
ایک نوجوان روسی چھاتہ بردار سپاہی مجھ سے کہنے لگا: ’’وہ تاک کر روسیوں کو نشانہ بناتے ہیں۔‘‘ اس نوجوان سپاہی سے ہماری ملاقات سوویت ایئر بورن ڈویژن کے ایک یونٹ میں ہوئی، جو کابل کے شمال میں چاریکر کے قریب قائم کیا گیا تھا۔ اس کے ہاتھ پر پٹی بندھی ہوئی تھی اور اس سے رِسنے والا خون میدانِ جنگ کے لباس کی آستین کو داغدار کر رہا تھا۔ ۲۰ سال سے کم عمر لڑکے کی آنکھیں نیلی اور بال زردی مائل تھے۔ ہمارے نزدیک سوویت ٹرانسپورٹ کی ایک گاڑی کھڑی تھی، جس کا عقبی حصہ کسی کان کے دھماکے سے ٹکڑے ٹکڑے ہو چکا تھا۔ درد سے بے چین نوجوان نے پہاڑی چوٹیوں کی طرف انگلی اٹھائی، جن کے اوپر ایک سوویت ہیلی کاپٹر چکر کاٹ رہا تھا۔ یہ بات کبھی میرے حاشیۂ خیال میں بھی نہیں آسکتی تھی کہ تین عشروں کے بعد میسرز بش اینڈ برائون ہمیں بھی فوجیوں کے ایک ویسے ہی قبرستان میں لے جاسکتے ہیں اور یہ کہ ایک نوجوان کالا امریکی صدر بھی عین وہی کرے گا، جو سالہا سال تک روسیوں نے کیا۔
تب ہم نے دیکھا کہ چند ہفتوں کے اندر اندر سوویت افواج نے کابل اور بڑے بڑے شہروں پر قبضہ کر لیا، لیکن پہاڑوں اور صحرائوں پر مشتمل وسیع علاقوں کو ’’دہشت گردوں‘‘ کے لیے خالی چھوڑ دیا۔ اس وقت بھی اس بات پر زور دیا گیا کہ کابل میں قائم سیکولر اور بدعنوانیوں سے مبرّا حکومت کی امداد کی جائے گی اور عوام کو تحفظ دیا جائے گا۔ ۱۹۸۰ء کے موسم بہار تک میں یہ دیکھتا رہا کہ سوویت افواج کی یلغار کا مظاہرہ کیا جارہا ہے۔ کیا ایک بار پھر وہی بات نہیں دہرائی جارہی؟ روسیوں نے اعلان کیا تھا کہ افغان فوج کی ازسرِ نو تربیت کی جائے گی۔ اب بھی اس سے ملتے جلتے بیانات سنے جارہے ہیں۔ اس وقت فوج کی ۶۰ فیصد تعداد احکامات کی تعمیل کر رہی تھی۔ اس بات سے بھی کان ناآشنا نہیں۔
وکٹر سبصتیاں جس نے سوویت ایمپائر کے زوال پر تحقیق کے بعد اپنی کتاب میں اس موضوع پر طویل بحث کی ہے، اس نے سوویت مسلح افواج کے سپہ سالار جنرل سرجی اخرومی ژیف کی اس تقریر کا ایک اقتباس نقل کیا ہے، جو انہوں نے ۱۹۸۵ء میں پولٹ بیورو میں کی تھی۔ اس نے کہا تھا: ’’افغانستان میں زمین کا ایسا کوئی ٹکڑا موجود نہیں، جو کسی نہ کسی وقت ہمارے سپاہیوں میں سے کسی ایک کے قبضے میں نہ رہا ہو، تاہم علاقے کا کثیر حصہ دہشت گردوں کی گرفت ہی میں رہتا ہے۔ صوبائی مراکز پر ہمیں کنٹرول حاصل ہے، لیکن ہم اپنے قبضے میں آنے والے علاقوں پر سیاسی کنٹرول برقرار نہیں رکھ سکتے۔‘‘
جیسا کہ سبصتیاں نے نشاندہی کی، جنرل اخرومی ژیف نے بھی مزید افواج کا مطالبہ کیا اور خبردار کیا تھا کہ بصورتِ دیگر افغانستان میں جنگ نہایت طویل مدت تک جاری رہے گی۔ آئیے دیکھیں ہلمند میں تعینات برطانوی اور امریکی کمانڈر کیا کہتے ہیں۔ جنرل اخرومی ژیف نے ۱۹۸۶ء میں کہا تھا: ’’ہمارے سپاہیوں کا کوئی قصور نہیں۔ انہوں نے برے اور ناسازگار حالات میں غیرمعمولی بہادری سے جنگ لڑی، لیکن قصبوں اور دیہات پر عارضی طور پر قبضہ کرنا، اس وسیع و عریض خطے میں کوئی بڑی کامیابی نہیں، جہاں شورش پسند آناً فاناً پہاڑوں میں غائب ہو سکتے ہیں۔‘‘
۱۹۸۰ء کے ابتدائی دنوں میں، مَیں نے ایک ٹریجڈی کا مشاہدہ کیا، قندھار میں لوگ اپنی چھتوں اور شہر سے باہر سڑکوں پر ’’اﷲ اکبر‘‘ کا نعرہ بلند کر رہے تھے۔ مجھے ’’اپنے زمانے کے طالبان‘‘ سے سابقہ پیش آیا جو سوویت فوجی قافلوں پر بم برسا رہے تھے۔ جلال آباد کے شمال میں انہوں نے میری بس کو بھی روک لیا۔ ان پر کلاشنکوفوں کی نالیوں میں سرخ گلاب ٹھنسے ہوئے تھے۔ صورتحال آج بھی اس سے مختلف دکھائی نہیں دیتی۔ حالیہ دنوں ہی کی خبر ہے کہ حکومت کے حامی افغان طلبہ کو طالبان نے پکڑ لیا۔
ماضی میں افغانوں نے عجیب و غریب قصے سنانے کے لیے ہم سے رابطہ کیا تھا۔ اس وقت سیاسی قیدیوں کو سوویت یونین منتقل کر کے وہاں اذیتیں دی گئیں، قندھار کا ایک ادھیڑ عمر، تعلیم یافتہ دکاندار مجھ سے شہر کی ایک گلی میں ملا۔ اس نے یورپی سویٹر پہنا ہوا تھا، جبکہ سر پر افغانی پگڑی باندھ رکھی تھی۔ اس سے انٹرویو کے نوٹ آج بھی میرے پاس ہیں۔ اس نے کہا تھا: ’’حکومت ہر روز یہ دعویٰ کرتی ہے کہ اشیائے خوردنی کی قیمتیں کم ہو رہی ہیں۔ آئے روز ہمیں یہ بتایا جاتا ہے کہ سوویت یونین کے تعاون کی بدولت معاملات بہتر ہو رہے ہیں، لیکن یہ سچ نہیں۔ کیا آپ کو معلوم ہے کہ حکومت تو سڑکوں کو بھی کنٹرول کرنے کے قابل نہیں۔ ان کا قبضہ صرف شہروں تک محدود ہے۔‘‘ تب مجاہدین کو صوبہ ہلمند میں غلبہ حاصل تھا۔ وہ پاکستانی سرحد کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بآسانی جاسکتے تھے، بالکل اسی طرح جیسے آج ہو رہا ہے۔
گوریلوں پر حملے کے لیے ۱۹۸۰ء کے ابتدائی دنوں میں ایک سوویت مگ لڑاکا طیارے نے سرحد کی خلاف ورزی کی۔ حکومتِ پاکستان اور امریکی حکومت نے اس واقعہ کی مذمت کی اور اسے پاکستان کی حاکمیت اعلیٰ کی کھلی خلاف ورزی قرار دیا تھا۔ مناسب ہو گا کہ ان نوجوان امریکیوں کو بھی کہانی سنائی جائے، جو اس وقت بغیر پائلٹ اڑائے جانے والے طیاروں کو کنٹرول کر رہے ہیں اور یہ طیارے گوریلوں پر حملہ کرنے کے لیے کھلم کھلا سرحد کی خلاف ورزیاں کر رہے ہیں۔
میں ماضی میں افغانستان پر قبضہ کرنے والے روسیوں سے ملاقات کے لیے قریباً ۲۵ برس بعد ماسکو گیا۔ میں نے دیکھا کہ ان میں سے بعض منشیات کے عادی اور بعض ذہنی دبائو کے مریض بن چکے ہیں۔ صدر اوباما ایک گھمبیر بے یقینی میں مبتلا ہیں۔ آئیے آج کے تاریخی دن ہم کابل سے برطانیوں کی پسپائی کے واقعات اور ۱۸۴۲ء میں اس کی تباہی کے واقعات کو یاد کریں اور ان سے عبرت حاصل کریں۔
(بشکریہ: روزنامہ ’’ڈان‘‘ کراچی)
Leave a Reply