
بنگلہ دیش کی حکمراں جماعت عوامی لیگ کے ایک مرکزی اور انتہائی با اثر لیڈر شیخ سلیم نے ڈھاکا کے ایک جلسے میں دھمکی دی ہے کہ ’’جو لوگ حکومت مخالف مظاہروں کی آڑ میں نراجیت پھیلانا چاہتے ہیں، اُن کے اعضا کاٹ دیے جائیں گے‘‘۔ اس دھمکی سے لوگ یہ سوچنے پر مجبور ہوئے ہیں کہ نراجیت اور انتشار کو پھیلنے سے روکنے کے لیے مخالفین کے اعضا کاٹ دینا کیا خود نراجیت نہیں اور کیا کبھی اس طرح کے ہتھکنڈوں سے عوامی احتجاج کی راہ روکی جاسکی ہے؟
مجھے کچھ اندازہ نہیں کہ بنگلہ دیش کے ایک عام باشندے نے اس دھمکی پر کس نوعیت کے ردعمل کا مظاہرہ کیا ہے۔ حقیقی جمہوریت میں تو اس نوعیت کے ہتھکنڈوں کی کوئی گنجائش نہیں۔ بنگلہ دیش میں مخالفین کو طاقت کے ذریعے کچلنے اور کسی بھی طور اپنی بات منوانے اور مقاصد حاصل کرنے کا کلچر رہا ہے۔ غیر معمولی تشدد کے اتنے مظاہرے ہوچکے ہیں کہ اب لوگوں کو اس بات پر یقین نہ کرنے کا کوئی سبب نظر نہیں آتا کہ جو کچھ سیاست دان کہتے ہیں، اس پر عمل بھی کر گزرتے ہیں۔
ہم یہ سوچنے پر ضرور مجبور ہیں کہ حکمراں جماعت کے غنڈے اور ریاستی مشینری کے سفاک اہلکار اگر اس دھمکی کو سنجیدگی سے لیں اور عمل کر گزریں تو ہزاروں افراد ممکنہ طور پر اس خدشے سے دوچار ہوں گے کہ کہیں ان کے اعضا کاٹ نہ دیے جائیں۔ بنگلہ دیش میں مخالفین پر بہیمانہ تشدد کے سیاسی کلچر نے اس حد تک جڑ پکڑلی ہے کہ پولیس اور قانون نافذ کرنے والے دیگر اہلکار حکومت کے خلاف جانے والے افراد کو مقابلے کے نام پر مار ڈالتے ہیں۔ ایسے میں لوگ ضرور سوچیں گے کہ جو شخص پولیس چیف سے بھی زیادہ طاقتور ہو، وہ اپنی بات پر عمل کرنے سے کیوں کر گریز کرے گا۔
جو لوگ حقائق پر نظر رکھتے ہیں انہوں نے سیاسی مخالفین کے اعضا کاٹنے کی دھمکی کو سنجیدگی سے لیا ہے۔ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ حکمراں جماعت کے رہنما خالی خولی دھمکیاں نہیں دیتے اور کوئی بھی بات محض اس لیے نہیں کہتے کہ الفاظ کو دانتوں تلے پیس کر رہ جائیں۔ اگر ایسا ہوا تو ملک میں شدید خوف کا ماحول پیدا ہوگا جو غیر معمولی نوعیت کی نراجیت کو جنم دے گا۔ پولیس اور ریپڈ ایکشن بٹالین کے ہاتھوں سیاسی مخالفین، مشتبہ افراد اور مجرموں کے ماورائے عدالت قتل کے رجحان کے پیش نظر کہا جاسکتا ہے کہ بنگلہ دیش شدید خوف کی بنیاد پر حکومت کرنے کے عہد میں داخل ہوچکا ہے، جو نراجیت کا پیش خیمہ ہے۔ میٹروپولیٹن ڈھاکا کے پولیس چیف جس انداز سے اجتماعات سے خطاب کرتے اور حکومت کے مخالفین کو سنگین نتائج سے خبردار کرتے ہیں، اُسے دیکھ کر خیال گزرتا ہے کہ پولیس کے اعلیٰ افسران کہیں حکمراں جماعت کے عہدیدار تو نہیں!
کیا اب اس سوال پر غور اور بحث کی گنجائش ہے کہ کون سا طریقہ زیادہ سفاک ہے، مخالفین کے اعضا کاٹ دینا یا گولی سے اڑا دینا؟ ایک اہم سوال یہ ہے کہ یہ سب کچھ کس کے حکم پر ہو رہا ہے؟ اور ہم کس کے ’’نظام‘‘ کی بات کر رہے ہیں؟
ہم یہ فرض کرسکتے ہیں کہ عوامی لیگ کے بعض لیڈر معذرت خواہانہ سوچ کے ساتھ یہ کہیں کہ شیخ سلیم اور ان کی جماعت کے دیگر عہدیدار جو کچھ جلسوں میں کہتے ہیں، اُسے سنجیدگی سے نہ لیا جائے۔ وہ اس سلسلے میں بنگلہ دیش کے بہت سے سیاست دانوں کے عوامی خطاب، ٹی وی ٹاک شو میں گفتگو یا پارلیمنٹ میں بیانات کا حوالہ دے سکتے ہیں، جو وہ ایک دوسرے کے خلاف دیتے رہتے ہیں۔ وہ بہت سکون سے یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ مخالفین کے اعضا کاٹنے کی دھمکی محض ایک بڑھک ہے جسے سنجیدگی سے لینے کی ضرورت نہیں۔
ہمارا تجربہ البتہ کوئی دوسری ہی کہانی سناتا ہے۔ مسلح اور پرجوش سیاسی کارکنان اور قانون نافذ کرنے والے اہلکار تیسری دنیا میں انتہائی سفاکی کے مظاہرے کرتے ہیں اور انہیں کسی بھی نوعیت کی قانونی کارروائی کا بھی کوئی خوف نہیں ہوتا۔ یہ لوگ گسٹاپو، بلیک شرٹس اور ساوک سے مختلف نہیں۔ بنگلہ دیش میں چار عشروں کے دوران حکمران جماعتوں کے غنڈوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کے ہاتھوں سیاسی مخالفین کو جس طور کچلا جاتا رہا ہے، اسے دیکھتے ہوئے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اس وقت عوامی لیگ کے لیڈر جو دھمکیاں دے رہے ہیں اُن کے کیا نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔ انتہائی پرجوش بلکہ انتہا پسند سیاسی کارکن اپنے رہنماؤں کے منہ سے نکلنے والی ہر بات پر عمل کو اپنے لیے فرض سمجھتے ہیں۔ بنگلہ دیش میں سیاسی کارکنوں کے ہاتھوں مخالفین کا اعضا اور بصارت سے محروم ہونا یا پھر جان ہی سے ہاتھ دھو بیٹھنا کوئی غیر معمولی بات نہیں۔
کوئی بھی یہ بات سوچنے پر مجبور ہوسکتا ہے کہ بنگلہ دیش میں سیاسی تشدد اس قدر عام کیوں ہے اور اتنے بڑے پیمانے پر کیوں ہے کہ کبھی کبھی معاشرہ نراجیت کی طرف جاتا دکھائی دیتا ہے۔ سیمیوئل ہنٹنگٹن جیسے قدامت پسند مفکرین اور بسا اوقات بعض لبرل مفکرین بھی اسلامی معاشروں میں بڑھتی ہوئی تشدد پسندی اور قدامت پرستی کو نئی نسل کے غیر معمولی جوش و خروش سے جوڑ کر دیکھتے ہیں۔ ان کی نظر میں ہر وہ ملک نوجوانوں کے جوش و خروش کے زیر اثر ہے جہاں ۴۰ فیصد آبادی ۱۵ سے ۲۹ سال تک کی عمر کے نفوس پر مشتمل ہو۔ تعلیم اور روزگار کے مواقع کی کمی ان نوجوانوں کو جیتے جاگتے بموں میں تبدیل کر دیتی ہے، جس کے نتیجے میں معاشرے طویل مدت تک عدم استحکام کا شکار رہتے ہیں۔ اس حوالے سے دیکھیے تو بنگلہ دیش کا معاملہ انتہائی تشویشناک ہے کیونکہ ۵۰ فیصد آبادی ۳۰ سال سے کم عمر ہے اور ۴۷ فیصد سے زائد گریجویٹس بے روزگار ہیں۔
مشرق وسطیٰ اور جنوب مشرقی ایشیا میں بیشتر بیروزگار اور روزگار کے قابل نہ گردانے جانے والے گریجویٹس گھریلو ملازمین، مزدور یا کسان کی حیثیت سے کام کرتے ہیں۔ ان میں سے بہت سے سیاسی جماعتوں سے وابستگی اختیار کرکے مجرمانہ سرگرمیوں میں پڑ جاتے ہیں۔ حالات سے پریشان یہ مشتعل نوجوان سیاست دانوں کے لیے بہت کام کے ہوتے ہیں۔ بہت سے بیروزگار یا حالات کے ستائے ہوئے نوجوان کرائے کے قاتل بن جاتے ہیں اور دوسرے بہت سے نوجوان اغوا برائے تاوان کی وارداتوں میں استعمال ہونے لگتے ہیں۔ ان نوجوانوں کا اچھی طرح برین واش کیا جاتا ہے۔ مختلف غیر پختہ نظریات کی بھٹی میں تپاکر اِنہیں ’’کندن‘‘ بنادیا جاتا ہے۔ پھر یہ سیاست دانوں کے آلۂ کار ہی کی حیثیت سے کام کرسکتے ہیں، کچھ اور کرنے کے قابل نہیں رہتے۔
اب اگر ایسا ہو کہ بنگلہ دیش میں حکمراں جماعت کے کارکن اپنے رہنماؤں کی طرف سے مخالفین کو دی جانے والی دھمکیوں کو سنجیدگی سے لیتے ہوئے سنگین وارداتیں شروع کردیں تو بنگلہ دیش طویل مدت کے لیے شدید نراجیت کے گڑھے میں جا گرے گا۔ سیاست دانوں کو بولتے وقت احتیاط برتنی چاہیے تاکہ ان کے کہے ہوئے سے حالات میں مزید خرابی پیدا نہ ہو۔
(مضمون نگار امریکی ریاست ٹینیسی کے شہر کلارکس ولے کی آسٹن پائے اسٹیٹ یونیورسٹی میں سکیورٹی اسٹڈیز کے استاد ہیں)۔
(“Chopping off limbs: To crush opposition in Bangladesh”… “countercurrents.org”. March 9, 2014)
Leave a Reply