مہا راشٹر اور ہریانہ میں حالیہ اسمبلی انتخابات نے بھارتیہ جنتا پارٹی کا مارچ کسی حد تک روک دیا ہے۔ یہ حزب اختلاف کے لیے اچھا موقع ہے۔ اگر وہ کوشش کرے تو اپنی ساکھ بحال کرکے دیگر ریاستی اسمبلیوں کے ساتھ ساتھ عام انتخابات کے لیے بھی رائے عامہ کو اپنے حق میں کرسکتی ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ حزب اختلاف شکست پسند ذہنیت کے ساتھ کام کر رہی ہے۔
ہمارے عہد کا ایک بڑا المیہ یہ ہے کہ ایک ہی صورتِ حال کو کہیں کچھ کہا جارہا ہے اور کہیں کچھ۔ اخبارات میں بزنس کے صفحات پڑھ جایے۔ آپ کو اندازہ ہوگا کہ معیشت تو بہت بری حالت میں ہے۔ مہنگائی ہے، بے روزگاری ہے اور افلاس ہے۔ لوگوں کے لیے دو وقت کی روٹی کا اہتمام کرنا بھی دشوار سے دشوار تر ہوتا جارہا ہے۔ اور اگر سیاسی صفحات پڑھیے تو معلوم ہوتا ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی نے ملک میں دودھ اور شہد کی ندیاں بہادی ہیں۔ اخباری تجزیہ نگار ’’سب ٹھیک ہے‘‘ کا راگ الاپتے رہتے ہیں۔ مہا راشٹر اور ہریانہ اسمبلی کے الیکشن نے بتادیا ہے کہ بی جے پی کے لیے سب کچھ اچھا نہیں ہے۔ چند ایک مشکلات بھی ہیں جن کا دور کیا جانا لازم ہے۔ مقامی مسائل پر خاطر خواہ توجہ مرکوز کرنے کے بجائے یہ کوشش کی جارہی ہے کہ کسی نہ کسی طور معاملات کو معرضِ التواء میں رکھا جائے۔ لوگ ایسا ماحول چاہتے ہیں جس میں اگر حکومت نوکریاں نہ بھی دے سکے تو کم از کم اتنا تو ہو کہ کمانا آسان ٹھہرے۔ لوگ پینے کے صاف پانی کو ترس رہے ہیں۔ محض بڑبولا پن اُن کے مسائل حل نہیں کرسکتا۔ صرف پانچ ماہ قبل بھارتیہ جنتا پارٹی نے ایوان زیریں لوک سبھا کے انتخابات میں ڈالے گئے ووٹوں کا ۵۸ فیصد حاصل کیا تھا۔ ہریانہ میں لوگ سبھا کی دس نشتیں ہیں جو تمام کی تمام بی جے پی نے جیتیں۔ مگر اب ریاستی اسمبلی کے انتخابات میں بی جے پی کے لیے الجھنیں سامنے آئی ہیں۔ ریاستی اسمبلی میں بی جے پی اگرچہ سب سے بڑی جماعت ہے مگر اس کے لیے حکومت بنانا اور چلانا ایسا آسان نہیں رہا جیسا اب تک رہا ہے۔
مہا راشٹر میں بی جے پی اور شیو سینا نے ملک کر لوک سبھا کے انتخابات میں اپنی صلاحیت کا لوہا منوایا تھا۔ اب ایسا نہیں ہے۔ مہا راشٹر اسمبلی میں بی جے پی کی نشستیں اب پہلے کے مقابلے میں تین چوتھائی رہ گئی ہیں۔
یہ بات بہت عجیب لگتی ہے کہ لوک سبھا کے انتخابات میں تو بی جے پی کی کارکردگی شاندار رہی ہے۔ حقیقت ہے کہ اس نے بہت سے معاملات میں قدرے بے حسی کا رویہ اختیار کیا، جس کا خمیازہ بھگتنا پڑا ہے۔ گزشتہ موسم سرما میں بھی ریاستی اسمبلیوں کے انتخابات ہوئے تھے جن میں کانگریس کی کارکردگی اچھی رہی تھی۔ اُس نے مدھیہ پردیش، راجستھان اور چھتیس گڑھ کی اسمبلیوں میں نمایاں اکثریت کے ساتھ کامیابی حاصل کی۔ مگر چند ماہ بعد لوک سبھا کے انتخابات میں اِن تینوں ریاستوں میں کانگریس ہارگئی۔
بالا کوٹ حملوں کے بعد ہونے والے لوک سبھا انتخابات میں بھارتیہ جنتا پارٹی نے شاندار کامیابی حاصل کی۔ یہ کامیابی صدارتی نظام کی طرز پر تھی، جس میں مقامی مسائل کو ذرا بھی اہمیت نہیں دی گئی۔ قومی معاملات انتخابی مہم پر چھائے رہے۔ بالا کوٹ حملوں کے بعد نریندر مودی ایک ایسے لیڈر کے طور پر ابھرے جو قومی معاملات پر کسی بھی طرح کا خطرہ مول لینے سے نہیں ڈرتا۔ اس تشخص کا انتخابی فائدہ بی جے پی نے خوب اٹھایا۔ اب ریاستی اسمبلیوں کے انتخابات میں بی جے پی کو پریشانی کا سامنا اس لیے ہے کہ مقامی مسائل کو نظر انداز کیا گیا۔ برادری، نسل یا ذات کی بنیاد پر بھی انتخابی اتحاد ہوتے ہیں جو نچلی سطح پر غضب ڈھاتے ہیں۔ اور بی جے پی کو اِسی بحران کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
مہا راشٹر میں مراٹھ واڑا کا حلقہ پارلی اس کی ایک واضح مثال ہے۔ بی جے پی کے صدر امیت شاہ نے انتخابی مہم کا آغاز اسی حلقے سے کیا تھا۔ انہوں نے عوام کو یاد دلایا کہ بی جے پی کی حکومت شدید قوم پرست ہے یعنی قوم کے لیے کچھ بھی کرسکتی ہے۔ انہوں نے ووٹروں کو یاد دلایا کہ یہ بی جے پی کی حکومت ہے جس نے آئین کی دفعہ ۳۷۰ کے تحت جموں و کشمیر کو ملی ہوئی خصوصی آئینی حیثیت ختم کرکے دونوں علاقوں کو مرکز کے زیر انتظام علاقے میں تبدیل کرنے کا اہم اقدام کیا ہے۔ اور یہ کہ یہ جماعت قوم کی خاطر کسی بھی حد تک جاسکتی ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے اس حلقے کا دورہ کیا اور ووٹروں کو اپنی ’’قومی خدمات‘‘ یاد دلائیں۔ یہ حلقہ غیر معمولی حیثیت کے حامل وزیر مملکت پنکج منڈے کا ہے۔ پارلی کے ووٹرز نے ریاستی اسمبلی کے انتخابات میں پنکج منڈے کو نظر انداز کردیا۔ اس کا سبب سمجھنا کچھ زیادہ مشکل نہیں۔ اس حلقے کے درجنوں دیہات کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں۔
کچھ ایسی ہی غلطی بی جے پی نے ہریانہ میں بھی دہرائی۔ ہریانہ کا شمار ان ریاستوں میں ہوتا ہے جہاں بے روزگاری کی شرح ملک بھر میں بلند ترین ہے۔ بی جے پی نے جموں و کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کا کریڈٹ لینا چاہا۔ ہریانہ میں بی جے پی کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ یاد دہانی کا درجہ رکھتا ہے۔ لوگ اپنے چھوٹے چھوٹے مسائل کا حل چاہتے ہیں۔ انہیں پینے کا صاف پانی چاہیے۔ گھروں کے چولھے جلتے رکھنے کے لیے گیس کے نرخ اتنے ہونے چاہییں کہ گھر کے بجٹ پر اس کا منفی اثر مرتب نہ ہو۔ ہریانہ کے ووٹروں نے بی جے پی کے حوالے سے رائے تبدیل کرکے یہ بتادیا ہے کہ ووٹروں کے بنیادی مسائل کو نظر انداز کرنے کا نتیجہ اچھا نہیں ہوتا۔ جو لوگ پینے کے صاف پانی، چھوٹی موٹی نوکریوں کے لیے ترس رہے ہوں اُنہیں قومی سطح کے مسائل سے کیا غرض؟ جموں و کشمیر کا کیا بنا اور کیا نہیں بنا، اِس سے عام آدمی کا کیا واسطہ؟ وہ تو بس یہ چاہتا ہے کہ اشیائے خور و نوش سمیت اہم اور ضروری اشیاء کی قیمتیں قابو میں رہیں، پانی و بجلی کی فراہمی جاری رہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ روزگار لگا رہے۔ یہ بنیادی مسائل جو بھی حل کرے گا، عوام اُس کے ساتھ ہوں گے۔
بی جے پی کو مہا راشٹر میں شیو سینا کے ساتھ مل کر حکومت بنانے پر مجبور ہونا پڑا ہے۔ اور دوسری طرف ہریانہ میں بھی اس کی پوزیشن ایسی نہیں کہ سب کچھ تنہا کرلے۔ یہ اپوزیشن کے لیے شاندار موقع ہے کہ اپنے آپ کو نمایاں کرے، لوگوں کو بتائے کہ وہ ہے اور اُن کے مسائل حل کرنا چاہتی ہے۔ کانگریس نے مہا راشٹر میں ایسی نیم دلی کے ساتھ الیکشن لڑا ہے گویا اُسے جیتنے کا برائے نام بھی شوق نہ ہو۔ دی نیشنلسٹ کانگریس پارٹی کے سربراہ اور دو بار مہا راشٹر کے وزیر اعلیٰ کے منصب پر فائز رہنے والے شرد پوار نے بی جے پی کے سامنے ڈٹ جانے کی ہمت ضرور دکھائی۔ اگر کانگریس بھی ڈٹ جاتی تو معاملہ کچھ اور ہوتا۔
ہریانہ میں بھی کانگریس نے غلطی کی۔ دو بار وزیر اعلیٰ کے منصب پر فائز رہنے والے بھوپیندر ہودا کو میدان میں اتارنے کے حوالے سے تاخیر ہوگئی۔ بہر کیف، بھوپیندر ہودا نے بی جے پی کو ٹف ٹائم دیا۔ اگر الیکشن سے چند ماہ قبل پوری تیاری کے ساتھ انہیں میدان میں لایا جاتا تو انتخابی نتائج کچھ اور ہوتے اور کانگریس شاید حکومت بنانے کی پوزیشن میں آجاتی۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ نریندر مودی کی پوزیشن پارٹی میں اب بھی بہت مضبوط ہے، اور بی جے پی کے کارکن انہیں سر آنکھوں پر بٹھائے ہوئے ہیں۔ مرکزی حکومت کے ساتھ ساتھ ریاستی حکومتیں بھی بی جے پی کی مٹھی میں ہیں۔ وہ قومی وسائل پر بھی متصرف ہے۔ اپوزیشن نے اگر بی جے پی کے خلاف بھرپور انداز سے جانے کا ذہن بنایا ہوتا تو بی جے پی کے لیے مسائل ضرور پیدا ہوتے۔ تیزی سے بدلتی ہوئی صورتِ حال کے حوالے سے اپوزیشن کا ریسپانس نیم دلانہ رہا ہے۔ ایسا کوئی پہلی بار نہیں ہوا۔ اپوزیشن کی بیشتر جماعتوں اور بالخصوص کانگریس نے ثابت کردیا ہے کہ سنہرا موقع ہاتھ سے جانے دینے کا کوئی موقع وہ ہاتھ سے جانے نہیں دیتی۔
اگلے انتخابی مورچے دہلی اور جھاڑ کھنڈ میں ہوں گے۔ دہلی میں بی جے پی کو غیر معمولی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا کیونکہ دہلی کے وزیر اعلیٰ اروند کیجری وال کسی بھی جماعت سے بھرپور ٹکراؤ پر یقین رکھتے ہیں اور یوں انتخابی معرکے میں زبردست لڑائی کی توقع کی جاسکتی ہے۔
(راج دیپ سرڈیسائی سینئر صحافی اور مصنف ہیں۔)
(ترجمہ: محمد ابراہیم خان)
“To the BJP, voters send a reminder”.(“Hindustan Times”. October 25, 2019)
Leave a Reply