چین کی حکومت نے آبادی پر قابو پانے کے لیے فی جوڑا ایک بچے کی جو پالیسی اپنائی تھی وہ اب خطرناک نتائج کو جنم دے رہی ہے۔ بیشتر گھرانوں نے اولادِ نرینہ کو ترجیح دی تھی تاکہ بڑھاپے میں کچھ سہارا رہے۔ اس کا نتیجہ یہ برآمد ہوا ہے کہ اب چین میں لڑکیوں کی تعداد غیر معمولی حد تک کم ہوگئی ہے۔ لڑکیوں کے مقابلے میں لڑکوں کا زیادہ ہونا آبادی میں عدم توازن کا باعث بنا ہے۔ کروڑوں چینی نوجوانوں کو اب شادی میں شدید مشکلات پیش آرہی ہیں۔
۲۹ سالہ ژینگ وائی بیجنگ کی ایک فرم میں اعلیٰ عہدے پر ہے۔ اس کی آمدنی بھی معقول ہے مگر اس کے باوجود وہ اب تک شادی نہیں کر پایا۔ اس کا سبب یہ ہے کہ وہ اب تک بیجنگ میں کوئی اپارٹمنٹ نہیں خرید سکا ہے۔ بات کچھ یوں ہے کہ چین میں لڑکیاں اسی لڑکے سے شادی کو ترجیح دیتی ہیں جس کے پاس اپنا گھر یا اپارٹمنٹ ہو۔ ایسے میں اُن لڑکوں کو گھاس ڈالنے والی لڑکیاں برائے نام ہیں جن کے پاس اپنی چھت نہیں۔ بہت سے لڑکے دس دس سال تک بچت کرتے رہتے ہیں تاکہ اپنا اپارٹمنٹ خرید سکیں۔ ایسا کرنے میں شادی کی عمر بھی گزر جاتی ہے۔
چین میں بہت سے بلکہ کروڑوں گھرانے اس حوالے سے شدید مشکلات کا شکار ہیں۔ والدین چاہتے ہیں کہ ان کا بیٹا اپنے پیروں پر کھڑا ہوتے ہی گھر بسالے۔ مگر بسانے کے لیے پہلے گھر خریدنا پڑتا ہے۔
چین میں لڑکوں کے مقابلے میں لڑکیوں کی تعداد اتنی کم ہے کہ اب بیشتر لڑکیوں کے ذہن میں یہ بات سما گئی ہے کہ کسی بھی ایسے لڑکے سے شادی نہ کی جائے جس کے پاس اپنا گھر یا اپارٹمنٹ نہ ہو۔ وہ چاہتی ہیں کہ صورت حال کا بھرپور فائدہ اٹھایا جائے اور زیادہ سے زیادہ دولت مند لڑکے سے شادی کی جائے۔ لڑکیاں اس حقیقت کو اچھی طرح جانتی ہیں کہ ریاستی پالیسی نے انہیں غیر معمولی موقع دے دیا ہے۔ وہ اس موقع کی مدد سے زندگی میں وہ سب کچھ چاہتی ہیں جس کی محض خواہش کی جاسکتی ہے۔
ساتھ ہی ساتھ چینی لڑکیاں اس بات کو بھی ترجیح دیتی ہیں کہ ان کا جیون ساتھی کسی سرکاری ادارے میں اچھے عہدے پر ہو۔ سرکاری عہدے پر تعینات ہونے کا ایک واضح مفہوم یہ ہے کہ نوکری بھی پکی ہے اور ادارہ بھی ترقی کرتا رہے گا۔ وہ صرف اپنی ذاتی چھت والا لڑکا ہی نہیں چاہتیں بلکہ اس کے معاشی امکانات پر بھی نظر رکھتی ہیں۔
اشتہاری کمپنی کے سربراہ لی جن لنگ کا کہنا ہے کہ سرکاری ادارے میں اعلیٰ عہدہ رکھنا اچھی بات ہے مگر بہت سی لڑکیوں کو یہ بھی پسند نہیں آتا کیونکہ سرکاری نوکری میں زیادہ کمانے کی گنجائش نہیں ہوتی۔ ایسے میں لڑکیاں نجی کمپنیوں میں کسی بلند منصب پر کام کرنے والوں کو پسند کرتی ہیں۔ جب سے چین میں نجی شعبے کو زیادہ کھل کر کام کرنے کی اجازت دی گئی ہے، بہت سے لوگ نجی ملازمت میں زیادہ کماتے ہیں۔ مقابلہ سخت ہو تو صلاحیتوں کو پروان چڑھانے کی تحریک بھی ملتی ہے۔
اگر لڑکیوں سے پوچھا جائے کہ کیا ان کے ماں باپ شادی کے لیے دباؤ نہیں ڈالتے کیونکہ انہیں بھی تو نواسے اور نواسی کھلانے کی آرزو ہوتی ہے۔ اس پر لڑکیاں کہتی ہیں کہ ان پر والدین کی طرف سے شادی کے لیے کچھ خاص دباؤ نہیں کیونکہ وہ بھی جانتے ہیں کہ لڑکیوں کی تعداد کم ہونے سے ان کی بیٹیوں کے لیے امکانات روشن ہیں۔
لی جنگ کا کہنا ہے کہ اُسے شادی کی کچھ خاص جلدی نہیں کیونکہ اسے اندازہ ہے کہ وقت اس کے ساتھ ہے۔ اس کی زندگی میں اب امکانات کی بہار ہے۔ لڑکوں کی تعداد بڑھ جانے سے معاشرے میں لڑکیوں کی قدر غیر معمولی حد تک بڑھ گئی ہے، جس کے نتیجے میں لڑکیاں پہلے سے کہیں زیادہ پراعتماد ہوگئی ہیں۔ چین میں خواتین کو زیادہ کمانے کے مواقع بھی میسر ہیں۔ وہ اب شادی کے فیصلے کو موخر کرتے رہنے پر یقین رکھتی ہیں۔ وہ چاہتی ہیں کہ زیادہ سے زیادہ کماکر اپنے لیے بہت اچھی زندگی کا سامان کریں۔ انہیں اندازہ ہے کہ جب تک آبادی میں مردوں کی تعداد زیادہ ہے، تب تک ان کے لیے امکانات روشن ہی رہیں گے۔ چین میں آبادی سے متعلق کمیشن کا کہنا ہے کہ ۲۰۲۰ء تک شادی کے قابل مرد شادی کے قابل عورتوں سے کروڑ زائد ہوں گے۔
چینی معاشرہ روایتی طور پر مردوں کا رہا ہے، جس میں خواتین کے لیے کچھ کر دکھانے کی زیادہ گنجائش کبھی نہیں چھوڑی گئی۔ بیسویں صدی کے اوائل تک خواتین کے پیر لوہے کے سانچے میں مقید رہتے تھے تاکہ وہ چھوٹے رہیں۔ یہ گویا خواتین کو اس بات کا احساس دلانے کے لیے تھا کہ وہ مردوں سے کمتر ہیں اور انہیں کمتر ہی رہنا چاہیے۔ چینی خواتین میں اب اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کرنے کا احساس تیزی سے بیدار ہو رہا ہے۔ وہ چاہتی ہیں کہ معاشرے میں انہیں جائز مقام ملے، حقوق دیے جائیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ انہیں واقعی مردوں کے برابر سمجھا جائے۔ ۱۹۴۹ء میں جب کمیونسٹ پارٹی اقتدار میں آئی، تب چیئرمین ماؤزے تنگ نے یہ کہا تھا کہ نصف آسمان خواتین نے تھام رکھا ہے۔ یہ گویا خواتین کو برابری کی حیثیت دینے کا اعلان یا ارادہ تھا۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ بات محض نعرے تک رہی اور خواتین کو چینی معاشرے میں وہ مقام نہیں مل سکا جس کی وہ بجا طور پر مستحق ہیں۔ چین میں خواتین کام کرنے والی افرادی قوت کا حصہ ہیں اور ہر شعبے میں مردوں کے شانہ بشانہ کام کرتی آئی ہیں۔
آج چین میں مرد و زن کی تعداد کے حوالے سے جو عدم توازن پایا جاتا ہے اس کا بڑا سبب یہی مرد پسندی ہے۔ بیشتر جوڑے اس بات کے حق میں رہے ہیں کہ ان کے گھر بیٹا پیدا ہو۔ حمل کے دوران جب ٹیسٹ کے ذریعے معلوم ہوجاتا تھا کہ رحم مادر میں بیٹی پل رہی ہے تو اسقاطِ حمل کا سہارا لے کر اس سے جان چھڑائی جاتی تھی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اب معاشرے میں لڑکے زیادہ ہیں اور لڑکیاں کم۔ دی پیکنگ یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی کے طالب علم لارین جانسٹن کا کہنا ہے کہ ہر گھرانے کو وارث کی تلاش تھی۔ اس کا نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ معاشرے میں ہر طرف وارث ہی وارث ہیں اور لڑکیوں کی گھٹتی ہوئی تعداد نے صنفی فرق کو بحران میں تبدیل کردیا ہے۔ آج چینی معاشرہ جس بحران کا شکار ہے، اس کی بنیاد ۱۹۸۰ء کے عشرے میں پڑی تھی۔
چینی معاشرے میں خواتین کی تعداد کم ہوتی جارہی ہے۔ وہ شادی کے حوالے سے بہتر امکانات کی حامل ہیں مگر مجموعی طور پر معاشرے میں اب بھی ان کے لیے حالات بہت اچھے نہیں ہوئے۔ بیشتر گھرانوں میں اب بھی عورت کو کمتر سمجھا جاتا ہے۔ جو خواتین اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کرتی ہیں، انہیں اچھا نہیں سمجھا جاتا۔ یہ بات بالکل پسند نہیں کی جاتی کہ کوئی عورت اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کرے۔ حکومت بھی چاہتی ہے کہ حقوق نسواں کے لیے کوئی جاندار تحریک نہ چلائی جائے۔ کسی دور میں چین میں حقوق نسواں کی تحریک چلانے کے لیے معروف یونیورسٹی، یونیورسٹی آف مشی گن کی پروفیسر وینگ ژھینگ کا کہنا ہے کہ چین کی حکومت کو اس بات سے کچھ بھی غرض نہیں کہ خواتین کے کیا حقوق ہیں اور یہ کہ انہیں یہ حقوق بھی دیے جانے چاہئیں۔
آج چین میں ہر طرف اس بات کا مشاہدہ آسانی اور عمدگی سے کیا جاسکتا ہے کہ خواتین اپنی بات منوانے میں بہت حد تک کامیاب ہیں اور بیشتر معاملات کو آسانی سے اپنے لیے موقع میں بدل سکتی ہیں۔
۱۹۹۵ء میں اقوام متحدہ کے تحت منعقد کی جانے والی ایک اعلیٰ سطح کانفرنس کے بعد سے بیجنگ حکومت خواتین کے حالات بہتر بنانے اور انہیں ان کے حقوق دینے کے سلسلے میں متحرک دکھائی دی ہے۔ اس کانفرنس میں اس وقت کی امریکی خاتونِ اول ہلیری کلنٹن نے بھی شرکت کی تھی۔ تب سے اب تک خواتین کے لیے تعلیم اور ملازمت کے مواقع میں اضافے پر خاص توجہ دی گئی ہے۔ گھریلو تشدد کی روک تھام کو بھی حکومت نے اپنی ترجیحات میں شامل کیا ہے اور طلاق کے سخت قوانین میں بھی خواتین کے لیے نرمی کرنے کو اپنے مقاصد میں شمار کیا ہے۔
چین کی خواتین میں اب شعور بیدار ہوچکا ہے۔ وہ اپنے حقوق کے لیے لڑنے کا عزم اور سلیقہ رکھتی ہیں۔ بہت سی خواتین پہلے پریشان کن حالات کا سامنا کرتی رہتی تھیں مگر اب ایسا نہیں ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ برے گھریلو حالات کے باوجود خواتین طلاق لینے کو ترجیح نہیں دیتی تھیں۔ مرد جانتے تھے کہ خواتین اولاد کی خاطر ایسا نہیں کریں گی مگر اب حالات تبدیل ہوچکے ہیں۔ خواتین مظالم برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں۔ ایسی خواتین کی تعداد کم نہیں جنہوں نے گھریلو مسائل سے تنگ آکر طلاق لے لی۔ ان کے شوہروں کے لیے یہ سب کچھ بہت حیرت انگیز تھا۔ انہیں یقین نہ آیا کہ ایسا بھی ہوگا۔ وہ اپنے ذہنوں میں اس تصور کو راسخ کیے بیٹھے تھے کہ اولاد کی خاطر ان کی بیویاں ہر صورت حال کو برداشت کرتی رہیں گی۔ طلاق سے متعلق قوانین میں نرمی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے خواتین نے اپنے لیے بہتر زندگی کا امکان یقینی بنانے پر توجہ دی ہے۔
چینی معاشرہ اب بھی بہت سی روایات کا امین ہے۔ والدین اس بات کو پسند نہیں کرتے کہ ان کی اولاد طلاق کی طرف جائے مگر شہروں میں خواتین اپنی مرضی کی زندگی بسر کرنا چاہتی ہیں۔ وہ کسی بھی طرح کا غیر ضروری جبر برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں۔ انہیں اندازہ ہے کہ حالات ان کے حق میں ہیں۔ ایسے میں نئی زندگی شروع کرنا بھی ان کے لیے کچھ دشوار نہیں۔ والدین اگر پسند نہ کریں تب بھی وہ طلاق لے کر نئی زندگی شروع کرنے کو ترجیح دیتی ہیں۔ جب سے معاشرے میں مردوں کی تعداد نمایاں طور پر زیادہ ہوئی ہے، خواتین کا رویہ تبدیل ہوگیا ہے۔ ایسے میں وہ اپنے لیے زیادہ سے زیادہ فوائد حاصل کرنا چاہتی ہیں۔ گھریلو تشدد کے واقعات پہلے بھی ہوتے تھے اور اب بھی ہوتے ہیں۔ پہلے معاملات طلاق تک نہیں پہنچتے تھے۔ اب کیفیت کچھ اور ہے۔ کسی بھی عورت پر گھر میں تشدد ڈھایا جائے تو وہ عدالت کا دروازہ کھٹکھٹا سکتی ہے۔ مردوں کو اندازہ ہوچکا ہے کہ اب وقت ان کا نہیں رہا۔ یہ بہت عجیب صورت حال ہے۔ صنفی تناسب میں مردوں کی ناموافق کیفیت نے طلاق کی شرح بلند کردی ہے۔ خواتین جانتی ہیں کہ طلاق لینے کی صورت میں انہیں نیا جیون ساتھی آسانی سے مل جائے گا۔ مرد خوف زدہ رہتے ہیں۔ ان کے لیے پہلی شادی ہی بہت مشکل سودا ہوتی ہے۔ ایسے میں وہ دوسری شادی کے کس طور متحمل ہوسکتے ہیں۔ بیجنگ، شنگھائی اور دیگر بڑے شہروں میں طلاق کی شرح بلند ہوتی جارہی ہے۔ کل تک جن شہروں میں طلاق کی شرح ایک فیصد سے زائد نہیں تھی، وہاں اب یہ معاملہ ڈھائی سے تین فیصد تک پہنچ چکا ہے۔
چین کے خاندانی منصوبہ بندی کمیشن کے سابق عہدیدار لیو شیا کا کہنا ہے کہ چین میں طلاق کی شرح بلند ہو رہی ہے اور فی الحال ایسا ہی لگتا ہے کہ یہ رجحان مزید پنپے گا۔ خواتین میں یہ احساس پوری شدت کے ساتھ موجود ہے کہ وقت ان کے ساتھ ہے اور وہ اپنی ہر بات عمدگی سے منوا سکتی ہیں۔ مردوں کی تعداد میں اضافے سے خواتین کا رویہ تیزی سے تبدیل ہو رہا ہے۔ وہ چاہتی ہیں کہ اپنا آپ منوائیں اور کسی بھی طرح کے غیر ضروری دباؤ کا شکار نہ ہوں۔ جن گھروں میں ذرا بھی ناچاقی ہو ان میں طلاق کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔
ایک بڑی الجھن یہ بھی ہے کہ کل تک لڑکیاں بیس سال کی عمر تک شادی کرلیا کرتی تھیں۔ اب وہ بہتر زندگی کے امکانات کی تلاش میں شادی کو تاخیر کی نذر کر رہی ہیں۔ ملک بھر میں اب لڑکیوں میں شادی کی اوسط عمر ۲۷ سال تک پہنچ چکی ہے۔ بہت سے لڑکے چھوٹی عمر میں شادی کرنا چاہتے ہیں مگر لڑکیاں اس کے لیے تیار نہیں۔ وہ اعلیٰ تعلیم اور بہتر ملازمت کے ذریعے اپنا مستقبل زیادہ سے زیادہ تابناک بنانا چاہتی ہیں۔ یہ ایسا معاملہ ہے جس میں معاشرہ کچھ کرسکتا ہے نہ حکومت۔ والدین بے بس ہیں۔ وہ بھی چاہتے ہیں کہ ان کی اولاد کا مستقبل زیادہ سے زیادہ محفوظ اور تابناک ہو۔ لڑکیوں کے معاملے میں والدین اب زیادہ بے بس ہوچلے ہیں۔ اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ تعلیم نے ان میں شعور کی سطح بلند کردی ہے۔ لڑکیاں اب اپنا برا بھلا خود طے کرنے کے موڈ میں دکھائی دیتی ہیں۔ دیہی معاشرے میں تو لڑکیوں کو کسی حد تک اپنی مرضی کے سانچے میں ڈھالا جاسکتا ہے مگر شہری ماحول میں والدین کے لیے ایسا کرنا ممکن نہیں رہا۔ سوال ریاستی دباؤ کا نہیں، تعلیم اور شعور کا ہے۔ لڑکیاں اپنی زندگی کی سمت خود متعین کرنا چاہتی ہیں۔ وہ تعلیم بھی اپنے فیصلے کے تحت حاصل کرتی ہیں اور ملازمت بھی انہی کا فیصلہ ہوتا ہے۔ اب شادی کے معاملے میں بھی والدین ان کی مرضی کے پابند ہوچلے ہیں۔ وہ اس معاملے میں کوئی خاص دباؤ ڈالنے کی پوزیشن میں نہیں رہے۔
ریاستی مشینری اس صورت حال سے بہت پریشان ہے کیونکہ صنفی عدم توازن بہت سی خرابیاں پیدا کر رہا ہے۔ کئی برسوں کے دوران، چینی معاشرے میں مردوں کی تعداد زیادہ ہو جانے کے باعث، جسم فروشی کا دھندا تیزی سے پروان چڑھا ہے۔ انسانی اسمگلنگ کا معاملہ بھی تیزی سے ابھر کر سامنے آیا ہے۔ علاقائی ممالک سے لڑکیوں کو لاکر چین میں جسم فروشی کے دھندے پر لگایا جارہا ہے۔ لڑکیوں کی گھٹتی ہوئی تعداد نے بہت سے مردوں کو غیر اخلاقی عادات کی راہ پر گامزن کردیا ہے۔
کولمبیا یونیورسٹی کے سابق پروفیسر اور اب ایشیائی ترقیاتی بینک کے مرکزی معیشت دان وائی شینگ جن کا کہنا ہے کہ چین میں سماجی سلامتی کا معقول انتظام نہیں۔ لوگوں کو بڑھاپے کے لیے بہت کچھ بچانا پڑتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ چینی معاشرے میں بچت کا رجحان غیر معمولی حد تک پروان چڑھا ہوا ہے۔ اور اب خواتین نے تعلیم پانے کے بعد ملازمت کرنا بھی شروع کردی ہے جس کے نتیجے میں بچتوں کا رجحان مزید پروان چڑھا ہے۔ لڑکیاں تاخیر سے شادی اس لیے کر رہی ہیں کہ بیس سال تک کی عمر میں ملازمت کرنے کے بعد وہ پانچ چھ سال تک کچھ نہ کچھ بچانا چاہتی ہیں تاکہ بعد میں ان کے لیے زیادہ مسائل پیدا نہ ہوں۔ یہ صورت حال بہت سی پیچیدگیوں کو جنم دے رہی ہے۔ بچتوں کا رجحان اس لیے بھی قوی ہے کہ بہت سے لڑکے شادی کے لیے زیادہ سے زیادہ زَر جمع کرنا چاہتے ہیں۔ انہیں اندازہ ہے کہ دلہن سستی نہیں ملے گی۔ یہ صورت حال معاشرے میں معاشرتی ہی نہیں، معاشی عدم توازن بھی پیدا کر رہی ہے۔
ریاست اب تک فی گھرانہ ایک بچے کی پالیسی پر کاربند ہے، اس لیے لڑکا اور لڑکی دونوں اپنے مستقبل کو زیادہ سے زیادہ محفوظ بنانے کے لیے متحرک رہتے ہیں۔ انہیں اندازہ ہے کہ بڑھاپے میں ریاست زیادہ کام نہ آئے گی اور انہی کو کچھ کرنا پڑے گا۔ بڑھاپے میں زیادہ مشقت سے بچنے کے لیے وہ کچھ نہ کچھ بچاکر رکھنا چاہتے ہیں۔ مستقبل کو محفوظ کرنے کا ان کے پاس یہی ایک اچھا طریقہ رہ گیا ہے۔
صنفی عدم توازن دور کرنے کے حوالے سے چینی حکومت کو بہت کچھ کرنا ہے کیونکہ یہ ایک حقیقت، کئی حقیقتوں کو کچھ کا کچھ بنانے پر تُلی ہوئی ہے۔ معاشرتی عدم توازن بھی بڑھتا جارہا ہے۔ خواتین کے مزاج میں تبدیلی رونما ہو رہی ہے۔ وہ زیادہ خود غرض، ضدی اور سخت گیر ہوتی جارہی ہیں۔ شادی کے لیے لڑکی تلاش کرنا ایک بہت بڑا دردِ سر ہوگیا ہے۔ یہ صورت حال بہت سی لڑکیوں کا دماغ خراب کرنے کے لیے کافی ہے۔ حکومت کو اس حوالے سے فوری طور پر کچھ نہ کچھ کرنا ہوگا تاکہ معاملات قابو میں رہیں اور بہتر زندگی کی طرف جانا زیادہ دشوار نہ ہو۔
“There goes the bride”. (“Newsweek”.June 6,2015)
Leave a Reply