
نفرت پر مبنی مہم
شاغلی ایبدو پر حملے میں بارہ افراد کی ہلاکت سے مغرب کو زبردست دھچکا پہنچا۔ سلامتی سے متعلق خدشات اور خطرات اب ہر جگہ ہی زیادہ محسوس کیے جارہے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ شاغلی ایبدو کے اسلام دشمن کارٹونسٹ ہی نہیں، مغرب کے سیاست دان اور امن و سلامتی کے ذمہ دار افسران وسوسوں کے مرض میں مبتلا ہوگئے ہیں۔ حتیٰ کہ ایک لاوارث بیگ لندن، پیرس، برلن، برسلز اور روم کے زیرِ زمین ریلوے اسٹیشن کو کئی گھنٹے تک مفلوج رکھنے کے لیے کافی ہے۔ اب وہاں کی حکومتیں تمام افراد کی ایک ایک ای میل پر نظر رکھنے کے منصوبے بنارہی ہیں۔ وہاں اب کسی مرد یا عورت کی زندگی نجی نہیں۔ مغرب کی سامراجی طاقتیں قبضے اور لوٹ مار کی جنگیں کسی اور کی سرزمین پر لڑنے کی عادی تھیں اور ان کے گھر محفوظ رہتے تھے۔ لیکن اب جنگ کے خطرات ان کے سر پر منڈلارہے ہیں۔ مغرب نے الجزائر، افغانستان، عراق، مالی اور تیسری دنیا کے دیگر ملکوں سے اپنی فوج واپس بلالی، لیکن جنگ ہے کہ ان کا پیچھا ہی نہیں چھوڑ رہی۔ اب وہ اپنی گلیاں محفوظ بنانے کے لیے بھرپور جنگی تیاریاں کررہے ہیں۔ فرانس کے صدر فرانسوا اولاند نے اعلان کیا ہے کہ وہ اسلام پسندوں سے لڑنے کے لیے ملک بھر میں دس ہزار پانچ سو فوجی تعینات کریں گے۔ سابق صدر نکولس سرکوزی نے شاغلی ایبدو پر حملے کو اظہار رائے کی آزادی پر حملہ قرار دیتے ہوئے ’’تہذیبوں کے درمیان جنگ‘‘ چھیڑنے کا اعلان کیا۔ اس طرح، ساری مغربی دنیا دیکھتے ہی دیکھتے بڑی اور خوفناک جنگ میں گِھر گئی ہے۔
جنگ اچانک شروع نہیں ہوجاتی۔ کسی بیماری کی طرح، اس کی نظریاتی اور سماجی وجوہات ہوتی ہیں۔ جنگ کے لیے لوگوں کی نفسیات میں نظریاتی تبدیلیاں لانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس طرح کے کام نظریاتی سپاہی ہی کرتے ہیں۔ ماضی میں صلیبی جنگوں کے سپاہیوں نے مسلمانوں کے خلاف یہ کام بڑے پیمانے پر کیا۔ صلیبی جنگ سو سال سے بھی زیادہ عرصہ جاری رہی ہے۔ نفرت و عناد کو ہوا دینا یورپ کا قدیم سیاسی اور حربی فن ہے۔ کسی اور براعظم کے لوگوں سے موازنہ کیا جائے تو یورپی اقوام نے دنیا بھر میں نسل کشی کے لیے مظالم کی خاص تاریخ رقم کی۔ یورپ میں یہودی اور اسپین میں مسلمان ہی یورپ کے مظالم کا شکار نہیں رہے۔ امریکا میں ریڈ انڈینز اور ان کی تہذیب کے لوگ، آسٹریلیا کے قدیم قبائلی اور نیوزی لینڈ کے ماوری قبائل نے بھی یہی سب کچھ سہا۔ ماضی قریب میں ہٹلر اور اس کے ساتھیوں، استعمار اور سامراجی قوتوں نے بھی یہی جرائم کیے لیکن ذرا مہارت کے ساتھ۔ دو عالمی جنگوں میں سات کروڑ پچاس لاکھ سے زیادہ افراد کی ہلاکت کی جڑ بھی یہی مرض ہے۔ اب اس پرانے مرض یعنی تشدد پسندی میں کمی آرہی ہے۔ اب اس کام کا بیڑہ اسلام سے خائف مصنفوں، کالم نویسوں، کارٹونسٹ حضرات، جنگ پسندوں اور سیاست دانوں نے اپنے ذمہ لے لیا ہے۔ مغرب میں ایسے لوگوں کی بڑی تعداد پائی جاتی ہے۔ جن کا ہدف اسلام اور نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ اس لیے یہ کہنا بجا ہوگا کہ جارج ڈبلیو بش کی جانب سے ۲۰۰۱ء میں شروع کی گئی صلیبی جنگ کو اس وقت اچھی خاصی قوت حاصل ہوگئی ہے۔
کسی بھی خونی جنگ کے لیے یہ ضروری ہے کہ نشانہ بننے والے لوگوں کے خلاف نفرت کی آگ کو ہوا دی جائے۔ جرمن سیاست دانوں، مصنفین اور پریس نے دوسری جنگ عظیم سے پہلے یہودیوں کے خلاف اسی نفرت کی پرورش کی۔ ہٹلر اس جنگ کا اکیلا کردار نہیں تھا۔ اس جرم میں اُس کے شراکت داروں کی طویل فہرست ہے۔ اسی لیے ساٹھ لاکھ یہودیوں کا قتلِ عام جرمن قوم کے لیے اخلاقی طور پر قابلِ قبول ہے۔ اب مسلمانوں کو اسی طوفان کا سامنا ہے اور یہ لوگ مسلمانوں کے خلاف وحشیانہ مظالم کی توثیق کے لیے اسی طرح کی مستعدی کا مظاہرہ کررہے ہیں۔ جب کسی کی اخلاقی موت واقع ہوجائے تو وہ جرائم کو جرائم نہیں سمجھتا۔ مغرب کی اخلاقی موت کے آثار بھی اب ظاہر ہونے لگے ہیں۔ مثال کے طور پر اسرائیل اور امریکا نے بمباری کرکے غزہ اور کوبانے کو ملبے کے ڈھیر میں بدل دیا۔ غزہ میں ۲۰۰۰ سے زیادہ معصوم بچے، خواتین اور بزرگوں کا قتلِ عام کیا گیا۔ حتیٰ کہ اقوام متحدہ کے تحت چلنے والے اسکولوں پر بھی بم برسائے گئے۔ لیکن امریکا اور اس کے یورپی شراکت دار اسرائیلی مظالم کو جنگی جرائم قرار دینے کے لیے تیار نہیں۔ امریکا نے ایسے سنگین جرائم کے خلاف اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں قرارداد منظور ہی نہیں ہونے دی۔ اسی اخلاقی موت کے باعث امریکا نے ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹم بم گرائے اور اب مالی طور پر اسرائیلی بربریت کی سرپرستی کررہا ہے۔ وہ نہیں چاہتے کہ ان مظالم کے خلاف جرائم کی بین الاقوامی عدالت میں مقدمات چلیں۔
دہرا معیار
مغرب میں تمام اکائیوں کو ایک جیسی آزادی حاصل نہیں۔ لیکن انہوں نے شاغلی ایبدو جیسے جرائد کو یہ آزادی دے رکھی ہے کہ وہ مسلمانوں کے آخری پیغمبر حضرت محمدﷺ کے نازیبا خاکوں کی اشاعت کے لیے تمام حدیں عبور کرجائیں۔ مغربی رہنماؤں نے بھی ان گستاخوں سے مکمل اظہار یک جہتی کے لیے (Je Suis Charlie) ’’میں شاغلی ہوں‘‘ کے نعرے لگائے۔ لیکن انہوں نے دوسروں کو (Je Suis Palestine) ’’میں فلسطینی ہوں‘‘ کے نعرے لگانے کی اجازت نہیں دی۔ مشرقی بریڈ فورڈ سے تعلق رکھنے والے برطانوی رکن پارلیمان ڈیوڈ وارڈ نے ۱۱؍جنوری کو ہوئے پیرس مارچ میں اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کی شرکت پر غصے کا اظہار کیا اور ٹوئٹر پر Je suis Palestine (میں فلسطین ہوں) کا پیغام بھیجا تو ہر جانب سے مذمت کی گئی۔ لندن میں اسرائیلی سفیر نے ہی ڈیوڈ وارڈ کے عمل کی مذمت نہیں کی، اسلام سے خائف برطانوی میڈیا اور سیاست دانوں نے بھی کھل کر ان کی مخالفت کی۔ ڈیوڈ وارڈ برطانوی پارلیمان کے وہ واحد رکن ہیں، جنہوں نے اعلان کیا تھا کہ ’’اگر میں غزہ میں ہوتا تو اسرائیل پر راکٹ داغتا‘‘۔ غزہ پر اسرائیلی بمباری کے دوران اس طرح کا جرأت مندانہ موقف اختیار کرنے پر برطانوی وزیراعظم، حزبِ اقتدار اور حزبِ اختلاف کے رہنماؤں نے ان کی سرزنش بھی کی۔ پارٹی کے پارلیمانی نمائندے نے ڈیوڈ وارڈ کو بیان واپس لینے پر مجبور کیا۔ برطانیہ کی سیاست میں اس طرح کی منافقت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ وہاں اسرائیل کے غیرقانونی قیام کی کھل کر حمایت کی جاتی ہے۔
مغربی قائدین نے اسرائیل کے جنگ پسند رہنماؤں کو فلسطینیوں پر ہر طرح کے مظالم ڈھانے کی کھلی چھوٹ دے رکھی ہے۔ امریکا، برطانیہ، فرانس اور دیگر مغربی ملکوں نے بھی یہی آزادی ویتنام، الجزائر، عراق، افغانستان اور دیگر مقبوضہ ملکوں میں لاکھوں افراد کے قتلِ عام میں استعمال کی۔ لاکھوں فلسطینیوں کو ان کے گھروں سے بے دخل کیا گیا اور وہ ۶۰ برس سے زائد عرصے سے پناہ گزینوں کے کیمپوں میں رہنے پر مجبور ہیں۔ کیا ان جرائم کی مذمت کے لیے آسمان سے کوئی اترے گا؟ لیکن مغرب کا ضمیر اتنے خوف ناک مظالم کے بعد بھی نہیں جاگتا، اسی لیے جنگی جرائم کی کبھی مذمت نہیں کی گئی۔ اس کے بجائے ظلم کے خلاف آواز اٹھانے والوں اور احتجاج کرنے والوں کو سزا دی گئی۔ مغرب نے ایسے لوگوں کو اسلامی انتہا پسند قرار دیا۔ فرانس کے سیاہ فام کامیڈین ڈین ڈون یا لندن کی فنس بیری پارک مسجد کے امام ابو حمزہ نے کسی کو قتل کرنے کے لیے کبھی اسلحہ نہیں اٹھایا۔ انہوں نے اظہار رائے کی آزادی کا حق استعمال کرتے ہوئے مقبوضہ افغانستان اور عراق میں امریکا اور برطانوی مظالم کے خلاف آواز اٹھائی۔ جس کی پاداش میں انہیں جیلوں میں ڈال دیا گیا۔ دوسری جانب پیرس کے شاغلی ایبدو، لندن کے ڈیلی میل اور ڈیلی سن، یورپ کے دیگر اخبارات اور جرائد مغرب کی نفسیات میں کھلے عام نفرت کا زہر گھول رہے ہیں۔
ریاستی پشت پناہی میں گستاخیٔ رسول
شاغلی ایبدو نے حملے کے بعد جریدے کی پہلی اشاعت میں ایک بار پھر گستاخانہ خاکے سرورق پر شائع کیے۔ سرکار کی پشت پناہی میں جریدے کی اس قدر بڑے پیمانے پر اشاعت بلاشبہ مسلمانوں کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے۔ گستاخانہ خاکوں کی اشاعت شاغلی ایبدو نے پہلی بار نہیں کی۔ دعووں کے برعکس یہ فرانسیسی جریدہ غیرجانبدار بھی نہیں۔ شاغلی ایبدو نے اسلامی تعلیمات، شریعت، جہاد اور خلافت کے خلاف انتہائی بدنما پروپیگنڈا مہم شروع کررکھی ہے۔ حضرت محمدﷺ کے خلاف اس کی زہر آلود اور گستاخانہ مہم کا کوئی اخلاقی جواز نہیں۔ گستاخانہ خاکوں کی آڑ میں غیر اخلاقی، نازیبا اور بیہودہ کارٹون کی اشاعت ہی شاغلی ایبدو کا اصل مقصد ہے۔
جن لوگوں نے (Je Suis Charlie) ’’میں شاغلی ہوں‘‘ کے نعرے لگائے، انہوں نے اس نعرے کی آڑ میں اپنے دل کی آواز دنیا تک پہنچانے کی کوشش کی۔ انہوں نے واضح طور پر اعلان کیا کہ مرنے والے کارٹونسٹ کی طرح وہ بھی نبی آخرالزماںﷺ کا (نعوذبااللہ) تمسخر اڑا کر خوشی محسوس کرتے ہیں۔ ان زہر آلود اور گستاخانہ خاکوں کو اسلام اور اس کی عظیم شخصیات کے خلاف نظریاتی جنگ کے لیے استعمال کیا گیا۔ ایسا کوئی شخص جس کے دل میں نبیٔ آخری الزماںؐ کے لیے ذرا سا بھی احترام ہو، وہ ایسے زہرآلود اور غلیظ خاکے آگے پھیلاسکتا ہے۔ یہ عریاں اور گستاخانہ خاکے شائع کرکے کارٹونسٹس نے اظہار رائے کی آزادی کا حق استعمال نہیں کیا۔ اصل میں انہوں نے الزام تراشی کی آزادی کا حق استعمال کیا۔ ایک مسلمان کس طرح شاغلی ایبدو کی حمایت کرسکتا ہے؟ مسلمان تو زندگی کی ہر ہر سانس میں حضرت محمدؐ کا فرماں بردار اور تابع ہوتا ہے۔ وہ اپنی جان سے زیادہ اپنے محبوبؐ کو چاہتا ہے۔ یہ ایزدی تقاضا ہے۔ اس لیے حضرت محمدؐ کا مذاق اڑانا ہر مسلمان کے مذاق اڑانے جیسا ہے۔ اس طرح کے تعصب پر مبنی، گھٹیا اور زہرآلود گستاخانہ خاکے کسی ملک کو ناختم ہونے والی خونی جنگ میں دھکیل سکتے ہیں۔ فرانس میں ۶۵ لاکھ مسلمان بھی آباد ہیں اور یہ ملک تیزی سے جنگ کی جانب بڑھ رہا ہے۔ مسلمانوں کے خلاف اس طرح کے اقدامات کے بعد کسی ملک میں امن اور آسودگی کس طرح ممکن ہوسکتا ہے۔ تمام علامات اس بات کی جانب اشارہ کررہی ہیں کہ یہ جنگ فرانس کی سرحدوں تک محدود نہیں رہے گی۔ پڑوسی ملک بلجیم میں ۱۶؍جنوری کو دو مسلمان قتل اور کئی حراست میں لیے گئے۔ اس معاملے میں فرانسیسی حکومت کا کردار بھی جلتی پر تیل چھڑکنے سے کم نہیں۔ فرانسیسی پارلیمان نے ۴۸۸ ووٹوں کے ذریعے اسلامک اسٹیٹ کے خلاف فوجی کارروائی کی منظوری دی۔ بحیرۂ روم میں فرانس کا ایک طیارہ بردار جہاز پہلے ہی شام کے ساحل کے قریب پہنچ گیا ہے، جو داعش کے خلاف فضائی کارروائیوں میں امریکا کی مدد کررہا ہے۔ یہ اطلاعات بھی ہیں کہ تین ہزار یورپی مسلمانوں نے عراق اور شام میں جاری جنگ لڑنے کے لیے داعش میں شمولیت اختیار کرلی ہے۔ ہزاروں افراد کو اسلامک اسٹیٹ میں شمولیت سے روکنے کے لیے سرحدی چیک پوسٹس اور ہوائی اڈوں پر سفری پابندیاں سخت کردی گئی ہیں۔ فرانس نے اب ان جنگجووں کے لیے اپنی سرزمین پر نئے محاذ کھول دیے ہیں۔
(مترجم: سیف اﷲ خان)
(۔۔۔جاری ہے!)
“The western arrogance and the war at doorsteps”
Leave a Reply