
نائیجیریا کی بوکو حرام اب باضابطہ طور پر دنیا کی مہلک ترین دہشت گرد تنظیم بن چکی ہے۔ یہ برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون اور ان کے ساتھیوں کی لیبیا پر چڑھائی کا براہ راست نتیجہ ہے جو کہ شاید مکمل طور پر غیر ارادی نہیں تھی۔
گلوبل ٹیررازم انڈیکس کی تازہ رپورٹ کے مطابق بوکو حرام نے ۲۰۱۴ء میں ۶,۶۴۴؍افراد قتل کیے جبکہ داعش کے ہاتھوں ۶,۰۷۳ لوگ مارے گئے۔ دونوں گروہوں نے ۲۰۱۳ء کے مقابلے میں چار گنا زیادہ جانیں لیں۔
۲۰۰۹ء میں جب اس تنظیم نے ہتھیار اٹھائے تو اس کے پاس ایسی کارروائیوں کی استعداد نہیں تھی اور ساز و سامان بھی ناکافی تھا، مگر یہ صورتحال ۲۰۱۱ء میں تبدیل ہوگئی۔ جیسا کہ ’’دی ویک‘‘ میں پیٹر ویبر نے لکھا، ’’ان کا اسلحہ ۲۰۰۹ء میں تشدد کا راستہ اپنانے کے بعد سستی اے کے ۴۷ سے صحرا میں لڑنے والی جنگی گاڑیوں اور طیارہ شکن اور ٹینک شکن توپوں میں تبدیل ہوگیا‘‘۔ ان جنگی وسائل تک گروپ کی ڈرامائی رسائی لیبیا پر نیٹو کے حملے کا براہ راست نتیجہ تھی۔ ۲۰۱۲ء کے اوائل میں شائع ہونے والی اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ نے خبردار کیا کہ ’’لیبیا کے ذخائر میں سے بڑی تعداد میں اسلحہ اور گولہ بارود ساحل کے علاقے تک اسمگل کیا گیا ہے‘‘ جس میں جدید ہتھیار بھی شامل ہیں۔ نیٹو نے بڑے مؤثر طریقے سے ایک جدید صنعتی ریاست کے اسلحے کو خطے کے سب سے زیادہ فرقہ پرست گروہوں کے حوالے کردیا: مثلاً لیبیا کا اسلامک فائٹنگ گروپ، القاعدہ اور بوکو حرام۔
نیٹو کی جنگ کا لیبیا سے باہر سب سے پہلا نشانہ مالی بنا۔ قذافی کی افواج میں کام کرنے والے توریغ جنگجوؤں نے قذافی حکومت کا خاتمہ ہوتے ہی لیبیا سے بھاگ کر شمالی مالی میں بغاوت کی آگ بھڑکا دی۔ لیکن جواباً انہیں بھی القاعدہ کے علاقائی اتحادیوں نے ٹکنے نہ دیا۔ لیبیائی اسلحے سے لیس ان گروہوں نے شمالی مالی کو تربیت اور منصوبہ بندی کے ایک اور مرکز میں تبدیل کردیا اور اس کا سب سے زیادہ فائدہ بوکو حرام کو ہوا۔ برینڈن او نیل کے ۲۰۱۴ء میں لکھے گئے مضمون کے الفاظ دہرائے جانے کے قابل ہیں: ’’مغرب کی جانب سے قذافی کو گرائے جانے کے بعد پُرامن شمالی مالی میں پیدا ہونے والے خلا نے بوکو حرام کو بے انتہا مدد دی‘‘۔
ایسا دو طریقوں سے ہوا: اولاً تو اس نے اسلامی مغرب میں القاعدہ جیسے مالی کے تجربہ کار اسلامی شدت پسندوں کے ساتھ لڑ کر اپنی گوریلا صلاحیتوں کو صیقل کیا۔ دوم، قذافی کے بعد لیبیا کی سرحدوں سے نکلنے والے اس کی فوج کے ۱۵۰۰۰؍ہتھیاروں اور آلات پر قبضہ جمالیا۔ اپریل ۲۰۱۲ء میں اے ایف پی نے رپورٹ کیا کہ ’’بوکو حرام کے درجنوں جنگجو‘‘ شمالی مالی میں القاعدہ اور دیگر گروہوں کی مدد کررہے ہیں۔ لامحالہ اس کے بدترین اثرات پھر نائیجیریا پر پڑے۔ واشنگٹن پوسٹ نے ۲۰۱۳ء کے اوائل میں لکھا کہ ’’شمالی نائیجیریا کی بغاوت مزید خونریز دور میں داخل ہوگئی ہے کیونکہ قریبی مالی میں لڑنے والے عسکریت پسند انتہائی جدید ساز و سامان اور حربوں کے ساتھ واپس آرہے ہیں‘‘۔
لیبیا میں نیٹو کی مداخلت کے یہ نتائج متوقع بھی تھے اور بڑے پیمانے پر ان خدشات کا اظہار بھی کیا گیا تھا۔ جون ۲۰۱۱ء میں ہی افریقی یونین کے چیئرمین نے نیٹو کو خبردار کیا تھا کہ ’’افریقا کا خدشہ یہ ہے کہ ہتھیار کسی بھی فریق کو دیے جائیں، وہ سب صحرا میں ہی موجود ہیں اور ان سے دہشت گردوں اور اسمگلنگ کو مدد مل سکتی ہے‘‘۔ مالی اور الجیریا نے نیٹو کی جانب سے لیبیا کو تباہ کرنے کی شدید مخالفت اسی لیے کی تھی کہ اس سے خطہ بدترین عدم استحکام کا شکار ہوسکتا تھا۔ اونیل کے بقول ان کا مؤقف تھا کہ ’’شمالی افریقا جیسے خطے میں اس طرح کی متشدد کارروائی آفت انگیز نتائج کی حامل ہوسکتی ہے۔ جیسا کہ بی بی سی نے رپورٹ کیا، وہ یہ بات ’لیبیا میں لڑائی شروع ہونے کے وقت سے ہی کہہ رہے تھے‘ یعنی بن غازی میں باغیوں اور قذافی کی جنگ چھڑنے کے وقت سے، اور انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ ’قذافی کی رخصتی خطے میں عدم استحکام کا باعث بنے گی‘۔ شمالی مالی کے باغیوں کے ہاتھوں میں جانے کے بعد برطانوی افواج کے سابق چیف آف اسٹاف میجر جنرل جوناتھن شا نے اخبار میں لکھا کہ کرنل قذافی ’’ساحل کے سیکیورٹی پلان‘‘ کا وہ ’’بنیادی پتھر‘‘ تھے جس کے ہٹنے سے سارے خطے کی سلامتی متوقع طور پر داؤ پر لگ گئی ہے۔ بوکو حرام کا عروج اس کے نتائج میں سے ایک ہے، جس کے تزویراتی فوائد لامحالہ مغرب کو بھی پہنچے۔
نائیجیریا کو امریکا کبھی براعظم افریقا میں اپنے سب سے زیادہ قابل بھروسا اتحادیوں میں سے ایک سمجھتا تھا۔ اس کے باوجود عالمی جنوب میں جاری لہر کی طرح حالیہ برسوں میں نائیجیریا بھی چین کے قریب ہوتا جارہا ہے۔ اس حوالے سے شہ سرخیوں میں آنے والا ۲۳ بلین ڈالر کا معاہدہ ۲۰۱۰ء میں کیا گیا جس کے تحت چین کو تین آئل ریفائنریز قائم کرکے نائیجیریا کی پیداواری صلاحیت میں ۷۵۰،۰۰۰ بیرل تیل یومیہ کا اضافہ کرنا تھا۔ اس کے بعد ایک معاہدہ ۲۰۱۳ء میں ہوا جس کی رُو سے چین کو نائیجیریا کی درآمدات دس گنا اضافہ کرنا تھا۔ لیکن چین کے معاشی مفادات اس سے کہیں بڑھ کر ہیں۔
ایک نائیجیریائی سفارت کار کے بقول ’’چینی ہماری معیشت کے ہر شعبے میں شامل ہونے کی کوشش کررہے ہیں‘‘۔ ۲۰۰۶ء میں چین نے ریلوے کی تعمیر نو کے لیے نائیجیریا کو کم سود پر آٹھ اعشاریہ تین بلین ڈالر قرضہ دیا اور اگلے سال اسے ٹیلی کمیونی کیشن سیٹلائٹ بنا کر دی۔ دونوں ملکوں کے مابین گزشتہ برس ہونے والی ۱۸؍بلین ڈالر کی تجارت کا ۸۸ فیصد سے زائد حصہ پیٹرولیم کے علاوہ دیگر شعبوں پر محیط تھا، اور ۲۰۱۲ء کے بعد سے نائیجیریا کی اپنے سب سے بڑے درآمدی شراکت دار چین سے آنے والی درآمدات دوسرے بڑے درآمدی شراکت دار امریکا اور تیسرے بڑے شراکت دار بھارت سے مجموعی طور پر زیادہ رہی ہیں۔ اس طرح کی تجارت اور سرمایہ کاری مصنوعات کی قدر بڑھانے میں افریقا کی مدد کررہی ہیں، جس سے مغرب کا عالمی معاشی نظام خود بخود متاثر ہورہا ہے جس میں افریقا کو محض سستے خام مال کا ایک کم ترقی یافتہ برآمد کنندہ سمجھا جاتا ہے۔
ایسا نہیں ہے کہ چین کا تعاون صرف معیشت تک محدود ہے۔ ۲۰۰۴ء میں اس نے اقوام متحدہ میں سلامتی کونسل کی نشست کے لیے نائیجیریا کی حمایت کی اور ۲۰۰۶ء میں نائیجیریا چین کے ساتھ تزویراتی شراکت داری کے لیے مفاہمت کی یادداشت پر دستخط کرنے والا پہلا افریقی ملک بن گیا۔ اس شراکت داری کو ٹھوس عوامی حمایت بھی حاصل ہے: ۲۰۱۱ء میں کیے گئے بی بی سی کے ایک سروے کے مطابق ۸۵ فیصد نائیجیریائی شہری چین کو مثبت نظر سے دیکھتے ہیں۔ اور یہ شاید حیران کن نہیں ہے کیونکہ جیمز ٹاؤن فاؤنڈیشن جیسے امریکا نواز تھنک ٹینکس بھی مانتے ہیں کہ ’’مغرب کے مقابلے میں نائیجیریا کے ساتھ چین کے روابط معیار کے لحاظ سے مختلف ہیں، جس کے نتیجے میں نائیجیریا کے عوام کو فائدہ پہنچ سکتا ہے‘‘۔ اس شراکت داری کی اہمیت کو واضح کرنے کے لیے موجودہ چینی وزیراعظم لی چیانگ نے ۲۰۱۳ء میں عہدہ سنبھالتے ہی نائیجیریا کو اپنے پہلے غیرملکی دورے کے لیے چنا تھا۔
جنوب کا جنوب کے ساتھ یہ بڑھتا ہوا تعاون امریکا کو ایک آنکھ نہیں بھارہا، کیونکہ اس پر انحصار کرنے والا ایک گاہک اب اپنے مدار سے نکل رہا ہے۔ امریکی ارکان کانگریس، فوجی حکام اور توانائی کے ماہرین پر مشتمل ’’افریقن آئل پالیسی اینی شی ایٹیو گروپ‘‘ نے ۲۰۰۲ء میں ہی کہا تھا کہ مغربی افریقا میں امریکی اثر و رسوخ کے لیے چین ایک خطرہ ہے جس کو عسکری طریقوں سے روکنے کی ضرورت ہے، اور چین کو امریکی پالیسی ساز مسلسل ایک ایسے تزویراتی خطرے کے طور پر دیکھ رہے ہیں جس کے ساتھ فوجی انداز میں نمٹنا چاہیے۔ اسی سال جولائی میں امریکی چیف آف اسٹاف مارٹن ڈیمپسی کی ایک رپورٹ میں چین کو امریکی بالادستی کے لیے ’خطرہ‘ قرار دیا گیا، حالانکہ اوباما کی ـPivot to Asiaـ پالیسی میں اسے ۲۰۱۳ء میں ہی واضح کردیا گیا تھا۔
تو کیا یہ سوچنا بہت دور کی کوڑی لانے کے مصداق ہوگا کہ امریکا اپنے تزویراتی حریف چین کو زک پہنچانے کے لیے نائیجیریا جیسے اس کے اتحادیوں کو غیرمستحکم کرے گا؟ کیونکہ بہرحال نائیجیریا سے امریکا کے تعلقات میں کتنا ہی تسلسل کیوں نہ رہا ہو، بوکو حرام کی کارروائیوں کا اثر چین سے زیادہ نائیجیریا کے کسی غیرملکی شراکت دار پر نہیں پڑے گا۔ جیسا کہ جیمز ٹاؤن فاؤنڈیشن نے واضح کیا: ’’دیگر بہت سے غیر ملکی کرداروں کے برعکس چین نائیجیریا کے غیرمنقولہ اثاثوں میں سرمایہ کاری کررہا ہے، جن میں ریفائنریاں اور فیکٹریاں شامل ہیں اور اس کا ارادہ ایک طویل معاشی شراکت داری قائم کرنے کا ہے۔ ظاہر ہے کہ نائیجیریا میں استحکام اور اچھی حکمرانی بیجنگ کے لیے فائدہ مند ہے کیونکہ وہاں چینی مفادات کے تحفظ کا یہی واحد طریقہ ہے‘‘۔
اگر امریکا چینی مفادات کو نقصان پہنچانے کی خاطر حکمت عملی بنا رہا ہے، جس کے کافی اشارے موجود ہیں، تو اس سے بہرحال یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ نائیجیریا میں عدم استحکام سے ہی اس بات کی ضمانت ملے گی کہ وہاں چینی مفادات کو خطرہ ہے، اور امریکا کے تزویراتی مقاصد بھی خود بخود حاصل ہوجائیں گے۔ بوکو حرام کے خلاف نائیجیریا کی پشت پناہی کا غلغلہ بلند کرکے گزشتہ سال ہتھیاروں کی فراہمی روکنے، نائیجیریا کے بجائے، اس کے پڑوسیوں کو سرمایہ فراہم کرنے، اور جولائی ۲۰۱۴ء سے نائیجیریائی خام تیل کی درآمد پر پابندی لگانے (ایک قومی روزنامے کے مطابق ’’ایسا فیصلہ جس کے بعد نائیجیریا بدترین اقتصادی بحران کی زد میں آگیا‘‘) سے تو یہی اشارہ ملتا ہے۔
(ترجمہ: حارث رقیب عظیمی)
“‘Deadliest terror group in the world’: The West’s latest gift to Africa”. (“rt.com”. Nov. 27, 2015)
Leave a Reply