
اس وقت عالمی تجارت کے حوالے سے امریکا کا شدید اور مضبوط ترین حریف صرف چین ہے۔ امریکا نے چین پر بھی تجارت کے حوالے سے دباؤ ڈال کر مختلف معاملات میں رعایتیں یقینی بنائی ہیں۔ چین سے تجارت میں امریکی خسارہ ۳۷۵؍ارب ڈالر سے زائد ہے۔ چینی حکام نے مذاکرات کے دوران بتایا ہے کہ وہ مختلف آؤٹ لیٹس سے بات چیت کرکے اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ ۲۰۲۰ء تک امریکا کا تجارتی خسارہ ۲۰۰؍ارب ڈالر تک آجائے۔ ٹرمپ انتظامیہ چاہتی ہے کہ چینی حکومت اپنے ہاں صنعتی اور تجارتی اداروں کو مختلف مدوں میں دی جانے والی اعانت ختم کردے تاکہ انہیں تجارتی معاملات میں برتری حاصل کرنے کا موقع نہ ملے۔ ایک مدت سے چینی ادارے امریکا میں ہائی ٹیک سیکٹر کی فرمز کو خریدتے آئے ہیں جبکہ امریکی اداروں کو اس نوعیت کی سرمایا کاری سے روکا جاتا رہا ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ اب چینی اداروں کی اس نوعیت کی سرمایا کاری کی راہ میں بھی دیواریں کھڑی کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ نیو یارک ٹائمز نے مارچ میں لکھا تھا کہ چینی اداروں کو امریکا میں حساس ٹیکنالوجی (مائیکرو چپس، فائیو جی وائر لیس ٹیکنالوجی) وغیرہ میں سے متعلق اداروں کو خریدنے سے روکنے کی کوشش کی جائے گی۔
چین سے معاشی تعلقات کے حوالے سے توازن پیدا کرنے کے لیے ٹرمپ انتظامیہ نے چین کی بنائی ہوئی واشنگ مشینیں اور سولر انرجی آلات پر اینٹی ڈمپنگ ڈیوٹیز لگائی ہیں جبکہ اسٹیل اور المونیم کی مصنوعات پر اضافی ٹیکس لگائے گئے ہیں۔ یہ سب کچھ قومی سلامتی کے نقطۂ نظر سے کیا گیا ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ نے اپریل میں ۵۰؍ارب ڈالر مالیت کی ۱۳۰۰؍اقسام کی چینی مصنوعات پر اضافی درآمدی ڈیوٹی لگائی تھی۔ یہ کئی عشروں کے دوران چین کے لیے برآمدات کے حوالے سے بہت بڑا چیلنج تھا۔ چین نے یہ پیشکش کی کہ اگر ٹرمپ انتظامیہ اضافی ڈیوٹی نہ لگائے تو وہ ۷۰؍ارب ڈالر مالیت کی امریکی مصنوعات خریدنے کو تیار ہے۔ چین نے مئی میں غیر ملکی آٹو موبائلز (گاڑیوں) پر درآمدی ڈیوٹی ۲۵ فیصد سے گھٹاکر ۱۵ فیصد کردی جبکہ امریکا میں یہ ڈیوٹی اب بھی ڈھائی فیصد تک ہے۔
صدر ٹرمپ نے واضح کردیا ہے کہ امریکا درآمدی ڈیوٹی میں جو اضافہ کر رہا ہے اُس سے حلیف بھی مستثنیٰ نہیں۔ مئی ۲۰۱۸ء کے آخر میں امریکا نے کینیڈا، میکسیکو اور یورپی یونین سے منگوائی جانے والی اسٹیل کی مصنوعات پر ۲۵ فیصد اور المونیم کی مصنوعات پر ۱۰ فیصد ڈیوٹی عائد کردی۔ یہ اقدام قومی سلامتی کے نقطۂ نظر سے کیا گیا کیونکہ ٹرمپ انتظامیہ نے محکمۂ تجارت کے حوالے سے یہ تجزیہ پیش کیا کہ اسٹیل اور المونیم کی مصنوعات درآمد کرنے سے ملک کی تجارتی بنیاد کمزور پڑتی ہے۔ کینیڈا نے اس حوالے سے شدید ردعمل ظاہر کیا۔ امریکا کے سوا جی سیون کے تمام ارکان نے بھی اس اقدام کی مذمت کرتے ہوئے خاصا شدید بیان جاری کیا۔
صدر ٹرمپ کے اقدامات سے عالمی سطح پر ردعمل پیدا ہوا ہے، حقیقت یہ ہے کہ جو کچھ انہوں نے کیا ہے وہ محض حقیقت پسندی کا مظہر ہے۔ سیاسی تجزیہ کار جوناتھن کرشنر کا کہنا ہے کہ آج کی دنیا میں ہر ملک کو اپنی تجارتی اور صنعتی بنیاد مضبوط بنائے رکھنے پر بھی توجہ دینی چاہیے۔ امن کے زمانے میں معاشی معاملات اچھی طرح چل رہے ہوتے ہیں، مگر اس کے نتیجے میں بعض ممالک صورتِ حال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے تجارت اور ادائیگیوں کے توازن کو اِس بری طرح اپنے حق میں کرلیتے ہیں کہ بہت سے ممالک کے لیے پنپنے کی گنجائش ہی باقی نہیں رہتی۔ جو ممالک تجارت کے معاملے میں عالمگیریت سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں، وہ غیر معمولی حد تک ہدف پذیر رہتے ہیں یعنی کسی بھی وقت کسی بُری صورتِ حال کا شکار ہوسکتے ہیں۔ انتخابی مہم کے سلسلے میں ایک خطاب کے دوران ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا تھا کہ امریکا کے دوست اور دشمن دونوں ہی اپنے قومی مفادات کو ہر حال میں ترجیح دیتے ہیں، اس لیے اب امریکا کو بھی ایسا ہی کرنا پڑے گا۔ مزید یہ کہ ہم اب اپنے ملک اور عوام کو عالمگیریت کی دُھن پر مزید رقص کی اجازت نہیں دے سکتے۔ ٹرمپ کا موقف تھا کہ ہر ملک کو سب سے پہلے اپنے مفادات پر نظر رکھنی چاہیے۔ دوستی کے معاملے میں بھی اپنے مفادات کسی طور داؤ پر نہیں لگائے جاسکتے۔
یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ امریکا اب ہمہ جہتی نوعیت کے اقدامات اور معاہدوں سے دور ہونا چاہتا ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ کہتی ہے کہ اگر امریکا کو کسی ملک کے ساتھ مل کر کچھ کرنا بھی پڑے تو وہ دوطرفہ بنیاد پر ہو۔ ایران سے جوہری معاہدے، پیرس کے معاہدۂ ماحول اور دیگر بہت سے معاملات میں امریکا نے دو طرفہ امور کی بات کی ہے۔ اس نے اقوام متحدہ کے لیے فنڈنگ میں ۴۰ فیصد کٹوتی کے ساتھ ساتھ بنیادی حقوق اور ثقافت سے متعلق اقوام متحدہ کے اداروں سے الگ ہونے کا بھی عندیہ دیا ہے۔ علاوہ ازیں تارکین وطن کے معاملے پر بات چیت بند کردی گئی ہے۔ صدر ٹرمپ نے شمالی امریکا کے معاہدۂ آزاد تجارت کو ختم کرنے کی دھمکی دیتے ہوئے کہا ہے کہ امریکا اب میکسیکو اور کینیڈا سے دو طرفہ بنیاد پر تجارتی معاملات طے کرسکتا ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے کثیر الجہتی اور کثیر القومی معاہدوں، سمجھوتوں اور اداروں کے حوالے سے شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس نوعیت کے سیٹ اپ میں کمزور ممالک کے لیے غیر معمولی مشکلات پیدا ہوتی ہیں۔ وہ اپنے وجود کو برقرار رکھنے میں بھی شدید مشکلات محسوس کرتے ہیں۔ ایسے میں بہتر یہی ہے کہ بیشتر معاملات دو طرفہ بنیاد پر طے کیے جائیں۔
دوسری جنگِ عظیم کے بعد جو عالمی نظام وضع کیا گیا اس میں سب کچھ امریکی طاقت پر منحصر تھا۔ یہ نظام اب تک روبہ عمل ہے، مگر اب بہت کچھ تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ امریکا پر دباؤ زیادہ ہے۔ اب تک کی امریکی حکومتیں اس حوالے سے کھل کر بات کرنے سے گریزاں رہی ہیں۔ عالمی نظام کو مضبوط رکھنے کے لیے امریکا نے بہت کچھ جھیلا ہے، بالخصوص کینیڈا، میکسیکو، یورپ اور جاپان کی سلامتی یقینی بنانے کے حوالے سے۔ اب وقت آگیا ہے کہ امریکا ایک نئے عالمی نظام کی راہ ہموار کرے، جس میں سب کچھ اس کی طاقت پر منحصر نہ ہو۔ ایسی کسی بھی صورت میں دوسرے بہت سے طاقتور ممالک محض مزے کرتے رہیں گے اور بوجھ امریکا کو اٹھانا پڑے گا۔
امریکا اب مفت کی مزید سیر کرانے کو تیار نہیں۔ متعدد ممالک نے امریکی پالیسیوں کے نتیجے میں خرابیاں جھیلی ہیں مگر چند ایک ممالک نے اتحادی ہونے کے ناطے فوائد بھی تو بٹورے ہیں۔ معاہدۂ شمالی بحر اوقیانوس کی تنظیم (نیٹو) کے ارکان کی تعداد ۲۹ ہے۔ اس تنظیم کے مجموعی بجٹ کا کم و بیش ۷۳ فیصد امریکا کی طرف سے آتا ہے۔ یہ تنظیم بنیادی طور پر یورپ کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے بنائی گئی ہے۔ اب امریکی پالیسی ساز اس نکتے پر زور دے رہے ہیں کہ نیٹو کو چلانے اور اتحادیوں کو تحفظ فراہم کرنے کا سارا بوجھ امریکا پر ڈالنے کے بجائے تمام اتحادی اپنا اپنا کردار ادا کریں۔
مفت کی سیر کرنے والوں پر تنقید کرنے میں ڈونلڈ ٹرمپ انوکھے نہیں۔ براک اوباما نے ۲۰۱۶ء میں دی اٹلانٹک سے انٹرویو میں کہا تھا ’’مفت کی سیر کرنے والوں کو میں بالکل پسند نہیں کرتا۔ مغرب کے تحفظ کی ذمہ داری امریکا نے اٹھا رکھی ہے۔ برطانیہ اور دیگر ممالک اپنا کردار ادا نہیں کر رہے۔ اگر برطانیہ نے دفاع کے لیے اپنی مجموعی قومی پیداوار کا ۲ فیصد مختص نہ کیا تو امریکا کے لیے اس معاملے میں اس کا ساتھ دینا انتہائی دشوار ہو جائے گا‘‘۔
مفت کی سیر کرنے کے خلاف جذبات تو سرد جنگ کے زمانے میں بھی پائے جاتے تھے، مگر تب چونکہ سوویت یونین کی شکل میں امریکا اور یورپ دونوں کے لیے ایک بہت بڑا اور واضح دشمن موجود تھا اس لیے امریکی پالیسی ساز اس حوالے سے کچھ زیادہ بولنے کی پوزیشن میں نہ تھے اور انہیں اندازہ تھا کہ زیادہ بولنے سے معاملات بگڑیں گے۔ اتحادیوں کو بھی معلوم تھا کہ جب تک سوویت یونین ہے، امریکا پورے مغرب کے دفاع کی ذمہ داری کا بوجھ اٹھانے میں کانی نہیں رہے گا۔ مگر اب تو وہ خطرہ جاچکا ہے۔ سوویت یونین کی تحلیل کو تین عشرے مکمل ہونے والے ہیں۔ ایسے میں امریکا کے لیے پالیسیاں تبدیل کرنا ناگزیر ہوچکا ہے۔ امریکی صدور مفت کی سیر کرنے والوں کے خلاف بولتے آئے ہیں مگر حالات کی بدلتی ہوئی روش انہیں عملی سطح پر کچھ کرنے سے روکتی رہی ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ پالیسیاں تبدیل کرلی جائیں۔
سیاسی و دفاعی امور کے تجزیہ کار بیری پوزن نے اسی جریدے کے لیے ایک تجزیے میں لکھا تھا کہ امیروں کے لیے ویلفیئر کا اہتمام کیا گیا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے دفاعی اخراجات کے حوالے سے اتحادیوں پر جو شدید نکتہ چینی کی ہے اس کے نتائج بھی دکھائی دے رہے ہیں۔ امریکا کے بیشتر بڑے اتحادیوں نے ۲۰۱۰ء کے بعد دفاعی اخراجات میں سب سے زیادہ اضافہ کیا ہے۔
بلاپ کے نزدیک صدر ٹرمپ اتحادیوں پر دفاعی اخراجات میں اضافے کے حوالے سے دباؤ ڈالنے تک محدود نہیں۔ وہ دراصل نیٹو کو ختم کرنے کے درپے ہیں تاکہ یورپ کے دفاع کا کوئی نیا سیٹ اپ سامنے آئے اور امریکا پر یورپ کے دفاع کی پوری ذمہ داری عائد نہ ہو۔ جون میں ڈیوڈ لیوہارٹ نے دی نیو یارک ٹائمز میں لکھا کہ ’’اگر کسی امریکی صدر کو نیٹو کی تحلیل کے لیے کوئی خفیہ منصوبہ تیار کرنے کو کہا جائے تو وہ خفیہ منصوبہ تقریباً ویسا ہی دکھائی دے گا، جیسا موجودہ صدر ٹرمپ کا رویہ ہے‘‘۔ ڈیوڈ لیون ہارٹ نے اپنے تجزیے میں اس حقیقت کو نظر انداز کردیا کہ کسی بھی بڑے اتحاد کی موت دراصل مقصد کے حصول میں کامیابی سے حاصل ہوتی ہے۔ نیٹو کو بنیادی طور پر سوویت یونین کا سامنا کرنے کے لیے منصۂ شہود پر لایا گیا تھا۔ جب سوویت یونین کی تحلیل واقع ہوگئی تو نیٹو کا جوازِ تخلیق بھی ختم ہوگیا۔ ایسے میں امریکا اور یورپ دونوں کے لیے لازم ہوگیا کہ تبدیل شدہ صورتِ حال میں کچھ ایسا کریں، جو حالات سے مطابقت رکھتا ہو۔
بیسویں صدی کے آخری دو عشروں کے بعد سے دنیا کے معاملات انتہائی تبدیل ہوچکے ہیں۔ طاقتوں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے۔ مضبوط ممالک کی تعداد میں اضافے سے اتحادوں کی نوعیت بھی بدل گئی ہے۔ اب وفاداریاں تبدیل کرنے کا عمل تیز ہوگیا ہے۔ وہ دور گیا کہ کوئی کسی کا وفادار ہوتا تھا تو عشروں تک معاملات تبدیل ہی نہیں ہوتے تھے۔ اب تو چند ہی برس میں کوئی کہیں دکھائی دیتا ہے اور کوئی کہیں۔ سابق امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر نے کہا تھا ’’امریکا کا کوئی مستقل دوست ہے نہ دشمن۔ صرف مستقل مفادات ہیں‘‘۔ فی زمانہ بیشتر ریاستیں عملی سیاست کا یہ طریق اختیار کیے ہوئے ہیں۔ حالات کے بدلتے ہی دوست اور دشمن بھی بدل جاتے ہیں۔
صدر ٹرمپ نے روس کے معاملے میں غیر معمولی حقیقت پسندانہ پالیسی اختیار کی ہے۔ انہوں نے بھی سابق امریکی صدور کی طرح روس سے براہِ راست تصادم کی راہ مسدود کرنے پر توجہ دی ہے۔ ایران اور شام کے معاملے میں دونوں ممالک کے درمیان جو اختلافات پائے جاتے ہیں اُنہیں دور کرنے کی کوشش کے ساتھ ساتھ سلامتی اور تعاون کے معاملے میں قریب آنے کی کوشش بھی کی گئی ہے۔ جو لوگ صدر ٹرمپ کو روس کی کٹھ پتلی قرار دینے کی کوشش کرتے آئے ہیں، انہوں نے ہی کم و بیش ربع صدی تک روس سے تعلقات کو نہایت بھونڈے انداز سے برتا اور خرابیوں کی راہ ہموار کی۔
قصہ مختصر، جو کچھ ڈونلڈ ٹرمپ چاہتے ہیں وہ محض اُن کی خواہش نہیں بلکہ حالات کا تقاضا بھی ہے۔ نیٹو ارکان کے درمیان تعلقات کی نوعیت تبدیل اور کمزور ہو رہی ہے۔ یہ سب کچھ سوویت یونین کی تحلیل کے بعد سے ہوا ہے۔ سیاسی تجزیہ کار جی جان اکنبری کے الفاظ میں کہیے تو یوں ہے کہ سرد جنگ کے دور میں امریکا کو اتحادی درکار تھے اور اتحادیوں کو امریکا۔ ایسے میں مل کر کام کرنے کی بھرپور گنجائش موجود تھی۔ اب معاملہ یہ نہیں رہا۔ سوویت یونین کی تحلیل کے ساتھ مشترکہ اور بڑا دشمن ختم ہوگیا۔ ایسے میں دفاعی تعلقات کی نوعیت بھی تبدیل ہوگئی۔ سوویت یونین کی موجودگی میں اتحادیوں کو امریکا کی زیادہ ضرورت تھی۔ وہ دفاع کے حوالے سے امریکا پر انحصار پذیر تھے۔ اب ان اتحادیوں کو کسی بہت بڑے خطرے کا سامنا نہیں، اس لیے وہ امریکا کی زیادہ ضرورت بھی محسوس نہیں کرتے۔
۱۹۹۳ء میں بین الاقوامی تعلقات کے حقیقت پسند مفکر اور تجزیہ کار کینتھ والٹز نے کہا تھا ’’سوویت یونین نے نیٹو کے قیام کی راہ ہموار کی۔ سوویت یونین کی موت سے یورپ کو آزادی نصیب ہوئی۔ آزادی کے ساتھ خود انحصاری بھی آتی ہے۔ جلد یا بدیر امریکا کے اتحادی اپنے معاملات خود ہی چلانے کے قابل ہوجائیں گے اور تب انہیں امریکا کی زیادہ ضرورت محسوس نہیں ہوگی‘‘۔
خیر، اب ایسا بھی نہیں ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی ہر پالیسی بہتر رہی ہے۔ انہوں نے افغانستان میں لڑی جانے والی جنگ کو وقت اور وسائل کا ضیاع قرار دے کر جان چھڑانے کی کوشش کی، مگر ان کے مشیروں نے مشورہ دیا کہ ایسا کرنا کسی بھی طرح درست نہ ہوگا کیونکہ امریکی افواج کو بے ہنگم طریقے سے نکالنا افغانستان کو داعش اور دیگر انتہا پسند گروہوں کے حوالے کرنے کے مترادف ہوگا۔ اور یہ بات ٹرمپ نے مانی ہے۔
اس حقیقت کو تسلیم کرنے میں ٹرمپ کو کچھ باک نہیں کہ انٹر نیشنل لبرل آرڈر کمزور پڑچکا ہے، بیمار ہے۔ مشہور کالم نگار مارٹن وولٹ کے الفاظ میں کہیے تو اب مغرب کو بھی اندازہ ہے کہ سیکورٹی سیٹ اپ کے اعتبار سے اس کی اہمیت اور مطابقت بہت کم رہ گئی ہے۔ سوویت یونین کی تحلیل نے سب کچھ بدل ڈالا ہے۔ ڈھائی تین عشروں کے دوران بہت سے معاملات کھل کر سامنے آگئے ہیں اور اب جامع تبدیلی کا راستہ کوئی بھی طاقت نہیں روک سکتی۔ کل تک یہ سمجھا جارہا تھا کہ عالمگیریت سے صرف فوائد حاصل ہوں گے۔ اب ماہرین یہ کہہ رہے ہیں کہ سستی اشیا امریکی منڈیوں تک پہنچانے اور بہت سی نوکریاں بیرون ملک منتقل کرنے سے امریکا میں ایک طرف تو بے روزگاری بڑھی ہے اور دوسری طرف بہت سے مینوفیکچرنگ ادارے شدید خسارے سے دوچار ہوئے ہیں۔ دنیا بھر سے سستی اشیا کی درآمد نے امریکی صنعتوں کا بیڑا غرق کردیا ہے۔ اب اس بات پر زور دیا جارہا ہے کہ نوکریوں کی آؤٹ سورسنگ سے گریز کیا جائے اور درآمدات کا گراف بھی نیچے لایا جائے۔
کوئی ڈونلڈ ٹرمپ کو پسند کرے یا نہ کرے، ایک بڑی حقیقت کسی بھی طور نظر انداز نہیں کی جانی چاہیے۔ سوویت یونین کی تحلیل نے عالمی سیاست میں واحد سپر پاور کی حیثیت سے امریکا کی پوزیشن بدل دی ہے۔ کل تک پوری دنیا امریکا کی طرف دیکھتی تھی کیونکہ ایک بہت بڑا خطرہ سوویت یونین کی شکل میں موجود تھا۔ دنیا دو بلاکس میں بٹی ہوئی تھی۔ اب بلاک زیادہ ہیں۔ کئی طاقتیں ابھر چکی ہیں اور ان کے ابھرنے کا عمل رکا نہیں۔ کئی بڑے ممالک مل کر بھی سپر پاور کی سی حیثیت میں کام کرنے کی تیاری کر رہے ہیں۔ چین اور روس کا ایک پلیٹ فارم پر آنا بھی اسی امر کی طرف اشارا کرتا ہے۔ امریکی پالیسی سازوں کو بھی یہ نکتہ سمجھنا ہوگا کہ اب امریکا کے لیے میدان خالی نہیں رہا۔ مل جل کر کام کرنے کا زمانہ آچکا ہے۔ اگر من مانی کی جائے گی تو اس کے نتائج بھی بھگتنا ہوں گے۔ یہ سب کچھ جس قدر جلد سمجھ میں آجائے اُتنا ہی اچھا ہے۔
“Three cheers for Trump’s foreign policy: What the establishment misses”.(“Foreign Affairs”. Sep-Oct., 2018)
Leave a Reply