
واشنگٹن، ڈی سی: ۱۸ اپریل کو صومالی پارلیمنٹ نے اسلامی قانون کو قومی قانون سازی کے طور پر اپنانے کا بل متفقہ طور پر منظور کر لیا۔ لیکن اصل مسئلہ صرف اسلامی قانون کو اپنانے کا نہیں بلکہ یہ ہے کہ اس کی تشریح کس طرح کی جائے گی؟ یہ نافذ کیسے ہوگا؟ اور کیا صومالیہ میں اس حوالے سے قومی اتفاقِ رائے پایا جاتا ہے کہ اسلامی قانون سے کیا مراد ہے ؟
اس عمل کا آغاز ۱۰ مارچ کو صومالیہ کی عبوری وفاقی حکومت نے کیا تھا جس کا بظاہر مقصد صدر شیخ شریف شیخ احمد کی کمزور حکومت کے خلاف بغاوت پر تیار بااثر مذہبی سیاسی جماعتوں کے اتحاد کو خوش کرنا ہے ۔ اس اتحاد کی قیادت انتہا پسند گروپ ’’الشباب‘‘ کے ہاتھ میں ہے ۔
وفاقی حکومت اور الشباب کے درمیان گفت وشنید کو انتہائی خفیہ رکھا جاتا رہا ہے ۔ اس بارے میں بہت کم معلومات جاری کی گئی ہیں کہ مذاکرات کس نوعیت کے تھے اور اسلامی آئین کے اس نئے نظام میں ججوں کو مخصوص ضوابط اور رہنما اصولوں کی تشریح کس طرح کرنی چاہیے ۔ مجموعی طور پر یہ بات ہنوز غیر واضح ہے کہ صومالیہ میں اسلامی قوانین کس طرح تشکیل دیے جائیں گے ۔
الشباب کے بارے میں بالخصوص مغرب میں عام خیال ہے کہ یہ کٹّر مذہب پرستوں کا گروہ ہے جو ملک کو سخت گیر مذہبی ریاست بنانے کا تہیّہ کیے ہوئے ہے جہاں عورتوں پر جبر ہوگا، چوری کے مجرم کے ہاتھ کاٹے جائیں گے وغیرہ وغیرہ۔ ۲۰۰۸ء میں ریاست ہائے متحدہ امریکا نے الشباب کا نام غیر ملکی دہشت گرد تنظیموں کی فہرست میں شامل کر لیا تھا۔ تاہم شیخ احمد جو جنوری میں برسرِ اقتدار آئے اور بین الاقوامی برادری میں اعتدال پسند مذہبی رہنما کے طور پر جانے جاتے ہیں، کا کہنا ہے کہ صومالیہ میں اسلامی قانون کا نیا نظام، جس کا نفاذ الشباب کا نصب العین تھا، امن و استحکام قائم کرنے کا وسیلہ ثابت ہو سکتا ہے ۔
چند ہفتے پہلے شیخ احمد نے کہا تھا کہ اسلامی قانون ایک ایسی چیز ہے جس پر ہر صومالی کا ایمان ہے اور وہ اس کی زندگی کا حصہ ہے ۔
شیخ شریف شیخ نے صحیح کہا۔ صومالیہ میں اسلام ساتویں صدی عیسوی میں پہنچا تھا اور اگر ہم اب تک کی تاریخ پر ایک نظر ڈالیں تو پتا چلتا ہے کہ اس ملک نے ایک طویل دور اسلامی قوانین کے تحت اور تحمل و بردباری کی روایات سے پیوستہ رہتے ہوئے گزارا ہے ۔
بہت سے صومالی سُنّی صوفی مسلک کے پیروکار ہیں جن میں سب سے قدیم صوفی مسلک ’’قادریہ، احمدیہ، ادریسیہ فرقہ‘‘ جو اٹھارہویں صدی میں وجود میں آیا تھا اور بعدازاں شاعر اور شیخ علی مائے دروگ با کے توسّط سے صومالیہ میں رائج ہوا تھا، قابلِ ذکر ہیں۔ یہ دونوں فرقے لوگوں کے طرزِ عمل کی نگرانی کرنے کے بجائے خدا کی عبادت اور فطرت کے حُسن کی تعریف پر زیادہ توجہ دیتے ہیں۔
۱۹۶۰ء میں آزادی حاصل کرنے کے بعد سے ۱۹۹۱ء میں خانہ جنگی شروع ہونے سے پہلے کی آخری حکومت تک سبھی صومالی حکومتوں نے اسلامی قانون اور اسلوبِ حکمرانی کے مغربی نظاموں کا امتزاج اپنا رکھا تھا جو صومالیوں کے عقیدے اور اعتدال پسندی کے احساس کے عین مطابق تھا۔ جو انتہاپسندی ہمیں آج نظر آتی ہے وہ صومالیہ کے لیے بالکل نئی چیز ہے اور صومالی ثقافت اور یہاں کی اسلامی روایات کے لیے بھی اجنبی ہے۔ ابتدا میں صومالیہ کے دارالحکومت موغا دیشو کے عوام نے الشباب اور اس کے پیشرو گروپ اسلامِک کورٹس یونین کی حمایت کی تھی کیونکہ وہ لوگ امن وامان اور نظم وضبط قائم کرنے اور موغا دیشو کے لوگوں کو مقامی جنگجوؤں سے تحفظ فراہم کرنے میں کامیاب رہے تھے ۔ تاہم جب الشباب نے طاقت پکڑی تو صومالیوں کو اس وقت شدید دھچکا لگا جب انہوں نے الشباب کے ارکان کو اپنی مرضی کا قانون نافذ کرتے ، سینما ہاؤس بند کراتے ، موسیقی پر پابندی لگاتے اور پچھلے سال ایک لڑکی کو بد چلنی کے الزام میں پتھر مار مار کر موت کے گھاٹ اتارتے دیکھا۔
شیخ احمد دانشمندی کے ساتھ ملک میں تشدد کم کرنے کے لیے پْرامن راستے تلاش کر رہے ہیں لیکن انہیں ایسا کرتے ہوئے انتہائی محتاط رہنے کی ضرورت ہے تاکہ کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ کسی انتہاپسند مذہبی نظریے کو مراعات کے طور پر کوئی ’’سیاسی سمجھوتا‘‘ پیش کر بیٹھیں۔
مزید برآں صومالیہ کے وفاقی نظام میں خود مختار علاقے بھی موجود ہیں جن کے پاس اپنے اندرونی معاملات خود نمٹانے کا اختیار ہے۔ شمال مشرق میں واقع پنٹ لینڈ کا نسبتاً پُرامن علاقہ اس کی ایک مثال ہے ۔ تاہم ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ آیا موغا دیشو میں قائم وفاقی حکومت اس میثاق کا احترام کرے گی اور اسلامی قانون سارے ملک میں نافذ کیا جائے گا۔
۱۸ اپریل کو پُنٹ لینڈ کے وزیرِ اطلاعات نے ایک بیان میں کہا تھا کہ اس قانون کا اطلاق پُنٹ لینڈ پر نہیں ہوتا۔ اگر خود مختار علاقوں کے ساتھ سیاسی کھینچا تانی میں اضافہ ہوا تو مزید پولرائزیشن ہوگی جس کی قیمت امن اور استحکام کی صورت میں ادا کرنا پڑے گی۔
پولرائزیشن کا خطرہ بڑھنے کے ساتھ وفاقی حکومت کو صومالی عوام پر یہ واضح کرنے کی ضرورت ہے کہ صومالیہ کے دیگر خود مختار علاقوں میں اسلامی قانون کا نفاذ کس طرح ہوگا۔ ایسا کرنے میں ناکامی حکومت کی تمام علاقوں کے ساتھ رابطہ کرنے کی صلاحیت کو مجروح کردے گی جس سے خوف اور انتشار پیدا ہوگا۔
اس وقت صومالیہ کے لوگوں کو اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ اسلامی قانون نافذ کرنے کے موضوع پر قومی سطح پر بحث کا آغاز کیا جائے ۔ اسلامی عدالتوں کے اتحاد میں اپنی سابقہ قائدانہ حیثیت کی وجہ سے شیخ احمد اس طرح کا قومی مکالمہ شروع کرا سکتے ہیں اور روایتی قبائلی سرداروں، دانشوروں، مذہبی رہنماؤں اور خود مختار علاقائی حکومتوں کے ساتھ رابطہ کر سکتے ہیں۔
صومالیہ گزشتہ ۱۸ سال سے مسلسل حالت ِجنگ میں ہے۔ ۱۹۹۱ء میں پھوٹنے والی خانہ جنگی میں اب تک ۵ لاکھ افراد مارے جا چکے ہیں، ۳ لاکھ ۲۰ ہزار اپنے ملک میں بے گھر ہو گئے ہیں جب کہ ۱۰ لاکھ لوگ بیرونِ ملک پناہ گزین کیمپوں میں مقیم ہیں۔
صومالیوں کا یہ حق بنتا ہے کہ ان سے بھی پوچھا جائے کہ ان پر لاگو ہونے والے قوانین کس طرح بنائے جائیں تاکہ انہیں یہ یقین ہو کہ ان کا مستقبل جنگ و جدل اور انتشار نہیں بلکہ امن اور استحکام سے عبارت ہے ۔
نوٹ: حسین یوسف جارج ٹاؤن یونیورسٹی کے انسٹی ٹیوٹ برائے حل و تقلّبِ تنازعات (آئی سی اے آر) سے پی ایچ ڈی کر رہے ہیں اور ’’فارن پالیسی اِن فوکس‘‘ کے لیے لکھتے ہیں۔ کامن گراؤنڈ نیوز سروس ( سی جی نیوز) کے لیے لکھا گیا یہ مضمون پہلے واشنگٹن پوسٹ / نیوز ویک کے پوسٹ گلوبل میں شائع ہوا تھا۔
(ماخذ: کامن گراؤنڈ نیوز سروس ( سی جی نیوز) ۱۵ مئی ۲۰۰۹)
Leave a Reply