
آج جس دور میں ہم سانس لے رہے ہیں وہ سائنس اور ٹیکنالوجی کا دور ہے۔ انسان ترقی کے بامِ عروج پر پہنچ چکا ہے۔ مواصلات اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کی غیر معمولی ترقی نے پوری دنیا کو ایک چھوٹے سے گائوں میں تبدیل کر دیا ہے۔ دنیا کے ایک کونے میں بیٹھا ہوا شخص سیکنڈ سے بھی کم وقت میں دوسرے کونے میں موجود شخص سے رابطہ قائم کر سکتا ہے۔ معلومات کا ایک سمندر ہے جو انسان کی انگلی کے اشارے کا منتظر ہے۔
لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس بے مہار ترقی کے پہلو بہ پہلو انسانی معاشرہ لاینحل مسائل میں بھی گرفتار ہے۔ وسائل کے انبار ہیں، دولت کی فراوانی ہے، خزانوں کے ذخائر پر انسانوں کو دسترس حاصل ہو گئی ہے۔ لیکن آج بھی کروڑوں لوگ نان شبینہ کے محتاج ہیں۔ ایک طرف فلک شگاف عمارتیں ہیں تو اسی کے پہلو بہ پہلو کروڑوں خاندان کھلے آسمان کے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں یا کسی گندی بستی میں غلاظتوں کے ڈھیر میں جی رہے ہیں۔
ہر طرف ظلم و زیادتی ہے اور کرپشن کا بازار گرم ہے، عدالتوں کا ایک پورا نظام اور قانون کی دفعات کا ایک پورا دفترموجود ہے لیکن ایک عام آدمی کی انصاف تک رسائی تقریباً ناممکن ہے۔ ذات پات، رنگ و نسل اور قومیت و علاقائیت کے تعصبات نے انسانوں کو ایک دوسرے کا دشمن بنا دیا ہے۔ معاشرتی نظام تہہ و بالا ہو چکا ہے، خاندانی نظام بکھر چکا ہے، اخلاقی اقدار کا جنازہ نکل چکا ہے، فحاشی عریانیت کے سیلاب بلاخیز میں عورت کی عفت و عصمت پامال ہو رہی ہے۔
مادی افکار و نظریات نے ہر شخص کو مادہ پرست اور خود غرض بنا دیا ہے۔ زیادہ سے زیادہ دنیا سمیٹنے کی خواہش میں ایک فرد دوسرے فرد، ایک قوم دوسری قوم اور ایک ملک دوسرے ملک کے وسائل کو ہڑپنے کی کوشش میں لگا ہوا ہے۔ نتیجتاً ہر طرف لاقانونیت، قتل و غارت گری اور جنگ و جدال کا بازار گرم ہے۔
گزشتہ صدی میں دنیا و خوف ناک عالمی جنگوں سے دوچار ہو چکی ہے۔ مغربی استعمار اس وقت بھی دنیا کے وسائل پر قبضہ کرنے کے لیے مختلف ملکوں میں اپنی فوجیں اتار رہا ہے۔ نیوکلیائی، کیمیاوی اور خوفناک تباہی کے ہتھیاروں کی موجودگی زمین پر کسی وقت بھی قیامت برپا کر سکتی ہے۔ انسانی معاشرہ کو مشکلات و مصائب سے چھٹکارا دلانے کے لیے مختلف ادوار میں مفکروں اور دانشوروں نے طرح طرح کے افکار اور نظام ہائے زندگی پیش کیے لیکن انسانی ذہن کے افترا کردہ یہ نظریات مسائل اور مشکلات میںاضافہ کا ہی سبب بنے۔ مارکس، فرائیڈ، ہیگل، نٹشے اور گاندھی کے فلسفے اپنی چکا چوند دکھا کر ماند پڑ چکے ہیں۔
اب وقت آگیا ہے کہ مسائل و مصائب میں گرفتار اس معاشرے کے سامنے قرآن کے اس دعوے کو پیش کیا جائے کہ اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ اﷲِ الْاِسْلاَمُ (آل عمران:۱۹)’ ’بے شک اللہ تعالیٰ کے نزدیک پسندیدہ دین، دین اسلام ہے۔ اور یہ بات کہ وَ مَنْ یَّبْتَغِ غَیْرَ الْاِسْلَامِ دِیْنًا فَلَنْ یُّقْبَلَ مِنْہُج وَ ہُوَ فِی الْاٰخِرَۃِ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ (آل عمران:۸۵)’ ’جو شخص اسلام کے سوا کوئی اور دین تلاش کرے، اس کا دین قبول نہ کیا جائے گا اور آخرت میں نقصان اٹھانے والوں میں ہوگا‘‘۔ اَفَغَیْرَ دِیْنِ اﷲِ یَبْغُوْنَ وَ لَہٗٓ اَسْلَمَ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ طَوْعًا وَّ کَرْہًا وَّ اِلَیْہِ یُرْجَعُوْنَ (آل عمران:۸۳) ’’کیا وہ اللہ کے دین کے سوا اور دین کی تلاش میں ہیں؟ حالانکہ تمام آسمان والے اور سب زمین والے اللہ تعالیٰ کے فرماں بردار ہیں، خوشی سے ہو یا ناخوشی سے۔ سب اسی کی طرف لوٹائے جائیں گے۔
چوں کہ انسانوں کا اور پوری کائنات کا خالق وہی ہے، اسی لیے انسان کی ضروریات کو وہی بہتر جانتا ہے لہٰذا اسی کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ انسانوں کے لیے قانون بنائے اور اس کے لیے نظام زندگی تجویز کرے۔
’’خلق اسی کی ہے امر بھی اسی کا ہوگا‘‘۔
خدا نے انسانوں تک اپنی ہدایت اور رہنمائی پہنچانے اور اس کو برت کر دکھانے کے لیے انسانوں ہی میں سے اپنے برگزیدہ بندوں کا انتخاب کیا۔ حضرت آدمؑ سے حضرت محمدؐ تک ایک لاکھ ۲۴ ہزار پیغمبر انسانوں کی رہنمائی کے لیے اللہ کی طرف سے منتخب کیے گئے۔ حضرت محمدؐ پر دین کا اتمام کردیا گیا اور آپ کو پیغمبر آخر الزماں اور خاتم النبیین بنایا گیا۔ اس سے پہلے جو انبیا آئے وہ کسی خاص قوم یا علاقہ کے لیے تھے لیکن رسول اکرمؐ کی بعثت تمام انسانوں کے لیے اور قیامت تک آنے والے تمام زمانوں کے لیے ہوئی۔ آپ پراتاری گئی کتاب قرآن مجید بھی اللہ کی آخری کتاب اور زندگی گزارنے کے لیے ایک مکمل مستند ہدایت نامہ ہے آپؐ نے اپنی ۲۳ سالہ نبویؐ زندگی میں اس کتاب کو برت کر اور ایک مکمل اسلامی زندگی گزار کر زندگی کے ہر شعبہ کے اور ہر فرد کے لیے مکمل اور جامع اسوہ چھوڑا ہے۔ قرآن اللہ کے رسول کو بنی نوع انسانیت کے لیے رحمت للعالمین قرار دیتا ہے۔
’’اور ہم نے آپ کو تمام اہل جہان کے لیے رحمت بنا کر بھیجا ہے‘‘۔
ایک اور جگہ فرمایا گیا ’’ہم نے آپ کو تمام انسانوں کے لیے بشارت دینے والا اور خبردار کرنے والا بنا کر بھیجا ہے‘‘۔(السبا: ۲۸) پھر آپ کو پوری انسانیت کے لیے رول ماڈل بنا کر پیش کرتے ہوئے آپ کے اسوہ کو بہترین نمونہ قرار دیا۔ ’’تمہارے لیے اللہ کے رسول میں ایک عمدہ نمونہ ہے‘‘۔ (احزاب: ۲۱)
آپؐ کی حدیث ہے: ’’سب سے بہترین کلام اللہ کی کتاب ہے اور سب سے بہتر طریقہ زندگی محمدؐ کا طریقہ ہے‘‘ (مسلم)
نبی کریمؐ کی زندگی مختلف حیثیتوں سے ہرانسان کے لیے ایک بہترین نمونہ ہے۔ آپ کا لایا ہوا دین انسانوں کے خالق و مالک کا عطا کردہ ہے اس لیے وہی زندگی گزارنے کا سیدھا اور سچا راستہ ہے، آپ کی سیرت میں دورِ حاضر کے تمام مسائل کا حل موجود ہے۔ آپ پر نازل کردہ کتاب کا ایک ایک لفظ محفوظ اور اسی طرح آپ کے اقوال اور آپ کی پوری زندگی کے احوال پوری طرح محفوظ ہیں۔ اخلاق و کردار کا ایک بہترین نمونہ ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلمان اہل علم عصر حاضر کے مسائل کا دیانت داری سے تجزیہ کر کے اس کا حل کتاب و سنت کے ذریعے پیش کریں۔ دنیا کے مفکرین، مصلحین کے مقابلے میں محمدؐ کی صاف و شفاف زندگی اور پیغام کی پوری جرأت کے ساتھ دنیا کے سامنے پیش کریں۔ دنیا کے ازموں اور فرسودہ نظام ہائے زندگی کے مقابلے میں اسلام کو ایک متبادل کے طور پر پیش کریں۔ مسائل و مصائب کی ماری، اضطراب اور بے چینی میں مبتلا دنیا کو اگر کہیں پناہ مل سکتی ہے تو وہ صرف محسن انسانیت کے اسوہ ہی میں مل سکتی ہے۔
(بشکریہ: ماہنامہ ’’افکار ملی‘‘ دہلی۔ اکتوبر ۲۰۱۰ء)
Leave a Reply