
سعودی شیخ نمر النمرکی پھانسی کے بعد پورا مشرقِ وسطیٰ ان کی زندگی و موت کو اپنے اپنے انداز میں پیش کرنے میں سرگرم ہے۔ پورے خطے میں ایران اور شیعہ تحریکوں نے ان کی پھانسی کو سعودی عرب کے سیاسی نظام کی غیر منصفانہ اور فرقہ وارانہ نوعیت کے ثبوت کے طور پر پیش کیا ہے۔ سعودی عرب کے حامیوں نے اپنے طور پر ان کو ایران کی طرف جھکاؤ رکھنے والا ’’شدت پسند‘‘ اور ’’دہشت گرد‘‘ بنا کر پیش کرنے کی کوشش کی۔ کچھ نے تو انہیں حزب اللہ الحجاز کا راہنما بھی کہا۔ ’’حزب اللہ الحجاز‘‘ ایک سعودی شیعہ عسکری گروہ تھا، جو ۹۰۔۱۹۸۰ء کی دہائیوں میں سعودی ریاست پر حملوں میں ملوث تھا اور بادشاہت کو ختم کرنا چاہتا تھا۔ انہیں اس گروہ سے جوڑنے کا مقصد یہ تھا کہ نمر کی پھانسی کو قانونی جواز فراہم کیا جاسکے۔ نمر کو پھانسی القاعدہ کی عرب شاخ کے عسکریت پسندوں کے ساتھ دی گئی۔
درحقیقت شروع سے ہی نمر کا ایران کے ساتھ تعلق سعودی اور ایرانی راہنماؤں کے دعوئوں سے کہیں زیادہ پیچیدہ تھا۔ اپنے طرزِ فکر میں وہ عرب بغاوتوں کے انقلابیوں سے بہت قریب تھے، بہ نسبت ان جہادیوں کے، جن کے ساتھ انہیں پھانسی دی گئی یا ان مولویوں کے جو تہران میں حکمران ہیں۔ وہ حزب اللہ الحجاز کا حصہ کبھی نہیں رہے، بلکہ وہ ایک مخالف تنظیم ولایتِ فقیہ کا حصہ رہے، جو ایران کے سرکاری سیاسی نظام سے اختلاف کی وجہ سے ایران سے بے دخل کر دی گئی تھی۔
۱۹۵۹ء میں پیدا ہونے والے نمر کا تعلق عوامیہ سے تھا، جو سعودی عرب کے مشرقی صوبے میں کھجور کے درختوں کے جھنڈ میں ایک نسبتاً غریب شیعہ گاؤں ہے۔ نمر کے دادا نے ۱۹۲۹ء میں سعودی تحصیل داروں اور وہابی مشنریوں کے خلاف ایک مسلح بغاوت کی قیادت کی جنہیں سعودی عرب کے فاتح اور بانی بادشاہ عبدالعزیز بن سعود نے مشرقی صوبے کی طرف بھیجا تھا۔ اس بغاوت کو جبر کے ساتھ ساتھ سعودی عرب کے مرکزی شیعہ علاقے قطیف کے نمایاں حکومتی حامیوں کی مصالحت کے ذریعے دبا دیا گیا تھا۔
۱۹۷۰ء کی دہائی کے اواخر میں نمر سیاست میں اس وقت سرگرم ہوئے جب شیرازی تحریک خلیجِ فارس میں پھیلی اور نوجوان شیعوں کو بھرتی کیا گیا۔ یہ تحریک ایک بین الاقوامی شیعہ سیاسی تنظیم تھی جس کی سربراہی ایک عراقی ایرانی امام محمد مہدی الشیرازی کر رہے تھے۔ لیکن اس کے بہت سے حامی سعودی عرب، کویت اور بحرین کے شیعہ مسلمان تھے۔ شیرازی کی سعودی شاخ نے ۱۹۷۹ء میں ایک مختصر بغاوت کی جس کے بڑے مراکز میں سے ایک عوامیہ تھا۔ بغاوت کے کچلے جانے کے بعد بہت سے سعودی شیعہ، جن میں نمر بھی شامل تھے، جِلا وطن ہو کر ایران چلے گئے، جہاں انہیں تحریک کے مذہبی مدرسے، حوزہ میں تربیت دی جانے لگی۔
حوزہ اور اس کے ساتھ ساتھ شیرازی تحریک کی پوری سیاسی روش کے نگرانِ اعلیٰ محمد تقی المدرسی تھے۔ حوزہ میں دورانِ تربیت نمر المدرسی کے بہت قریب آگئے۔ ۱۹۸۰ء کی دہائی کے وسط میں جب شیرازی تحریک کا ایرانی حکام کے ساتھ اختلاف ہوا تو نمر دمشق کے نواحی علاقے سیدہ زینب میں تحریک کے مذہبی مدرسے حوزہ کے استاد بن گئے۔ بعد ازاں یہ علاقہ شیرازی تحریک کا مرکز بن گیا۔
ایران سے اختلاف کے بعد شیرازیوں کی قم میں کوئی موجودگی باقی نہ رہی، جو ایران میں مذہبی تعلیم کا مرکز تھا۔ صدام حسین کا عراق بھی شیرازیوں کے لیے ایک ممنوع علاقہ تھا۔ لہٰذا سیدہ زینب اس بین الاقوامی نیٹ ورک کے لیے ایک موزوں علاقہ بن گیا۔ یہ علاقہ ایسا تھا، جہاں خلیجی ریاستوں کے لوگ بآسانی آسکتے تھے۔
نمر کی گھر واپسی
جِلاوطنی میں ایک دہائی گزارنے کے بعد بھی شیرازی تحریک کے سعودی شیعہ اپنے اہداف حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکے۔ ان کے اہداف میں سعودی عرب کا سیاسی نظام بدلنا اور سعودی شیعوں کی حالت کو بہتر بنانا تھا۔ چنانچہ انہوں نے سعودی حکومت کے ساتھ معاہدہ کرنے کے امکان پر غور کرنا شروع کر دیا۔ ۱۹۹۰ء کی دہائی کے اوائل میں ہی سیاسی سمجھوتے کے نکات طے پاگئے، جن میں بادشاہ فہد کی طرف سے شیرازیوں کے لیے عام معافی اور جواباً شیرازیوں کا مخالفانہ کارروائیاں ختم کرنا شامل تھے۔ لیکن بہت سے مخالف سرگرم کارکنوں، خاص طور پر نمر کی سربراہی میں مذہبی راہنماؤں کے ایک گروہ نے، عام معافی کے معاہدے کی مخالفت کی۔ ان کا مؤقف تھا کہ سعودی ریاست شیعوں کے محکوم ہونے کی حیثیت کو بدلنے سے انکاری ہے۔ مگر جب معاہدے کی تکمیل کے بعد ۱۹۹۳ء میں نمر دوسرے کارکنان کے ساتھ سعودی عرب آگئے، تب بھی معاہدے کو نہ ماننے کی وجہ سے شیرازی تحریک کے دوسرے گروہ کے ساتھ ان کا اختلاف جاری رہا۔ اس دوسرے گروہ کی نمائندگی حسن السفر کر رہے تھے جو سعودی شیرازی شاخ کے سربراہ تھے۔
نمر معاہدے کو روکنے میں کامیاب نہیں ہوسکے۔ عام معافی کے اعلان کے بعد وہ اپنے آبائی گھر عوامیہ چلے گئے، جہاں انہوں نے ایک چھوٹی سی مسجد کی امامت اختیار کرلی۔ ۲۰۰۱ء میں شیرازی تحریک کے روحانی سربراہ اور بانی کے انتقال کے بعد یہ عالمی تحریک دو قلعوں میں بٹ گئی۔ سعدی الشیرازی باقاعدہ جانشین بن گئے جبکہ المدرسی کو تحریک کے سیاسی طور پر زیادہ سرگرم کارکنوں کی حمایت میسر آگئی۔ نمر، جو المدرسی کو حوزہ کے دنوں سے جانتے تھے، سعودی عرب میں المدرسی کے نمایاں نمائندوں میں سے ایک بن گئے اور انہوں نے المدرسی پر ایک کتاب بھی لکھی۔ (المدرسی نے نمر کی موت کو ’’اعلانِ جنگ‘‘ قرار دیا۔)
سعودی شیرازیوں کی پرانی قیادت حسن السفر کے ساتھ تھی، لیکن دوسری طرف شیرازی کی حمایت بھی کر رہی تھی۔ اس کے ساتھ ساتھ ان لوگوں نے بہت سے دوسرے شیعہ آیت اللہ حضرات کے مقامی نمائندگان کی حیثیت بھی اختیار کرلی تھی، جیسے عراقی شہر نجف میں عظیم آیت اللہ علی السیستانی۔ مقامی سیاسی منظر میں سعودی ریاست کے ساتھ مفاہمت چاہنے والوں اور مزاحمتی رویہ اختیار کرنے کے حامیوں کے درمیان خلیج کی وجہ شیعوں کے مذہبی تعلیمی مراکز میں آیت اللہ حضرات کے درمیان مخاصمت بھی تھی۔
ایک نئی شیعہ احتجاجی تحریک
نمر بہرحال ۲۰۰۰ء کی دہائی میں ایک غیر اہم شخصیت رہے۔ کیونکہ اس عرصے میں شاہ عبداللہ نے شیعوں تک پہنچنے کی کوشش کی اور ان میں سے بعض کو سعودی ریاست کے اداروں میں شامل کیا۔ لیکن نمر ایسے مطالبات دہراتے رہے جن کی بہت سے سعودی شیعہ حمایت کرتے تھے، مگر اعلانیہ کہنے کی کسی میں ہمت نہیں تھی۔ مثال کے طور پر ۲۰۰۷ء میں انہوں نے مشرقی صوبے کی گورنر میٹنگ میں تیل کی آمدنی کا ایک حصہ شیعوں کو دینے پر زور دیا کیونکہ ان کے نزدیک تیل والی زمینوں پر شیعہ آباد تھے، مگر اس کے فوائد شیعوں کو حاصل نہیں ہورہے تھے۔ ۲۰۰۹ء میں شیعہ زائرین اور مدینہ میں سعودی عرب کی سیکورٹی فورسز کے درمیان جھڑپوں کے بعد نمر نے پُرجوش خطبات میں ریاست کے غیر جمہوری اور شیعہ مخالف اقدامات کی مذمت کی اور مشرقی صوبے میں مظاہروں کی دعوت دی۔ ان خطبات میں سب سے زیادہ مشہور ایک خطبے میں انہوں نے کہا کہ اگر شیعوں کے سیاسی مطالبات کا سعودی ریاست کی سرحدوں کے اندر حصول ممکن نہ ہوا تو شیعہ ایک دن سعودی عرب سے علیحدگی بھی حاصل کرسکتے ہیں۔
اس خطبے کے کچھ دنوں بعد ہی نمر گرفتاری سے بچنے کے لیے روپوش ہوگئے۔ اس کے بعد وہ ۲۰۱۱ء میں دوبارہ ابھر کر سامنے آئے جب مشرقی صوبے اور ہمسایہ ملک بحرین میں جاری بغاوتوں میں تیزی آئی۔ نمر وہ واحد بڑے سعودی شیعہ مذہبی امام تھے، جو بیک وقت ان دونوں احتجاجی تحریکوں کی حمایت کررہے تھے۔ شیرازی تحریک کے ان کے سابق ساتھی مثلاً امام سفر بہت زیادہ محتاط تھے اور بعض اوقات صورتحال کو مزید خراب ہونے سے بچانے کے لیے نوجوانوں پر زور دیتے تھے کہ وہ اپنے گھروں میں رہیں۔ (عوامی احتجاج کی تمام اقسام پر سعودی عرب میں پابندی عائد ہے)۔
نمر نے سوچا کہ بحرین میں ایک کامیاب انقلاب مشرقی صوبے کی صورتحال بدل دے گا۔ یہی وہ سوچ تھی کہ جس نے مارچ ۲۰۱۱ء میں سعودی حکام کو اپنی مسلح افواج بحرین میں احتجاجی مظاہروں کو دبانے کے لیے بھیجنے پر مجبور کیا۔ نمر نوجوانوں پر زور دیتے تھے کہ وہ بحرین کی حمایت اور سعودی حکمران خاندان کی مخالفت میں باقاعدگی سے احتجاج کریں۔ انہیں آخرکار ۲۰۱۲ء میں عوامیہ پر ایک چھاپے کے دوران گرفتار کیا گیا جس میں ان کی ٹانگ پر گولی لگی۔ جیل میں قید کے دوران انہوں نے اپنے سیاسی نظریات پر نظرثانی اوراپنے بیانات پر معذرت کرنے سے انکار کر دیا۔
ان کی پھانسی بہت سے لوگوں کے لیے حیرت انگیز تھی۔ کیونکہ ان کی موت کی سزا کو روکنے کے لیے بہت سی مقامی اور بین الاقوامی سفارتی کوششیں جاری تھیں۔ ان کی لاش دوسرے ہلاک شدگان کے ساتھ ایک بے نام قبر میں دفنا دی گئی۔ شاید اس لیے کہ انہیں بُرے انداز میں مارا گیا تھا جسے بہت سوں نے مصلوب کرنے کے طریقے کے مماثل قرار دیا ہے۔ ان کے اہل خانہ نے سعودی شیعوں سے پُرسکون رہنے اور تشدد کے ساتھ جوابی عمل نہ کرنے کی درخواست کی ہے اور حکام سے کم از کم ان کا جسدِ خاکی حوالے کرنے کو کہا ہے لیکن یہ پکار لاحاصل ثابت ہوئی۔
مزید پھانسیاں
اگرچہ نمر کی پھانسی نے خلیج میں سیاست کو پہلے ہی گدلا کردیا ہے، لیکن سولی پر چڑھائے جانے والے وہ اکیلے شخص نہیں ہیں، اور ایسا لگتا ہے جیسے وہ آخری بھی نہیں ہوں گے۔ تین دیگر سعودی شیعوں (محمد الشیوخ، محمد السویل اور علی الربح) کو بھی سزائے موت دی گئی ہے، جن میں سے ایک پر دیوار پر نعرے لکھنے، آن لائن افواہیں پھیلانے اور احتجاجی مظاہروں میں شرکت کرنے کا الزام تھا۔ اس کے علاوہ پھانسی کی سزا کا انتظار کرنے والوں کی صف میں بڑی تعداد اُن شیعوں کی بھی ہے جو گرفتاری کے وقت نابالغ تھے۔ تین نوجوانوں کی سزائے موت (عبداللہ الظاہر شاہ، داؤد المرہون اور نمر کے بھتیجے علی محمد باقر النمر) برقرار رکھی گئی ہے اور اب شاہی دربار کی طرف سے منظوری کے انتظار میں ہے۔ دیگر چار شیعوں (امجد المعید، یوسف المشیخ، احمد الکمال اور سمیر البصری) کو بھی موت کی سزا دے دی گئی ہے اور اب وہ اپنی حتمی اپیل کے نتیجے کے منتظر ہیں۔ اس کے علاوہ ایک درجن سے زائد قیدیوں پر ایسے جرائم کے ارتکاب کا الزام ہے جن کی سزا موت ہے، مثلاً پولیس پر حملہ آور ہونا۔ چنانچہ ان لوگوں کی تقدیر، جن میں سے بیشتر نوجوان ہیں، سعودی بادشاہ سلمان کے ہاتھ میں ہے۔
نمر کی پھانسی اور اس پر ایران کے ردعمل نے ایران اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات کو نہایت کشیدہ کر دیا ہے اور اس کشیدگی کا مشرقِ وسطیٰ میں پھیلنے کا خدشہ ہے۔ سعودی نقطۂ نظر سے ایک سعودی شہری کو سعودی عرب میں پھانسی دیے جانے پر ایرانی احتجاج ایک خود مختار ریاست کے امور میں مداخلت ہے۔ ایرانیوں کی طرف سے مشہد میں سعودی سفارت خانے اور سعودی قونصلیٹ کو آگ لگانے اور پتھراؤ کرنے کو ریاض ریاست کے اداروں میں سے ایک پر حملے کے طور پر دیکھتا ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ یہ قونصلیٹ حج کے موقع پر خصوصی طور پر سعودی شیعوں کو کونسلر خدمات فراہم کرتا تھا۔ لیکن سعودی عرب کا نمر جیسے لوگوں کو، جو اپنے بیانات کی وجہ سے ملزم قرار پائے، القاعدہ کے عسکریت پسندوں کے ساتھ جوڑنا اور ان پر ’’دہشت گرد‘‘ کا لیبل لگانا مجرمانہ فعل ہے۔
نمر کے ماضی سے پتا چلتا ہے کہ وہ صاف گو انقلابی تھے، جو سمجھتے تھے کہ عرب بغاوتیں پرانے آمروں سے نجات پانے کا ایک نادر موقع ہے، چاہے وہ آمر خلیج میں ہوں یا شام میں۔ تمام قرائن شاہد ہیں کہ انہوں نے کسی کو تشدد پر نہیں اکسایا۔ بلکہ پُرامن احتجاج کی دعوت دی اور خود کبھی پولیس پر گولی نہیں چلائی۔
چنانچہ نمر کو ایک سیاسی قیدی کے طور پر دیکھنا چاہیے جن کی پھانسی سعودی عرب کی جانب سے اندرونِ اور بیرونِ ملک فرقہ وارانہ کشیدگیوں کو بڑھانے کی ایک سوچی سمجھی کوشش تھی۔ ایسا لگتا ہے کہ نمر کی پھانسی پر سعودی عرب کو دھمکی دے کر ایران اس کے جال میں پھنس گیا ہے۔ ایرانی دھمکی نے سعودی عرب کو ایران سے سفارتی تعلقات منقطع کرنے کا موقع فراہم کیا اور اپنے اتحادیوں کو دونوں میں سے ایک کا چناؤ کرنے پر مجبور کر دیا۔ ریاض ایران کے ساتھ دوبارہ تعلقات استوار کرنے کی امریکی اور یورپی کوششوں کی وجہ سے سخت بے چینی کا شکار ہے۔ وہ تعلقات کی استواری کو ہر قیمت پر روکنا چاہتا ہے اور سُنی ریاستوں اور تہران کے درمیان بڑھتی دوری سعودی مفادات کے حق میں ہے۔
اس پھانسی کے نتیجے میں دونوں ممالک یمن اور شام کی پراکسی جنگوں میں اپنی مداخلت مزید بڑھائیں گے۔ سفارتی تعلقات کے منقطع ہونے کے بعد براہِ راست فوجی تصادم بھی بعد از امکان نہیں۔ اس قسم کے تناظر میں امریکا اور نیٹو سعودی عرب کا ساتھ دیں گے۔ یہی ریاض کا اندازہ بھی ہے۔ لہٰذا مغربی طاقتوں کو مشرقِ وسطیٰ میں تباہی کو روکنے اور خطے میں مزید کشیدگی کو اپنا ذاتی اور قومی مفاد سمجھنے والے ریاض میں موجود شدت پسندوں کو لگام دینے کی ہر ممکن کوشش کرنا چاہیے۔
(ترجمہ: طاہرہ فردوس)
“The World’s Most Misunderstood Martyr”. (“Foreign Policy”. Jan.8, 2016)
Leave a Reply