صدر ٹرمپ نے امن مذاکرات کی منسوخی کا اعلان کر کے دنیا کو حیرت میں ڈال دیا ہے۔ انہوں نے طالبان اور افغان حکومت سے کیمپ ڈیوڈ میں ہونے والی ملاقات منسوخ کر دی اور اس وجہ سے امن مذاکرات کی صورتحال غیر واضح ہوگئی ہے، لیکن یہ ایک بہترین موقع ہے کہ پچھلی غلطیوں سے سبق سیکھا جائے اور انہیں سدھارا جائے تاکہ مستقبل کے مذاکرات موثر ثابت ہوں۔
۱۔ امن مذاکرات افغان حکومت کے بغیر
افغانستان سے امن مذاکرات کے لیے امریکا کی طرف سے خصوصی طور پرنامزد زلمے خلیل زاد نے کہا تھا کہ امریکا اور طالبان ایک عارضی معاہدے پر پہنچ چکے ہیں، جس میں افغانستان سے امریکی فوجیوں کی ۱۶ مہینوں کے اندر اندر پُرامن واپسی سر فہرست ہے۔بدلے میں طالبان کو اس بات پر راضی کیا جارہاہے کہ وہ القاعدہ سے اپنے تعلقات ترک کر لیں گے اورافغانستان کی سرزمین پھر کوئی بین الاقوامی دہشت گرد تنظیم استعمال نہیں کرسکے گی، تشدد کا راستہ ترک کیا جائے گا اور ساتھ ساتھ طالبان افغان حکومت سے بھی مذاکرات کریں گے۔
لیکن اس معاہدے کا ایک خوفناک پہلو یہ ہے کہ امریکا افغانستان میں اپنا ایک اتحادی طالبان کے رحم و کرم پر چھوڑ کر جا رہا ہے، امریکیوں کے انخلا کے بعد طالبان اشرف غنی کے ساتھ سابق صدر محمد نجیب اللہ جیسا حال کریں گے۔۱۹۸۹ء میں سویت یونین کے انخلا کے بعد محمد نجیب اللہ کو اقتدار سے ہٹاکر قتل کردیا گیا تھا یہی وجہ ہے کہ امریکا کے دوسرے اتحادی اس معاہدے کی مخالفت کر رہے ہیں، خود امریکا کے قومی سلامتی کے مشیرجان بولٹن نے اس معاہدے پر شدید تنقید کی ہے۔
ٹرمپ کے لیے اس طرح کا معاہدہ کرنے سے زیادہ بہتر یہ ہے کہ امریکا اپنے فوجیوں کاانخلاترک کردے اور اس بات پر توجہ دے کہ جنگ کو کس طرح روکا جائے اور افغان حکومت کے ساتھ مل کرکام کرنے پر توجہ دے۔
تاریخ بتاتی ہے کہ امریکا نے مقامی لوگوں کے بغیر جب بھی یکطرفہ معاہدہ کیا، بدقسمتی سے وہ کبھی بھی اپنے انجام کو نہیں پہنچ پایا۔ سیگن کا زوال ایک تاریخی ثبوت ہے، نکسن انتظامیہ اور شمالی ویتنام کے درمیان پیرس امن معاہدہ ۱۹۷۳ء میں طے پایا تھا جو محض دو سال بعد ہی سیگن کے زوال پر ختم ہوا۔ ٹرمپ کے لیے ایک بہتر مشورہ یہ ہوسکتا ہے کہ وہ مذاکرات میں تیسرے فریق کی شمولیت کو یقینی بنائے جیسا کہ ہوانا میں ۲۰۱۲ء سے ۲۰۱۶ء کے درمیان ہوا۔ اس معاہدے میں ہوانا ایک فریق کی حیثیت سے شامل تھا جبکہ کولمبیا کی حکومت اور انقلابی گوریلا فورس کے درمیان مذاکرات ہوئے۔ بدقسمتی سے طالبان افغانستان کی حکومت کو مذاکرات میں شامل کرنا نہیں چاہتے، وہ یہ کہتے ہیں کہ موجودہ افغان حکومت امریکا کی پٹھو حکومت ہے۔
۲۔جنگ بندی کا معاہدے میں شامل نہ ہونا
ایک دوسری غلطی یہ تھی کہ ٹرمپ انتظامیہ نے فوجیوں کا انخلاجنگ بندی سے مشروط نہیں کیا تھا۔جو معاہدہ خلیل زاد کے ساتھ طے کیا گیا اسے منظر عام پر نہیں لایا گیا لیکن اس میں یہ شِق تھی کہ طالبان حملوں کو کم کریں (بجائے اس کے کہ ختم کریں) زلمے خلیل زاد داعش اور حقانی گروپ کے حملوں کا ذمہ دار طالبان کو نہیں سمجھتے۔ ٹرمپ نے یہ بھی کہا کہ انہوں نے کیمپ ڈیوڈ کی ملا قات کابل میں امریکی فوجی کی ہلاکت کے بعد منسوخ کی ہے، حالانکہ مذاکرات میں جنگ بندی کا مطالبہ شامل ہی نہیں تھا اب امریکا کو چاہیے کہ آئندہ مذاکرات میں اپنی ان تمام غلطیوں کی اصلاح کرے۔
۳۔ مکمل فوجی انخلا کا تاثر
یہ عین ممکن ہے کہ طالبان ان شرائط پر کبھی تیار نہ ہوسکیں، لیکن معاہدہ طے نہ کرنا اس سے بہتر ہے کہ کوئی غلط معاہدہ کیا جائے۔
ٹرمپ کے اقتدار میں آنے کے بعد سے اب تک ۹ ہزار امریکی فوجی افغانستان میں موجود ہیں اور وہ بغیر کسی معاہدے کے ان فوجیوں کا انخلا ممکن بنا سکتے تھے۔ٹرمپ کو یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ جنگ بندی معاہدے میں وہ افغانستان میں کم سے کم فوجیوں کی تعدادکو برقرار رکھنا چاہیں تو انہیں اس کی کچھ نہ کچھ سیاسی قیمت چکانی پڑے گی ورنہ مکمل انخلا کی صورت میں غیر مستحکم نتائج رونما ہوں گے۔ بارک اوباما کے دورِ صدارت میں ۲۰۱۱ء میں عراق سے امریکی فوجیو ں کا مکمل انخلا ایک سبق ہے،امریکی فوجیوں کے انخلا سے وہاں طاقت کا خلا پیدا ہواتھا پھر اس خلاکو داعش نے پُر کیا اور داعش کے مقابلے کے لیے دوبارہ امریکی فوجیوں کی ضرورت پڑی تھی۔
(ترجمہ: سمیہ اختر)
“Time to reboot the mistake-riddled U.S.-Taliban peace talks”. (“cfr.org”. September 9, 2019)
Leave a Reply