
لاہور شہر کے پرانے علاقے میں ایک پرہجوم بازار کے اندر ایک کباڑی کی دکان ہے جس پر پرانی بوتلوں کا کاروبار ہوتا ہے۔ اس دکان میں دنیا بھر کی بوتلیں دستیاب ہیں۔ کباڑی کا کہنا ہے کہ پہلے اس کے پاس شراب کی استعمال شدہ بوتلیں کم آیا کرتی تھیں، اب زیادہ آتی ہیں۔ اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ لوگ شراب زیادہ پینے لگے ہیں۔
راولپنڈی میں ۳۷ سالہ اسفنیار بھنڈارہ جس ڈیسک کے پاس بیٹھے ہیں اس کی پشت پر شراب کی بھری ہوئی بوتلیں سجی ہیں۔ ٹیک کی لکڑی سے بنی ہوئی ۱۰۰ سالہ شیلف میں وہسکی، جن، واڈکا اور دیگر شرابیں بوتلوں میں بھری رکھی ہیں۔ اسفنیار کا خاندانی کاروبار شراب بنانا اور فروخت کرنا ہے۔ وہ پاکستان کی سب سے بڑی شراب ساز فیکٹری مری بریوری کے مالک ہیں جس کا قیام ۱۸۶۰ء میں عمل میں آیا اور جس کے عملے کی تعداد ۸۰۰ ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس میں درجن سے بھی کم غیر مسلم ہیں۔ دو سال قبل اپنے والد منوچر بھنڈارہ کے انتقال کے بعد اسفنیار اس ادارے کے سربراہ بنے۔ پاکستانی معاشرے میں شراب کے حوالے سے جو تصورات پائے جاتے ہیں ان کے بارے میں سوچ کر اسفنیار پریشان رہتے ہیں۔ ۱۹۷۷ء تک شراب آسانی سے دستیاب تھی، کھلے عام فروخت ہوتی تھی۔ اس وقت کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے، جن کے عہد میں شراب فروخت ہوتی رہی تھی، مذہبی جماعتوں کو خوش کرنے کے لیے، اپنی حکومت کا تختہ الٹے جانے سے چند ہفتے قبل، شراب کی فروخت پر پابندی عائد کی۔ جنرل ضیاء الحق کے دور میں شراب کی فروخت کو دوبارہ شروع کرنے کی اجازت حاصل کرنے میں ساڑھے چھ سال لگے۔ ایم پی بھنڈارہ نے محدود پیمانے پر شراب تیار کرنے اور صرف غیر مسلموں کو فروخت کرنے کی اجازت بڑی مشکل سے حاصل کی۔ اسفنیار بھنڈارہ کا کہنا ہے کہ جنرل ضیاء الحق کو راضی کرنا آسان نہ تھا۔
ایک عشرے کے دوران شراب کی فروخت میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے۔ ۳۰ جون ۲۰۰۸ء کو ختم ہونے والے سال میں مری بریوری کا قبل از ٹیکس منافع ۳۰ کروڑ ۸۰ لاکھ روپے تھا۔ ۳۰ جون ۲۰۰۹ء کو یہ رقم بڑھ کر ۷۲ کروڑ روپے ہوچکی تھی۔ پاکستان کے تین شراب ساز اداروں میں دوسرا بڑا کوئٹہ میں ہے۔ اس ادارے کی مالک نیلوفر ابدان کا کہنا ہے کہ منافع میں اضافہ ہوا ہے تاہم انہوں نے کوئی رقم نہیں بتائی۔ نیلوفر کا کہنا ہے کہ ان کا ادارہ محض ڈسٹلری ہے اس لیے وہ بیئر نہیں بنا سکتیں جس کی ملک میں خاصی مانگ ہے۔
گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور میں عمرانیات کی استاد عائشہ فاروق کہتی ہیں کہ پاکستان میں صرف غیر مسلم ہی شراب کی فروخت اور منافع میں اضافے کا باعث نہیں۔ بالائی اور زیریں طبقے کے لوگ بھی بڑے پیمانے پر شراب استعمال کر رہے ہیں۔ غریب آدمی اپنی مشکلات بھلانے کے لیے شراب پیتا ہے جبکہ اعلیٰ طبقے کے لوگ بیزاری پر قابو پانے کے لیے شراب کا سہارا لیتے ہیں۔ عائشہ فاروق کہتی ہیں کہ ایک عشرے کے دوران پاکستان میں غیر ملکی ٹی وی چینلز کی ویوئر شپ بڑھی ہے جس کے نتیجے میں دوسری ثقافتوں کے اثرات بھی ہم پر مرتب ہوئے ہیں۔ اس تبدیلی نے شراب کے استعمال کو بڑھانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
شراب نوشی کا ایک بنیادی تعلق معاشی خرابی سے بھی ہے۔ جب معیشت کا حال برا ہوتا ہے تب لوگ زیادہ شراب پینے لگتے ہیں۔ عائشہ فاروق کے اس استدلال کو ڈیٹا مانیٹر گروپ کی اس اسٹڈی سے بھی تقویت ملتی ہے جو بھارت میں شراب کے استعمال کے حوالے سے کی گئی ہے۔ اسٹڈی کے مطابق بھارت میں معاشی بحران کے دوران شراب کا استعمال خطرناک حد تک بڑھ جاتا ہے۔ ۲۰۰۸ء کے معاشی بحران، دہشت گردی اور خود کشی کے بحران نے مل کر مزید پاکستانیوں کو شراب کی طرف دھکیلا ہے۔ جون میں ختم ہونے والے مالی سال میں حکومت نے شراب کی فروخت پر ٹیکس سے تین ارب روپے کمائے۔ ان میں ایک ارب ۷۲ کروڑ روپے سندھ سے، گیارہ کروڑ ۸۰ لاکھ روپے بلوچستان سے اور ۹۲ کروڑ ۶۰ لاکھ روپے پنجاب سے حاصل ہوئے۔ خیبر پختونخواہ میں بھی شراب پی جاتی ہے تاہم وہاں سے اعداد و شمار کا حصول دشوار ہے۔ اب تک واضح نہیں ہوسکا ہے کہ صوبے میں کس حد تک شراب پی جاتی ہے اور اس سے حکومت کو ہونے والی آمدنی کتنی ہے۔
پاکستان میں شراب پینا قانونی طور پر جرم اور مذہبی اعتبار سے گناہ ہے اس لیے عام طور پر یہ شوق چھپ کر پورا کیا جاتا ہے۔ ایسے میں شراب پینے والوں کی حقیقی تعداد اور پی جانے والی شراب کی اصل تعداد کا درست اندازہ لگانا آسان نہیں۔ بسنت اور دیگر تہواروں پر بھی شراب کھل کر پی جاتی ہے مگر چونکہ یہ کام چار دیواری کے اندر ہوتا ہے اس لیے صرف کے رجحان کا اندازہ لگانے میں دشواری پیش آتی ہے۔ ملک بھر کے غرباء میں کچی اور سستی شراب پینے کا رجحان بھی عام ہے۔ بڑی فیکٹریز کی تیار کی ہوئی شراب خریدنا ان کے بس کی بات نہیں جن کی دہاڑی بمشکل ڈیڑھ دو سو روپے ہو۔ سستی اور کچی شراب پینے سے واقع ہونے والی ہلاکتوں کی خبریں بھی میڈیا میں آتی رہتی ہیں۔
مری بریوری کے مالک اسفنیار بھنڈارہ کہتے ہیں کہ حکومت تعاون کرے تو کچی اور گھٹیا شراب سے ہونے والی ہلاکتیں روکی جاسکتی ہیں۔ معیاری شراب کی فروخت سے لوگوں کی زندگی بھی خطرے میں نہیں پڑے گی۔ وہ چاہتے ہیں کہ دیہی علاقوں میں بھی شراب فروخت کرنے کی اجازت دی جائے۔ سندھ بھر میں شراب کی فروخت کا لائسنس رکھنے والی دکانیں صرف ۹۵ ہیں۔ جولائی میں سندھ کی حکومت نے شراب کی فروخت کے لیے مزید ۲۲ دکانوں کے لائسنس جاری کرنے کا فیصلہ کیا تو جماعت اسلامی نے حکومت کے خلاف مظاہرے کیے۔ وزیر اعلیٰ سندھ کے ترجمان کا کہنا ہے کہ احتجاج کا نتیجہ یہ برآمد ہوا ہے کہ اب تک صرف دو اضافی لائسنس جاری کیے جاسکے ہیں۔
پاکستان میں شراب بنانے اور فروخت کرنے کا کاروبار مشکلات سے دوچار رہا ہے۔ معیشت کی خرابی اور امن و امان کی صورت حال کے باعث شراب ساز اداروں کو خاصی پریشانی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ شراب برآمد کرنے کی اجازت دیکر اس صورت حال کو تبدیل کیا جاسکتا ہے۔ اسفنیار بھنڈارہ کہتے ہیں کہ بھارت اور افغانستان سمیت کئی ممالک کو شراب اور بیئر برآمد کی جاتی تھی مگر اب یہ سلسلہ تھم چکا ہے۔ اسی طرح فوج کو شراب کی فراہمی بھی روک دی گئی۔ (مری بریوری برطانوی فوج کو مقامی طور پر تیار کی جانے والی شراب کی فراہمی کے لیے قائم کی گئی تھی۔) اسلامی نظریاتی کونسل کا کہنا ہے کہ شراب کی برآمد سے پاکستان کا امیج خراب ہوگا۔ اب پاکستان صرف صنعتی استعمال کی الکحل برآمد کرتا ہے۔
شراب کی برآمد پر پابندی نے مری بریوری کو شیشے اور غیر نشہ آور مشروب کی تیاری پر مجبور کیا۔ مگر اس کاروبار میں منافع برائے نام ہے۔ بھنڈارہ خاندان کئی سال سے آسٹریلیا کے فوسٹرز اور ڈنمارک کے چارلس برگ شراب ساز ادارے سے اشتراک عمل کی کوشش کر رہا ہے۔ ان کی شراب پاکستان میں تیار کی جائے گی اور یورپی مارکیٹس کے لیے مری بریوری کی شراب یہ ادارے تیار کریں گے۔
(بشکریہ: ’’نیوز ویک پاکستان‘‘۔ ۲۷ ستمبر۲۰۱۰ء)
Leave a Reply