
سفارتی اور سلامتی کے امور کے تجزیہ کار اِس نکتے سے اتفاق کرتے ہیں کہ جنوبی ایشیا کی سلامتی کے لیے پاکستان اور افغانستان کے درمیان ہم آہنگی ناگزیر ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ افغانستان میں نئے صدر کے انتخاب سے دو طرفہ تعلقات بہتر ہوسکیں گے، اور دوستی کی راہ ہموار ہوسکے گی؟
افغانستان میں ۵؍اپریل ۲۰۱۴ء کو صدارتی انتخاب کے لیے ڈالے جانے والے ووٹوں میں سے سابق وزیر خارجہ اور مضبوط ترین امیدوار عبداللہ عبداللہ نے ۹ء۴۴ فیصد ووٹ لیے۔ ان کے قریب ترین حریف عالمی بینک کے سابق ماہر معاشیات اشرف غنی احمد زئی ہیں جنہیں ۵ء۳۱ فیصد ووٹ ملے ہیں۔
اب تک یہ واضح نہیں کہ افغانستان میں صدر کے منصب پر کون فائز ہوگا۔ اور اِس سے بھی ایک قدم آگے جاکر یہ بھی واضح نہیں کہ نیا افغان صدر پاکستان اور طالبان سے کس نوعیت کے تعلقات کا حامل ہوگا۔ طالبان کو اب تک پاکستان کی حمایت اور مدد حاصل ہے۔
جرمنی کی یونیورسٹی آف ہائیڈل برگ میں جنوبی ایشیا کے امور کے ماہر سگفرائیڈ او وولف کا کہنا ہے کہ پاکستان ممکنہ طور پر عبداللہ عبداللہ کو افغان صدر کی حیثیت سے قبول نہیں کرے گا، کیونکہ ایک طرف تو ان کا جھکاؤ بھارت کی طرف زیادہ ہے اور دوسری طرف ان کا تعلق شمالی اتحاد سے رہا ہے جو پاکستان سے کشیدہ تعلقات کا حامل تھا۔ شمالی اتحاد ہی نے بیرونی قوتوں کی مدد سے طالبان کی حکومت ختم کی تھی۔
کانرڈ ایڈینوئر فاؤنڈیشن کے کابل آفس کے سابق سربراہ نِلز وارمر کہتے ہیں: ’’۱۹۸۰ء اور ۱۹۹۰ء کے عشروں کے دوران عبداللہ عبداللہ کا تعلق ان لوگوں سے تھا جو سوویت قبضے کے خلاف میدان جنگ میں تھے۔ تب پاکستان نے عبداللہ عبداللہ کی حمایت کی۔ بعد میں عبداللہ عبداللہ نے شمالی اتحاد میں شمولیت اختیار کرلی، جس نے طالبان کی حکومت ختم کی۔ اب سوال یہ ہے کہ عبداللہ عبداللہ کے عہدِ صدارت میں پاکستان شمالی اتحاد سے ان کے تعلقات کو بھول سکے گا یا نہیں‘‘۔
وارمر مزید کہتے ہیں: ’’عبداللہ عبداللہ کے پاکستان سے رابطے رہے ہیں مگر اشرف غنی احمد زئی کا پاکستان سے کسی بھی قسم کا رابطہ نہیں رہا، اِس لیے یہ کہنا مشکل ہے کہ وہ صدر منتخب ہونے کی صورت میں پاکستان سے کس طرح کے تعلقات کو عملی شکل دے سکیں گے۔ ویسے خود اشرف غنی احمد زئی بارہا کہہ چکے ہیں کہ پاک افغان تعلقات کی سطح بلند کرنا اور بہتر ہم آہنگی پیدا کرنا اُن کے اہم ترین اہداف میں سے ہے‘‘۔
اسلام آباد کے صحافی عرفان حیدر کہتے ہیں: ’’حالات اِس امر کی طرف اشارہ کر رہے ہیں کہ عبداللہ عبداللہ اب منجھے ہوئے سفارت کار اور پالیسی ساز ہیں۔ اگر وہ افغانستان کے صدر منتخب ہوئے تو پاکستان سے بہتر تعلقات کو ہر حال میں اہمیت دیں گے۔ وہ بھارت سے بہتر تعلقات ضرور چاہیں گے مگر یقینا پاکستان سے تعلقات کو داؤ پر لگاکر نہیں‘‘۔
یونیورسٹی آف ڈوئز برگ ایسن میں سیاسیات کے استاد جوشین ہپلر کہتے ہیں: ’’اس میں کوئی شک نہیں کہ خطے کے حالات بہت بدل چکے ہیں۔ اور بہت سے عوامل ایسے ہیں جو پاک افغان تعلقات پر منفی اثرات مرتب کرنے کے لیے بے تاب ہیں مگر امید کی جانی چاہیے کہ عبداللہ عبداللہ اور اشرف غنی احمد زئی کی سوچ مثبت رہے گی۔ دونوں نے واضح عندیہ دیا ہے کہ صدر کے منصب پر فائز ہونے کی صورت میں وہ کابل اور اسلام آباد کے درمیان زیادہ سے زیادہ ہم آہنگی پیدا کرنے کی کوشش کریں گے کیونکہ اِتنا تو وہ سمجھتے ہی ہیں کہ افغانستان کی سلامتی کے لیے بھی پاکستان سے بہتر تعلقات ناگزیر ہیں‘‘۔
وارمر کہتے ہیں: ’’پاکستان کی افغان پالیسی مکمل طور پر فوج اور خفیہ ادارے آئی ایس آئی کے ہاتھ میں ہے۔ عبداللہ عبداللہ اور اشرف غنی احمد زئی چاہیں گے کہ پاکستان سے تعلقات بہتر رہیں۔ ایسا کرکے وہ یہ ثابت کرسکیں گے کہ وہ پاکستانی فوج اور آئی ایس آئی سے بہتر روابط استوار کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اس معاملے میں حامد کرزئی ناکام رہے ہیں‘‘۔
ہپلر کہتے ہیں: ’’افغانستان کے اگلے صدر کو ثابت کرنا ہوگا کہ وہ پاکستان سے تعلقات کے معاملے میں تمام امور کا انچارج ہے اور سب کچھ اس کے ہاتھ میں ہے۔ نئے افغان صدر کو واضح سوچ اور یکسُوئی اختیار کرنی پڑے گی‘‘۔
مبصرین کہتے ہیں کہ افغانستان کو ایسے صدر کی ضرورت نہیں، جو ایک طرف طالبان کو اپنا بھائی کہے اور دوسری طرف ان کے خلاف آپریشن کرے۔ یا تو طالبان کو اپنانا ہوگا یا پھر ان کے خلاف بھرپور آپریشن کرنا ہوگا۔ دونوں معاملات ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے۔ ملک کو مضبوط کرنے کے لیے دوستی اور مفاہمت کی پالیسی کو اپنانے میں کچھ ہرج نہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ عبداللہ عبداللہ اور اشرف غنی احمد زئی عسکریت پسندوں سے مذاکرات کے حق میں ہیں مگر اشرف غنی کے برعکس عبداللہ عبداللہ نہیں چاہتے کہ طالبان سے مفاہمت کے لیے تمام امور کو داؤ پر لگا دیا جائے۔ وہ چاہتے ہیں کہ اگر کوئی سمجھوتا ہو بھی تو قومی سلامتی اور دیگر امور داؤ پر نہ لگائے جائیں۔ یعنی مذاکرات کی راہ پر بڑھنے کی انہوں نے ایک حد مقرر کی ہے۔
DW سے ایک انٹرویو میں عبداللہ عبداللہ نے کہا تھا کہ افغان عوام ملک میں امن اور استحکام چاہتے ہیں اور اس کے لیے طالبان سے بات کرنے میں کوئی ہرج نہیں۔ اگر بات چیت سے معاملات کے درست ہونے کی راہ نکلتی ہے تو یہ اچھی بات ہے مگر مجھے پورا یقین ہے کہ افغان عوام اِس بات کو پسند نہیں کریں گے کہ طالبان سے مذاکرات اور مفاہمت کے نام پر سبھی کچھ داؤ پر لگادیا جائے۔
پاکستان کی فوجی اسٹیبلشمنٹ اب بھی طالبان کی حمایت کرتی ہے اور انہیں پشتونوں کا نمائندہ تصور کرتی ہے۔ پاکستانی فوجی اسٹیبلشمنٹ یہ بھی چاہتی ہے کہ افغانستان سے امریکا اور یورپ کی افواج کے انخلا کے بعد جو حکومت تشکیل پائے، اُس میں طالبان بھی شامل ہوں۔ مغربی افواج کے انخلا کے بعد کی صورت حال میں پاکستانی فوج افغانستان میں اپنا زیادہ سے زیادہ اثر و رسوخ چاہتی ہے۔ اِس مقصد کے حصول کے لیے پاکستانی فوج یقینی طور پر یہ چاہے گی کہ اشرف غنی احمد زئی افغانستان کے صدر بنیں۔
اشرف غنی عسکریت پسندوں کے لیے نرم گوشہ رکھتے ہیں۔ وہ کارروائی کے بجائے اِس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ عسکریت پسندوں کو مرکزی دھارے میں لایا جائے، حکومتی سیٹ اپ کا حصہ بنایا جائے تاکہ ملک میں امن اور استحکام آئے۔ DW سے ایک انٹرویو میں اشرف غنی نے کہا ہے کہ افغانستان میں اب مفاہمت، مصالحت، رواداری اور قبولیت کی ضرورت ہے۔ اگر وہ صدر منتخب ہوئے تو ملک میں ایک دوسرے کو قبول کرنے کے کلچر کو فروغ دیں گے تاکہ ہم آہنگی اور تصادم سے گریز کی گنجائش پیدا ہو۔
عرفان حیدر کا خیال ہے کہ اشرف غنی صدر منتخب ہوئے تو افغانستان میں حقیقی امن کی راہ ہموار ہوگی۔ طالبان سے مذاکرات کی گنجائش پیدا ہوگی اور وہ ہتھیار پھینک کر حکومتی سیٹ اپ کا حصہ بنیں گے۔ دوسری طرف وہ عبداللہ عبداللہ کو صدر کی حیثیت سے شاید قبول نہ کرسکیں اور تصادم ہی کی راہ پر گامزن رہیں۔
معروف محقق اور انسانی حقوق کے سرگرم کارکن نظام الدین نظامانی کہتے ہیں کہ اسلام آباد کو افغانستان میں کسی صدارتی امیدوار کی حمایت سے گریز کرنا چاہیے اور ساتھ ہی ساتھ اپنی افغان پالیسی پر نظر ثانی بھی کرنی چاہیے تاکہ معاملات بہتر بنانے کی راہ ہموار ہو۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ عبداللہ عبداللہ کو صدر کی حیثیت سے قبول کرنا بھی ایک اچھا اقدام ہوگا، جس کے نتیجے میں دو طرفہ تعلقات بہتر ہوسکیں گے اور مفاہمت کو فروغ دینے کی راہ ہموار ہوگی۔
“Ties with Pakistan under a new Afghan president”. (www.dw.de”. April 28, 2014)
Leave a Reply