
حالیہ برسوں میں فتح اللہ گولن ترکی کی متنازعہ ترین شخصیات میں سے ایک رہے ہیں۔ اگرچہ حالیہ مقبولیت انہیں حکمراں جماعت AKP سے جاری طاقت کے حصول کی کشمکش سے ملی ہے، لیکن کبھی وہ تمام سیاسی اتار چڑھائو میں ترک حکومت کے ساتھی جانے جاتے تھے۔ اسی طرح بہت سے لوگ گولن کو غیر قانونی طور پر ٹیلی فون ریکارڈ کرنے، قومی سلامتی کو نقصان پہنچانے اور سیاستدانوں، کاروباری شخصیات اور میڈیا سے وابستہ افراد کو بلیک میل کرنے والے گروہ کے سرغنہ ہونے کے برخلاف ایک مذہبی اور سماجی سرگرمیوں کے حوالے سے جانتے ہیں۔ گولن کے یہ کئی چہرے خود گولن اور ان کے پیروکاروں کو جاننے میں دشواری کا باعث ہیں۔
سب سے پہلے فتح اللہ گولن ایک مسلمان مبلغ اور اسکالر ہیں، جن کے خطبات میں ان کے پیروکاروں کے لیے کشش ہے۔ گولن اور ان کے نیٹ ورک نے بجاطور پر مذہبی اصطلاحات اختیار کی ہیں اور وہ اپنے کام کی توجیح مذہب کے تناظر میں کرتے ہیں۔ مزید براں اس تحریک نے اپنے تعلیمی پروگرام کے ذریعہ ملک کے نوجوانوں میں اسلامی اقدار کو فروغ دیا ہے۔ اس تناظر میں اس نیٹ ورک کو ایک مذہبی حلقے کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ گولن کے پیروکاروں نے حکومت کے ساتھ اپنی لڑائی کی وضاحت بھی مذہبی تناظر میں کی ہے۔ ۱۹۸۰ء کی دہائی کے آخر سے گولن اور ان کے پیروکاروں نے اپنی ابتدائی مذہبی شناخت کو بتدریج ایک سماجی تحریک میں بدل دیا ہے۔ اس عرصہ میں تحریک نے تعلیم اور سماجی بہبود کی سرگرمیوں کے علاوہ بزنس اور میڈیا میں اپنا اثر و رسوخ بڑھایا ہے۔
اس دوسرے مرحلے میں گولن کے پیروکاروں نے اپنی کمیونٹی کو تو اصل قدیم مذہبی رنگ میں ہی برقرار رکھا، لیکن بیرونی حلقوں سے مکالمے میں محتاط رویہ اختیار کیا۔ ملک میں ۲۸ فروری ۱۹۹۷ء کو لگنے والا مارشل لا گولن کمیونٹی کی روایات میں دوسری تبدیلی ثابت ہوا۔ پہلے تو گولن اور تحریک کی سینئر قیادت امریکا منتقل ہوگئی، جبکہ ان کے پیروکاروں نے اپنی سرگرمیاں دنیا بھر میں پھیلا دیں۔
گولن تحریک نے پہلے تو فوج کے کردار کو محدود کرنے میں AKP کی مدد کی اور پھر عدلیہ اور پولیس میں اپنے گہرے اثر و رسوخ کی بنا پر حق جتانا شروع کر دیا۔ عدلیہ، قانون نافذ کرنے والے اداروں اور انٹیلی جنس ایجنسیوں سمیت ریاست کے اہم اسٹریٹجک اداروں میں اپنی دیرپا بالادستی قائم رکھنے کے لیے گولن کے پیروکاروں نے اپنے مقابل حریفوں کو آہستہ آہستہ صاف کر دیا ہے۔
ریاست کے کلیدی اداروں میں تحریک کی بڑھتی ہوئی قوت کے باعث ۲۰۰۷ء سے تحریک کی ترجیحات میں ردوبدل دکھائی دیا۔ شہری خدمات کے ذریعہ ریاست اور معاشرے کو تبدیل کرنے کے روایتی منصوبہ کے بجائے یہ دیکھا گیا کہ تحریک کے پیروکاروں نے سیاسی قیادت پر اپنے احکامات جاری کرنا شروع کر دیے۔ جب کہ تحریک سے وابستہ بیورو کریٹس نے اپنے اختیارات کا غلط استعمال کرتے ہوئے گولن تحریک کے مفادات کو پیش نظر رکھا۔ کُرد مسئلہ کے حل، خارجہ پالیسی اور فوج کے ساتھ تعلقات پر ان بیورو کریٹس کی حکومت کے خلاف مزاحمت اس تبدیلی کو ظاہر کرتی ہے۔
آج ہونے والی پیش رفت یہ ظاہر کرتی ہے کہ گولن اور ان کے پیروکاروں نے جیسے چاہا قانون نافذ کرنے والے اداروں، استغاثہ، ججوں اور میڈیا میں موجود اپنے ساتھیوں کے ساتھ بے قاعدہ رابطے کے ذریعہ، باآسانی دہشت گردوں کے ٹھکانوں، سماج دشمن گروہوں، ریاست کے غداروں اور کرپٹ حکام کو بے نقاب کیا ہے۔ لہٰذا اس میں کوئی شبہ نہیں کہ گولن تحریک نہ تو ایک مذہبی گروہ ہے اورنہ ہی کوئی این جی او، بلکہ اس کے برعکس یہ ایک ایسی بڑی تنظیم کی صورت میں ابھری ہے جو ریاست کے اندر جنگ میں مصروف ہے۔
(ترجمہ: سید سمیع اﷲ حسینی)
(“Three shades of fethullah gulen”…
Daily “Sabah”. March 4, 2014)
Leave a Reply