
آج کل خواتین زندگی کے ہر شعبے میں نمایاں نظر آ رہی ہیں، رموز تجارت سے لے کر امور سلطنت تک۔ زندگی کا کوئی ایسا شعبہ نہیں جو ان سے خالی ہو، خواتین کی کارگزاری اب محض ان پیشوں اور شعبوں تک محدود نہیں رہی، جنہیں روایتی طور پر خواتین کے لیے موزوں خیال کیا جاتا تھا بلکہ آج مسلح افواج سے لے کر خلاء بازی تک ہر میدان میں خواتین اپنی صلاحیتوں کا نمونہ پیش کر رہی ہیں۔ مؤقر امریکی جریدے ’’فوربس‘‘ نے دنیا کی ۱۰۰ طاقتور ترین خواتین کی فہرست شائع کی ہے جس میں صنفِ لطیف سے تعلق رکھنے والی ایسی شخصیات کو شامل کیا گیا ہے جنہوں نے شوبز سے لے کر صحافت و سیاست تک کسی بھی شعبہ حیات میں امتیازی کارکردگی دکھائی ہو۔
جرمنی کی چانسلر اینجلا مرکل کو فوربس میگزین کی تازہ ترین سالانہ فہرست میں پہلے نمبر پر رکھا گیا ہے۔ وہ ۱۹۵۴ء میں مشرقی جرمنی میں پیدا ہوئیں۔ ان کے والد ایک مذہبی پیشوا تھے اینجلا مرکل نے فزکس میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد مشرقی برلن کی اکیڈمی آف سائنسز میں محقق کے طور پر خدمات انجام دیں۔ ۱۹۸۹ء میں انہوں نے ’’کنزرویٹو کرسچین ڈیمو کریٹک یونین‘‘ نامی سیاسی جماعت میں شمولیت اختیار کرلی اور ۱۹۹۰ء میں پارلیمنٹ کی رکن منتخب ہوئیں۔ سابق چانسلر ہیلمٹ کوہل کے دورِ اقتدار میں انہوں نے وزیر کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دیں۔ ۲۰۰۰ء میں اینجلا مرکل کو ان کی سیاسی جماعت ’’سی ڈی یو‘‘ کا سربراہ منتخب کر لیا گیا۔ ۲۰۰۵ء کے انتخابات میں کامیابی کے بعد اینجلا مرکل کو نئی مخلوط حکومت میں چانسلر چُن لیا گیا۔ وہ اس عہدے پر فائز ہونے والی پہلی خاتون ہیں۔ انہوں نے برسرِاقتدار آنے کے بعد تحفظ ماحول کے شعبے میں نمایاں خدمات انجام دی ہیں۔
فہرست میں تیسرے نمبر پر ہندوستان سے تعلق رکھنے والی اندرا کرشنا مورتی نوئی ہیں جو خوراک اور مشروبات کے میدان میں دنیا کی چوتھی بڑی کمپنی پیپسی کارپوریشن کی چیئرپرسن اور چیف ایگزیکٹو آفیسر ہیں۔ وہ ۲۸ اکتوبر ۱۹۵۵ء کو جنوبی ریاست تامل ناڈو کے شہر چنئی میں پیدا ہوئیں۔ انہوں نے چنئی اور کولکتا میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد عملی زندگی میں قدم رکھا۔ کچھ عرصے بعد انہوں نے ییل یونیورسٹی سے مینجمنٹ میں ماسٹرز بھی کر لیا۔ اندرا نوئی نے عالمی شہرت کے حامل کئی تجارتی اداروں میں خدمات انجام دینے کے بعد ۱۹۹۴ء میں پیپسی کارپوریشن میں شمولیت اختیار کی اور ترقی کی منزلیں تیزی سے طے کرتے ہوئے ۲۰۰۶ء میں اس ادارے کے چیف ایگزیکٹو آفیسر کی ذمہ داریاں سنبھال لیں۔ ممتاز جریدے ’’بزنس ویک‘‘ کے مطابق جب سے اندرانوئی نے اس ادارے کی قیادت سنبھالی ہے، اس کی سالانہ آمدنی میں ۷۲ فیصد اضافہ ہوا ہے جب کہ خالص منافع دگنے سے بھی زیادہ ہو کر ۲۰۰۶ء میں ۶ء۵ ارب ڈالر سالانہ تک جا پہنچا تھا۔
امریکی وزیر خارجہ کونڈولیزا رائس ماضی میں طاقت ور ترین خواتین کی فہرست میں پہلے نمبر پر رہ چکی ہیں لیکن تازہ ترین سالانہ جائزے میں انہیں ساتویں پوزیشن مل سکی ہے۔ کونڈولیزا رائس کو امریکا کی خاتون آہن بھی کہا جاتا ہے۔ صدر جارج ڈبلیو بش کے پہلے دورِ صدارت میں انہوں نے قومی سلامتی کی مشیر کے طور پر خدمات انجام دی تھیں جب کہ دوسرے دور میں انہیں وزیر خارجہ مقرر کیا گیا۔ ۱۴ نومبر ۱۹۵۴ء کو امریکی ریاست الباما کے شہر برمنگھم میں پیدا ہونے والی کونڈولیزا رائس نے سیاسیات میں گریجویشن اور ماسٹرز کرنے کے بعد ۱۹۸۱ء میں ڈینور یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ انہوں نے اسٹینفورڈ یونیورسٹی میں درس و تدریس کے فرائض بھی انجام دیئے۔ کونڈولیزا رائس کو روس اور مشرقی یورپ سے متعلق امور کا ماہر تصور کیا جاتا ہے وہ خارجہ پالیسی کے موضوع پر کئی کتابوں کی مصنفہ ہیں اور امریکن اکیڈمی آف آرٹس اینڈ سائنسز کی فیلو بھی ہیں۔ انہیں کئی تعلیمی اداروں کی جانب سے ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری سے بھی نوازا گیا ہے۔
۲۱ ویں نمبر پر ہندوستان کی حکمراں سیاسی جماعت انڈین نیشنل کانگریس کی صدر سونیا گاندھی ہیں۔ ۱۹۴۶ء میں اٹلی کے شہر تورین میں پیدا ہونے والی سونیا مائینو کی سابق وزیراعظم راجیو گاندھی سے پہلی ملاقات ۱۹۵۵ء میں ہوئی تھی، جب وہ انگلستان کی کیمبرج یونیورسٹی میں زیر تعلیم تھے۔ دونوں نے رہائش اختیار کر لی۔ سونیا گاندھی نے ۱۹۸۳ء میں بھارت کی شہریت لے لی تھی۔ راجیو گاندھی کے وزیر اعظم بننے کے بعد وہ عموماً پس منظر میں رہنا پسند کرتی تھیں۔ ۱۹۹۱ء میں راجیو کے قتل کے بعد بھی وہ سیاست سے دور ہی رہیں۔ تاہم ۱۹۹۸ء میں انہیں کانگریس کی صدر منتخب کر لیا گیا۔ ۲۰۰۴ء میں کانگریس اور اتحادی جماعتوں کی کامیابی کے بعد سونیا گاندھی کو وزیر اعظم بننے کا سنہری موقع ملا تھا لیکن انہوں نے اس عہدے پر پارٹی کی قیادت کو ترجیح دی۔
۲۸ ویں نمبر پر امریکا کی سابق خاتون اول اور موجودہ سینیٹر ہلیری کلنٹن ہیں۔ وہ بنیادی طور پر قانون داں ہیں اور سیاست میں آنے سے پیشتر ان کا شمار امریکا کے ۱۰۰ بہترین وکلاء میں کیا جاتا تھا۔ اپنے شوہر بل کلنٹن کے صدر امریکا منتخب ہونے کے بعد ہلیری نے خاتون اول کے طور پر نمایاں سماجی خدمات انجام دیں۔ مونیکا لیونسکی اسکینڈل اور صدر کلنٹن کے مواخذے کے دنوں میں شوہر کی بھرپور حمایت کرنے پر ہلیری کلنٹن کو بے پناہ عوامی حمایت حاصل ہوئی۔ ۲۰۰۰ء میں ہلیری ڈیمو کریٹک پارٹی کے ٹکٹ پر نیو یارک سے سینیٹ کی رکن منتخب ہوئیں۔ پھر ۲۰۰۶ء میں وہ دوبارہ سینیٹر چُنی گئیں۔ ۲۰۰۸ء میں ڈیمو کریٹک پارٹی کے صدارتی امیدوار کے طور پر نامزدگی حاصل کرنے کے لیے بارک اوباما کے ساتھ انتہائی سخت مقابلے کے بعد بالآخر ہلیری کلنٹن نے دستبردار ہونے کا اعلان کر دیا۔ وہ دو کتابوں کی مصنفہ بھی ہیں۔
فہرست میں ۳۵ ویں نمبر پر امریکی ایوان نمائندگان کی اسپیکر نینسی پلوسی ہیں۔ ۱۹۴۰ء میں پیدا ہونے والی نینسی کے والد بالٹی مور کے میئر اور کانگریس کے رکن رہے تھے۔ کیلی فورنیا منتقل ہونے کے بعد نینسی نے ڈیمو کریٹک پارٹی کے پلیٹ فارم سے سیاست میں فعال کردار ادا کرنا شروع کیا۔ ۱۹۸۷ء میں وہ پہلی بار ایوان نمائندگان کی رکن منتخب ہوئیں۔ ۲۰۰۶ء میں ڈیمو کریٹک پارٹی کے اکثریتی جماعت بن جانے کے بعد نینسی پلوسی کو امریکی کانگریس کی پہلی خاتون اسپیکر کے طور پر منتخب کیا گیا۔
۳۶ ویں پوزیشن امریکی ٹاک شو میزبان اوپراونفرے نے حاصل کی ہے۔ سیاہ فام ونفرے نے ۱۷ سال کی عمر میں ریڈیو رپورٹر کے طور پر عملی زندگی کا آغاز کیا تھا۔ انہوں نے ۱۹۸۴ء میں شکاگو سے ’’اوپرا ونفرے شو‘‘ کا آغاز کیا جس نے دیکھتے ہی دیکھتے ملک گیر شہرت حاصل کر لی۔ اوپرا ونفرے نے کئی فلموں میں اداکاری کے جوہر بھی دکھائے اور ہارپوا اسٹوڈیو کے نام سے اپنی ذاتی پروڈکشن کمپنی قائم کی ہے۔ ان کا شمار شوبز کی امیر ترین خواتین میں ہوتا ہے اوپرا ونفرے کی دولت کا تخمینہ ایک ارب ڈالر سے زائد لگایا گیا ہے۔
۳۸ ویں نمبر پر میانمار کی سیاست واں آنگ سان سوکی ہیں۔ ۱۹۴۵ء میں جنم لینے والی یہ بہادر خاتون آکسفورڈ یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہیں۔ ان کے مقتول والد آنگ سان کو جو ایک قوم پرست رہنما تھے جدید میانمار کا بانی قرار دیا جاتا ہے۔ ۱۹۶۰ء میں جلا وطنی اختیار کرنے کے بعد آنگ سان سوکی بیرون ملک مقیم رہیں۔ وہ ۱۹۸۸ء میں وطن لوٹیں جہاں انہیں حزب اختلاف کی جماعت ’’نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی‘‘ کا قائد چُن لیا گیا۔ انہوں نے میانمار کے فوجی حکمرانوں کی جم کر مخالفت کی، یہاں تک کہ وہ بحالیٔ جمہوریت کی تحریک کی جیتی جاگتی علامت بن گئیں۔ ۱۹۸۹ء میں انہیں جلا وطن کر دیا گیا اور ۱۹۹۰ء کے انتخابات میں ان کی جماعت کی زبردست کامیابی کے باوجود فوجی حکمرانوں نے اسے اقتدار سونپنے سے انکار کر دیا۔ ۱۹۹۱ء میں آنگ سان سوکی کو امن کے نوبل انعام سے نوازا گیا۔
فہرست میں ۴۰ ویں نمبر پر مائیکرو سافٹ کے چیئرمین اور سال ہا سال تک دنیا کا امیر ترین شخص کہلانے والے بل گیٹس کی اہلیہ میلنڈا گیٹس کو رکھا گیا ہے۔ انہوں نے ’’بل اینڈ میلنڈا گیٹس فاؤنڈیشن‘‘ کے پلیٹ فارم سے دکھی انسانیت کی خدمت کے لیے گراں قدر خدمات انجام دی ہیں۔ یہ دنیا کا امیر ترین فلاحی ادارہ ہے۔
کرۂ ارض کا طاقتور ترین شخص امریکی صدر کو قرار دیا جاتا ہے لیکن ان کی اہلیہ لارا بش نے ۱۰۰ طاقتور ترین خواتین کی فہرست میں ۴۴ ویں پوزیشن پائی ہے۔ صدر جارج ڈبلیو بش سے شادی سے پہلے لارا ایک اسکول ٹیچر کے طور پر خدمات انجام دے رہی تھیں۔ اسرائیل کی وزیر خارجہ زپی لیونی کو فہرست میں ۵۲ ویں نمبر پر رکھا گیا ہے۔ انہیں کچھ ہی عرصہ پہلے برسراقتدار قدیمہ پارٹی کی سربراہ منتخب کیا گیا ہے اور وہ آج کل قائم مقام وزیر اعظم کے فرائض بھی ادا کر رہی ہیں۔ برطانیہ کی ملکہ الزبتھ دوم کو فہرست میں ۵۸ ویں پوزیشن مل گئی ہے۔ جبکہ اگلا نمبر بھارت کی سب سے بڑی ریاست اترپردیش کی دلت وزیراعلیٰ مایاوتی نینا کماری کا ہے جنہیں بعض سیاسی حلقوں کی جانب سے وزارت عظمیٰ کی متوقع امیدوار بھی قرار دیا جا رہا ہے۔ ۹۱ ویں نمبر پر سی این این کی چیف انٹرنیشنل کارسپانڈینٹ کرسٹینے امان پور ہیں۔ ان کے والد کا تعلق ایران کی عیسائی اقلیت سے ہے جب کہ والدہ برطانوی شہری تھیں۔ امریکی دفتر خارجہ کے سابق ترجمان جیمز روبن ان کے شوہر ہیں۔ فہرست میں ۹۶ ویں پوزیشن اُردن کی ملکہ رعنیہ نے حاصل کی ہے ۔ فلسطین نژاد رعنیہ کی شادی ۱۹۹۳ء میں اُردن کے شہزادہ عبداللہ دوم سے ہوئی تھی۔ ۱۹۹۹ء میں شہزادہ عبداللہ اپنے والد شاہ حسین کی وفات کے بعد بادشاہ بنے تو شہزادی رعنیہ اردن کی نئی ملکہ قرار پائیں۔ حقوق نسواں اور بہبود اطفال کے لیے خدمات انجام دینے کی وجہ سے ملکہ رعنیہ کو نہ صرف اُردن بلکہ دنیا بھر کے ساجی حلقوں میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔
(بحوالہ: سہ روزہ ’’دعوت‘‘ دہلی۔ ۱۳ نومبر ۲۰۰۸ء)
Leave a Reply