پارلیمنٹ نے جس نظامِ عدل کی توثیق کی تھی اس پر عسکریت پسندوں نے عمل نہیں کیا اور مسترد کر دیا یہاں تک کہ مولانا صوفی محمد نے پاکستانی قوم کی اَقدار و روایات کو علی الاعلان ہدفِ تنقید بناتے ہوئے برملا کہہ دیا کہ پاکستان کا آئین‘ عدالتی نظام اور ادارے غیراسلامی ہیں اور جمہوریت ’کفر‘ ہے۔ لہٰذا انہوں نے پورے ملک میں شریعت کے فی الفور نفاذ کا مطالبہ کر دیا۔ پاکستانی حکومت نے اس امر پر فوری ردعمل کرتے ہوئے اور کابینہ یا پارلیمنٹ سے منظوری اور تائید حاصل کیے بغیر عسکریت پسندوں کے خلاف فوجی آپریشن شروع کر دیا جسے ’’آپریشن راہِ راست‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔ انتہائی عجلت میں آپریشن کا فیصلہ کرنے کے پیچھے یہ راز پوشیدہ تھا کہ ’’حکومتِ پاکستان پر سخت دبائو تھا کہ وہ نظامِ عدل کے معاہدے کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے امریکی آقائوں کو کچھ کر کے دکھائیں‘‘۔ اس فوجی آپریشن کی جو بھی توجیہات پیش کی جائیں مگر یہ حقیقت ہے کہ آپریشن پورے زور و شور سے جاری ہے‘ عسکریت پسندوں کو ان کی کمین گاہوں سے نکالا اور قتل کیا جارہا ہے اور متاثرہ علاقوں سے پریشان و مفلوک الحال عوام کا سیلاب صوبہ سرحد‘ پنجاب اور کراچی کی جانب رواں دواں ہے جنہیں عارضی کیمپوں میں رکھا جارہا ہے تاکہ جونہی فوج عسکریت پسندوں کے خلاف کارروائی مکمل کر لیتی ہے تو انہیں اپنے علاقوں میں واپس بھیجا جاسکے۔ یہ کارروائی کب تک مکمل ہو گی‘ کہنا مشکل ہے۔
اسی حوالے سے وزیراعظم نے آل پارٹیز کانفرنس طلب کی جس نے متفقہ طور پر عسکریت پسندوں سے علاقے کو صاف کرنے کے لیے جاری حکومتی آپریشن کی تائید کر دی لیکن اے پی سی ’’کسی قسم کا سیاسی فارمولہ وضع کرنے میں ناکام رہی‘‘ جو کہ آپریشن کے بعد پیش آنے والے حالات کو سدھارنے میں مددگار ثابت ہو سکتا تھا۔ اس میں رائی برابر بھی شک نہیں کہ آرمی اپنی ذمہ داری پوری کرے گی لیکن آرمی آپریشن کے بعد سیاسی مفاہمت کے لیے راست اقدامات طے نہ کیے گئے تو خدانخواستہ حالات ۱۹۷۱ء میں مشرقی پاکستان اور ۱۹۷۵ء میں بلوچستان میں پیش آنے والے واقعات جیسی صورت حال اختیار نہ کر جائیں۔
مشرقی پاکستان میں آرمی ایکشن ۲۵ مارچ ۱۹۷۱ء کو شروع ہوا۔ آپریشن کے لیے مغربی پاکستان سے نویں ڈویژن (9 Division) کو عجلت میں مشرقی پاکستان بھیجا گیا جس نے ڈھاکا میں اترتے ہی سلہٹ‘ کومیلا اور چٹاگانگ کی چھائونیوں کا رخ کیا۔ ہمارے پاس سوائے ایک فیلڈ رجمنٹ اور چند گاڑیوں کے کوئی قابل ذکر بھاری اسلحہ نہ تھا جبکہ سامان رسد کی ترسیل میں بھی شدید مشکلات درپیش تھیں لیکن اس کے باوجود ہمارے ڈویژن نے بتدریج‘ سلہٹ سے لے کر کاکس بازار تک پھیلے ہوئے دریائے میگھنا کے پورے مشرقی علاقے کو محفوظ بنا لیا۔ ان نامساعد اور تھکا دینے والے حالات میں ہمارے جوانوں نے ایثار اور قربانی کے نمایاں جذبے سے خدمات انجام دیں۔ اسی طرح دریائے میگھنا کے مغربی علاقوں کی ذمہ دار افواج نے بھی حوصلے اور قربانی کی شاندار مثالیں قائم کیں اور اواخر جولائی تک پورے مشرقی پاکستان میں حکومتی عمل داری قائم کر دی گئی تھی اور مکانوں کی چھتوں پر پھر سے پاکستان کے سبز ہلالی پرچم لہرانے لگے تھے۔ فوج نے اپنے حصے کا کام مکمل کر دیا تھا اور یہ وقت تھا کہ سیاسی عمل شروع کر کے حالات کو انتہائی مقام تک جانے سے روکنا ضروری تھا لیکن افسوس ایسا نہ ہو سکا اور ملک انتشار کی تاریک گہرائیوں کی سمت بڑھتا رہا اور قوم کو سقوط ڈھاکا کا بدترین دن دیکھنا پڑا۔
ماہ اگست میں ایسٹرن کمانڈ (Eastern Command) ہیڈ کوارٹر میں ایک آپریشنل بریفنگ کے دوران راقم نویں ڈویژن کے جی ایس او۔ون کی حیثیت سے شامل تھا۔ جنرل نیازی جو کہ اپنے آپ کو ’’ٹائیگر نیازی‘‘ کے نام سے پکارا جانا پسند کرتے تھے فوج کی کامیابی پر بہت خوش تھے‘ چند لغو لطائف کے بعد انہوں نے کلکتہ‘ جئے پال گوری اور اگرتلہ کی جانب اپنا جارحانہ منصوبہ پیش کیا جس پر ہمارے جنرل آفیسر کمانڈنگ میجر جنرل شوکت رضا نے اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ ’’ہمیں چاہیے کہ مسئلے کا کوئی قابلِ عمل اور جامع سیاسی حل تلاش کریں کیونکہ یہ وقت اس قسم کے جارحانہ منصوبوں کے لیے موزوں نہیں ہے اور ہم موجودہ حالات میں ایسے تجربات کے متحمل نہیں ہو سکتے ہیں‘‘۔ اس حقیقت پسندانہ تبصرے پر ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے ٹائیگر نیازی نے کہا کہ ’’بنگوز بھاگ رہے ہیں اور ہم ان کو کیفر کردار تک پہنچا کر رہیں گے‘‘۔ اس طرح یہ میٹنگ برخواست ہو گئی اور ایک ہفتے کے اندر اندر جنرل شوکت رضا کا تبادلہ ہو گیا اور ان کی جگہ نئے جنرل آفیسر کمانڈنگ پوسٹ ہو گئے۔
حالات حاضرہ پر میری جانب سے بھجوائی جانے والی روزانہ کی رپورٹوں کو نئے جنرل آفیسر کمانڈنگ رد و بدل کر کے ’’سب اچھا‘‘ کے مصنوعی رنگ بھر کر اعلیٰ حکام کو ارسال کر دیتے تھے حالانکہ زمینی حالات دن بدن خراب سے خراب تر ہوتے جارہے تھے کیونکہ بھارت نے ’’مکتی باہنی‘‘ کو براہِ راست امداد دینی شروع کر دی تھی۔ غیرحقیقی رپورٹیں بھجوانے پر میرا ضمیر مجھے ملامت کرتا رہا یہاں تک کہ ایک دن میں جنرل صاحب کے دفتر چلا گیا اور عرض کیا: ’’سر! میری درخواست ہے کہ حقائق تبدیل کیے بغیر اصل صورت حال پر مبنی رپورٹیں‘ جیسا کہ ہمارے ذیلی Formations ہمیں بھجواتے ہیں جوں کی توں ایسٹرن کمانڈ کو بھجوائی جانی چاہییں‘‘۔ اس پر جنرل صاحب تیش میں آگئے اور روایتی انداز میں چلائے ’’دفع ہو جائو‘‘۔ اور پھر ایک ہفتے کے اندر اندر مجھے مغربی پاکستان بھجوا دیا گیا جہاں میں اپنے کورٹ مارشل کا منتظر رہا جو نہ ہوا۔ اس طرح اگست کے بعد ہی مشرقی پاکستان میں غیریقینی صورت حال پیدا ہوتی گئی جس کے نتیجے میں ملک دولخت ہو گیا۔
۱۹۷۴ء میں جب بلوچستان کے مری بگٹی قبائل کے خلاف فوجی آپریشن کیا گیا تو اس وقت میں ایک انفنٹری بریگیڈ کی کمانڈ کر رہا تھا۔ مری کے علاقے میں کئی ماہ مسلسل آپریشن کرنے کے بعد میرا بریگیڈ ہیڈ کوارٹر ڈیرہ بگٹی قلعے کے قریب بنا۔ اپریل کے اوائل میں مجھے ایک پیغام ملا کہ وزیراعظم پاکستان جناب ذوالفقار علی بھٹو علاقے کا دورہ کرنے آرہے ہیں اور وہ علاقے کے عوام سے خطاب بھی کرنا چاہتے ہیں۔ عوامی جلسے کا اہتمام کرنا میرے لیے ایک نیا تجربہ تھا لیکن اس وقت میں سخت حیران ہوا جب حاضرینِ جلسہ کی تعداد پانچ چھ ہزار تک پہنچ گئی۔ وزیراعظم کے استقبال کے لیے کور کمانڈر اور جنرل آفیسر کمانڈنگ بھی آگئے اور میرے ہیڈ کوارٹر میں مختصر سی بریفنگ کے بعد وزیراعظم نے جلسے کے شرکاء سے خطاب کیا جس میں انہیں شاندار پذیرائی ملی۔ جلسے سے واپسی پر بریگیڈ ہیڈ کوارٹر کی طرف آتے ہوئے مجھے مخاطب کرتے ہوئے بھٹو صاحب نے کہا: ’’میں بگٹی ہائوس جانا چاہتا ہوں لہٰذا انہیں اطلاع کر دیں‘‘۔ کور کمانڈر اور جنرل آفیسر کمانڈنگ نے وزیراعظم کے بگٹی ہائوس جانے کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ ایسا کرنا خطرناک ثابت ہو سکتا ہے کیونکہ بگٹی ہائوس کے اندر تین چار سو کے لگ بھگ مسلح لوگ موجود تھے۔ لیکن بھٹو صاحب نے کہا: ’’نہیں نہیں! میں بلوچوں کی روایات کو جانتا ہوں اور میں ہر حال میں وہاں جائوں گا۔ آئو چلیں!‘‘ میں اپنی جیپ میں انہیں بگٹی ہائوس لے گیا۔
بھٹو صاحب کا استقبال سلیم بگٹی نے کیا‘ انہوں نے فاتحہ پڑھی اور چائے پینے کے بعد جب ہم واپس روانہ ہوئے تو میں نے بھٹو صاحب سے پوچھا: ’’سر! اب جبکہ آرمی نے اپنی ذمہ داری سرانجام دے دی ہے تو کیا آپ کے پاس صورتحال کو ٹھیک کرنے کا کوئی سیاسی ایجنڈا ہے کیونکہ آپ نے علاقے کے عوام کا ردعمل تو دیکھ لیا ہے‘‘۔ اس پر بھٹو صاحب نے کہا: ’’ہاں! ہم اس پر کام کر رہے ہیں اور بہت جلد تمہیں معلوم ہو جائے گا کیونکہ سیاسی لوگوں اور آپ کو مل کر اس پر عملدرآمد یقینی بنانا ہے‘‘۔ اس طرح دن مہینوں اور مہینے سالوں میں ڈھلتے رہے لیکن وہ سیاسی ایجنڈا منظر عام پر نہ آسکا اور بالآخر بھٹو صاحب کا زوال شروع ہو گیا جس کا انجام ۱۹۷۷ء میں ان کی حکومت ٹوٹنے کی شکل میں ظاہر ہوا اور ملک پر تیسری مرتبہ فوجی آمریت کے بادل چھا گئے جس کا دورانیہ گیارہ سالوں پر محیط رہا۔
چودہ سال بعد جب محترمہ بے نظیر بھٹو نے ۱۹۸۸ء میں عنانِ اقتدار سنبھالی تو میں نے ان سے درخواست کی کہ عوامی نیشنل پارٹی اور مری قبائل کے راہنما اور کارکن جو کہ ۱۹۷۴ء سے افغانستان میں جلاوطنی کی زندگی بسر کر رہے ہیں‘ انہیں وطن واپس آنے کی اجازت دی جائے۔ انہوں نے پیغام جاری کیا جس پر سارے راہنما اور کارکن بشمول اجمل خٹک وطن واپس آگئے۔ مری قبائل کے لوگ اپنے آبائی علاقوں‘ کوہلو اور کاہان نہیں جاسکے۔ کیونکہ وہاں زندگی گزارنے کے انتظامات موجود نہیں تھے لہٰذا انہوں نے کوئٹہ اور اس کے مضافات میں رہائش اختیار کر لی اور کسی حکومتی ادارے نے ان کی حالتِ زار کا نوٹس تک نہ لیا کہ انہیں پاکستان کا شہری سمجھتے ہوئے ان کے رہنے سہنے کا مناسب انتظام کر دیتے اور آج تک وہ انہی جھگیوں میں گزارا کر رہے ہیں۔ یہ ہی وہ مجرمانہ غفلت ہے جس نے عوام کو اپنی حکومت سے بددل اور متنفّر کر دیا اور وہ بلوچستان لبریشن آرمی کے پرچم تلے اکٹھا ہونا شروع ہو گئے ہیں۔
بلاشبہ آج ہمیں نہایت مشکل اور گھمبیر مسائل کا سامنا ہے۔ بے شک ہم مولوی صوفی محمد اور فضل اﷲ سے بات نہ کریں کیونکہ وہ اپنے وعدے سے روگردانی کر کے اپنا اعتماد کھو چکے ہیں لیکن ملاکنڈ‘ سوات اور پناہ گزینوں کے ۲۵ لاکھ انسانوں میں ایسے بھی ہوں گے جو علاقے میں قیامِ امن کے حوالے سے اپنا اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے کسی شوریٰ کے قیام کی ذمہ داری ادا کر سکتے ہوں۔ شوریٰ کا کام ابھی سے شروع ہونا لازم ہے نہ کہ آرمی آپریشن کی کامیابی کا انتظار کیا جائے۔ ہمیں یہ بات اچھی طرح ذہن نشین رکھنی چاہیے کہ ہماری شمال مغربی اور مشرقی سرحدیں ہمارے دشمنوں کی سازشوں کے سبب پُرامن نہیں ہیں اور سب سے بڑھ کر رچرڈ ہالبروک کے بقول ’’جنگ کا محور و مرکز افغانستان سے پاکستان میں منتقل کرنا ضروری ہے‘‘۔ ان حالات میں جناب آصف علی زرداری کا یہ بیان کہ ’’فوجی آپریشن کا دائرہ وزیرستان تک بڑھایا جائے گا‘‘ انتہائی مہلک اثرات کا حامل ہو سکتا ہے اور شاید اس پیغام پر عمل شروع ہو چکا ہے۔ اﷲ ہمیں محفوظ رکھے۔
یہ امر باعثِ تعجب ہے کہ منتخب پارلیمنٹ اور ملک کی سیاسی قیادت کو نظرانداز کرتے ہوئے اہم فیصلے ’’انتہائی دبائو کی کیفیت‘‘ میں کیے جارہے ہیں جو کہ قومی غیرت اور ملکی یکجہتی کے سراسر خلاف ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم ایک بھنور سے نکل کر دوسرے بھنور میں پھنس جاتے ہیں۔ ایک دانشور کا قول ہے کہ ’’ہر فیصلہ سنجیدگی سے کرنا چاہیے کیونکہ جلدی میں کیے جانے والے فیصلے جذباتی ہوتے ہیں جو کہ ناکامی اور ذلت کا سبب بنتے ہیں‘‘۔
{}{}{}
Leave a Reply