
کیا بارک اوباما امریکی زوال کے امیدوار ہیں؟ خارجہ پالیسی کی مہارت کے تعلق سے ان کے بعض حامیوں کے خیالات سُن کر آپ کا خیال ہو گا کہ وہ واقعتا ہیں۔
فرانسس فوکویاما کا کہنا ہے کہ وہ اوباما کی حمایت کرتے ہیں کیونکہ ان کا خیال ہے کہ اوباما امریکی زوال کو سنبھالا دینے میں مک کین کے مقابلے میں زیادہ بہتر ثابت ہوں گے۔ فرید ذکریا ہفتہ وار سپاسنامے اوباما کی حقیقت پسندی پر تحریر کر رہے ہیں جس سے ان کی مراد امریکا کے بعد کی دنیا سے اوباما کا سمجھوتہ ہے۔ کہنا چاہیے کہ اوباما نے کوئی خاص کام نہیں کیا ہے جس کی وجہ سے وہ ان قائلین زوالِ امریکا کی تعریف کے مستحق ہو سکیں۔ امریکا کے مستقبل کے حوالے سے اوباما کا نقطۂ نظر کم از کم جس کا اظہار انھوں نے انتخابی مہم کے دوران کیا ہے وہ مناسب طور پر امید افزاء رہا ہے یہی وجہ ہے کہ وہ مختلف سروے رپورٹوں میں وہ کامیاب جا رہے ہیں۔ اگر وہ ذکریا اور فوکویاما کی طرح کی کوئی بات کرتے تو وہ اب تک میدان سے باہر ہو چکے ہوتے۔ امید کی جاتی ہے جو بھی آئندہ ہفتے فتحیاب ہو گا وہ فوراً ہی قنوطیت پر مبنی زوال کی باتوں کو مسترد کر دے گا۔ اس طرح کی کیفیت ہر دس سال بعد یا تقریباً ایسی ہی کچھ مدت بعد پیدا ہوتی ہے۔ ۱۹۷۰ء کی دہائی کے اواخر میں خارجہ پالیسی نظام غیر فعال ہو کر رہ گیا تھا جسے Cyrus Vance نے ’’اپنی قوت کی حدود‘‘ کا نام دیا تھا۔ ۱۹۸۰ء کی دہائی کے اواخر میں دانشور پال کینڈی نے امریکی اقتدار کے فوری زوال کی پیش گوئی کی تھی۔ اس کی وجہ ’’سلطنتی امور کا حد سے زیادہ پھیلنا‘‘ تھی۔ نوے کی دہائی کے اواخر میں سموئیل ہنٹنگٹن (Samuel Huntington) نے امریکی تنہائی کو ’’تنہا سپر پاور‘‘ سے تعبیر کیا۔ اب ہمارا سامنا ’’ماورائے امریکا دنیا‘‘ سے ہے۔ اگرچہ امریکی زوال کے شواہد بہت کمزور ہیں۔ہاں ذکریا جس طرح محسوس کرتے ہیں کہ دنیا کی عظیم ترین Ferris Wheel سنگاپور میں ہے اور سب سے بڑا Casino مکائو میں ہے۔ لیکن قوت کے قدرے سنجیدہ پیمانوں کے مطابق امریکازوال آمادہ نہیں ہے حتیٰ کہ دوسری قوتوں کے مقابلے میں بھی۔ گزشتہ سال عالمی معیشت میں اس کا حصہ تقریباً ۲۱ فیصد تھا۔ ۱۹۹۰ء میں یہ حصہ ۲۳ فیصد تھا، ۱۹۸۰ء میں ۲۲ فیصد تھا اور ۱۹۶۰ء میں ۲۴ فیصد تھا۔ اگرچہ امریکا مالیاتی بحران سے گزر رہا ہے لیکن یہ معاملہ تو ہر دوسری اہم معیشت کے ساتھ ہے۔ اگر ماضی کسی رہنمائی کا کام کر سکتا ہے تو لچکدار امریکی معیشت مندی سے نکل آنے والی پہلی معیشت ہو گی اور عالمی معیشت میں اپنا فزوں تر مقام حاصل کر لینے والی ہو گی۔ مزید یہ کہ امریکا کی فوجی قوت ناقابل موازنہ ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ چین اور روس کی فوجی قوت فروغ پا رہی ہے لیکن امریکا کی فوجی قوت بھی مائل بہ ترقی ہے اور ان دونوں سے زیادہ ٹیکنالوجی کے لحاظ سے اس کے ترقی کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ امریکا اور چین کی طاقت اپنے ہمسایہ ممالک اور خطے کے ممالک کی قوت کے مقابلے میں فروغ پا رہی ہے جو تزویراتی نوعیت کی دشواریوں کا موجب ہو گی لیکن اس کی بھی وجہ یہ ہے کہ امریکی اتحادی بالخصوص یورپ نے بڑے منظم انداز میں اپنی دفاعی ضرورتوں سے اغماض برتا ہے۔ متعدد عالمی سروے سے پتا چلتا ہے کہ امریکا کی نیک نامی یقینی طور سے مجروح ہوئی ہے۔ لیکن اس کے عملی اثرات کیا ہوں گے یہ ہنوز واضح نہیں ہے۔ کیا آج امریکا کا امیج ۶۰ اور ۷۰ کی دہائی سے بھی زیادہ خراب ہے جس دوران ویتنام جنگ، Watts فساد، My Lai قتل عام، جان ایف کینیڈی، مارٹن لوتھرکنگ اور بوبی کینیڈی کا قتل نیز واٹر گیٹ اسکینڈل رونما ہوا؟ کیا کسی کو لاکھوں پر مشتمل وہ امریکا مخالف مظاہرے یاد ہیں جو ان دنوں یورپ کی سڑکوں پر نکالے جا رہے تھے؟ آج باوجود سروے جائزوں کے صدر بش نے یورپ اور ایشیا کے اپنے اتحادیوں سے تعلقات کو بحال کر لیا ہے اور آئندہ صدر اسے مزید بہتر بنا سکیں گے۔ حقیقت تقریباً دو دہائیوں سے پسندانہ نظریات کے حامل کئی اہلِ فکر حضرات کی مستقل یہ پیش بینی رہی ہے کہ دنیا امریکا کے خلاف اپنا پلڑا متوازن رکھے گی۔ لیکن بھارت جیسے ممالک امریکا سے قریب ہو رہے ہیں اور اگر کسی توازن کی برقراری سامنے آ رہی ہے تو وہ چین، روس اور ایران کے خلاف ہے۔
Richard Hass کی طرح کے سنجیدہ تجزیہ نگار یہ تسلیم کرتے ہیں کہ ’’امریکا دنیا کا واحد طاقتور ترین ملک ہے‘‘۔ لیکن وہ خبردار بھی کرتا ہے کہ ’’امریکا اپنی بالادستی مسلط نہیں کر سکتا نہ ہی املا دینے کی پوزیشن میں ہے اور نہ ہی اسے یہ توقع کرنی چاہیے کہ دوسرے اس کی پیروی کریں گے‘‘۔ یہ بالکل درست بات ہے۔ لیکن یہ بات کب درست نہیں تھی۔ کیا کبھی کوئی ایسا وقت رہا ہے جبکہ امریکا کلی طور سے بالادستی رکھتا تھا، املا دیا کرتا تھا اور ہمیشہ اپنی ہی بات منوایا کرتا تھا۔ زوال کی خبر دینے والے بہت سے دانشور اس افسانوی ماضی کی یاد میں گم ہیں کہ جب دنیا امریکی ساز پر تھرکتی تھی۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد کے دور میں جو کہ امریکا کی بالادستی کا دور تھا پرانی یادوں میں گمشدگی کا رجحان حیرت انگیز طور پر فروغ پایا۔ لیکن ۱۹۴۵ء سے ۱۹۶۵ء کے درمیانی عرصے میں امریکا واقعتا یکے بعد دیگرے آفات سے دوچار ہوتا رہا۔ مثلاً چین کا کمیونزم کے ہاتھوں میں چلا جانا، جنوبی کوریا پر شمالی کوریا کا حملہ، سوویت روس کا ہائیڈرجن بم کی آزمائش کرنا، انڈو چائنا میں نو آبادیاتی دور کے بعد قوم پرستی کے جذبات کا فروغ پانا۔ ان میں سے ہر ایک واقعہ اول درجے کا تزویراتی صدمہ ثابت ہوا۔ پھر ان میں سے ہر ایک واقعہ پر قابو پانا یا ان کو کامیابی سے منظم کرنا امریکی طاقت کے کنٹرول سے باہر تھا۔ گیارہ ستمبر کو چھوڑ کر گزشتہ دہائی میں کوئی ایسا حادثہ رونما نہیں ہوا جو دنیا میں امریکا کو نقصان دینے کے حوالے سے مذکورہ حادثات کی سنگینی لیے ہو۔ بہت سے لوگ سوال کریں گے کہ ’’ لیکن عراق کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟‘‘ حتیٰ کہ مشرق وسطیٰ میں بھی جہاں جنگ کی وجہ سے امریکا کی نیک نامی کو سب سے زیادہ نقصان پہنچا ہے۔ وہاں بھی حلیفوں کی کوئی نئی صف بندی نہیں ہوئی جو بنیادی اور تزویراتی نوعیت کی حامل ہو۔ جو پرانے امریکی اتحادی ہیں وہ ہنوز امریکی اتحادی ہیں اور عراق جو ایک زمانے میں امریکا مخالف تھا اب امریکا کا اتحادی ہے۔ یہ اُن تزویراتی صدموں کے بالکل برعکس ہے جو امریکا کو سرد جنگ کے دوران سہنا پڑا۔ ۵۰ اور ۶۰ کی دہائیوں میں عرب قوم پرستی کی تحریک نے امریکا نواز حکومتوں پر جھاڑو پھیر دی اور سوویت یونین کے لیے مثالی مداخلت کا دروازہ کھول دیا۔ اس کی مثال ماسکو کا مصر کے جمال عبدالناصر اور شام کے ساتھ اتحاد و مفاہمت ہے۔ ۱۹۷۹ء میں امریکی حکمت عملی کا مرکزی ستون منہدم ہو گیا جب آیت اللہ خمینی کے انقلاب نے شاہ ایران کو تختِ اقتدار سے بے دخل کر دیا۔ اس سے تزویراتی توازن میں بنیادی تبدیلی پیدا ہوئی جس کے اثرات بد سے امریکا ہنوز جوجھ رہا ہے۔ اس طرح کوئی چیز عراق جنگ کے نتیجے میں سامنے نہیں آئی۔ لہٰذا ایک چھوٹا تناظر شاید زیر ترتیب ہے۔ آج کی زوال گوئی کا خطرہ یہ نہیں ہے کہ یہ سچ ہے بلکہ یہ ہے کہ مبادہ آئندہ صدر اسے سچ مان کر اقدام نہ کریں۔ اچھی خبر یہ ہے کہ مجھے اس میں شک ہے کہ کوئی بھی امیدوار حقیقتاً ایسا کرے گا۔ مجھے اعتماد ہے کہ امریکی عوام اس کو اچھا نہیں سمجھیں گے اگر انھوں نے اس کی کوشش بھی کی۔
نوٹ: رابرٹ کاگن Carnegie Endowment for International Peace میں سینئر ایسوسی ایٹ ہیں۔
(بشکریہ: روزنامہ ’’ڈان‘‘ کراچی۔ ۲ نومبر ۲۰۰۸ء)
Leave a Reply