
نوٹ: زیرِ نظر مضمون فروری / مارچ ۱۹۹۱ء میں کراچی سے شائع ہونے والے ایک مجلّہ ’’نوائے سحر‘‘ میں شائع ہوا تھا۔ کویت پر عراقی قبضے کے بعد امریکی فوجیں سعودی عرب میں اتر چکی تھیں اور امریکا کی قیادت میں ایک عالمی اتحاد وجود میں آچکا تھا‘ جس نے عراق پر حملہ کر کے اُس کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ لیکن نامعلوم وجوہ سے اتحادی افواج کی بغداد کی طرف پیش قدمی روک دی گئی اور صدام حسین کو مزید ایک عشرہ عراق پر حکومت کرنے کی مہلت دے دی گئی۔ درج ذیل مضمون پندرہ برس پرانا ہے‘ مگر اس میں رد و بدل کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی ہے۔ کیونکہ حالات و حقائق اور محرکات و مضمرات آج بھی تقریباً ویسے ہی ہیں۔ یہ بھی اتفاق ہے کہ اُس وقت بش (سینئر) امریکا کے صدر تھے اور آج بھی بش (جونیئر) امریکا کے صدر ہیں۔ تہذیبی تصادم کی مسلسل جاری بحث سے متعلق ہونے کے سبب پندرہ سال پرانی یہ تحریر دوبارہ شائع کی جارہی ہے۔
امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر قاضی حسین احمد خلیج کی موجودہ جنگ (۱۹۹۱ء) کو بار بار دو تہذیبوں کی جنگ سے تعبیر کر رہے ہیں۔ ان کے نزدیک خلیج کا مسئلہ اولاً تو خود امریکا کی لمبی چال‘ گہری سازش اور دیر سے روبہ عمل منصوبہ کے سبب پیدا ہوا ہے۔ دوسرے یہ کہ یہ مسئلہ بظاہر سیاسی ہے‘ لیکن دراصل یہ دو نظریات اور دو نظام ہاے زندگی کا وہ ٹکرائو ہے‘ جو زمانے کی گردش کے لحاظ سے اب ہونا ناگزیر تھا۔ اس تہذیبی یا نظریاتی تصادم کا آغاز چاہے جس طرح بھی ہوا ہو‘ اور اس کے کردار خواہ کیسے ہی اشخاص ہوں‘ قاضی حسین احمد کے خیال میں یہ کشمکش شروع ہو گئی ہے اور اب یہ آگ بڑھے گی اور اپنے منطقی انجام تک پہنچے گی۔
عراقی صدر صدام حسین‘ کویت پر عراقی قبضہ‘ خلیج پر یہود و نصاریٰ کا تسلط‘ یہ سب عارضی اور فانی عوامل ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ صدیوں کی مغلوبیت کے بعد اسلام نئے سرے سے توانا و مضبوط ہو کر تمام باطل اور طاغوتی قوتوں کو چیلنج کرنے‘ ان سے ٹکر لینے اور کئی برسوں پر محیط ایک ہمہ گیر کشمکش سے گزرنے کے بعد پھر سے غالب آجانے کی راہ پر چل پڑا ہے۔ اس عمل کو روکنا یا الٹا پھیر دینا کسی کے بس میں نہیں۔ لہٰذا اس جنگ کو یوں ہی ہونے دینا اور دور سے تماشا دیکھتے رہنا یا مبصرانہ شان سے تمام فریقوں کی خوبیوں خامیوں کا تجزیہ اور ان کے فیصلوں‘ اِقدامات اور پالیسیوں پر تبصرہ کر کے مطمئن ہو جانا‘ غلط ہو گا۔ اسلامی قوتیں اس جنگ میں غیرجانبدار نہیں رہ سکتیں۔ انہیں نہ صرف کسی ایک پلڑے میں اپنا وزن ڈالنا ہو گا‘ بلکہ آگے بڑھ کر مسلمانوں کی قیادت سنبھالنی ہو گی اور ایک خالص اسلامی کیمپ بنانا ہو گا۔ اس کے بعد اسلامی تہذیب اور کافرانہ تہذیب کی جنگ اپنے عروج پر پہنچے گی اور حق غالب آئے گا اور باطل مٹ جائے گا کہ یہی اس کا مقدر ہے۔
قاضی حسین احمد نے خلیج کی جنگ کی جو تشریح کی ہے وہ اب تک کی جانے والی تمام تشریحات میں جامع ترین بھی ہے‘ حقائق سے قریب تر بھی اور دور رَس نتائج و اثرات کی حامل بھی۔ بعض لوگ اس جنگ کو محض تیل کے سرچشموں پر کنٹرول کی جنگ کہتے ہیں۔ کچھ لوگ اسے امریکا کی اقتصادی زبوں حالی سے نکلنے کی اس کی تدبیر گردانتے ہیں۔ ایک گروہ اسے امریکا کی عالمی چوہدراہٹ کی توسیع سمجھتا ہے۔ ایک طبقہ اسے مسلمانوں پر یہود و نصاریٰ کے سیاسی تسلط کا نام دیتا ہے۔ کوئی اسے عرب شیوخ و ملوک اور آمروں کی سہل انگاری‘ عیش کوشی‘ عاقبت نااندیشی اور ہوسِ ملک گیری کی شامتِ اعمال بتاتا ہے۔ ایک رائے میں یہودی ریاست ’’اسرائیل‘‘ کا تحفظ اور اس کی توسیع کا محرک اس میں کارفرما ہے۔ یہ بھی سمجھا جاتا ہے کہ روس اور امریکا کی طویل سرد جنگ کا امریکا کے حق میں فیصلہ ہو جانے کے بعد دنیا امریکا کے رحم و کرم پر رہ گئی ہے۔ خلیج کی یہ جنگ اس کا محض اظہار ہے۔
مغرب کے بعض دانشور کہنے لگے تھے کہ تاریخ کا سفر اب رُک گیا ہے۔ اب عالمِ انسانیت مغرب کے (جس کا امام امریکا ہے) افکار و نظریات اور اَقدار و معیارات کی روشنی میں ہی آگے بڑھے گی اور اُس سمت میں بڑھے گی‘ جس کا تعین مغربی تہذیب نے کر دیا ہے۔ یعنی سیکولر ازم‘ لبرل ازم‘ ماڈرن ازم‘ ڈیمو کریسی اور مارکیٹ اکانومی۔۔۔ گویا الحاد زدہ‘ مادّہ پرست‘ نفس پرست‘ خود غرض‘ روحانیت سے خالی اور بلند تر انسانی اخلاق و اَقدار سے عاری انسانوں کی دنیا کی تشکیل ساری انسانیت کا مشترکہ ہدف اور منزلِ مخصوص ہو گی۔ اس منزل کے حصول کے لیے دنیا امریکا کی ’’روشن خیال‘‘ قیادت میں آگے بڑھے گی اور اسی جدوجہد یا سفر سے مستقبل کی تاریخ رقم ہو گی۔ امریکا کے موجودہ صدر جارج ڈبلیو بش (سینئر) اسی نئی دنیا کو ’’نیا عالمی نظام‘‘ (New World Order) کہتے ہیں‘ جس کے ساتھ وہ اکیسویں صدی میں داخل ہونا چاہتے ہیں۔ ان کے بیان کے مطابق یہ نیا عالمی نظام انجمنِ اقوامِ متحدہ کی زیرِ سرپرستی اور امریکا کی زیرِ قیادت تشکیل دیا جائے گا۔ خلیج کی موجودہ جنگ اس زیرِ تشکیل نظام کی امتحان گاہ ہے۔ لہٰذا صدر بش نے اپنی قوم سے قربانیاں دینے کے لیے تیار رہنے کو کہا ہے۔
’’تہذیب‘‘ کا لفظ ہمارے ہاں بہت سطحی معنوں میں مستعمل ہے۔ اس سے ہم جو کچھ مراد لیتے ہیں یا جن باتوں کے لیے یہ لفظ استعمال کرتے ہیں‘ وہ ’’تہذیب‘‘ نہیں‘ بلکہ تہذیب کا چھوٹا سا مظہر ہے۔ مثلاً رہن سہن کے طور طریقے‘ سماجی سرگرمیاں اور تقریبات‘ رسم و رواج اور فنونِ لطیفہ کو ہم تہذیب کہتے ہیں۔ حالانکہ یہ اصطلاح وسیع تر‘ زیادہ جامع اور ہمہ گیر معنویت کا حامل ہے۔ ’’تہذیب‘‘ کسی بھی انسانی اجتماعیت کے اساسی عقائد‘ حتمی نظریات‘ پختہ اصولوں اور زندگی کی اٹل اَقدار و معیارات اور پھر اُن بنیادوں پر تعمیر کردہ سیرت و کردار اور معاشرہ و سماج کا نام ہے۔ اس کے ہمہ گیر دائرے سے انسانی زندگی کا کوئی شعبہ‘ کوئی گوشہ‘ کوئی پہلو اور کوئی خانہ باہر نہیں۔ یہ فرد سے معاشرے تک‘ خاندان سے قوم تک‘ مسجد و مَعبد سے کرسی و مسندِ اقتدار تک‘ کوچہ و بازار سے مِلوں اور کارخانوں تک‘ عائلی زندگی سے سیاسی اداروں تک‘ ادب اور شاعری سے صحافت و ابلاغیات تک‘ قلب اور باطن سے پورے وجودِ انسانی تک‘ عقل و شعور سے جذبات و احساسات کی دنیا تک سب پر محیط ہے۔ ’’تہذیب‘‘ کی چادر انسان کی پیدائش سے لے کر اس کی موت تک ہی نہیں‘ بلکہ زندگی بعد موت اور مابعد الطبعیاتی امور تک دراز ہے۔
’’تہذیب‘‘ کی اس تشریح کو سامنے رکھ کر مغرب کا تجزیہ کیا جائے تو وہاں ایک خاص رنگ ڈھنگ اور اسلوب و ادا کی تہذیب حکمراں نظر آتی ہے‘ جو اپنے جُز اور کُل میں اور اپنے اِجمال اور تفصیل میں اسلامی تہذیب سے یکسر جدا اور مختلف ہے۔ انسان کی حقیقت‘ کائنات کی تخلیق‘ اس میں انسان کے مقام اور رول‘ زندگی کے عقائد اور صحیح و غلط‘ حلال و حرام‘ جائز و ناجائز کے معیارات‘ کامیابی و ناکامی کے تصورات اور پیمانے۔۔۔ غرض جس پہلو‘ رخ اور زاویہ سے اسلامی اور مغربی تہذیب کا موازنہ کیا جائے‘ ہم دیکھتے ہیں کہ دونوں ایک دوسرے سے الگ ہی نہیں‘ اکثر متضاد بھی ہیں۔ ایک کے نزدیک مادّہ اور محسوسات ہی زندگی کی اصل ہیں اور دوسرے کے ہاں زندگی اس دائرے سے کہیں زیادہ وسیع اور بلندتر ہے۔ اگر ایک انسان کو ذاتی اور نجی زندگی میں کسی بھی اتھارٹی کے سامنے غیر جواب دہ سمجھتی ہے تو دوسری اس جواب دہی کو ساری زندگی اور زندگی کے ہر جُز پر محیط قرار دیتی ہے۔ ایک کی نگاہ میں بے قید آزادی‘ بے رحم مُسابقت‘ شخصی نفع و فائدہ کا حصول اور نفس و خواہش کی تابعداری بنیادی اَقدار ہیں اور دوسرے کی نظر میں رب العالمین کی کامل و غیرمشروط اِطاعت و فرماں برداری‘ باہمی تعاون و ایثار‘ اخوت و رواداری اور ضبطِ نفس و پاکیزگیٔ سیرت ناقابلِ تغیر اَقدار ہیں۔ ایک طرف ہوس اصل محرکِ عمل (Driving Force) ہے تو دوسری طرف قَناعت و اِستغناء تکمیلِ ذات کا ناگزیر عنصر۔ گویا ایک طرف ابلیسی تہذیب اپنی تمام تر خباثتوں اور کثافتوں کے ساتھ فِروکش ہے تو دوسری طرف ’’الٰہی‘ روحانی اور اخلاقی‘‘ تہذیب اپنے تمام محاسن اور خوبیوں کے ساتھ جلوہ گر ہے۔ ان دونوں تہذیبوں کا ملاپ آج بھی انمل بے جوڑ ہے اور کل بھی ناممکن العمل ہو گا۔ تاریخ کے ہر ورق پر ان کا تصادم اور ان میں کشمکش کی داستان بکھری پڑی ہے۔
اسلامی تہذیب کے عروج کے دور میں آج کی مغربی دنیا جہالت‘ مفلسی اور درندگی کے تاریک جنگلوں میں گم تھی۔ ’’مسیحیت میں تجدید و اصلاح‘‘ کی تحریک‘ علمی بیداری کی لہر‘ روشن خیالی (Enlightenment) کا سیلاب‘ سائنسی و فنّی اکتشافات کی رَو‘ چرچ اور ریاست کی جنگ‘ جاگیرداری سے سرمایہ داری کی طرف کُوچ‘ مذہب سے بغاوت‘ خاندان کی تخریب اور روح پر مادّہ و مشین کی حکمرانی گزشتہ چند سو برس کی بات ہے۔ یورپ میں جنم لینے والی یہ سرمایہ دارانہ اور مادّہ پرستانہ ابلیسی تہذیب جدید علوم و فنون اور مشین و آلات کے لائو لشکر کے ساتھ جب منتشر و بے دَم مسلم ممالک پر حملہ آور ہوئی تو اسلام کے نور سے ضیاء بار رہ چکنے والی یہ مسلم دنیا اپنے ہاتھوں سے اس سورج پر سائے پھیلا کر خود اختیار کردہ تاریکیوں میں بھٹک رہی تھی۔ دیارِ غیر کی نَو وارد تہذیب و دانش نے اپنے مٹی کے چراغ مسلم ہاتھوں میں تھما دیے اور اپنا جادو اس کی سر منڈھ دیا۔ دو تین سو سال مغربی استعمار ٹھاٹھ سے اپنی ’’نکھار اور بہار‘‘ دکھاتا رہا۔ تہذیبی طور پر اسے چیلنج کرنے والا کوئی نہیں تھا۔ دنیا میں جو کشمکش تھی وہ اس ابلیسی تہذیب کی امامت کے لیے تھی۔ چاہے یہ جنگ نسلی رہی ہو یا قومی‘ لسانی رہی ہو یا سیاسی‘ ابلیسی تہذیب کی لیڈر شپ کے حصول کے لیے مغرب کے کئی دعویداروں کا باہمی کشت و خون گزشتہ صدیوں کی انسانی تاریخ کا نمایاں ترین عنوان ہے۔ اس سرمایہ دارانہ اور سفاکانہ تہذیب کے زہریلے پھلوں نے ردِعمل پیدا کیا اور انسان اشترکیت کے نام سے ایک نئی ’’تہذیب‘‘ کے دعویدار سے روشناس ہوا۔
اشتراکیت کا طوفان سرمایہ دارانہ تہذیب کے لیے ڈرائونے خواب کی صورت میں اٹھا۔ امریکا نے پوری دنیا کو کمیونزم کا ہوّا دکھا کر ڈرایا اور اپنا الّو سیدھا کیا۔ سیٹو‘ سنٹو اور ناٹو جیسے دفاعی معاہدے کر کے اشتراکیت کی راہ روکنے اور اس سیلاب کے آگے بند باندھنے کی تدابیر کیں۔ دوسری جنگِ عظیم میں جرمنوں کے خلاف روس و امریکا مل کر اور اتحادی بن کر لڑے تھے۔ جنگ میں جرمنی کی شکست کے بعد یہ ساجھا برقرار نہ رہ سکا۔ چنانچہ چالیس کی دہائی کے وسط سے لے کر اسّی کی دہائی کے اختتام تک امریکا و روس کی سرد جنگ نے پوری دنیا کو اعصاب شکن کشیدگی‘ خوف و دہشت‘ جنگ زدگی اور اسلحہ کی دوڑ میں مبتلا اور دو کیمپوں میں تقسیم کیے رکھا۔ پچھلی دو تین صدیوں میں تیسری دنیا اور مسلم دنیا پہلے فرنگی اور بعد میں امریکی و روسی استعمار کے ہاتھوں استحصال کا شکار ہوتی رہی۔ ان طاغوتی قوتوں نے انسانی ذہن و صلاحیت کو بالعموم منفی اور تخریبی مقاصد کے لیے استعمال کیا۔ دنیا کی کسی اور مخلوق نے خود کو ختم کرنے کے آلات و اسباب نہیں بنائے‘ لیکن ان سامراجیوں نے پوری انسانی زندگی‘ بلکہ رُوئے زمین پر خود زندگی ہی کو سرے سے ختم کر دینے کا سامان ایجاد بھی کیا اور اکٹھا بھی۔ روس اور امریکا آج اتنی ہلاکت خیز صلاحیتوں کے مالک ہیں کہ مبینہ طور پر زمین سے تیس تیس بار زندگی کا خاتمہ کر سکتے ہیں۔ ان دونوں قوتوں کو اپنے مذموم مقاصد اور کاوشوں میں یہودیوں کا پورا تعاون حاصل رہا۔ انہوں نے دونوں طرف لگی ہوئی آگ کو مزید بھڑکانے کی ہر ممکن سعی کی۔ غرضیکہ مغربی سرمایہ دارانہ تہذیب اور اس کے ردِعمل میں ابھرنے والی اشتراکی تہذیب (دونوں بظاہر جدا ہونے کے باوجود اپنی روح و اصل اور بہت سے معاملات میں یک رنگ و ہم آہنگ بھی ہیں) نے مل جل کر دنیا کو دکھ‘ غم‘ مفلسی‘ محرومی‘ بے چارگی اور لوٹ کھسوٹ کے تحفے دیے۔ اس پر مستزاد جدید دور کے ذرائع ابلاغ کا کردار ہے۔ پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا نے استحصال کی نوعیت‘ شدت‘ ہمہ گیری اور ان کے طریقِ واردات پر گہرے اثرات ڈالے ہیں۔ یہ ابلاغی اسلحہ خانہ مسلم دنیا پر ثقافتی یلغار کا ذریعہ بنتا ہے۔ انسانی ذہن کو مسحور و مائوف اور ہیپناٹائز کر دینے میں ان ذرائع کا رول بَلا کا رہا ہے۔ ان کی مدد سے خاص طور پر امریکی استعمار نے بھرپور اور ناقابلِ بیان حد تک دنیا کو اپنا غلام بنا لیا۔ بلکہ ان ہی ذرائع کے کندھوں پر سوار مغرب کی جمہوریت اور مارکیٹ اکانومی نے اشتراکی دنیا کا دھڑن تختہ کر دیا۔
۱۹۸۹ء میں روس اور اس کے وابستگان‘ اشتراکیت سے تائب ہونے لگے اور ۱۹۹۰ء میں یہ عمل تقریباً اپنی تکمیل کو پہنچ گیا۔ اس کے بعد دنیا صرف امریکی بلاک کے رحم و کرم پر رہ گئی۔ امریکا نے اشتراکیت کو ہڑپ کر لیا تو اب اس کے سامنے کوئی اور نظریاتی چیلنج باقی نہ رہا‘ لیکن ایک سویا ہوا شیر ضرور ایسا ہے‘ جس کو پوری بیداری سے پہلے ہی بلاک یا کم از کم مفلوج کرنا ضروری ہے۔ وہ خوابیدہ شیر ’’اسلام‘‘ ہے‘ اُمتِ مسلمہ ہے۔ امریکا کے سابق صدر رچرڈ نکسن برسوں پہلے اس خطرے سے خبردار کر چکے ہیں۔ انہوں نے لکھا تھا کہ روس اور امریکا کو اپنی مخاصمت ختم کر کے اُس مشترک دشمن کے مقابلہ پر متحد ہو جانا چاہیے‘ جس کا نام اسلام ہے یا نئی امریکی اصطلاح میں ’’مسلم بنیاد پرستی‘‘ ہے۔ ایرانی انقلاب‘ افغانستان کا جہاد‘ کشمیر کا جہاد‘ فلسطین کی انتفاضہ تحریک اور مسلم دنیا کے طول و عرض میں اسلامی تحریکوں میں نئی حرکت اور ان کے لیے بڑھتی ہوئی پذیرائی پچھلے عشرے کی حاصل کردہ کامیابیاں ہیں۔
اس صورت حال نے امریکی بلاک اور اس کے دامن گرفتہ لوگوں‘ دانشوروں‘ حکمرانوں اور لابیوں کو حیران بھی کر دیا ہے اور پریشان بھی‘ خبردار بھی کیا ہے اور مقابلہ کے لیے تیار بھی۔ پھر یہ کہ اس وقت پوری مسلم دنیا اُن آمروں اور بادشاہوں کے تسلط میں ہے‘ جو خود بھی ’’مسلم بنیاد پرستی‘‘ سے خوفزدہ ہیں۔ نتیجتاً امریکی استعمار کو مسلم دنیا کے اندر سے حمایت اور تعاون ملنے لگا۔ امریکا ایک طرف تو اپنی تمدنی چکا چوند اور غیرمعمولی اِبلاغی رنگا رنگی کے بَل پر مسلمانوں کی قلب ماہیت کامنصوبہ لے کر چل رہا ہے تو دوسری طرف مسلم بنیاد پرستوں کے ’’اسلام‘‘ کے مقابلے پر ’’اپنے ڈھب کے اسلام‘‘ کو لے آیا ہے۔ تیسری طرف اُس نے پروپیگنڈا کے ذریعہ اسلامی تحریکوں کو حقیر یا گمراہ یا تخریب کار قرار دینے کی مہم شروع کر رکھی ہے اور چوتھی طرف وہ مسلم عوام اور مسلم ممالک میں نفاق و انتشار‘ ٹکرائو اور تصادم کی آگ لگا رہا ہے۔ خلیج کا تازہ بحران (۱۹۹۱ء) اسی حکمت عملی کا نتیجہ ہے۔ اس بحران نے عربوں اور مسلم ممالک کو تقسیم کر دیا ہے‘ مسلم عوام اور حکمرانوں میں بغض پیدا ہو گیا ہے اور مسلمانوں کے مادی‘ مالی‘ عسکری‘ اسلحی اور انسانی وسائل کو تباہ یا ناکارہ کر کے رکھ دیا ہے۔ اس بحران سے تنگ دست مسلم ممالک مزید زیرِ بار ہو کر رہ جائیں گے اور خوش حال ممالک کی خوش حالی کو مغرب کے ٹڈی دَل چاٹ جائیں گے۔ یوں مراکش سے انڈونیشیا تک مسلم عوام و اقوام مزید تباہ حال‘ پریشان‘ مفلس‘ دست نگر اور محتاج بن جائیں گی۔ پھر کہاں کا اسلام اور کیسی بنیاد پرستی۔۔۔ ابلیسی تہذیب غالب و کار آفریں‘ کارکشا و کارساز بن کر بلاشرکتِ غیرے اور چیلنج کیے جانے کے ہر خطرے سے بے نیاز‘ نئے عالمی نظام کی تشکیل کر سکے گی اور خود اس نظام کی قیادت و سیاست کا پھریرا اٹھا کر تاریخ کے سفر کو اپنی مرضی کے رخ پر موڑ سکے گی۔
یہ ہے مغرب کا ابلیسی منصوبہ و ارادہ جو وہ اسلامی تہذیب کے مقابل اپنی تہذیب کے غلبہ و اقتدار کے لیے رکھتا ہے۔ خلیج کی جنگ کے نتائج اور اثرات اس کھیل پر غیرمعمولی طور پر اثر انداز ہوں گے۔ اس لیے صدر جارج بش (سینئر) نے کہا ہے کہ نیا عالمی نظام خلیج میں دائو پر لگا ہوا ہے۔ ایسے میں قاضی حسین احمد کی یہ پکار بالکل درست ہے کہ حقیقت میں خلیج کی جنگ نہ تیل کے لیے ہے اور نہ کویت کی آزادی کے لیے‘ نہ سعودی عرب کے دفاع کے لیے ہے اور نہ صدام حسین کی آمریت کے خاتمہ کے لیے۔۔۔ بلکہ یہ جنگ اسلامی تہذیب کی نشاۃِ ثانیہ کو ناممکن بنانے اور مغرب کی ابلیسی تہذیب کے دائمی تسلط کے لیے شروع کی گئی ہے۔ لہٰذا مسلم عوام اور ان کی حکومتوں کو وقتی و مادی پیمانوں سے بلند ہو کر‘ اس خوفناک منصوبے کا اِدراک کرتے ہوئے اور بہت سی کم اہم باتوں کو نظرانداز کر کے امریکیوں (امریکا اور اس کے اتحادیوں) کے مقابلے میں عراق کی حمایت پر متحد اور متحرک ہو جانا چاہیے۔ صدام حسین کے حُسن و قبح کی بحثوں میں الجھے رہنے سے ابلیسیوں کا فائدہ ہو گا۔ ایسے عارضی اور فانی عامل (Factor) کو سمجھنا چاہیے اور آگے بڑھ کر کشمکش کا رُخ اسلام کے حق میں کرنے کی ہرممکن کوشش اور سعی کرنی چاہیے۔
خلیج کی جنگ کے پردے میں اسلامی تہذیب کے خاتمہ کی صلیبی جنگ جاری ہے۔ اگر یہ جنگ بند ہو بھی گئی اور اس میں عراق کا بُھرکس نکل بھی گیا‘ تب بھی اسلامی اور ابلیسی تہذیبوں کی جو لڑائی چِھڑ چکی ہے‘ وہ ختم نہیں ہو گی۔ یہ معرکہ آرائی اب ذہنوں اور دلوں میں‘ بستیوں اور محلّوں میں‘ شہروں اور ملکوں میں‘ اداروں اور انجمنوں میں اور مشرق و مغرب کے کارفرما ایوانوں میں جاری رہے گی۔۔۔ یہاں تک کہ یہ کشمکش اپنے نتیجہ خیز مرحلہ میں داخل ہو جائے۔ اﷲ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ: ’’تم ہی غالب رہو گے اگر تم صاحبِ ایمان ہوئے‘‘
اس تہذیبی جنگ کا فیصلہ اسلام کے حق میں ہونے کے لیے دو بنیادی شرائط کا پورا ہونا ضروری ہے۔ اوّل یہ کہ اسلامی کیمپ کی قیادت اسلامی تحریکوں کے ہاتھوں میں آئے۔ جنرلوں‘ آمروں‘ شاہوں اور جاہ پرستوں کی قیادت میں یہ جنگ نہیں جیتی جاسکتی۔۔۔ اور دوم یہ کہ مسلم عوام کی بھرپور اور فعّال حمایت و تعاون اور اعتماد و یقین اسلامی تحریکوں کی پشت پر موجود ہو۔ یعنی:
حیات لے کے چلو کائنات لے کے چلو
چلو تو سارے زمانے کو ساتھ لے کے چلو
اگر یہ دونوں شرطیں پوری ہو گئیں تو یقینا اﷲ اپنے وعدوں سے ذرّہ برابر پھرنے والا نہیں۔۔۔ ’’تم ہی غالب رہو گے اگر تم مومن ہوئے‘‘۔
{}{}{}
Leave a Reply