
مغربی دنیا خود اپنے تضادات کے بوجھ سے ہلکان ہے۔ یہ صورتحال مغربی دانشوروں‘ طبقۂ اشراف اور سیاستدانوں کے لیے بہت زیادہ فکر و تشویش کا باعث ہے۔ علاوہ ازیں یہ چیز غیرمغربی دنیا کی رائے عامہ پر منفی طور پر اثرانداز ہو رہی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ حالیہ تضادات کی نوعیت کیا ہے؟ تقریباً ایک ماہ سے پوری دنیا میں بالخصوص ایشیا میں مسلمان اپنے مذہبی اقدار اور مقدّسات پر ہونے والے غیرذمہ دارانہ حملوں کے خلاف سراپا احتجاج بنے ہوئے ہیں۔ ان کا یہ احتجاج مغرب کے متعدد اخبارات میں حضورِ پاک صلی اﷲ علیہ وسلم کے توہین آمیز خاکوں کی اشاعت کے بعد سے شروع ہوا۔اب جبکہ گزشتہ دنوں کا کشیدہ ماحول کچھ ٹھنڈا ہونا شروع ہوا ہے۔ اب ہم اس نازیبا پیش رفت پر مزید ٹھنڈے انداز میں اور ارتکازِ توجہ کے ساتھ غور کر سکتے ہیں۔ ڈنمارک کے ایک اخبار نے اس توہین آمیز خاکے کو سب سے پہلے شائع کیا اور اپنے اس قابلِ نفریں اقدام کے دفاع میں ’’اظہارِ آزادیٔ رائے‘‘ کا سہارا لیتے ہوئے زبان درازی کی۔ یہ مغرب کے تضادات کی ایک مثال ہے‘ جس نے اسلام کے علاوہ دیگر مذاہب کے پیروکاروں کو بھی برہم اور غضبناک کیا ہے۔ اظہارِ آزادیٔ رائے سے مراد ایسے افکار کی ترویج و اشاعت ہے جو شفافیت اور ذہنی کشادگی کے رجحان کو فروغ دینے میں مددگار ہوں۔ کوئی بھی دیانت دار آدمی ایسی آزادی کی حمایت نہیں کرے گا جو دوسروں کی آزادی غصب کرتی ہو یا ان کے مذہبی اقدار و جذبات کی توہین کرتی ہو۔ بعض مغربی صحافیوں اور سیاستدانوں نے خاکوں کی حمایت کرتے ہوئے اسے اظہارِ آزادی رائے قرار دیا۔ لیکن کیا جب انہیں یا ان کی محبوب شخصیات پر اوچھے الزام عائد کیے جائیں یا اہانت کی جائے تو پھر بھی یہ اسے آزادی رائے کا ایک پیکیج سمجھ کر خوش دلی سے قبول کریں گے؟ یا پھر ذمہ دار افراد کو ہر ممکن ذریعے سے سزا دینے کے درپے ہوں گے؟ ایک دوسری مثال لیجیے۔ دوسری جنگِ عظیم کے دوران یہودیوں کے قتلِ عام کو Holocaust کے نام سے جانا جاتا ہے۔ گزشتہ چند دہائیوں میں زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے مغربی شخصیات نے دعویٰ کیا کہ دوسری جنگِ عظیم کے دوران کوئی ساٹھ لاکھ یہودیوں کو گیس چیمبر کی نذر کر دیا گیا‘ یا آگ کی بھٹیوں میں جھونک دیا گیا جنہیں نازیوں اور ان کے یورپی حلیفوں نے ساخت کیا تھا۔ اگرچہ یہ جرم واقعی سرزد ہوا ہے تو یقینا یہ مہذب یورپیوں کے لیے باعثِ شرم و رسوائی ہے۔ وہ کس طرح بیک وقت اس طرح کے غیرانسانی جرائم کا ارتکاب کریں اور مہذب کہلائے جانے کے بھی مستحق ٹھہریں۔ یہاں چند سوالات اٹھتے ہیں۔ جنگِ عظیم دوم کے دوران انجام دیے گئے ان جرائم کے ذمہ داران دونوں طرف ہی اصلاً یورپی عیسائی تھے۔ کیا ان جنگی جرائم کے لیے کوئی بھی حضرت عیسیٰ علیہ السلام یا عیسائیت کو دوشی ٹھہرا سکتا ہے؟ دو جنگ ہائے عظیم میں کروڑ ہا لوگوں کا قتلِ عام ہوا جس کی بیشتر ذمہ داری عیسائیوں پر عائد ہوتی ہے۔ لیکن کیا حضرت عیسیٰ علیہ السلام جو کہ امن‘ درگزر اور احسان کے نبی ہیں‘ کسی بھی طور سے ان غیرانسانی جرائم کے ذمہ دار قرار دیے جاسکتے ہیں جن کا ارتکاب ایسے جنگجو لوگوں نے کیا ہے‘ جو حضرت عیسیٰ کی چوکھٹ پر سر جھکاتے ہیں؟ لیکن جب کچھ تنگ نظر مسلمانوں کے متعلق یہ خیال کیا گیا کہ وہ دہشت گردی کے واقعات میں ملوث ہیں تو یورپی پورے عالمِ اسلام کی مذمت کے لیے دوڑے اور ہمارے دین سے متعلق توہین آمیز تبصرے شروع کر دیے اور پیغمبرِ اسلام جو کہ سراپا نبیٔ رحمت ہیں کی شان میں گستاخی شروع کر دی؟ اس سے بھی زیادہ اچھنبے کی بات یہ ہے کہ جدید مغربی معاشرے میں اﷲ کے پیغمبروں کی اہانت کرنے کی آزادی ہے حتیٰ کہ تصور نبوت اور وجودِ خدا کے انکار کی بھی کھلی چھوٹ ہے۔ لیکن کوئی بھی اس کی جرات نہیں کر سکتا کہ وہ Holocaust پر اپنے شکوک و شبہات کا اظہار کرے اور اس کے گرد جو ٹنوں کے حساب سے متنازعہ آراء محوِ گردش ہیں‘ ان پر لب کشائی کر سکے۔ اس سے بھی زیادہ یہ کہ کسی بھی شخص کو اس ’’آزاد مغربی دنیا‘‘ میں Holocaust سے متعلق کسی سائنٹیفک یا تاریخی بحث کے انعقاد کی اجازت نہیں۔ جو لوگ اس پر لب کشائی کرتے ہیں‘ انہیں قانون کے بھرپور غیظ و غضب کا سامنا کرنا پڑتاہے۔ حال ہی میں ابھی آسٹریلیا میں ایک برطانوی سائنسدان کے ساتھ یہی کچھ پیش آیا۔ کیا یہ مغربی اقوام کے رویے میں کھلا تضاد نہیں ہے جو تواتر کے ساتھ دعویٰ کرتی ہیں کہ وہ ہر طرح کے مذہبی اور معاشرتی تعصبات سے آزاد ہیں جن سے حقوق انسانی کی خلاف ورزی ہوتی ہے اور جن کی تکرار اور اعادہ محض ان کی زبان کا دلچسپ مشغلہ ہے کیونکہ اس کے ذریعہ وہ دنیا سے نیک نامی وصول کرتی ہیں۔ ان تاریخی حوالوں کا مختلف جہتوں سے کیوں نہیں تجزیہ کیا جاتا؟ یہاں آزادیٔ رائے کے اظہار کا اطلاق کیونکر نہیں ہوتا؟ Holocaust کے مختلف پہلوئوں کا جائزہ اس کالم کا موضوع نہیں ہے۔ اس مضمون میں مغربی سوچ اور تضاد کے ایک چھوٹے سے دائرے کا احاطہ مقصود ہے۔ اس طرح کے دوہرے معیار کی مغرب میں کوئی کمی نہیں ہے‘ خاص طور سے اس وقت جب ان کے سیاستدان بالخصوص امریکا کے‘ اپنے برانڈ کے عسکری و سیاسی مفادات کے حصول کے لیے کوشاں ہیں۔ جب یہ معاملہ پیش آتا ہے تو مغرب حقوق اور آزادی کے خود اپنے تحریف شدہ تعبیر کو نظرانداز کرنے سے نہیں چوکتا۔ سیکڑوں افراد کو القاعدہ سے تعاون کے موہوم الزامات کی بناء گوانتاناموبے میں قید کر دینا بغیر کسی مقدمہ اور حقِ دفاع کے‘ حقوق انسانی کی بنیادی شرائط کی پامالی اور نفی ہے اور اس عالمی چارٹر کی نفی ہے جو ان حقوق اور قانون کا تعین کرتی ہے جو مغرب کے اصولِ حکمرانی میں شامل ہیں۔ لیکن اس غیرانسانی روش کا عام طور سے یہ کہہ کر دفاع کیا جاتا ہے کہ یہ ہماری سلامتی کے مفاد کے لیے ضروری ہے۔ اس صورتحال کا ایک بہتر پہلو یہ ہے کہ مغرب کے بہت سارے معزز شہری ان تضادات کو سمجھ گئے ہیں اور وہ خود اس کے خلاف ردِعمل دکھانے لگے ہیں۔ جس کی وجہ سے اس دنیا کے دوسرے خطے کے لوگوں کو بھی یہ حوصلہ ملا ہے کہ وہ بھی مغرب کے اس ظالمانہ دوہرے معیار پر اپنے غم و غصے کا اظہار کرتے ہوئے احتجاج بلند کریں۔ جب تک مغربی سیاستدان اور ان کے حاشیہ بردار اس روش سے باز نہیں آتے وہ اسی مہلک اور خطرناک راستے پر چلتے رہیں گے۔
(بشکریہ: ’’ایران ڈیلی‘‘)
Leave a Reply