
صدارتی انتخاب ۲۰۱۶ء میں ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی امریکا کے لیے تباہی کے پیغام سے کم نہ تھی۔ میڈیا اور محکمہ خارجہ میں دونوں بڑی امریکی جماعتوں سے ہمدردی رکھنے والے جس صورتِ حال کے حوالے سے متفکر رہا کرتے تھے وہ یہی تو ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی فتح کے بعد نیو یارک ٹائمز کے کالم نگار پال کروگمین نے لکھا کہ ہم شاید اب عالمی سطح پر کساد بازاری کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ ’’ٹرمپ : دی آرٹ آف دی ڈیل‘‘ کے شریک مصنف ٹونی شوارٹرز اور دوسرے بہت سے تجزیہ کار اور مبصرین نے کہا تھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ اپنی میعادِ صدارت کا پہلا سال مکمل ہونے سے پہلے مستعفی ہوجائیں گے۔ گزشتہ دسمبر میں سابق امریکی صدر باراک اوباما نے دی اکنامک کلب آف شکاگو میں خطاب کے دوران کہا تھا کہ ہمیں جمہوریت کے اس باغ (امریکا) کی ہر طرح سے حفاظت کرنا ہوگی تاکہ یہ اجڑنے اور بکھرنے نہ پائے۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو اس کا انجام بھی وہی ہوگا، جو پہلی جنگِ عظیم کے بعد جرمنی کا ہوا تھا اور ساٹھ لاکھ ہلاکتوں کی راہ ہموار ہوئی تھی۔ باراک اوباما بھی ان لوگوں میں شامل ہیں، جو ڈونلڈ ٹرمپ کے صدر منتخب ہونے سے مجموعی طور پر مایوسی کا شکار ہیں اور پالیسیوں کے نتائج کے حوالے سے فکرمند رہے ہیں۔
ایک سال گزر گیا اور دنیا ختم نہیں ہوئی۔ ٹرمپ انتظامیہ کے حوالے سے جن خدشات کا اظہار کیا جاتا رہا تھا وہ بہت حد تک محض خدشات ہی رہے۔ ٹرمپ انتظامیہ کی خارجہ پالیسی کی بدولت شام اور عراق میں داعش کا خاتمہ ممکن ہوسکا۔ یہ خاتمہ اس لیے ممکن ہوا کہ ٹرمپ انتظامیہ نے شام میں داعش کے خلاف لڑنے والی کرد ملیشیا کو ہتھیاروں سے لیس کیا اور امریکی کمانڈروں نے زمینی کارروائیوں میں براہِ راست رہنمائی اور معاونت کی۔ باراک اوباما نے مشرقِ وسطیٰ میں کوئی نئی مکمل جنگ شروع کرنے پر چھوٹی موٹی کارروائیوں کو مربوط بنانے پر توجہ دی۔ ٹرمپ نے بھی ان کے نقوشِ قدم پر چلتے ہوئے شام میں ایسے حالات پیدا کیے کہ بشار انتظامیہ مخالفین کے خلاف اعصاب شکن گیس استعمال کرنے سے باز رہی۔ شمالی کوریا کے حوالے سے صدر ٹرمپ نے دباؤ ڈالنے کا طریقہ اختیار کیا۔ بین الاقوامی ادائیگیاں نصف کردی گئیں۔ اس بدلی ہوئی صورتِ حال نے شمالی کوریا کے صدر کم جانگ اُن کو مجبور کیا کہ مذاکرات کی میز پر آئیں۔
مئی ۲۰۱۸ء میں امریکا بھر میں بے روزگاری کی شرح محض ۸ء۳ رہ گئی۔ عشروں کے دوران ہسپانوی نسل کے امریکیوں میں یہ بے روزگاری کی کم ترین سطح ہے، اور سیاہ فام امریکیوں میں بھی یہ بے روزگاری کی کم ترین سطح ہے۔ خواتین کی بے روزگاری میں بھی ۶۵ سال کی کم ترین سطح دیکھی گئی ہے۔ اسٹاک مارکیٹ اوپر آئی ہے۔ صارفن کا اعتماد بحال ہوا ہے۔ رہن پر مکان لینے والوں کی طرف سے دی جانے والی درخواستوں کی تعداد میں سات سال کا بلند ترین اضافہ ہوا ہے۔ پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں بارہ سال کے دوران واقع ہونے والی سب سے زیادہ کمی دیکھی گئی ہے۔ نومبر ۲۰۱۶ء سے نومبر ۲۰۱۷ء کے دوران غیر قانونی تارکین وطن کی آمد میں ۳۸ فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔ امریکی حکام نے اپریل ۲۰۱۷ء میں جنوب مغربی سرحد پر غیر قانونی طریقے سے سرحد پار کرنے کی کوشش کرنے والے ۱۵۷۶۶؍افراد کو گرفتار کیا، جو ۱۷ سال میں کم ترین تعداد ہے۔
ناقدین کہتے ہیں کہ صدر ٹرمپ نے اس لبرل سیٹ اپ کے بہت سے اصولوں کو چیلنج کیا ہے، جس کی امریکا (یورپ کے ساتھ) بھرپور حمایت کرتا آیا ہے۔ انہوں نے عالمی تجارتی تنظیم پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی ہے۔ اقوام متحدہ کے لیے فنڈنگ میں خاصی کٹوتی کردی گئی ہے۔ ٹرمپ نے نیٹو کی بھی مذمت کی ہے۔ ساتھ ہی ساتھ انہوں نے جی سیون میں روس کو دوبارہ شامل کیے جانے کی بھرپور حمایت کی ہے۔ ڈیووس میں جمع ہونے والے گلوبلسٹس خواہ کچھ سوچیں، حقیقت یہ ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی ترتیب دی ہوئی پالیسیوں سے امریکا کو غیر معمولی فائدہ پہنچا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکی سرحدوں سے بہت دور عسکری مناقشوں میں الجھنے سے گریز کیا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ انہوں نے اس بات کو ترجیح دی ہے کہ امریکا کی دوستی پائیدار بنیاد پر ہو۔ وقتی فائدے کے بجائے طویل المیعاد دوستی کو اہمیت دی جارہی ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ نے عالمی برادری کو واضح پیغام دیا ہے کہ اب وہ عالمگیر نظام میں زیادہ دلچسپی لینے پر اپنے مفادات کو تحفظ فراہم کرنے پر زیادہ توجہ مرکوز کرے گا اور اگر اس عمل میں دیرینہ رفقا بھی چھوٹتے ہیں تو چھوٹ جائیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ بزنس مین ہیں، اس لیے انہوں نے ملک کی تمام پالیسیوں کو نفع و نقصان کے نقطہ سے دیکھنے اور بدلنے کی کوشش کی ہے۔ ان کا استدلال ہے کہ امریکا نے تمام دوستوں کی حفاظت کا ٹھیکہ نہیں لے رکھا۔ اتحادیوں کو اپنے تحفظ کا بوجھ خود برداشت کرنا چاہیے۔ ساتھ ہی ساتھ انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا ہے کہ تجارتی معاہدے متوازن ہونے چاہییں۔ امریکی تاجروں اور صارفین کو ایسا میدان ملنا چاہیے، جس میں وہ زیادہ توجہ سے اور جانبداری کا سامنا کیے بغیر کھیل سکیں۔ ٹرمپ چاہتے ہیں کہ امریکی مینوفیکچرر اور ورکر عالمی سطح پر رونما ہونے والی بڑی تبدیلیوں سے مجموعی طور پر محفوظ رہیں اور انہیں کرنسی کے شعبے میں کھیلے جانے والے ہرکھیل کے منفی اثرات سے بچایا جائے۔ ڈونلڈ ٹرمپ مزاجاً نیشنل اکنامسٹ ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ معاشی پالیسیاں اور فیصلے سیاسی عوامل کے تابع ہوں۔ ان کی رائے یہ ہے کہ عالمگیریت ریاستوں کے درمیان ہم آہنگی کو فروغ نہیں دیتی اور یہ کہ معاشی اعتبار سے ریاستوں کا ایک دوسرے پر انحصار ہر قوم کو معاشی اعتبار سے غیر معمولی حد تک ہدف پذیر بناتا ہے۔ انہوں نے اندرون ملک بھی اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کی ہے کہ جب کوئی ادارہ ریاست کے مفادات کے لیے تعاون نہ کرے تو ریاستی مشینری کو مداخلت کرنی چاہیے۔ ان کی اسی پالیسی کی بدولت ایپل کے ایک آئی فون کے سسٹم میں داخل ہوکر ایک اندرونی دہشت گرد تک پہنچنا ممکن ہوا۔
دنیا کو دیکھنے کا انداز بھی تبدیل ہوچکا ہے۔ سرد جنگ کے خاتمے کے بعد امریکا واحد سپر پاور تھا اور باقی تمام مضبوط ممالک سے کہیں زیادہ مضبوط تھا۔ اب ایسا نہیں ہے۔ اب امریکا کو عالمی سطح پر بالادستی برقرار رکھنے کے سلسلے میں متعدد مضبوط ریاستوں سے مسابقت کا سامنا ہے۔ یورپ کے کئی ممالک مضبوط ہیں۔ دوسری طرف ایشیا میں جاپان کے علاوہ اب چین اور روس بھی میدان میں ہیں۔ ایسے میں امریکا کے لیے مسائل بھی پیدا ہوئے ہیں، اور اس کے لیے لازم ہوگیا ہے کہ اپنی ذمہ داریاں کم کرے تاکہ دیگر ریاستیں بھی عالمی نظام کو چلتا رکھنے میں اپنا کردار ادا کریں۔ ٹرمپ نے ’’سب سے پہلے امریکا‘‘ کا نعرہ دیا ہے، جو اس امر کا غماز ہے کہ امریکی مفادات سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں اور امریکیوں کو بہتر زندگی بسر کرنے کا جو موقع میسر ہے، وہ برقرار رہنا ہی چاہیے۔
امریکا ایک مدت سے اپنی ضرورت کے مطابق بہت کچھ درآمد کرتا رہا ہے اور اس کی برآمدات میں کمی واقع ہوتی رہی ہے۔ مشرقی ایشیا اور یورپ سے درآمدات بڑھی ہیں جس کے نتیجے میں تجارتی توازن بگڑا ہے۔ صدر ٹرمپ نے امریکا کا تجارتی عدم توازن کم یا ختم کرنے کی کوششیں تیز کی ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ تجارت کا معاملہ متوازن رہے اور امریکیوں پر زیادہ دباؤ نہ پڑے۔ امریکی صنعتوں کو زیادہ سے زیادہ تحفظ فراہم کرنے کے لیے انہوں نے لازم قرار دیا ہے کہ تجارت برابری اور توازن کی بنیاد پر کی جائے۔ ۲۰۱۷ء میں ادائیگیوں کے توازن کے حوالے سے امریکی خسارہ ۱۲ فیصد اضافے سے ۵۶۶؍ارب ڈالر پہنچ گیا۔ یہ ۲۰۰۸ء کے بعد اپنی نوعیت کا سب سے بڑا اضافہ ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکی معیشت کو زیادہ سے زیادہ تحفظ فراہم کرنے کی کوشش کی ہے مگر دوسروں کے ساتھ ساتھ امریکا کے حلیفوں نے بھی اس کوشش کو شک کی نظر سے دیکھا ہے۔ ان کی نظر میں ڈونلڈ ٹرمپ خود غرض ہیں یعنی امریکا کے مفادات کو سامنے رکھتے ہوئے کام کر رہے ہیں۔ اس حقیقت کی طرف کم ہی لوگ متوجہ ہیں کہ امریکا کو تجارت اور ادائیگیوں کے توازن کے حوالے سے غیر معمولی خسارے کا سامنا ہے۔ یہ صورتِ حال خطرناک حد تک پہنچ گئی ہے۔ اگر بروقت توجہ نہ دی گئی تو معاملہ درست ہونے کے بجائے مزید بگڑیں گے اور زیادہ خرابیاں پیدا کریں گے۔
ڈونلڈ ٹرمپ کی پالیسیوں کو شک کی نظر سے دیکھنے والوں کا کہنا ہے کہ عالمگیریت کو فروغ دینے سے امریکا کا گریز مسائل پیدا کر رہا ہے۔ امریکا عالمی سطح پر جو قائدانہ کردار ادا کرتا رہا ہے، اس کا تقاضا ہے کہ وہ عالمی اداروں کو زیادہ سے زیادہ مضبوط کرے تاکہ عالمی معاملات پر امریکا کی گرفت مضبوط رہے۔ دوسری طرف یہ بھی ایک خوش کن حقیقت ہے کہ صدر ٹرمپ نے چین اور دیگر بہت سے ممالک پر ٹیرف کے حوالے سے جو پابندیاں عائد کی ہیں، اُن کی بدولت امریکی معیشت کے پنپنے اور متوازن ہونے کی راہ خوب ہموار ہوئی ہے۔ صدر ٹرمپ نے چاہا ہے کہ عالمی سطح پر پھیلی ہوئی ذمہ داریوں کے باعث امریکی معیشت کو جو خسارہ برداشت کرنا پڑا ہے، اس کا گراف گرے اور عام امریکی زندگی میں بہتری آئے۔ امریکا نے ٹیرف کے حوالے سے جو پابندیاں عائد کی ہیں ان سے دوسرے ممالک میں بھی امریکی مصنوعات کے لیے گنجائش پیدا ہوئی ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ امریکا معاشی اعتبار سے جو کچھ حاصل کرسکتا تھا وہ نہیں کرسکا۔ وہ بہت سے ممالک کے لیے ایک بڑی اور مضبوط منڈی ہے۔ اس حیثیت کو امریکا زیادہ سے زیادہ معاشی فوائد یقینی بنانے کے لیے بروئے کار لانا چاہتا ہے مگر اب تک زیادہ کامیاب نہیں رہا۔ اب ٹیرف اور دیگر اقدامات کے ذریعے امریکا اپنی پوزیشن منوا رہا ہے۔ امریکا نے اب تک اپنے مفادات کو زیادہ سے زیادہ تحفظ فراہم کرنے کی جو کوشش کی ہے، اُسے لبرل ازم کے علم بردار اور عالمگیریت کے حامی شک کی نظر سے دیکھتے آئے ہیں اور تنقید سے بھی گریزاں نہیں رہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے کچھ اور ہی راستہ اختیار کیا ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ امریکا اپنے مفادات کو کسی بھی حال میں نظر انداز نہ کرے، بالخصوص معاشی مفادات کو۔ عالمی تجارت کا وسیع ہوتا ہوا دائرہ امریکا کے لیے مسائل پیدا کرتا رہا ہے۔ ایسے میں لازم ہے کہ امریکی معیشت کو بھی زیادہ سے زیادہ تحفظ فراہم کرنے کی بھرپور کوشش کی جائے۔
(۔۔۔جاری ہے!)
(ترجمہ: محمد ابراہیم خان)
“Three cheers for Trump’s foreign policy: What the establishment misses”.(“eng.majallah.com”. August 17, 2018)
Leave a Reply