
اسرائیلی ریاست نے گزشتہ ۶۱ برسوں میں اپنے ایک ایک فیصلے، اقدام اور کارروائی سے ثابت کیا ہے کہ وہ ایک باضابطہ ناجائز ریاست ہے۔ جس طرح کہا جاتا ہے کہ ایک جھوٹ کو چھپانے کے لیے کئی جھوٹ بولنا پڑتے ہیں۔ بعینہٖ یہی معاملہ اسرائیل کا ہے کہ اپنے ناجائز ہونے کی حقیقت کو چھپانے کے لیے اسے بار بار ناجائز کام کرنا پڑتے ہیں۔ کہا جا سکتا ہے کہ دنیا بھر میں اگر کسی ریاست کی حکومت ناجائز کاری میں سب سے زیادہ ملوث ہے بلکہ اس کا طرۂ امتیاز ہی یہی ہے تو وہ اسرائیل ہے۔
جس طرح اسرائیل بطور ریاست ناجائز ہے بالکل اسی طرح اس کے ریاستی اور حکومتی ادارے بھی بدرجہ کمال ناجائز ہیں۔ ان اسرائیلی اداروں میں سے ایک اسرائیلی فوج ہے۔ بالعموم افواج کی تشکیل ملکی سرحدوں اور ریاستی باشندوں کے تحفظ جیسے جائز مقصد کے لیے ہوتی ہے لیکن اسرائیلی فوج ایسے کسی اعلیٰ و ارفع مقصد کی خاطر ہر گز وجود میں نہیں لائی گئی۔ بلکہ واقعہ یہ ہے کہ اسرائیلی فوج کی تشکیل ان صہیونی دہشت گرد گروپوں کی بدولت ممکن ہوئی جنہوں نے نکبہ، اس سے پہلے اور اس کے بعد نہتے فلسطینیوں کی بستیوں کی بستیاں دہشت گردی کی بھینٹ چڑھا دیں اور جن کی بے رحمانہ دہشت گردی کی علامتیں آج بھی دیریاسین، قبہ، صابرہ اور شاتیلا کی تباہی کی صورت میں تاریخ کے اوراق میں موجود ہیں۔
ان دہشت گرد صہیونی گروہوں کے مونہوں کو فلسطینی عورتوں اور بچوں کا خون لگ چکا ہے اور ان کی سرپرستی اسی شدومد سے استعماری طاقتیں کرتی رہی ہیں۔ گویا عالمی استعماری طاقتوں نے اپنے ناجائز ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لیے شروع سے ہی ان دہشت گرد صہیونی تنظیموں کو قتلِ عام، خونریزی اور تباہی و بربادی کی کھلی چھٹی دے رکھی ہے۔ ماضی میں انسانی خون بہانے کے کاروبار سے وابستہ رہنے والے یہ صہیونی دہشت گرد آج اسرائیلی فوج کا حصہ ہوتے ہوئے فلسطینی نوجوانوں کو قتل کرنے کے بعد ان کے اعضاء تک فروخت کر دیتے ہیں۔ یہ اس ناجائز ریاست کی ’’روگ آرمی‘‘ کرتی ہے جو امریکا اور برطانیہ ہی نہیں پورے مغرب کی براہ راست پسندیدہ اور لاڈلی ریاست ہے اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ بالواسطہ جسے اقوام متحدہ بھی ہر طرح کی بدمعاشی اور خونریزی کی کھلی چھٹی دیے ہوئے ہے۔ شہید ہونے والے فلسطینی نوجوانوں اور عورتوں اور بچوں کے اعضاء نکال کر بیچنے کا یہ عمل کسی مالی پریشانی یا اقتصادی بدحالی کا شکار ملک کی فوج کے وابستگان نہیں کر رہے بلکہ اسرائیلی ریاست کے فوجی اس درندگی کا ارتکاب کر رہے ہیں جن کی ناجائز ریاست میں فی کس آمدنی کی سطح دنیا کے بیشتر ممالک سے زیادہ ہے اور امریکا اس کو دنیا بھر کے ممالک سے زیادہ مالی امداد دیتا ہے۔ یہودیوں کا دنیا بھر میں مالی اعتبار سے مضبوط اور اہلِ ثروت ہونا اس پر مستزاد ہے۔ زمانہ یہ بھی جانتا ہے کہ دنیا کے طول و عرض میں موجود یہودی تنظیمیں اسرائیل کی مالی معاونت کے لیے صبح و شام مصروف رہتی ہیں۔ اس کے باوجود یہ خبر سامنے آئی ہے کہ اسرائیلی فوج فلسطینی نوجوانوں کو قتل کرنے کے بعد ان کے اعضا نکال کر فروخت کر دیتی ہے یا اعضا نکال کر اسرائیلی اسپتالوں کو مہیا کر دیتی ہے تاکہ ان کی ٹرانسپلانٹیشن سے صہیونی مریضوں کو فائدہ پہنچایا جا سکے۔ سوال یہ ہے کہ اسرائیلی جیلوں میں موجود ہزاروں قیدیوں کے ساتھ یہ صہیونی درندے کیا کچھ نہیں کرتے ہوں گے؟ یاد رہے کہ یہ رپورٹ کسی فلسطینی اخبار میں شائع نہیں ہوئی بلکہ ایک اہم مغربی ملک سویڈن کے اخبار ’’دی ٹیبلائیڈ افتون بلیڈٹ‘‘ نے اپنی ایک حالیہ اشاعت کا حصہ بنائی ہے۔ اخبار نے اس خوفناک انکشاف کے ساتھ ان فلسطینی نوجوانوں کی تصاویر بھی شائع کی ہیں جنہیں شہید کرنے کے بعد ان کے اعضا چوری کر لیے۔
سویڈش اخبار نے رپورٹ کی تفصیل میں جاتے ہوئے اعضاء چوری کا نشانہ بننے والے ایک فلسطینی نوجوان کے اہلِ خانہ سے ملاقات کی روداد بھی شائع کی ہے۔ انکشاف انگیز ایک رپورٹ تیار کرنے والے صحافی ڈونلڈ بوسٹر نے لکھا ہے کہ مغربی کنارے کے نواحی گائوں سے ایک فلسطینی نوجوان بلال احمد کو اسرائیلی فوج نے گرفتار کرنے کے بعد ہیلی کاپٹر پر دوسری جگہ منتقل کر دیا اور پانچ دن زیر حراست رکھنے کے بعد اس کی لاش اس کے لواحقین کے حوالے کر دی۔ جب لاش لواحقین کے حوالے ہوئی تو معلوم ہوا کہ نوجوان کی لاش کا ٹھوڑی سے معدے تک چیڑ پھاڑ کر کے اس سے اہم اعضا نکال لیے گئے ہیں۔ اس رپورٹ میں ایک اور فلسطینی خاندان کا حوالہ بھی دیا گیا ہے جس کے نوجوان کو اسرائیلی فوجیوں نے اس امر پر مجبور کیا کہ وہ اسی طرح چوری کیے گئے انسانی اعضا ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنے میں ان کی مدد کرے۔
اس انکشاف انگیز رپورٹ نے جہاں اسرائیلی فوج کے ہاتھوں فلسطینی مسلمانوں کے ساتھ ہونے والے بہیمانہ سلوک کو ایک مرتبہ پھر طشت ازبام کیا ہے وہیں دنیا کے سامنے صہیونی چہرے کا ایک اور رُخ وا کر دیا ہے۔ لیکن ابھی تک اس بارے میں انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی امریکی و مغربی تنظیموں کی طرف سے کوئی خاطر خواہ ردعمل سامنے نہیں آیا ہے، نہ احترامِ آدمیت پر یقین رکھنے والی اور درندگی سے نفرت کرنے والی کسی عالمی طاقت نے غم و غصہ کا اظہار کیا ہے۔ عالمی طاقتوں کی اس چشم پوشی اور اسرائیلی دہشت گردی کے اس انکشاف کے بعد یہ کہا جا سکتا ہے کہ مغربی کنارے میں فلسطینی شہدا کے اعضا چوری کیے جانے کا یہ پہلا واقعہ نہیں ہو سکتا۔ اسی طرح لاپتا فلسطینیوں سے لے کر صابرہ اور شاتیلا تک کے شہداء اور خصوصاً وہ سیکڑوں فلسطینی شہری جنہیں اسرائیلی فوج ان کیمپوں سے ٹرکوں میں ڈال کر لے گئی تھی لیکن بعد ازاں ان کی کوئی خبر سامنے نہیں آئی۔ بہت ممکن ہے کہ ان کے ساتھ بھی اسی نوعیت کا سلوک کیا گیا ہو اس امکان کو بھی رد نہیں کیا جا سکتا کہ اسرائیلی جیلوں میں طویل عرصے تک رکھے جانے والے فلسطینی نوجوانوں کو بھی اور کچھ نہیں تو ان کے گردوں سے ضرور محروم کر دیا جاتا ہو گا۔ جیسا کہ جنوری ۲۰۰۲ء میں ایک اسرائیلی وزیر نے بڑی ہوشیاری کے ساتھ یہ اعتراف بھی کیا تھا کہ فلسطینی شہداء کے اعضا نکال کر پیوندکاری لواحقین کی مرضی کے بغیر بعید از قیاس نہیں کہی جا سکتی۔ اس اسرائیلی وزیر سیم دیان نے ایک رکن پارلیمنٹ کی طرف سے اٹھائے گئے سوال پر یہ بھی کہا تھا کہ فلسطینی نوجوانوں کے اعضاء کی پیوند کاری یا سائنسی تحقیق کی غرض سے استعمال کیے جانے کی تصدیق یا تردید نہیں کی جا سکتی۔
’’بوئے خون آتی ہے اس قوم کے ایوانوں سے‘‘۔
یاد رہے کہ یہی الزام مرحوم یاسر عرفات نے بھی الجزیرہ ٹی وی کو چند سال قبل دیے گئے اپنے ایک انٹرویو کے دوران اسرائیلی فوج پر عائد کیا تھا کہ ’’اسرائیلی فوج فلسطینی نوجوانوں کو شہید کر کے ان کے اعضاء نکال لیتی ہے۔ لیکن کئی برسوں پر پھیلی اس غیر انسانی چوری اور جرم کے باوجود اسرائیلی حکومت یا کسی عالمی ادارے نے سنجیدہ تحقیقات کی ضرورت محسوس نہیں کی‘‘۔
ایک فلسطینی اخبار نویس سائرہ صوفان کے مطابق فلسطینیوں کے اعضا نکالنے اور چرانے کا یہ عمل ۱۹۹۰ء کی دہائی سے بھی پہلے سے جاری ہے۔ فلسطینی نوجوانوں کو شہید کیے جانے کے بعد ان کے اعضا کی جگہ ان کے جسموں میں روئی بھر دی جاتی ہے۔ یہ سلوک بعض اوقات ان سیاحوں کے ساتھ بھی کیا جاتا ہے جن کا انتقال اسرائیل میں ہو جائے۔ اس کا نشانہ اسکاٹ لینڈ کا ایک شہری ۱۹۹۹ء میں بنا تھا۔ اسکاٹ لینڈ کے اس شہری کا انتقال اسرائیل کے گورین ایئر پورٹ پر ’’نامعلوم وجوہات‘‘ کی بناء پر ہو گیا تھا لیکن اسرائیلیوں نے اس کے پوسٹ مارٹم کے نام پر اس کے جسم کے اعضاء نکال لیے جس پر اسکاٹش شہری کے والدین نے اسرائیل کے خلاف عدالت سے رجوع کر لیا اور کافی دنوں تک یہ تنازع چلتا رہا۔ اسرائیلی حکام نے انسانی دل اور دیگر اعضاء مذکورہ اسکاٹش کی والدہ کو بھجوا دیے لیکن اس نے انہیں وصول کرنے سے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ یہ اعضاء اس کے بیٹے کے نہیں ہیں۔
گویا اسرائیل کے اس وحشیانہ چہرے کا انکشاف ہر گز نیا نہیں ہے لیکن مسلمانوں کے خلاف ہر طرح کا پروپیگنڈا کرنے والے اور ان کے افسانوں میں بھی بوئے خوں کا واویلا کرنے والے ممالک اور انسانی حقوق کی عالمی تنظیمیں ہیں کہ اپنی لاڈلی اور ناجائز اسرائیلی ریاست کی کرتوتوں پر مجال ہے جو بدمزہ ہوئی ہوں، شرمندہ ہوں یا ان کے ضمیر بیدار ہوئے ہوں۔ مگر کب تک؟ کب تک اسرائیل کی ’’روگ آرمی‘‘ انسانیت کی توہین کی مرتکب ہوتی رہے گی اور کب تک ظلم کی بساط بچھی رہ سکتی ہے۔ آخر یوم حساب سے پہلے دنیا میں بھی ایک یوم حساب کا سامنا سب اقوام کو کرنا پڑتا ہے۔ جس کے بعد ان اقوام کے ہاں کا سورج کسی اور کے ہاں طلوع ہونے لگتا ہے جبکہ ایسی ظالم ریاستوں کا اپنا سورج بھی شام سے بہت پہلے، دن دہاڑے غروب ہو جاتا ہے۔
(بشکریہ: ماہنامہ ’’محور‘‘ لاہور۔ اکتوبر ۲۰۰۹ء)
Leave a Reply