
دنیا کی بہترین یونیورسٹیوں کے درمیان مقابلے کی تازہ ترین فہرست میں ایک بار پھر امریکا کے میسا چوسٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (MIT) نے پہلا مقام حاصل کرلیا ہے۔ یہ مسلسل تیسرا سال ہے جب اس امریکی یونیورسٹی کو، جسے سائنس اور ٹیکنالوجی میں تحقیق کے حوالے سے عالمی شہرت حاصل ہے ’’QS ورلڈ یونیورسٹی رینکنگ‘‘ میں سرفہرست رہنے کا اعزاز حاصل ہوا ہے۔ سائنسی علوم کے لیے مشہور ایک اور یونیورسٹی امپیریل کالج لندن کو دوسرا مقام دیا گیا ہے جس میں کیمبرج یونیورسٹی بھی اس کے ساتھ شریک ہے، یعنی اسے بھی دوسری پوزیشن کا حق دار قرار دیا گیا ہے۔ چوتھی پوزیشن پر ہارورڈ یونیورسٹی ہے جسے دنیا کی سب سے دولت مند یونیورسٹی کا بھی اعزاز حاصل ہے۔ پانچویں مقام پر برطانیہ کی دو اور یونیورسٹیوں، یونیورسٹی کالج لندن اور آکسفرڈ کو مشترکہ طور پر رکھا گیا ہے جبکہ کنگز کالج لندن کو سولہواں مقام ملا ہے۔
ہوسکتا ہے کہ یونیورسٹی کی تعلیم کے بعض ماہرین اور رہنماؤں کو اس قسم کی درجہ بندی پر تحفظات ہوں یا وہ اسے مشکوک سمجھتے ہوں لیکن اس کے باوجود انہیں بھی یہ بات بہت اچھی طرح معلوم ہے کہ اس درجہ بندی کی کتنی زیادہ اہمیت ہے۔ آکسفرڈ یونیورسٹی میں داخلوں کے سربراہ مائک نکلسن کا کہنا ہے کہ ’’یہ بات درست طور پر کہی جاسکتی ہے کہ اگر کوئی یونیورسٹی، مقابلے کی فہرستوں کو بہت زیادہ اہمیت نہیں دیتی ہے تو وہ دانائی کا مظاہرہ نہیں کررہی ہے‘‘۔ یہ درجہ بندیاں یا رینکنگ یونیورسٹیوں کی شہرت اور ان کا تشخص نمایاں کرنے میں جو کردار ادا کر رہی ہیں، اس سے کسی کو انکار نہیں ہوسکتا۔
ان ہی درجہ بندی کی بنیاد پر طلبہ ان میں کشش محسوس کرتے ہیں اور ان میں داخلے کی کوشش کرتے ہیں، پڑھانے والے اساتذہ تدریسی فرائض کی انجام دہی کے لیے ان کا انتخاب کرتے ہیں اور تحقیق کے لیے سرمایہ فراہم کرتے وقت بھی یونیورسٹیوں کی درجہ بندی کو ملحوظ رکھا جاتا ہے۔ کسی بھی یونیورسٹی کی ویب گاہ اس وقت تک مکمل نہیں سمجھی جاتی جب تک اس میں یہ دعویٰ موجود نہ ہو کہ مذکورہ یونیورسٹی کسی ایک شعبے میں یا دوسرے شعبے میں ٹاپ سو میں شامل ہے۔
اس سلسلے میں جو چیز حیران کن محسوس ہوتی ہے، وہ یہ ہے کہ اعلیٰ تعلیم کے شعبے میں اس قسم کی درجہ بندی کا رجحان حال ہی میں شروع ہوا ہے۔ اس سے پہلے اس قسم کی درجہ بندی دیکھنے میں نہیں آتی تھی۔ QS درجہ بندی کا یہ صرف دسواں سال ہے جبکہ سب سے پہلے عالمی سطح پر یونیورسٹیوں کے درمیان مقابلے کی جو فہرست شائع کی گئی تھی، اس کا نام Academic Ranking of World Universities تھا۔ اسے شنگھائی کی ’’جیاؤ گونگ یونیورسٹی‘‘ نے تیار کیا تھا اور پہلی بار ۲۰۰۳ء میں اسے شائع کیا گیا تھا۔ اس درجہ بندی کے رجحان میں اضافے کی ایک وجہ اعلیٰ تعلیم کے شعبے کی عالمگیریت (Globalization) ہے تو دوسری وجہ معلومات کی بذریعہ انٹرنیٹ شیئرنگ بھی ہے۔ یہ بات پھر بھی قابل غور ہے کہ کسی یونیورسٹی کو سرفہرست کیسے قرار دیا جاتا ہے؟ اور آخر کیا وجہ ہے کہ اعلیٰ تعلیمی اداروں کے ایک چھوٹے سے گروپ نے بہترین یونیورسٹیوں کی فہرست میں سب سے اوپر کے درجوں پر بظاہر قبضہ جما رکھا ہے جس میں شاید ہی کبھی کسی دوسری یونیورسٹی کو فائز ہونے کا موقع ملتا ہے؟
QS رینکنگ کے حوالے سے یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ اس کی درجہ بندی کو بہت زیادہ معتبر سمجھا جاتا ہے اور اس میں سب سے پہلے اور سب سے زیادہ اہمیت تعلیمی شہرت کو دی جاتی ہے۔ اس کا اندازہ دنیا بھر میں ساٹھ ہزار سے زیادہ اعلیٰ تعلیم کے ماہرین کے سروے سے لگایا جاتا ہے جس میں ان سے متعلقہ تعلیمی ادارے کے بارے میں ان کی رائے لی جاتی ہے اور اس سلسلے میں صرف ان اداروں کے اپنے دعوئوں کو خاطر میں نہیں لایا جاتا۔ QS کے منیجنگ ڈائریکٹر بن سوٹر (Ben Sowter) کا کہنا ہے کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ یونیورسٹیاں جن کی شہرت پہلے سے تسلیم شدہ ہے اور لوگ جنہیں اچھی طرح جانتے اور پہچانتے ہیں، وہ درجہ بندی کے مقابلے میں اچھی جگہ حاصل کرلیتی ہیں۔ اس سلسلے میں دوسرا سب سے بڑا فیکٹر “Citations Per Faculty” ہوتا ہے جس میں یہ دیکھا جاتا ہے کہ ان یونیورسٹیوں میں تحقیق کا کتنا کام ہوا ہے اور اس کا حساب اس طرح لگایا جاتا ہے کہ دیگر محققین نے کتنی مرتبہ اس یونیورسٹی میں کی گئی تحقیق کا حوالہ دیا۔ یونیورسٹیوں کی درجہ بندی میں تدریسی عملے اور طلبہ کے درمیان تناسب بھی اہم کردار ادا کرتا ہے۔ ان تین عوامل یعنی شہرت، تحقیق کے حوالہ جات اور طلبہ و عملے کی تعداد میں تناسب کے علاوہ یونیورسٹیوں کی درجہ بندی میں یہ بھی ملحوظ رکھا جاتا ہے کہ تدریسی عملے اور طلبہ کے حوالے سے یہ ادارہ کتنا بین الاقوامی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ بہترین یونیورسٹی کا اعزاز حاصل کرنے کے لیے تعلیمی ادارے کو بڑا، پروقار، تحقیق پر بہت زیادہ توجہ مرکوز کرنے والا اور سائنسی علوم کے مضبوط شعبے رکھنے کے ساتھ اسے بہت زیادہ بین الاقوامی تعاون کا حامل بھی ہونا چاہیے۔ تاہم سوال کیا جاسکتا ہے کہ کیا یونیورسٹیوں کی درجہ بندی کا یہ کوئی منصفانہ طریقہ ہے؟ کیا اس میں تدریس کے معیار یا طلبہ کی صلاحیت کا کوئی عمل دخل نہیں ہونا چاہیے؟ اس بارے میں بن سوٹر کا کہنا ہے کہ ہم اس سلسلے میں بہت زیادہ تحقیق و جستجو نہیں کرتے کہ یونیورسٹیاں کیا کررہی ہیں۔ یونیورسٹی کی درجہ بندی کا یہ بہت ہی دوٹوک طریقہ ہے اور اس قسم کی فہرست سازی کی یہی خوبی بھی ہے اور کمزوری بھی۔ مجموعی طور پر مقابلے کی ان فہرستوں کا بہت زیادہ فائدہ بھی ہوا ہے۔ اس کی وجہ سے یونیورسٹیوں کو یہ موقع ملا ہے کہ وہ اپنا جائزہ لیں اور یہ دیکھیں کہ وہ مقابلے کی صف میں دیگر تعلیمی اداروں کے مقابلے میں کہاں کھڑی ہیں۔ پہلے بھی غیر تحریر شدہ درجہ بندی کی فہرستیں ہوا کرتی تھیں جن میں گھسے پٹے روایتی انداز میں دعوے کیے جاتے تھے لیکن اب چونکہ اس معاملے میں زیادہ شفافیت آگئی ہے، اس لیے درجہ بندی پر کھل کر بحث کی جاتی ہے۔ موجودہ درجہ بندی کی وجہ سے کسی حد تک سرکاری امور پر بھی اثر پڑا ہے۔ مثلاً ڈنمارک کا امیگریشن سسٹم ان گریجویٹ درخواست دہندگان کو اضافی پوائنٹس دیتا ہے جنہوں نے درجہ بندی کے لحاظ سے سرفہرست یونیورسٹیوں سے گریجویشن کیا ہو۔
عالمی سطح پر یونیورسٹیوں کی سالانہ درجہ بندی کا کام QS کے علاوہ دوسرے ادارے بھی کرتے ہیں اور چونکہ ان کے پیمانے الگ ہوتے ہیں، اس لیے درجہ بندی بھی مختلف ہوسکتی ہے۔ مثال کے طور پر لندن سے شائع ہونے والا ایک میگزین Times Higher Education یا (THE) جو اعلیٰ تعلیم کی مارکیٹ پر نظر رکھتا ہے، اس نے اس سال اپنی جو گیارہویں ورلڈ یونیورسٹی درجہ بندی جاری کی ہے، اس میں امسال بھی پہلے نمبر پر کیلی فورنیا انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی ہے۔ یہ ایک پرائیویٹ تعلیمی ادارہ ہے جس میں طلبہ کی تعداد محض ۲۲۰۰ ہے۔ واضح رہے کہ QS کی درجہ بندی میں کیلی فورنیا انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کو آٹھواں مقام حاصل ہے۔ THE کی فہرست سازی میں تین سال پہلے Caltech نے ہارورڈ یونیورسٹی کو پہلے مقام سے چلتا کیا تھا۔ ہارورڈ کو اس سال دوسری پوزیشن کا حق دار قرار دیا گیا ہے، جس کے بعد یونیورسٹی آف آکسفرڈ اور پھر اسٹان فورڈ کا نمبر آتا ہے۔ THE کی درجہ بندی میں عالمی سطح پر اسکالر شپ اور شہرت کو بطور خاص ملحوظ رکھا جاتا ہے اور اس میں یہ نہیں دیکھا جاتا کہ داخلے کے لیے کیا شرائط رکھی گئی ہیں؟ گریجویشن کی شرح کیا ہے؟ طلبہ کی جانب سے پروفیسرز کو کیا درجہ بندی دی جاتی ہے یا فارغ التحصیل طلبہ کتنی تنخواہیں وصول کر رہے ہیں؟ THE رینکنگ کے ایڈیٹر فل بیٹی (Phil Baty) کا یہ کہنا ہے کہ ’’ہم سب سے زیادہ وزن تحقیق اور نئی اختراع یا ایجاد کو دیتے ہیں۔ ہماری درجہ بندی میں دیکھا جاتا ہے کہ تحقیق سے پیداواری صلاحیت پر کتنا اثر پڑے گا اور یہ تحقیق فی نفسہٖ کتنی شاندار ہے۔ ہم جو فہرست تیار کرتے ہیں، وہ نیا آئیڈیا وجود میں لانے کے لیے کوئی نئی چیز بنانے اور کسی بھی ملک میں پوشیدہ صلاحیتوں کو اجاگر کرنے اور گمنامی میں پڑے ہوئے روشن دماغوں کو آگے لانے کے لیے ہوتی ہے‘‘۔
THE کی درجہ بندی اس لحاظ سے سودمند ثابت ہو رہی ہے کہ یونیورسٹی کے علاوہ حکومتوں نے بھی اس کی درجہ بندی کو سنجیدگی سے لینا شروع کر دیا ہے۔ فل بیٹی کے بقول جاپان کی حکومت نے اس کی درجہ بندی کی بنیاد پر وزیراعظم کی طرف سے شروع کی جانے والی افزائشی حکمت عملی ترتیب دینے کا منصوبہ بنایا ہے جبکہ روس اور بھارت کی حکومتوں نے THE کے اعلیٰ حکام کو اپنے ملکوں میں آنے کی دعوت دی ہے تاکہ وہ انہیں یہ بتائیں کہ کس طرح ان کی یونیورسٹیاں عالمی سطح پر مقابلے کے قابل ہو سکتی ہیں۔ واضح رہے کہ دنیا کی دو سو بہترین یونیورسٹیوں میں جاپان کی پانچ یونیورسٹیاں شامل ہیں جبکہ گزشتہ سال روس کی کوئی یونیورسٹی اس فہرست میں شامل نہیں تھی۔ تاہم اس سال سومونوسوف ماسکو اسٹیٹ یونیورسٹی کو ۱۹۶ ویں مقام پر فائز ہونے کا موقع ملا ہے۔ THE اپنی درجہ بندی مرتب کرنے کے لیے ۱۳؍مختلف شعبوں کی کارکردگی دیکھتی ہے کہ متعلقہ تعلیمی ادارے اپنے مقاصد کے حصول میں کس حد تک کامیاب ہیں۔ مثلاً وہ دیکھتی ہے کہ تدریس، تحقیق، علم کی منتقلی اور بین الاقوامی نقطۂ نظر کیسا ہے۔
فل بیٹی کا کہنا ہے کہ فہرست کے سب سے اوپر امریکی اور برطانوی یونیورسٹیوں کا راج نظر آتا ہے جبکہ ایشیا اور دنیا کے دیگر ممالک کے اعلیٰ تعلیمی ادارے بظاہر ان کی نقالی کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ امریکی اور برطانوی تعلیمی اداروں میں ریسرچ اسکالر اپنے انڈر گریجویٹس کے ساتھ مل کر کام کرتے ہیں اور اس طرح علم کی روشنی ایک سے دوسرے میں منتقل ہوتی ہے جبکہ دیگر ملکوں کی یونیورسٹیوں میں تحقیق اور تدریس کا عمل دو الگ الگ اداروں میں کیا جاتا ہے۔ یہی وہ فرق ہے جس کی وجہ سے اس سال THE کی فہرست میں پہلے نمبر پر آنے والے کیلی فورنیا انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کے تین سو پروفیسر اور چھ سو ریسرچ اسکالر پر مشتمل چھوٹی سی فیکلٹی اب تک ۳۲ نوبل انعامات جیت چکی ہے۔
(بشکریہ: سہ روزہ ’’دعوت‘‘ دہلی۔ ۱۰؍جنوری ۲۰۱۵ء)
Leave a Reply