مرغا‘‘ کہہ کر پکارتے تھے، عرفات کی جگہ لینے کے بعد سے عباس نے انتہائی سخت حالات میں بھی پانی میں ساکت کھڑے رہنے کے علاوہ کچھ نہیں کیا،جس کے نتیجے میں غزہ اور مغربی کنارے میں فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے حالات انتہائی ناسازگار ہوگئے۔ حماس نے غزہ پر حکومت قائم کرلی اور اسرائیل کے ساتھ جعلی اورتلخ حقائق پر مبنی عسکری توازن قائم کیا، اس دوران طاقتور قوتوں نے غزہ کا اقتصادی محاصرہ ختم کرانے کا کوئی اشارہ بھی نہ دیا،اس محاصرے سے فلسطینی نوجوانوں میں اشتعال نے جنم لیا،دحلان میز پر جگہ حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔ مگر انہیں الفتح کے ساتھ رہتے ہوئے یا الگ ہو کر کسی جگہ کو اپنا سیاسی مرکز بنانا ہوگا، اگر دحلان سفارت کار سے بڑھ کر کوئی کردار ادا کرنا چاہتے ہیں تو اس کے لیے سیاسی طاقت حاصل کرنا ہوگی۔
(ترجمہ: سید طالوت اختر)
“The way forward for Palestine: Fatah, Hamas and Dahlan”. (“mei.edu”. March 9, 2018)
Leave a Reply