ٹاپ سِیکریٹ امریکا
امریکا بھر میں روزانہ ۸ لاکھ ۵۴ ہزار سے زائد افراد کو اپنے دفاتر، کارخانوں اور دیگر تنصیبات میں داخل ہونے کے لیے غیر معمولی سیکورٹی چیک اپ سے گزرنا پڑتا ہے۔ انہیں ریٹینل کیمرے میں بھی اپنی شناختی ثابت کرنی پڑتی ہے۔ واک تھرو گیٹس اور دیگر سیکورٹی آئٹمز کی مدد سے یہ اطمینان کرلیا جاتا ہے کہ ان کے پاس کوئی ہتھیار یا دھماکہ خیز مواد تو نہیں۔ بہت سی خفیہ عمارات اس انداز سے کام کر رہی ہیں کہ ان پر عام آدمی کسی خفیہ ادارے کا دفتر ہونے کا شبہ بھی نہیں کرسکتا۔
یہ سب کچھ صدر آئزن ہاور کے دور میں تشکیل پانے والے ملٹری انڈسٹریل کمپلیکس جیسا پیچیدہ نہیں۔ سرد جنگ کے زمانے میں یہ ڈھانچا تیزی سے ابھرا تھا۔ وہ سیٹ اپ سابق سوویت یونین کی جانب سے کسی بھی ممکنہ حملے سے نمٹنے کے لیے تھا اور اس میں ایٹمی ہتھیاروں کو مرکزی حیثیت حاصل تھی جبکہ موجودہ ڈھانچا بیرون ملک سے ہونے والی دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے ہے۔ اب کسی ملک کے باضابطہ حملے سے کہیں بڑھ کر دہشت گردوں کی جانب سے حملوں کے خطرے کا سامنا ہے۔ امریکا میں دہشت گردی سے نمٹنے کے نام پر جو کچھ کیا جارہا ہے وہ بے حد خفیہ رکھا گیا ہے اس لیے کسی کے لیے یہ اندازہ لگانا بے حد مشکل کام ہے کہ اس میں فنڈ کس طرح خرچ کیے جارہے ہیں اور کامیابی کس حد تک مل پائی ہے اور کس حد تک نہیں مل پائی۔ حکومتی مشینری چاہتی ہی نہیں کہ لوگوں کو خفیہ اداروں کی کارکردگی کے بارے میں کچھ بھی معلوم ہو پائے۔ گزشتہ سال بتایا گیا تھا کہ امریکا میں انٹیلی جنس نیٹ ورک کا مجموعی بجٹ ۷۵ ارب ڈالر ہے جو نائن الیون کے بعد اس مد میں رکھی جانے والی رقم کا ڈھائی گنا ہے۔ بہت سی عسکری کارروائیاں اور متعلقہ امور اس بجٹ کا حصہ نہیں ہیں۔ اندرون ملک انسداد دہشت گردی کے کئی پروگرام اس بجٹ کی حدود سے باہر ہیں۔
مثال کے طور پر پینٹاگون کی نیشنل ڈیفنس ایجنسی کے ملازمین کی تعداد ۲۰۰۲ء میں ۷۵۰۰ تھی جو اب بڑھ کر ۱۶ ہزار ۵۰۰ ہوچکی ہے۔ نیشنل سیکورٹی ایجنسی کا بجٹ دگنا کیا جاچکا ہے۔ ایف بی آئی کی جوائنٹ ٹیرر ازم ٹاسک فورس کی تعداد ۳۵ تھی جو اب ۱۰۶ ہوچکی ہے۔ نائن الیون کے بعد یہ ساری تبدیلیاں اس تیزی سے رونما ہوئیں کہ دنیا حیران رہ گئی۔ کسی نے سوچا بھی نہ تھا کہ امریکی انٹیلی جنس نیٹ ورک اس قدر تیزی سے اور اس قدر بڑے پیمانے پر وسعت پائے گا۔ نائن الیون کے ۹ دن بعد امریکی کانگریس نے القاعدہ کے خلاف کارروائی کے نام پر ۴۰ ارب ڈالر کی منظوری دی۔ ساتھ ہی مختلف نئے یونٹس کے قیام کی منظوری بھی دی گئی۔ ۲۰۰۲ء میں ۵ء۳۶ ارب اور ۲۰۰۳ء میں ۴۴ ارب ڈالر انسداد دہشت گردی کی مد میں رکھے گئے۔
جب وفاقی سطح پر بڑی رقوم مختص کی جانے لگیں تو انٹیلی جنس کمیونٹی کا دائرہ بھی وسعت اختیار کرنے لگا اور دیکھتے ہی دیکھتے ہوم لینڈ سیکورٹی ڈیپارٹمنٹ سمیت ۲۴ ادارے معرض وجود میں آگئے۔ ان میں فارن ٹیررسٹ ایسیٹ ٹریکنگ ٹاسک فورس بھی شامل تھی۔ یہ ۲۴ ادارے ۲۰۰۱ء کے ختم ہونے سے قبل قائم کیے جاچکے تھے۔ دہشت گردی کے خطرے، وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کا سراغ لگانے اور دہشت گردی کے خلاف سرگرمیوں کو مربوط کرنے کے نام پر امریکا میں ۲۰۰۲ء میں مزید ۳۷ ادارے معرض وجود میں آگئے۔ ۲۰۰۳ء میںمزید ۳۶ ادارے قائم کیے گئے۔ اور پھر یہ سلسلہ جاری ہی رہا۔ ۲۰۰۷۔۲۰۰۸ء اور ۲۰۰۹ء میں بالترتیب ۳۱، ۳۲ اور ۲۰ ادارے انسداد دہشت گردی کے نام پر قائم کیے گئے۔ نائن الیون کے نتیجے میں ابھرنے والی صورت حال میں کم و بیش ۲۶۳ نئے ادارے قائم کیے جاچکے ہیں۔ ان اداروں کو بہتر انداز سے کام کرنے کے لیے بہت سے معاونین کی ضرورت بھی ہے۔ آفس سیکریٹریوں، لائبریرین، اکاؤنٹنٹ، ٹائپسٹ، اسٹینو گرافروں، کارپینٹرز، میکنک، ایئرکنڈیشنرز ریپیئررز، کنسٹرکشن ورکرز اور دوسرے بہت سے ہنر مند اس پورے سیٹ کو چلانے کے لیے درکار ہیں۔
۲۶۳ اداروں کو کنٹرول کرنا بھی ایک مسئلہ ہے۔ کس کی ذمہ داری کیا ہے اور اس کے اختیارات کی حد کہاں ختم ہوتی ہے، اس کا تعین کرنا بے حد دشوار تھا۔ لاکھ کوشش پر بھی جب یہ کام خود بخود طے نہ پاسکا تو صدر جارج واکر بش اور کانگریس نے مل کر ۲۰۰۴ء میں آفس آف دی ڈائریکٹر آف نیشنل انٹیلی جنس قائم کیا۔ نائن الیون کے بعد کی صورت حال میں ابھرنے والے اداروں کو کنٹرول کرنا اس ادارے کی اولین ذمہ داری تھی۔
اب شروع ہوئی وہ لڑائی جس نے امریکی انٹیلی جنس نیٹ ورک کو مزید کمزور کیا اور اسے ہدف پذیر بنایا۔ نیشنل انٹیلی جنس کے ڈائریکٹر کا ادارہ تو قائم کردیا گیا مگر اسے اختیارات دینے سے صاف گریز کیا گیا۔ امریکی محکمہ دفاع نے راتوں رات اربوں ڈالر کسی اور مد میں ڈال کر محفوظ کردیئے تاکہ نیشنل انٹیلی جنس کا ڈائریکٹر انہیں ہاتھ نہ لگاسکے اور استعمال کرنے کا حکم نہ دے سکے۔ سی آئی اے نے اپنی بہت سی دستاویزات کو ری کلاسیفائی کیا یعنی کوشش یہ کی گئی کہ نیشنل انٹیلی جنس کا ڈائریکٹوریٹ اور اس سے ملحق نیشن کاؤنٹر ٹیرر ازم سینٹر ان دستاویزات کو نہ دیکھ سکے۔ یہ ادارہ ۲۰۰۵ء میں قائم کیا گیا تھا اور جان نیگرو پونٹے اس کے پہلے سربراہ مقرر ہوئے تھے۔ ابتدا میں یہ امریکی ایوان صدر کے نزدیک ایک بلاک کے گیارہ چھوٹے کمروں پر مشتمل تھا اور بعد میں کہیں اور منتقل ہونے کے بعد اب لبرٹی کراسنگ نام کی عمارت میں کام کر رہا ہے۔ ڈائریکٹر آف نیشنل انٹیلی جنس اور اس کے ماتحت کام کرنے والے اب تک طے نہیں کر پائے ہیں کہ انہیں دراصل کرنا کیا ہے۔ انسداد دہشت گردی، خفیہ معلومات کے تبادلے اور اسی نوعیت کی دیگر سرگرمیوں سے منسلک افراد بھی اب تک سمجھ نہیں پائے ہیں کہ آفس آف دی نیشنل انٹیلی جنس کا بنیادی کام کیا ہے۔
ایک بڑا مسئلہ معلومات کو انٹرسیپٹ کرنے کے بعد انہیں کسی نہ کسی طرح پرکھنا ہے۔ نیشنل سیکیورٹی ایجنسی روزانہ ایک ارب ۷۰ کروڑ ای میلز اور دیگر کمیونی کیشنز کو جمع کرتی ہے۔ اتنی ساری معلومات کا جائزہ کس طور لیا جاسکتا ہے، یہ بات اب تک کوئی سمجھ نہیں پایا۔ حقیقت یہ ہے کہ تجزیہ تو بہت دور کی بات ہے، اتنی ساری ای میلز کو کھول پانا بھی ممکن نہیں۔ یہ تمام معلومات ۷۰ مختلف ڈیٹا بیس میں رکھی جاتی ہیں۔ دیگر خفیہ اداروں کا بھی یہی مسئلہ ہے۔ ان کے پاس نہ تو مطلوبہ تعداد میں مترجم موجود ہیں نہ تجزیہ کار۔ نیشنل کاؤنٹر ٹیرر ازم سینٹر کے ڈائریکٹر مائیکل لیٹر کا بھی یہی مسئلہ ہے۔ ان کی میز کے نیچے ۶ کمپیوٹر رکھے ہیں۔ ان سب کے مانیٹر ان کی میز پر ہیں۔ وہ دن بھر کسی وقفے کے بغیر آنے والی ای میل اور دیگر دستاویزات کو دیکھتے رہتے ہیں۔ دوسرے بہت سے خفیہ ادارے انہیں حساس معلومات فیڈ کرتے رہتے ہیں۔ بہت سے اداروں کی ڈیٹا بیس کو آپس میں جوڑا نہیں گیا ہے۔ کئی ادارے اپنی خفیہ معلومات کو اپنے تک ہی محدود رکھنا چاہتے ہیں۔ یہ ایک دوسرے سے سبقت لے جانے والا معاملہ ہے۔
ڈلس ایئر پورٹ کے نزدیک سپر اسٹور جیسی دکھائی دینے والی عمارت میں خفیہ اداروں کے لوگ کام کر رہے ہیں۔ یہ لوگ بنیادی طور پر فضا سے لی جانے والی زمین کی تصاویر اور متعلقہ مواد کے بارے میں رپورٹس تیار کرتے ہیں۔ انہیں متعدد کنٹریکٹروں کی خدمات بھی حاصل ہیں۔ ان کنٹریکٹرز کی مدد سے وہ اپنا کام بہتر طور پر انجام دے پاتے ہیں۔
امریکی خفیہ اداروں نے بہت سے حساس معاملات میں پرائیویٹ کنٹریکٹرز کی خدمات حاصل کر رکھی ہیں۔ یہ ماہرین وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں اور زمینی نقشوں سے متعلق امور میں امریکی فوج کی مدد کرتے ہیں اور خطرناک ہتھیاروں کو تلف کرنے سے متعلق امور میں رہنمائی اور معاونت بھی کرتے ہیں۔
نائن الیون کے بعد ویسے تو امریکا بھر میں خفیہ اداروں کا جال سا بچھ گیا یا بچھادیا گیا، تاہم واشنگٹن اس معاملے میں بہت آگے ہے۔ سرکاری عمارات والے علاقوں میں جگہ جگہ خفیہ اداروں کے دفاتر کی موجودگی انسان کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کرتی ہے۔ امریکی شہری بھی اس بات کو محسوس کرنے لگے ہیں کہ سیکورٹی کے نام پر معاملات کو کچھ زیادہ پھیلا دیا گیا ہے۔ بیشتر دفاتر سرکاری عمارات اور فوجی کیمپس کی حدود میں واقع ہیں۔ خفیہ اداروں کے دفاتر پلے گراؤنڈ کے نزدیک، شاپنگ سینٹروں میں اور تعلیمی اداروں کے ساتھ ساتھ بھی واقع ہیں مگر عوام کو اندازہ ہی نہیں ہو پایا کہ ان دفاتر میں انٹیلی جنس حکام بیٹھتے ہیں۔ ان تمام دفاتر میں عمومی انداز اختیار کیا گیا ہے۔ نیشنل جیو اسپیٹیل انٹیلی جنس ایجنسی کا بجٹ ایک ارب ۸۰ کروڑ ڈالر ہے۔ یہ ایجنسی حساس مقامات کا فضائی جائزہ لیتی رہتی ہے اور کسی بھی مشکوک سرگرمی کو دیکھ کر متعلق اداروں کو خبردار کرتی ہے۔ ملازمین کی تعداد ۸۵۰۰ تک ہے۔ ان لوگوں کو تنخواہیں معاشی بحالی کے پیکیج سے دی جارہی ہے۔ ان دفاتر میں دنیا بھر کا جدید ترین ساز و سامان بھرا پڑا ہے۔ جدید ترین کمپیوٹر، مانیٹر، خفیہ آلات، سیکورٹی کے آلات، دفاتر میں استعمال ہونے والی سپلائی اور خدا جانے کیا کیا ان دفاتر میں پایا جاتا ہے۔ اتنے بڑے پیمانے پر آلات اور سامان کا اہتمام کرنے پر خطیر رقوم بھی خرچ ہوتی ہیں۔ امریکا کے مقتدر حلقوں میں اب SCIF کی اصطلاح تیزی سے زبان زد عام ہوتی جارہی ہے۔ خفیہ اداروں اور ان کے عملے کے لیے تیار کی جانے والی خصوصی عمارات کو SCIF کہا جاتا ہے۔ ان عمارات میں سیکورٹی اور نگرانی کا خاص اہتمام کیا جاتا ہے۔ سیکورٹی سے متعلق اسٹافرز کو اب غیر معمولی اہمیت دی جانے لگی ہے۔ امریکا بھر میں انسداد دہشت گردی کے لیے کام کرنے والوں کو غیر معمولی احترام دینے کا کلچر اپنایا گیا ہے اور انہیں سویلین پر برتری دی جانے لگی ہے۔ غیر معمولی سیکورٹی رکھنا اب امریکا جیسے ملک میں اسٹیٹس سمبل ہوتا جارہا ہے۔ کسی بھی بڑے فوجی یا غیر فوجی افسر کے ساتھ سیکورٹی والے نہ ہوں، ایسا کیسے ہوسکتا ہے؟
ٹاپ سیکریٹ امریکا کے تحت جو ڈھانچا کھڑا کیا گیا ہے اس میں چند لوگوں ہی کے مزے ہیں۔ چھوٹے منصب پر کام کرنے والوں کو اتنا مشاہرہ نہیں ملتا کہ وہ اپنا سماجی رتبہ بلند کرسکیں۔ اس سیٹ اپ میں نچلے درجے کے تجزیہ کار جو کچھ کر رہے ہیں وہ یہ ہے کہ انٹرسیپٹ کی جانے والی ای میل یا گفتگو سے وہ کسی نتیجے تک پہنچتے ہیں اور کسی خطرے کی طرف محض اشارہ کردیتے ہیں۔ خفیہ معلومات کے نام پر محض اشارے ہی مل پاتے ہیں۔ کمپیوٹر غیر معمولی حد تک معاونت کرتے ہیں تاہم آخر کار انسانوں ہی کو فیصلہ کرنا ہوتا ہے کہ کس نوعیت کی معلومات سے کس طرح کے نتائج اخذ کیے جائیں۔ ایک بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ نصف سے زائد تجزیہ کار ناتجربہ کار ہیں۔ انہیں معلوم ہی نہیں کہ حقیقی تجزیہ کن بنیادوں پر کیا جاتا ہے۔ ان تجزیہ کاروں میں سے بیشتر نوجوان ہیں اور انہیں کالج یا یونیورسٹی سے نکلتے ہی بھرتی کیا گیا ہے۔ شعبے کا عملی تجربہ نہ ہونے کے باعث یہ عمدگی سے کام کرنے کی صلاحیت سے محروم ہیں۔
بیشتر تجزیہ کاروں کو بنیادی طور پر خطرناک اور حساس سمجھے جانے والے ممالک عراق، افغانستان، پاکستان اور ایران کے بارے میں بنیادی باتیں بھی معلوم نہیں ہوتیں۔ ان ممالک کی زبان یا زبانوں سے بھی وہ یکسر ناواقف ہوتے ہیں۔ ہاں، رپورٹس کی وصولی اور ترسیل جاری رہتی ہے۔ بہت سی رپورٹس بے پڑھی رہ جاتی ہیں۔ سیکڑوں ویب سائٹس کو ترک کردیا گیا ہے مگر اب بھی درجنوں ویب سائٹس سے رپورٹس کی ترسیل جاری ہے۔ ایک انٹیلی جنس افسر کا کہنا ہے کہ یہ معاملہ داستانوں میں پائی جانے والی زندہ لاش کی طرح ہے جو انسانی خون پی کر اور گوشت کھاکر زندہ رہتی ہے!
ڈائریکٹوریٹ آف نیشنل انٹیلی جنس کے سابق اعلیٰ افسر رچرڈ ایمرمین کہتے ہیں کہ بیشتر رپورٹس میں ایک ہی بات مختلف طریقوں سے بیان کی گئی ہوتی ہے۔ جس طرح فٹبال کے میچ میں کھلاڑی مل کر ایک ہی گیند کے پیچھے بھاگ رہے ہوتے ہیں بالکل اسی طرح انٹیلی جنس کی دنیا میں سب ایک ہی بات کے پیچھے پڑھ جاتے ہیں۔ نیشنل کاؤنٹر ٹیرر ازم سینٹر کے تجزیہ کار بھی اصل اور حتمی رپورٹس پیش کرنے میں ناکام ہی رہتے ہیں۔ اس ادارے سے بہر حال توقع رکھی جاتی ہے کہ اہم اور حساس ترین خفیہ معلومات کو عمدگی سے آگے بڑھائے گا۔ یو ایس سینٹرل کمانڈ کے سابق ڈائریکٹر آف انٹیلی جنس میجر جنرل جان کسٹر بسا اوقات رپورٹس کے غیر معیاری ہونے پر چراغ پا ہو جاتے تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ ۴۲ سال میں اس ادارے نے ایک بھی ایسی خفیہ رپورت مرتب نہیں کی جس کی بنیاد پر میدان جنگ میں کچھ مدد مل سکے۔ وہ اب بھی اس بات کو روتے ہیں کہ ایک ہی بات کو ہزار طریقوں سے بیان کرکے حساس معلومات کے طور پر پیش کرنے کا سلسلہ کب ختم ہوگا!
امریکی انٹیلی جنس کمیونٹی کا المیہ یہ ہے کہ اب بھی خفیہ معلومات کے نام پر لاحاصل باتیں رپورٹس میں شامل کردی جاتی ہیں اور متعلقہ افسران رپورٹس کا مطالعہ کرتے کرتے ہی تھک کر چور ہو جاتے ہیں۔ ایک ہی بات کو مختلف ذرائع سے آتے ہوئے دیکھ کر ان کی بدحواسی اور خفگی میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ اس مسئلے کو حل اس لیے نہیں کیا جاسکتا کہ ہر ادارہ کسی بھی بات کو حساس سمجھ کر دوسروں تک پہنچانا اپنا فرض سمجھتا ہے۔ بہت سے افسران آج بھی بیک اپ رپورٹس کو چیک کرنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے اور اس کے بجائے معتبر لوگوں سے بریفنگ لینا کافی سمجھتے ہیں۔
مختلف ذرائع سے حاصل ہونے والی معلومات کا کریں تو کیا کریں؟ اس سوال کا جواب نیشنل انٹیلی جنس ڈائریکٹوریٹ نے خوب نکالا۔ ۲۲ ایجنسیوں سے ملنے والی حساس معلومات اور رپورٹس کو چھان پھٹک کے بعد اب ایک آن لائن روزنامے میں شائع کردیا جاتا ہے جسے ’’انٹیلی جنس ٹوڈے‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔ یہ گویا خفیہ اداروں کے لیے اضافی بوجھ ہے جو اٹھانا ہی ہے۔ اس آن لائن اخبار میں ۲۲ ارکان پر مشتمل عملہ کام کرتا ہے جو روزانہ دو درجن سے زائد خفیہ اداروں اور ۶۳ ویب سائٹس پر پیش کیے جانے والے مواد کو منتخب کرکے اعلیٰ افسران کے لیے اخبار تیار کرتا ہے۔
صرف تجزیے میں اعادے کا مسئلہ ہی درپیش نہیں بلکہ محکمہ دفاع کے تحت کام کرنے والے درجنوں اداروں کے درمیان بھی اختیارات کی جنگ جاری رہتی ہے۔ سائبر وار فیئر میں سب ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی کوشش میں مصروف رہتے ہیں۔ سی آئی اے کے ڈائریکٹر لیون پینیٹا کا کہنا ہے کہ سائبر وار فیئر میں ایک دوسرے کو نیچا دکھانا ایک بنیادی مسئلہ جو حل ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ اداروں کی تعداد اس قدر ہے کہ کسی کی کارکردگی نمایاں طور پر سامنے نہیں آ پاتی۔ اس مسئلے کو حل کرنے کے بجائے مزید الجھایا جارہا ہے۔ نیشنل انٹیلی جنس یونٹ کے تین ڈائریکٹروں کے ساتھ خدمات انجام دینے والے سابق اعلیٰ افسر بنجامن پاول کہتے ہیں کہ سائبر کی دنیا میں مشترکہ حکمت عملی اور یکسوئی پر مبنی سوچ کو پروان چڑھانا بہت مشکل ہے۔ سب اپنے اپنے ڈھنگ سے کام کر رہے ہوتے ہیں۔ ایسے میں ہم آہنگی پیدا ہو تو کیسے ہو؟
گزشتہ نومبر میں میجر ندال ملک حسن نے فورٹ ہڈ میں اپنے ہی فوجیوں ساتھیوں پر فائر کھول دیا جس کے نتیجے میں ۱۳ فوجی مارے گئے۔ اس واقعے سے قبل میجر ندال نے اپنے کمانڈر کو خبردار کیا تھا کہ امریکی فوج میں کام کرنے والے مسلمان مسلم ممالک میں امریکی افواج کے مظالم پر دل گرفتہ ہیں اور انہیں ایسے ممالک میں ڈیوٹی دینے پر مجبور نہ کیا جائے۔ اس نے ایک یمنی عالم انوار العولقی کو چند ای میلز بھی کی تھیں۔ یہ ای میلز بھی امریکی فوج کے علم میں تھیں مگر سب کچھ نظر انداز کردیا گیا حالانکہ فورٹ میں میجر ندال کے فوجی مرکز سے کچھ ہی فاصلے پر ایک اہم انٹیلی جنس یونٹ کام کر رہا تھا۔ میجر ندال ملک حسن کے کیس میں غفلت برتنے پر امریکی فوج اور بالخصوص انٹیلی جنس یونٹ کو شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اسلامی ممالک میں کام کرنے والی دہشت گرد تنطیموں سے امریکا کو لاحق خطرات کے بارے میں معلومات حاصل کرنے پر مامور امریکی اداروں کو اب تنقید کا سامنا اس لیے بھی کرنا پڑ رہا ہے کہ وہ عوامی رجحانات کو نظر انداز کر رہے ہیں۔ میجر ندال نے متعدد مواقع پر کہا تھا کہ اسلامی دنیا میں امریکی فوجیوں کے لیے شدید نفرت پائی جاتی ہے جو اب امریکی فوج میں شامل مسلمانوں تک بھی منتقل ہو رہی ہے۔ اس نے واضح کردیا تھا کہ امریکی مسلم فوجیوں کو مسلم ممالک میں خدمات انجام دینے پر مجبور کرنے کا نتیجہ بھیانک ثابت ہوگا۔ اور یہی ہوا۔ اب امریکی خفیہ اداروں پر لعن طعن ہو رہی ہے کہ انہوں نے میجر ندال کی باتوں پر پہلے کیوں دھیان نہیں دیا۔
کام اب بھی بہت الجھا ہوا ہے۔ اسپیشل ایکسیس پروگرام کے تحت چند خصوصی نام ہیں جن کے تحت معلومات شیئر کی جاتی ہیں۔ ان کوڈ ناموں کی فہرست ۳۰۰ صفحات پر مشتمل ہے۔ یہ محض محکمہ دفاع کا معاملہ ہے۔ دوسرے درجنوں خفیہ اداروں کا معاملہ اس سے کہیں بڑھ کر ہے۔ ہزاروں کوڈ ہیں جن کے تحت معلومات شیئر کی جاتی ہیں اور یہ سلسلہ مستقل طور پر جاری رہتا ہے۔ انڈر سیکریٹری آف ڈیفنس فار انٹیلی جنس اور اوباما کی جانب سے ڈائریکٹر آف نیشنل انٹیلی جنس کے لیے نامزد جیمز آر کلیپر کہتے ہیں کہ اب تک معلومات کو چھپانے کا سلسلہ جاری ہے۔ کمانڈروں سے بہت سے باتیں چھپائی جاتی ہیں اور مختلف اداروں کے سربراہان اپنے ماتحت عملے کو ہدایت کرتے رہتے ہیں کہ بعض اہم معلومات دوسروں کو نہ دی جائیں۔ سبھی کریڈٹ لینے کے چکر میں رہتے ہیں۔ یہ صورت حال اداروں کے درمیان تعاون کا دائرہ وسیع کرنے کے بجائے تنگ دلی بڑھا رہی ہے۔ کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ کسی فور اسٹار کمانڈر کو بھی بعض حساس باتیں نہیں بتائی جاتیں، اور اس کے لیے کوئی نہ کوئی بہانہ یا جواز بھی تیار کرلیا جاتا ہے۔
گزشتہ سال یمن کے معاملے میں یہی کچھ ہوا تھا۔ امریکی صدر بارک اوباما نے یمن میں القاعدہ کی مشکوک سرگرمیوں کا دائرہ وسیع ہونے پر سیکریٹ کمانڈوز کو کارروائی کا حکم دیا اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ انٹیلی جنس کمیونٹی حرکت میں آگئی۔ روزانہ ہزاروں کالز ٹیپ کی جانے لگیں، ای میلز کو انٹرسیپٹ کرنے کا سلسلہ بھی شروع ہوا۔ یہ سب کچھ ہوتا رہا اور امریکا میں خفیہ رپورٹس کی تعداد بڑھتی گئی۔ یمن کے بارے میں مختلف ذرائع سے حاصل ہونے والی معلومات کی روشنی میں جو رپورٹس امریکا بھیجی جاتی تھیں وہ نیشنل کاؤنٹر ٹیررازم سینٹر میں یومیہ بنیاد پر جمع ہونے والی پانچ ہزار دستاویزات میں دب جاتی تھیں۔ بعد میں جب یمن میں کمانڈوز کا آپریشن ناگزیر ہوگیا تب اِن رپورٹس کی تلاش شروع ہوئی اور خاصا ہنگامہ برپا ہوا۔
امریکی انٹیلی جنس کمیونٹی کو اب فیصلہ کرنا ہے کہ کام کا بوجھ کس طرح کم کرنا ہے اور کس طرح اپنی کارکردگی کا معیار بلند کرنا ہے تاکہ دہشت گردی کے حوالے سے لاحق تمام خطرات سے بہتر طور پر نمٹا جاسکے۔
(بشکریہ: ’’واشنگٹن پوسٹ‘‘۔ ۱۹ جولائی ۲۰۱۰ء)