ہندوستان اور پاکستان کے درمیان ابھی تک جو مذاکرات ہوئے ہیں وہ سیکرٹری خارجہ کی سطح کے ہیں۔ تاہم ان مذاکرات کا خوش آئند پہلو یہ ہے کہ ان کی پیش رفت کا جائزہ دونوں ملکوں کے وزراے خارجہ وقتاً فوقتاً لیتے رہے ہیں۔ جامع مذاکرات کے لیے دونوں ملکوں کے وزراے خارجہ کی ایک میٹنگ ۶۔۵ ستمبر کو نئی دہلی میں ہوئی‘ اس سے قبل یعنی ۴ ستمبر کو دونوں ملکوں کے خارجہ سیکرٹری وزراے خارجہ کی میٹنگ کا ایجنڈا تیار کیا گیا۔ مذاکرات اور ملاقاتوں کی اس کڑی میں ایک اہم ملاقات کی امید کی جارہی ہے۔ مذاکرات اور ملاقاتوں کا جو سلسلہ شروع ہوا ہے اس سے تعلقات میں کافی پیش رفت ہوئی ہے لیکن سیاسی تبصرہ نگاروں کو شروع سے ہی یہ خطرہ محسوس ہوتا رہا ہے کہ کہیں مٹھاس کھٹاس میں نہ بدل جائے جیسا کہ گزشتہ ملاقاتوں میں ہوتا رہا ہے۔
موجودہ سیاسی حالات میں جہاں ہندوستان پاکستان سرکاری سطح پر امن مذاکرات جاری رکھے ہوئے ہیں وہیں کشمیر حریت پسندوں بالخصوص حریت کانفرنس سے مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے بات چیت کے ۲ دور ہو چکے ہیں اور تیسرے دور کے لیے راہیں ہموار کی جارہی ہیں جبکہ حریت کانفرنس کے انتہا پسند گروپ کا اپنا ایک الگ موقف شبہ پیدا کرتا ہے کہ کہیں امن کی راہ میں خلل کا باعث نہ بن جائے۔
گزشتہ دنوں وزارتِ داخلہ کے وزیرِ مملکت جے پرکاش جیسوال نے ایک بیان میں کہا ہے کہ حریت کانفرنس (عباس گروپ) کے ساتھ بات چیت میں رکاوٹ کا سبب حریت کا اندرونی اختلاف ہے جبکہ مرکزی حکومت سب ہی کے ساتھ بات چیت کرنے پر آمادہ ہے۔ علی گیلانی نے تحریکِ حریت جموں و کشمیر کی داغ بیل ڈال دی ہے۔ گیلانی شروع سے ہی پاکستان کے حامی و ہمنوا رہے ہیں ان کا کہنا ہے کہ کشمیری آزادی نہیں بلکہ پاکستان سے الحاق کے خواہشمند ہیں۔ گیلانی کے مطابق انہیں تمام جماعتوں کی حمایت حاصل ہے جبکہ جی ایم بھٹ جو جماعت اسلامی جموں و کشمیر کے امیر رہ چکے ہیں ان سے اتفاق نہیں کرتے ان کا کہنا ہے کہ تحریکِ حریت جموں و کشمیر جماعت کے آئین کے خلاف ہے۔ گیلانی کہتے ہیں کہ جماعت اسلامی کی مجلس شوریٰ کی حمایت انہیں حاصل ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ نظیر احمد کاشانی کو میٹنگ میں بلایا گیا تھا مگر وہ نہیں آئے تو پھر حمایت کا سوال کہاں رہ جاتا ہے۔ گیلانی کا اس بات پر زور کہ تحریکِ حریت کا ممبر صرف اور صرف وہی ہو گا جو اسلام کو مانتا ہو اس طرح پنڈتوں کو انہوں نے الگ کر دیا ہے جبکہ کشمیر کا کلچر صوفی تہذیب کا غماز ہے۔ یٰسین ملک‘ آسیہ اندرابی نے اعتراض کیا ہے کہ اسلام کے بارے میں گیلانی بولنے والے کون ہوتے ہیں؟ اس سے پہلے مرکزی وزیرِ داخلہ شیوراج پاٹل کے اس بیان پر کہ حریت کانفرنس اور جموں و کشمیر کی دوسری علیحدگی پسند تنظیموں کے ساتھ بات چیت دستور کے دائرے میں ہی ہو سکتی ہے‘ ردِعمل ظاہر کرتے ہوئے حریت کانفرنس کے ایک گروپ نے کہا تھا کہ مرکزی حکومت کے ساتھ بات چیت جاری رکھنے میں اسے کوئی دلچسپی نہیں ہے اور اس کے لیے مرکزی وزیرِ داخلہ شیوراج پاٹل نے جواز پیدا کر دیا ہے۔ سابقہ این ڈی اے حکومت کے دور میں مرکزی حکومت کے نمائندوں اور کشمیری پنڈتوں کے درمیان دو مرتبہ بات چیت میں حصہ لینے والے حریت کے کارگزار صدر عمر فاروق نے کہا کہ شیوراج پاٹل کا بیان ناقابلِ قبول ہے اور حریت بات چیت کو مشروط بنانے کے خلاف ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہیں کہ مسئلۂ کشمیر کا حل پُرامن طریقے سے ہی نکالا جاسکتا ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ یہ ہمارا کمزور پہلو ہے اور نہ یہ سمجھنا چاہیے کہ ہم اپنے حقوق سے دست بردار ہو جائیں گے۔ میر واعظ عمر فاروق نے دعویٰ کیا ہے کہ سابقہ این ڈی اے حکومت نے یہ مطالبہ تسلیم کر لیا تھا کہ تیسرے مرحلے کی بات چیت کے بعد حریت لیڈروں کو پاکستان جانے کی اجازت دے دی جائے گی تاکہ گفت و شنید کے اس عمل کو آگے بڑھانے کے لیے وہ پاکستان کے ذمہ داروں‘ مجاہدین اور دوسرے متعلقہ لوگوں سے تبادلۂ خیال کر سکیں انہوں نے کہا کہ اگر سابقہ حکومت کی طرح یو پی اے حکومت بھی یہ مانتی ہے کہ مسئلۂ کشمیر ہندوستان و پاکستان اور کشمیری عوام سے تعلق رکھتا ہے تو اس کے حل کے لیے اسے ایمانداری سے کوشش کرنی چاہیے جبکہ مرکزی حکومت کے ذمہ داروں کے بیانات سے ایسا محسوس نہیں ہوتا۔ حریت لیڈر کے مطابق شیوراج پاٹل کے بیان سے صورت حال خراب ہوئی ہے اور جو کسر رہ گئی تھی وہ نٹور سنگھ کے بیان نے پوری کر دی۔ مرکزی حکومت اور کشمیری علیحدگی پسند گروپوں کے درمیان گفتگو کا تیسرا دور اسی مہینے میں شروع ہونا تھا لیکن لوک سبھا انتخابات اور مرکزی حکومت کی تبدیلی کے سبب اس میں تاخیر ہوئی۔
بات چیت دوبارہ شروع کرانے کی مرکزی حکومت کی پوزیشن بظاہر کمزور ہو چکی ہے‘ ان کوششوں کو علی شاہ گیلانی کی نئی پارٹی تحریکِ حریتِ جموں و کشمیر کے اس اعلان سے بھی دھچکا لگا ہے کہ مسئلہ کا واحد حل صرف استصواب کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ نئی پارٹی کے سربراہ گیلانی کا کہنا ہے کہ ان کی پارٹی کو کسی طرح کی بات چیت سے کوئی سروکار نہیں ہے‘ خواہ وہ سہ فریقی ہو‘ دو فریقی ہو یا کسی اور نوعیت کی ہو۔ مظفر آباد اور سری نگر کے درمیان بس سروس شروع کیے جانے کے بھی وہ مخالف ہیں۔ اگر یہ مان لیا جائے کہ مرکز کی نئی حکومت کے اس اعلان پر کہ کشمیری علیحدگی پسندوں کے ساتھ دستور کے دائرے میں بات چیت ہو سکتی ہے‘ کی وجہ سے بات چیت کا سلسلہ منقطع ہوا تو یہ سوال کیا جاسکتا ہے کہ کیا سابقہ این ڈی اے حکومت دستور سے باہر رہ کر گفت و شنید کر رہی تھی یا اس کی لیے آمادگی کا اظہار کر چکی تھی۔ حکومت خواہ کوئی بھی ہو‘ دستورِ ہند کے تحت ہی علیحدگی پسند گروپ سے بات چیت کے لیے آمادہ ہو سکتی ہے۔ علیحدگی پسندوں کا تعلق جموں و کشمیر سے ہو یا شمال مشرقی خطے سے۔
ایسے حالات میں جبکہ ہندوستان و پاکستان باہمی کشیدگی کم کرنے کی مسلسل کوششوں میں مصروف ہیں اور دونوں ملکوں کے عوام بھی ان کوششوں کی کامیابی کے متمنی ہیں۔ کشمیری علیحدگی پسندوں کے ساتھ بات چیت کا منقطع ہونا خود کشمیری عوام کے لیے بھی مایوس کن ہو گا۔ لہٰذا ضروری ہے کہ علیحدگی پسند لیڈر جو کشمیری عوام کی نمائندگی کے دعویدار ہیں ان کے جذبات کا احترام کرتے ہوئے ہی کوئی حتمی فیصلہ کریں۔
(بحوالہ: روزنامہ ’’سیاست‘‘۔ حیدرآباد دکن)
Leave a Reply