ترکی اپنے پرانے اتحادی امریکا کے ساتھ بے وقوفی کرنے جارہا ہے، ملک میں کرنسی بحران سیاسی بحران میں تبدیل ہوچکا ہے، فوری مسئلہ یہ درپیش ہے کہ ترکی نے امریکی پادری اینڈریو برنسن کو رہا کرنے سے انکار کردیا ہے، امریکی پادری پر دہشت گردی، جاسوسی اور ترک صدر کے خلاف بغاوت کی معاونت کا الزام ہے۔ امریکا کو برنسن کی قید پر اعتراض کرنے کا حق حاصل ہے، مگر اس حوالے سے اس کا ردعمل بے کار ثابت ہوا، خاص کر ترکی کے اسٹیل اور ایلمونیم پر اضافی ٹیکس عائد کرنے سے ترک معیشت کمزور ہوگی، جو بڑے بحران کا سبب بن سکتی ہے اور جس سے عالمی معیشت کو بھی خطرات لاحق ہوسکتے ہیں، اس سے صدر ایردوان کو اپنی حکومت کی ناکامی تسلیم کرنے کے بجائے ملک کے خراب معاشی حالات کا ذمہ دار امریکا کو قرار دینے کا موقع مل جائے گا۔ اس بات کا اب بھی امکان ہے کہ ترکی برنسن کو رہا کردے اور امریکی صدر ٹرمپ ٹیکس عائد کرنے کا فیصلہ واپس لے لیں ۔لیکن اگر یہ مسئلہ فوری حل ہوجائے تو بھی مغرب اور ترکی کے تعلقات میں عام طور پر بحران جاری رہے گا۔ہم نے مغرب اور ترکی کے تعلقات میں بدریج مگر مسلسل گراوٹ دیکھی ہے،یہ اتحاد اب صرف نام کی حد تک ہی رہ گیا ہے۔ اگر چہ ٹرمپ انتظامیہ کو ترکی کی مخالفت کرنے کا پورا حق حاصل ہے، مگر اس نے غلط مسئلے پر غلط ردعمل کا اظہار کیا۔ ترکی اور مغرب کے درمیان تعلقات طویل عرصے تک دو اصولوں پر قائم رہے، جن میں سے اب کسی پر بھی عمل نہیں کیا جارہا، پہلا اصول یہ کہ ترکی مغرب کا حصہ رہے گا،جس کا مطلب ہے کہ وہاں لبر ل جمہوریت کا راج ہوگا۔ آج کے حالات میں ترکی نہ جمہوری رہا ہے اور نہ لبرل، وہاں اے کے پارٹی کے تحت ایک جماعت کی حکمرانی قائم ہے اور طاقت ایردوان کے ہاتھوں میں مرکوز ہے، جو اے کے پارٹی کے سربراہ بھی ہیں۔ ایردوان کے دورِ حکومت میں ترکی کے سیاسی نظام میں موجود قدغن اور توازن کا مکمل خاتمہ ہوچکا ہے، میڈیا، بیوروکریسی اور عدالتیں صدر کے ماتحت ہیں۔ ناکام بغاوت کے الزام میں صرف برنسن نہیں بلکہ ہزاروں لوگوں کو جیل میں قید کیاگیا ہے، جس کی وجہ سے ایردوان کے ترکی کی یورپی یونین میں شمولیت ہمیشہ کے لیے ناممکن ہوسکتی ہے۔
ترکی اور مغرب کے تعلقات کا دوسرا اصول تھا مشترکہ خارجہ پالیسی اپنانا۔ حال ہی میں ترکی نے جدید ترین ۱۰۰؍ایف۳۵ طیارے امریکا سے حاصل کیے، ترکی شام میں موجود جہادیوں کی حمایت بھی کررہا ہے، وہ ایران کے قریب بھی جارہا ہے اور اس نے روس سے فضائی دفاع کے لیے ایس۴۰۰میزائل خریدنے کا معاہدہ بھی کرلیا ہے۔ سب سے اہم یہ کہ شام میں ترکی اور امریکا ایک دوسرے کی مخالف سمت میں کھڑے ہیں، شامی کرد امریکا کے قریب ترین حلیف ہیں جبکہ ترکی ان کو ترک کردوں سے تعلقات کی وجہ سے دہشت گرد سمجھتا ہے، کرد ترکی سے آزادی نہیں تو خودمختاری لازمی مانگتے ہیں۔ اس پس منظر میں ترکی اور امریکی فوجوں کے درمیان جنگ کا آغاز ناممکن نہیں ہے۔ کچھ لوگ کہہ سکتے ہیں کہ امریکا اور ترکی کے تعلقات میں موجودہ تناؤ کوئی نئی بات نہیں، دونوں ممالک طویل عرصے سے ایک دوسرے سے اختلاف کرتے رہے ہیں،کیوبن میزائل بحران کے اختتام پر ۱۹۶۲ء میں ہونے والے معاہدے کے تحت جب امریکا نے ترکی سے اپنے میزائل ہٹائے تو ترکی اس امریکی فیصلے سے خوش نہیں تھا۔ترکی کی جانب سے ۱۹۷۴ء میں شمالی قبرص پر قبضے اور امریکا کی جانب سے یونان کی حمایت پر دونوں ممالک کے درمیان مسلسل شدید ٹکراؤ جاری رہا، ترکی نے ۲۰۰۳ء کی عراق جنگ اور حالیہ برسوں کے دوران امریکی فوج کو فضائی اڈہ استعمال کرنے کی اجازت دینے سے انکار کیا، امریکا کی جانب سے پنسلوانیا میں موجود فتح اللہ گولن کو حوالے کرنے سے انکار پر ترکی کی حکومت نے شدید غصے کا اظہار کیا تھا، جو ایردوان کے نزدیک۲۰۱۶ء کی بغاوت کے ماسٹر مائنڈ ہیں۔
بہرحال آج کے حالات میں ہمیں بہت کچھ مختلف نظر آرہا ہے۔ سویت یونین کی مخالفت جس نے دونوں ممالک کو سرد جنگ کے دوران متحد رکھا ، کب کی ختم ہوچکی ہے، اب ہمارے پاس صرف ایک بغیر محبت کی شادی رہ گئی ہے، جس میں دو لوگ ایک چھت کے نیچے تو رہتے ہیں مگر دونوں کے درمیان کوئی حقیقی تعلق نہیں ہوتا ، مسئلہ یہ ہے کہ نیٹو معاہدہ طلاق کا طریقہ کار فراہم نہیں کررہاہے، ترکی نیٹو معاہدے سے خود الگ تو ہوسکتا ہے مگر اس کو ایسا کرنے کے لیے مجبور نہیں کیا جاسکتا، اس حقیقت کی روشنی میں امریکا اور یورپی یونین کو ترکی کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے دو مختلف طریقہ کار اختیار کرنے چاہییں۔ پہلا یہ کہ جب بھی ضروری ہو پالیسی ساز ترکی کی پالیسی پر تنقید کریں، اس کے ساتھ ہی ترکی کے فضائی اڈوں پر انحصار کم کیا جائے، جدید ترین فوجی اسلحے تک ترکی کی رسائی روک دینی چاہیے، جیسے ایف ۳۵ طیارے اور ترکی میں موجود جوہری ہتھیاروں کے حوالے سے پالیسی کو دوبارہ تشکیل دینا چاہیے۔ امریکا کو گولن کو ترکی کے حوالے نہیں کرنا چاہیے، ماسوائے کہ ترکی بغاوت میں گولن کے ملوث ہونے کے ایسے ثبوت دے، جو امریکی عدالتوں میں قابل قبول ہوں اور ۱۹۸۱ء کے ملزمان کے تبادلے کے معاہدے کے مطابق بھی ہوں۔ امریکا کو کردوں کی حمایت ترک نہیں کرنی چاہیے، بلکہ ان کو داعش کے خلاف لڑائی میں اہم کردار دیا جانا چاہیے۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ امریکا اور یورپ کو ایردوان کا دور ختم ہونے کا انتظار کرنا چاہیے، جس کے بعد ترکی کی نئی قیادت سے دوبارہ رابطے کر کے معاہدے کے لیے بات چیت کرنی چاہیے، جس میں مغربی حمایت کے بدلے میں لبرل جمہوریت قائم کرنے کا عہد شامل ہو اور خارجہ پالیسی کے حوالے سے دہشت گردوں سے لڑائی اور روس کو واپس دھکیلنے پر توجہ دینی چاہیے۔ ایردوان نے نیو یارک ٹائمز کے ذریعے حال ہی میں خبردار کیا ہے کہ’’ امریکا اور ترکی کا اتحاد ختم ہوسکتا ہے اوراگر امریکا کا یکطرفہ اقدامات کا رویہ نہیں بدلا تو ترکی جلد نئے دوستوں کی تلاش شروع کر دے گا‘‘۔حقیقت میں ترکی کے اقدامات کی وجہ سے امریکا اور ترکی کاا تحاد پہلے ہی ختم ہوچکا ہے اور ایردوان نے نئے دوستوں اور اتحادیوں کی تلاش بھی شروع کردی ہے،اب وقت آچکا ہے کہ امریکا اور یورپ بھی اس حقیقت کو تسلیم کرلیں۔
(ترجمہ:سید طالوت اختر)
“The West must face reality in Turkey” (“cfr.org”. August 15, 2018)
Leave a Reply