بیسویں صدی کے عبقری نے اپنی تحریروں میں جابجا فرمایا ہے کہ دنیا میں کوئی قوم‘ گروہ‘ ملت‘ تحریک اس وقت تک نہ آگے بڑھ سکتی ہے اور نہ اپنا مقام برقرار رکھ سکتی ہے‘ جب تک کہ اس میں علم وفکر اور تحقیق و جستجو کی خو نہ ہو‘ ذوق نہ ہو اور وہ اسے اپنی ترجیحات میں سرِ فہرست نہ رکھے۔ علم و تحقیق سے خالی گروہ اور قوم کھوکھلی اور بودی ہوتی ہے۔ نہ اس کا کوئی وزن ہوتا ہے اور نہ اس کا دیرپا اثر۔
بدقسمتی سے ملت اسلامیہ کئی صدیوں سے علم و فکر اور تحقیق و جستجو کے میدان سے باہر ہے اور آج کی استعماری و استبدادی قوتیں اسے سمجھا بھی رہی ہیں کہ یہ میدان اس کے بس کا ہے ہی نہیں۔ ’’یہ کام ہمارا ہے‘ ہمارے بس میں ہے اور ہم ہی کو زیب دیتا ہے۔ آپ تو بس صارف (Consumer) بن کر رہیے یا ہمارے فرمودات کی جُگالی کا افتخار حاصل کیجیے‘‘۔ اسی لیے آج ہمارے ملک کی جامعات محض درس گاہیں (Schools) بن چکی ہیں‘ یہ مراکز تحقیق نہیں ہیں۔ تحقیق کے نام پر قائم سرکاری ادارے بھی بے سمت‘بے روح‘ بے جان اور بے کار ہوچکے ہیں۔ نجی طور پر قائم تحقیقی اداروں کا تو اب جینا بھی محال کردیا گیا ہے۔ (ادارۂ معارف اسلامی بھی اس سے مستثنیٰ نہیں‘ جو قلتِ مردانِ کار اور تنگیٔ وسائل کا شکار ہے۔)
ہمارے معاشرے میں ذوقِ علم و آگہی تو پہلے بھی کم ہی تھا۔ اب زرپرستی‘ فکری جمود پر اصرار اور ناک سے آگے نہ دیکھ سکنے کے مرض نے اس کمیاب ذوق کا گویا قلع قمع کردیا ہے۔ جب کہ بیرونی امداد کے سہارے تحقیق کے نام پر جو کچھ ہورہا ہے‘ وہ مغربی افکار و اقدار کی بھنگ گھوٹنے اور ہمارے جسدِ ملّی میں انڈیل دینے کی کاوش کے سوا کچھ اور نہیں۔ اسے فکری تشدّد کہا جائے تو بے جا نہیں ہوگا۔ لیکن اس ’’فکری بدراہی‘‘ کا مقابلہ جنہیں کرنا چاہیے‘ سوال یہ ہے کہ کیا وہ ایسا کررہے ہیں؟ بلکہ انہیں اس ضرورت کا کماحقہ احساس بھی ہے؟ کیا ہمارا معاشرہ اور خصوصاً اس میں برپا اسلامی قوتیں اپنے مردان کار اور دستیاب وسائل کا کوئی قابلِ لحاظ حصہ علم و تحقیق و جستجو کی نذر بھی کررہی ہیں یا یہ کام بھی فرشتوں کے سپرد سمجھ لیا گیا ہے؟
اسلامیوں کی پچھلی نسل نے الحاد و اشتراکیت اور سیکولراِزم کا مقابلہ صرف سیاسی طور پر نہیں کیا تھا‘ بلکہ فکر و نظر اور دلیل و برہان کے میدانوں میں بھی محسوس پیش رفت کی تھی۔ اس جدوجہد کی کامیابی اس صورت میں نظر آئی کہ اسلام زندگی کا محض ایک شعبہ‘ ایک نجی اور محدود معاملہ نہیں رہا۔ یہ ہیئت اجتماعیہ کا محور بلکہ خود ’’زندگی‘‘ بن گیا۔۔۔ اپنی تمام تر وسعتوں کے ساتھ پوری زندگی۔۔۔ کم از کم نظری اور اصولی طور پر۔۔۔!! یہی وجہ ہے کہ ہمارے ملک کا کوئی گروہ اور کوئی سیاسی پلیٹ فارم ایسا نہ رہا جو اسلام کو عدل اجتماعی کی بنیاد نہ کہتا ہو۔ یہ کامیابی سیاسی جدوجہد کا نتیجہ بھی تھی اور اس کی پشت پر بالخصوص اُس فکری و علمی جہاد کا سرمایہ بھی تھا جو عبقری کی قیادت میں اس سرزمین پر برپا کیا گیا۔
تاریخ کا یہ اہم سوال ہے اور اس کا جواب مستقبل میں کسی نہ کسی کو دینا ہوگا کہ پھر آخر کیا ہوا کہ جو جنگ جیتی جاچکی تھی، وہ دوبارہ کیوں درپیش ہوگئی ہے؟ ہماری مراد آج کے پاکستانی معاشرے کے فکری و نظری ابہامات سے ہے۔ بدقسمتی سے آج پھر ہمارے معاشرے کے موثر طبقات کے درمیان ہیئتِ اجتماعیہ میں اسلام کے مقام کی بحث چھڑ گئی ہے۔ آج پھر یہ سوال اٹھ کھڑا ہوا ہے کہ ریاست اور اس کے اداروں کی تشکیل و کارفرمائی میں مذہب کا کیا اور کتنا عمل دخل ہوگا؟ اگرچہ کہ یہ بات اتنی واضح اور اتنے سادہ طریقے سے نہیں کہی جاتی۔ مگر طبقاتِ عالیہ (Elite Class) اور پالیسی امور پر حاوی ہیئتِ مقتدرہ کی طرف سے جو کچھ کہا اور اس سے بڑھ کر کیا جارہا ہے‘ وہ ہمارے معاشرے‘ ہماری ریاست اور پوری ہیئتِ اجتماعیہ کی سیکولرائزیشن کا عمل ہے۔ مغربی تہذیب و تمدن‘ اس کی اقدار و افکار اور اس کا نظامِ ترجیحات ہمارے ہاں عملاً قبول کرلیا گیا ہے۔ قوم میں اس رَوش کی مخالفت جو کچھ بھی ہے‘ وہ زبانی ہے‘ سیاسی ہے‘ جذباتی ہے‘ سطحی ہے۔۔۔ جب کہ اس چیلنج کا مقابلہ علم و دانش‘ فہم و بصیرت‘ تحقیق و جستجو‘ دلیل و برہان اور اس کے پہلو بہ پہلو طویل و مسلسل سیاسی جدوجہد کے ذریعہ ہی ممکن ہے۔ گویا ایک ہمہ پہلو چیلنج ہے‘ چومکھی لڑائی ہے۔ اس کا مقابلہ بھی ہمہ پہلو اور چومکھی حکمتِ عملی کا متقاضی ہے۔جب کہ اس راستے میں ایک بڑی چٹان فکری جمود اور تحقیق و جستجو سے گریز بھی ہے‘ بالکل اسی طرح جیسے تہذیب حاضر کی فسوں کاری سے عام مرعوبیت ایک مصیبت ہے۔
طوالت سے بچنے کی خواہش کے باوجود ہم مزید عرض کرنا ضروری سمجھتے ہیں کہ آج کے تہذیبی و فکری چیلنجوں کا سامنا ہم اپنی فکر میں تازگی‘ قلب میں کشادگی اور رویوں میں شگفتگی پیدا کیے بغیر نہیں کرسکتے۔ یہ کام اس وقت تک نہیں ہوسکے گا جب تک ہمارے ذہین اور مالدار طبقات علمی و فکری و تحقیقی سرگرمیوں کی سرپرستی نہیں کریں گے۔ یہاں سرپرستی سے یہ بھی مراد ہے کہ اس محاذ پر پیسہ اسی طرح لگایا بلکہ بہایا جائے جس طرح اہل مغرب اپنی فکری پیش رفت کے لیے بے دریغ لٹارہے ہیں۔۔۔
اور سرپرستی میں یہ بھی شامل ہے کہ ہم اپنے بچوں میں نسبتاً ذہین افراد کو اعلیٰ تعلیم اور تحقیق کے میدان کی طرف بھیجیں‘ خصوصاً عمرانی علوم (Social Sciences) کے لیے۔ کیا یہ نہیں ہوسکتا کہ ہر خوشحال خاندان اپنے ایک لائق تر فرزند کو دینی و عمرانی علوم میں سے کسی ایک میں مہارت اور تحقیق و جستجو کے اعلیٰ مدارج تک رسائی کے لیے وقف کردے اور اس کے معاشی مفادات کو اپنی فیملی کے کاروبار میں پوری طرح محفوظ بھی رکھے تاکہ وہ پوری یکسوئی کے ساتھ علم و فکر کا بلند مقام حاصل کرنے کی جدوجہد کرتا رہے؟ علم و فکر اور تحقیق و جستجو کا کام اپنے ہاں کی کم تر ذہنی استعداد رکھنے اور دال روٹی کے لیے بھی فکر مند رہنے والی ناآسودہ شخصیات کے سپرد کرکے ہم نہ مغرب کی ابلیسی تہذیب کا علمی و فکری توڑ کرسکیں گے اور نہ اسلام کی علم و دانش میں بھی برتری کا سکہ جماسکیں گے۔ ایسی کھلی اور بدیہی بات کے باوجود اگر کوئی مغرب کی ٹھوکر کھاکر ازخود گرنے اور اس کے نتیجے میں ملت اسلامیہ کے خود بخود ابھر آنے کی خوش فہمی میں مبتلا ہو تو اسے اس سحرستان (Fantasy) سے نکلنے پر کوئی مجبور نہیں کرسکتا۔
(علمی و فکری اور تحقیق و جستجو کے کام کی ضرورت و اہمیت پر اسلامک ریسرچ اکیڈمی، کراچی کی مختصر کتاب ’’تہذیبی کشمکش میں علم و تحقیق کا کردار‘‘ ملاحظہ فرمائیے! ادارہ)
☼☼☼
Leave a Reply