
بنگلا دیش میں سیکولر اور غیر مذہب پسند دانشوروں کا قتل اس امر کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ بنگلا دیش کی کوئی واضح شناخت متعین کرنے کا مسئلہ اب تک حل نہیں ہوسکا ہے۔ بھارت کی وزارت داخلہ کی جانب سے سپریم کورٹ میں پالیسی ڈاکیومنٹ جمع کرائے جانے کا خیر مقدم کرنے کے سوا چارہ نہیں، جس میں اُن ہزاروں ہندو بنگالیوں کو بھارتی شہریت دینے کی اجازت طلب کی گئی جنہیں مشرقی بنگال (بنگلا دیش) سے پہنے کپڑوں، خالی ہاتھ نقل مکانی پر مجبور ہونا پڑا ہے۔
۱۹۷۱ء میں بنگلا دیش کے قیام کے بعد بھارت سے بہت سے ہندو بنگالیوں کو گن پوائنٹ پر واپس بنگلا دیش بھیجا گیا۔ ایسے ہی ایک ہندو بنگالی سے میں نے پوچھا تھا کہ اب وہ خود کو کیا محسوس کرتا ہے، بھارتی یا بنگلا دیشی؟ اس پر اس نے کہا تھا کہ مجھے ایسا بھارتی باشندہ سمجھا جاسکتا ہے جو بنگلا دیشی سرزمین پر آباد ہو۔ یہ وہ نقطۂ نظر تھا جس سے بھارت میں اتھارٹیز متفق نہیں تھیں۔ وزیراعظم نریندر مودی نے ۱۹۷۱ء میں تب کے مشرقی پاکستان اور موجودہ بنگلا دیش سے فرار ہو کر بھارت میں پناہ لینے والے ہندو بنگالیوں کو شہریت دینے کا اعلان کیا ہے۔ یہ بنگالی اب اٹھارہ بھارتی ریاستوں میں بکھرے ہوئے ہیں۔ ان میں سے بہت سوں نے پہلے بھارتی شہریت سے متعلق دستاویز حاصل کر رکھی ہیں۔ بہت سوں نے راشن کارڈ بھی بنوالیے ہیں، جو بھارت میں شناخت کی ایک اہم دستاویز ہے۔ دیگر کو بھارتی شہریت کا عمل مکمل کرنے میں کئی سال لگیں گے۔ مغربی بنگال اور آسام میں بنگلا دیش سے تعلق رکھنے والے بہت سے مسلم بنگالی بھی آباد ہیں۔ بھارتی حکومت کے فیصلے سے یہ بھی مستفید ہوں گے۔ مگر خیر:
ع اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں
بھارتی حکومت نے مشرقی بنگال کے ہندوئوں کے لیے جس سہولت کا اعلان کیا ہے، وہ واپسی کے اصول کے تحت ہے۔ اسرائیلی حکومت نے دنیا بھر میں آباد یہودیوں کے لیے واپسی کے اصول کے تحت اپنے دروازے کھلے رکھے ہیں۔ کوئی بھی یہودی اسرائیل کی شہریت حاصل کرسکتا ہے۔ جریدہ ’’شاغلی ایبدو‘‘ کے عملے کے قتل کے وقت بھی اسرائیلی وزیراعظم نے واپسی کے اصول کو دہرایا تھا اور حالیہ برطانوی انتخابات میں اس اصول کی بازگشت سنائی دی تھی۔
میری سکونت کولکتہ ہی میں رہی ہے مگر اب تک مجھے اندازہ نہیں تھا کہ ۱۹۷۱ء میں بنگلا دیش کے قیام کی تحریک کے دوران مشرقی پاکستان سے بھاگ کر بھارت میں پناہ لینے والوں میں ۹۹ فیصد ہندو تھے۔ اب تو یہی راگ الاپا جاتا رہا ہے کہ مشرقی بنگال کی سرزمین سے وہ لوگ جان بچاکر نکلے تھے جو سیکولر تھے یا مذہب کے خلاف بولتے تھے۔ اب معلوم ہوا کہ ہندوؤں پر بھی زمین تنگ تھی کیونکہ ملائیت سے انہیں بھی شدید خطرات لاحق تھے۔ میں نے ۱۳؍جون ۱۹۷۱ء میں لندن کے اخبار ’’دی آبزور‘‘ میں ایک مضمون لکھا تھا کہ جس کا عنوان ’’لاکھوں ہندوؤں کا فرار‘‘ تھا۔
مشرقی بنگال سے فرار ہوکر بھارت میں پناہ لینے والے ہندوؤں نے مجھے بتایا کہ پہلے تو انہوں نے بہاریوں کو قتل کیا۔ پھر پاکستانی فوج آئی اور انہوں نے (فوج کے ساتھ) متحدہ ہوکر ہندوؤں کو نشانہ بنایا۔ جو کچھ ہوا، اس کے لیے سیکولراِزم کا راگ الاپنا تو لازم تھا کیونکہ تب تک مشرقی بنگال کے ہندو اس خیال کے حامل تھے کہ نئی ریاست (بنگلا دیش) میں انہیں برابری کی بنیاد پر حقوق ملیں گے۔ بنگلا دیش کے بانی صدر شیخ مجیب الرحمن نے ایسا کرنے کا وعدہ کیا تھا۔
اس وقت بنگلا دیش میں عوامی لیگ اور جماعت اسلامی میدان کے دو سِروں پر ہیں۔ دونوں کے درمیان اختلافات اور تنازعات کی خلیج حائل ہے۔ بیگم خالدہ ضیاء کی بنگلا دیش نیشنلسٹ پارٹی بھی جماعت اسلامی کے ساتھ ہے۔ ایسے میں یہ بات سوچنا ذرا دشوار ہے کہ شیخ حسینہ واجد بنگلا دیشی ہندوؤں سے برابری کا سلوک روا رکھیں گی۔ اگر وہ ایسا کرنے میں کامیاب ہو بھی جائیں تو کیا وہ ماضی کی کسی بھی غلطی یا زیادتی کا ازالہ کرنے میں کامیاب ہوسکیں گی؟
شیخ حسینہ واجد تو اویجیت رائے اور اننت بجوئے داس کو قتل ہونے سے نہ بچاسکیں۔ اویجیت رائے نے آزاد خیال افراد کے لیے ایک بلاگ ’’مکتو مونا‘‘ قائم کیا تھا جو معاشرے کی خرابیوں پر تنقید کرتا تھا۔ اننت بجوئے داس سلہٹ سے تعلق رکھنے والا بینک منیجر تھا، جو توہمات اور بے بنیاد نظریات کے خلاف کھل کر بات کرتا تھا۔ کسی مذہب پر یقین نہ رکھنے والے واثق الرحمن کو بھی زندہ رہنے کے حق سے محروم کردیا گیا۔
بھگوان جانے مستقبل میں کیا ہوگا؟ مگر یہ ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ مشرقی بنگال سے بھاگ کر بھارت میں پناہ لینے والے لاکھوں بنگالی ہندوؤں سے زیادتی ہوتی آرہی ہے۔ پاکستان میں بھی ہندوؤں کو ان کے حقوق سے محروم رکھا گیا ہے۔ لیاقت نہرو معاہدے میں بھی ایسا ہی کچھ ہے۔ پاکستان کی حکومتیں اقلیتوں کو یکساں حقوق دینے کی بات کرتی رہی ہیں۔ مگر عملاً ایسا کچھ دکھائی نہیں دیا۔ بھارت کوئی ہندو ریاست نہیں۔ (نیپال عشروں تک واحد ہندو ریاست تھا۔ مگر اب بادشاہت کے خاتمے کے بعد وہ بھی ہندو ریاست نہیں رہا) چنانچہ بھارت میں بسنے والے تمام افراد یکساں حیثیت کے حامل ہیں۔ ایسے میں مشرقی بنگال کے ہندوؤں کے لیے الگ سے کوئی انتظام کرنا انتہائی دشوار امر ہے۔
پاکستان، بنگلا دیش، سری لنکا، ملائیشیا، سنگاپور، فیجی اور گیانا میں بھی ہندو آباد ہیں اور ان سے غیر مساوی سلوک بھی روا رکھا جاتا ہے مگر بھارت ان کے معاملات میں مداخلت سے گریز کرتا ہے۔ اس معاملے میں اس نے انتہائی محتاط رویہ اپنایا ہوا ہے۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ مشرقی بنگال سے فرار ہوکر بھارت میں پناہ لینے والے مسلمانوں کو اپنے بارڈر سکیورٹی گارڈز کو کچھ زیادہ نہیں دینا پڑتا تھا مگر ہاں، بھارتی بارڈرز سکیورٹی گارڈز کی مٹھی انہیں زیادہ گرم کرنا پڑتی تھی۔ اور دوسری طرف بنگالی ہندوؤں کو بھارت میں داخل ہونے کے لیے بھارتی گارڈز کو کچھ خاص دینا نہیں پڑتا تھا۔
جو لوگ معاشی وجوہ کی بنیاد پر مشرقی بنگال یا موجودہ بنگلا دیش سے فرار ہوکر بھارت پہنچنے کے بعد مغربی بنگال یا آسام میں آباد ہوئے انہیں واپس لینے کے معاملے میں سابق بنگلا دیشی صدر ضیاء الرحمن نے سخت رویہ اپنایا۔ آسام کو اعتراض ہندو یا مسلم پر نہیں بلکہ بنگالیوں پر تھا۔ آسام کے لیے ہندو اور مسلم دونوں ہی بنگالی ناقابل قبول تھے۔ آسام میں عام نعرہ یہ تھا کہ بنگالیوں کو نکال باہر کرو۔ سابق بھارتی وزیراعظم آنجہانی راجیو گاندھی نے ۱۹۸۵ء میں آل آسام اسٹوڈنٹ یونین اور آل آسام گن سنگرام پریشد سے ایک معاہدہ کیا، جس کے تحت ۱۹۷۱ء میں بھارت میں داخل ہونے والے مشرقی بنگال کے تمام بنگالیوں کو واپس بھیجنے سے اتفاق رائے کیا گیا۔
یہ ایک معاملہ جو کسی بھی حالت میں عمل کی دنیا تک نہیں پہنچ سکتا۔ آج ۳۰ سال بعد تو ایسا کرنا اور بھی دشوار ہے۔ اصل خدشہ یہ ہے کہ مشرقی پاکستان کے ہندو یا مسلم بنگالیوں کو نکالنے کی آڑ میں کہیں ان بھارتی ہندوؤں کو بھی ملک سے نکال نہ دیا جائے جو عشروں سے آسام میں آباد ہیں۔
ایک اور مسئلہ یہ بھی ہے کہ بہت سے مسلم بنگالیوں کو مغربی بنگال میں کمیونسٹ پارٹی اور اس کے ہم خیال عناصر نے اپنا ووٹ بینک مضبوط کرنے کے لیے آباد کیا۔ ان مسلمانوں کو کمیونسٹوں نے بہت پہلے بھارتی شہریت سے نواز دیا۔ اس کا نتیجہ یہ برآمد ہوا ہے کہ مرکز میں بننے والی حکومتیں مذہب کی بنیاد پر شہریت کا مسئلہ حل کرنے سے گریز کرتی رہی ہیں کیونکہ بہت سے بھارتی مسلمانوں کا شکوہ ہے کہ انہیں بنگلا دیشی قرار دے کر ملک سے نکالنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
وقت آگیا ہے کہ سابق مشرقی پاکستان سے نقل مکانی کرکے آنے والے ہندوؤں اور مسلمانوں کا مسئلہ حل کیا جائے۔ اس معاملے میں بھارت کے مسلمان بنگالیوں یا مشرقی پاکستان سے آنے والے بنگالی مسلمانوں سے کوئی امتیازی سلوک بھی روا نہیں رکھا جانا چاہیے۔ مگر مجھے ایسا لگتا ہے کہ کوئی کٹّر ہندو حکومت بھی مشرقی بنگال کے مسلمانوں کو ملک سے نکالنے میں کامیاب نہیں ہوسکے گی۔
“Time to set right a historical wrong”. (“freepressjournal.in”. May 23, 2015)
Leave a Reply