
لیو (LEO) جیسی پُرعزم خاتون سے شاید ہی مجھے کبھی ملنے کا اتفاق ہوا ہو۔ جوہانس برگ کے ایک ایڈز یتیم خانہ کی تجربہ یافتہ اور نگہداشتِ اطفال میں تربیت یافتہ یہ خاتون میری ۱۸ ماہ بیٹی کی دیکھ بھال کرتی ہے‘ جب میں اور میری بیوی کام پرہوتے ہیں۔ یہ خاتون بالغوں کے ساتھ جس قدر سخت ہے‘ اسی قدر بچوں کے ساتھ نرم ہے۔ جب اسے معلوم ہوا کہ وہ گھر جس میں وہ اور اس کے دو بچے کرائے پر رہ رہے ہیں‘ برائے فروخت ہے تو اس نے بھی اس کے نیلام میں بولی لگائی اور جیت گئی۔ لیکن جب وہ جنوبی افریقہ کے سب سے بڑے بینک کی مقامی شاخ کے قرض افسر سے ملنے گئی تو اس نے اس کی مشکلات کا ادراک کرنا نہیں چاہا۔ اس نے کہا کہ خاتون کے پاس ڈپازٹ کے لیے کافی رقم نہیں ہے‘ لہٰذا یہ خاتون ایک ناپسندیدہ خطرہ (Bad Risk) ہے۔ LEO کام سے چھٹی لیتی اور ہر روز اپنے مقدمے کی وکالت کے لیے جاتی۔ یہ سلسلہ تین ہفتے تک چلتا رہا۔ اس نے اپنے گھر کے دوبارہ نیلام ہونے سے پہلے آخری حربے کے طور پر بینک کے چیف ایگزیکٹو سے ملنے کا فیصلہ کیا۔ وہ استقبالیہ کے احاطے میں بیٹھ گئی اور انتظار کرنے لگی۔ چھ گھنٹوں کے بعد پریشان زدہ سی ای او نے اس کو اپنے چیمبر میں آنے کی دعوت دی۔ اس نے اس کی پوری داستان سنی‘ اس کے فائل کا جائزہ لیا‘ اس کے عزم و ارادے کو محسوس کیا اور اسے گھر کی قیمت کے برابر رقم دینے پر رضامند ہو گیا۔ ’’آپ کو صرف ثابت قدمی دکھانا اور جرأت سے کام لینے کی ضرورت ہے‘‘۔ یہ وہ الفاظ تھے جو آج LEO کے منہ سے نکلے تھے جو ہنوز اپنی گروی کی رقم ادا کر رہی تھی۔ اس کا کہنا ہے کہ ’’اگر لوگ آپ سے کہیں کہ آپ باس سے نہیں مل سکتے ہیں تو آپ ان کی بات مت سنیں‘ آپ پُرعزم رہیں‘‘۔
آگے جانا افریقہ میں کوئی آسان کام نہیں ہے۔ اس کے لیے منصوبہ‘ ہدف اور بسا اوقات ضد اور اصرار کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ تمام خصوصیات اس مہم میں موجود ہیں جو افریقہ سے غربت کے خاتمے میں معاون ہو سکتی ہیں‘ جس کا ذکر آپ نے دیر سے ہی سہی‘ بہت سن چکے ہیں۔ جب دولتمند G-8 ممالک کے رہنما لازمی طور سے ورلڈ بینک کے منتظمین اگلے ماہ اسکاٹ لینڈ میں ملیں گے اور راک اسٹارز کے جوڑوں سے لے کر باتونی افریقی وزرائے اعظم اور صدور تک دنیا کے غریب ترین براعظم کے لیے کچھ بہتر مراعات حاصل کرنے کے لیے مہم چلا رہے ہوں گے۔ برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر پہلے ہی G-8 ممالک کے اپنے ہم منصبوں کو دنیا کے ۱۸ غریب ترین ممالک کے قرضوں کو معاف کر دینے پر قائل کر لیا ہے۔ ان کے قرضوں کی یہ رقم چالیس بلین ڈالر سے بھی زیادہ ہے۔ Gleneagles میں ہونے والی سربراہی کانفرنس میں وہ دوسری مراعات بھی دلانے کی کوشش کریں گے۔ لیکن دنیا کو صرف افریقہ ہی کی مدد کیوں کرنی چاہیے؟ Niall Fitz Gerald جو کہ برطانوی نیوز ایجنسی رائٹر کے چیئرمین اور افریقہ کے لیے نئے مراعات کے پرجوش حامی ہیں‘ کے مطابق اس کا سادہ جواب یہ ہے کہ یہ اخلاقی فریضہ ہے۔ ان کے الفاظ میں ’’دولتمند دنیا نے افریقہ کو دو تحفے عطا کیے ہیں۔ پہلا استحصال کا اور دوسرا بے حسی کا‘‘۔ انہوں نے یہ الفاظ ’’ورلڈ اکنامک فورم‘‘ کے افریقہ کانفرنس میں کہے جو جون کے اوائل میں کیپ ٹائون میں منعقد ہوئے تھے۔ دنیا بھر میں اخلاقی زیادتیوں کے خلاف ایک نئی بیداری ہے جس کو روا رکھے جانے کی ہم نے افریقہ میں اجازت دے رکھی ہے‘‘۔ اس بیداری میں دنیا کا اپنا مفاد بھی ہے۔ تنزانیہ کے صدر بینجامین مکاپا کہتے ہیں کہ بیماری اور مایوسی سے دولتمند دنیا کو نقصان پہنچے گا‘ اس لیے کہ غیرقانونی امیگریشن قاتل جراثیم کے پھیلنے کا سبب بنیں گے اگر انہیں یونہی چھوڑ دیا گیا۔ مکاپا نے میٹنگ میں یہ اظہارِ خیال کیا کہ ’’آپ افریقہ کے اطراف میں آتشی دیوار کھڑی نہیں کر سکتے اور نہ ہی یہ توقع کر سکتے ہیں کہ اس کی خرابیاں دوسری جگہوں پر نہیں پھیلیں گی۔ لیکن دولتمند ممالک نے افریقہ کو گذشتہ ۴ دہائیوں کے دوران ایک ٹریلین ڈالر کے لگ بھگ دیے ہیں اور یہ براعظم ہنوز پہلے سے زیادہ غریب ہے۔ افریقہ کے بیشتر مسائل خود اس کے اپنے پیدا کردہ ہیں یعنی بدعنوانی جنگ و بدانتظامی جیسے مسائل۔۔۔ سچ سچ ہے۔ پچھلی چند دہائیوں میں ایسی ہی کچھ مدت سے بہت سارے افریقی رہنمائوں کی جانب سے ان مسائل کو حل کرنے کی کچھ نئی اور سنجیدہ کوششوں کا آغاز کیا گیا ہے۔ گھانا اور موذ مبیق جیسے ممالک جو کبھی خانہ جنگی اور بغاوتوں سے ہلکان رہے ہیں‘ اپنی معیشت کو ٹائیگر کی مانند طاقتور بنایا ہے‘ جس میں بیشتر قیادت اور بیرونی سرمایہ کاری کا خاصا دخل رہا ہے۔ نائیجیریا جس کا نام دھوکہ اور جعل ساز آرٹسٹوں کے ہم معنی ہو کر رہ گیا ہے‘ نے بدعنوانی سے نمٹنے کی کوششوں کا آغاز کر دیا ہے۔ افریقی سوشلزم کے علمبردار ممالک مثلاً تنزانیہ نے فری مارکیٹ اکانومی کو گلے لگا لیا ہے اور ترقی کرنا شروع کر دیا ہے۔ افریقہ کی مدد اور حوصلہ افزائی کرنے والے ممالک کا کہنا ہے کہ انجام کار براعظم کا بیشتر حصہ اب امداد اور بہتر معاشی حالات کے ’’بگ بینگ‘‘ ٹیکہ سے مستفید ہو گا۔ افریقہ راتوں رات بدلنے نہیں جارہا ہے اور بعض ممالک کی مایوس کن ترقیٔ معکوس یقینی ہے۔ مثلاً دو ہفتے قبل ایتھوپیا کی حکومت جو ماضی کے چند سالوں میں ۸ نئی اصلاحات کے لیے ستائش کی مستحق تھی‘ حزب مخالف کے حامیوں پر پُرتشدد کریک ڈائون کی مرتکب رہی ہے۔
اگرچہ یہ معلوم پڑتا ہے کہ پالیسیوں کے درست اشتراک سے ہم گذشتہ بیس سالوں کا جائزہ لیں گے اور سال ۲۰۰۵ء کو نکتۂ تبدیلی (Turning Point) کے طور پر دیکھ سکیں گے۔ لیکن اس کے لیے قرضوں کی معافی سے زیادہ کچھ درکار ہے۔ امداد میں اضافہ معاون ثابت ہو گا۔ افریقی رہنما بھی اس سلسلے میں مزید کچھ کر سکتے ہیں۔ ایک کام وہ یہ کر سکتے ہیں کہ وہ اپنی تباہ کن اور منحرف وفاداری باغی حکومتوں مثلاً زمبابوے کی حکومت سے ختم کر دیں۔ شاید سب سے اہم ترین ضرورت افریقہ کو یہ ہے کہ اسے موقع دیا جائے کہ وہ اپنے غلوں‘ روٹی‘ پھلوں اور سبزیوں کو باقی دنیا کی منڈیوں میں فروخت کر سکے۔ جب تک یورپ‘ امریکا اور جاپان سنجیدہ کوشش نہیں کرتے ہیں‘ ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن میں اپنی ناروا اور خودمستی پر مبنی زراعتی سبسڈیز کم کرنے کی کوشش ایسے وقت میں جبکہ آرگنائزیشن کی میٹنگ اس سال کے آخر میں ہانگ کانگ میں منعقد ہونے والی ہے‘ افریقہ ہمیشہ اپنی غربت کے جال کو چاک کرنے کی جدوجہد میں مصروف رہے گا۔ مارکیٹ میں ان کے داخلے کو ممکن بنائے بغیر صرف قرضوں کی معافی کا مطلب یہ ہے کہ کھیل کی کوئی ٹیم تیار کر کے اسے فیلڈ میں اس طرح اتارا جائے کہ اس کے ہر کھلاڑی کے ہاتھ پیٹھ سے بندھے ہوں۔ یہ وقت ہے کہ افریقہ کو اتنی رقم جتنی کہ اس وقت اسے ضرورت ہے‘ یقینی بناتے ہوئے کہ افریقہ اسے اپنے طور پر مستقبل میں ادا کر سکے‘ اس کے لیے امیر ممالک کو اس براعظم کو کام کرنے کی بھی اجازت دینی ہو گی۔
(بشکریہ: ’’ٹائم‘‘۔ ۲۷ جون ۲۰۰۵ء)
Leave a Reply