
گیارہ ستمبر کے بعد سے خاصی کمی واقع ہونے کے باوجود بین الاقوامی سیاحت کے لیے لوگوں کی آمد و رفت بڑے پیمانے پر رہی ہے۔ پروفیسر شنجی یماشیتا ماہرِ ثقافتِ بشری نے روایتی ثقافتوں پر سیاحت کے اثرات پر ’’ایشیا پیسیفک‘‘ کی ہساشی کونڈو سے گفتگو فرمائی ہے:
س: ثقافتِ بشری اور سیاحت بالکل ہی ایک دوسرے کی ضد معلوم ہوتی ہیں اور آپ کی دلچسپی کا موضوع مبدائے سیاحت ہے۔ ان میں کیا ربط ہے؟
ج: پہلے مجھے یہ وضاحت کرنے دیجیے کہ سیاحت سے میرا اپنا سامنا کس طرح ہوا۔ میں نے ماہرِ ثقافتِ بشری کی حیثیت سے اپنا فیلڈ ورک شروع کیا جو کہ انڈونیشیا میں سلاویسی جزیرہ کا ایک پہاڑی علاقہ ہے۔ میرا اپنا تصور یہ تھا کہ میں توراجا کے عوام کی روایتی ثقافت و تمدن کا مطالعہ کروں۔ یہ کام میں نے اس میں داخل ہو کر اندرونی مشاہدے کے طور پر کیا۔ میں نے یہ کام ۱۹۷۶ء میں شروع کیا تھا اور دو سال تک جاری رکھا۔ انڈونیشیائی حکومت ۱۹۷۰ء کی دہائی کے آغاز سے ہی تانا توراجا میں سیاحت کی حوصلہ افزائی کر رہی تھی‘ جن کا مقصد علاقائی ترقی تھا‘ ایسی ترقی جس کا نقطۂ ارتکاز منفرد مقامی ثقافت ہو۔ نتیجہ یہ ہوا کہ جب میرا فیلڈ ورک جاری تھا‘ اس وقت بہت سارے مغربی سیاح اس علاقے میں آئے ہوئے تھے۔ اس وقت میں سیاحوں کو دردِ سر اور باعثِ پریشانی خیال کر رہا تھا۔ میں نے اپنے مطالعے کے لیے ایسے دیہاتوں کا انتخاب کیا جہاں سیاح نہ آتے ہوں۔ جب میں فوٹو گرافس لیتا تھا تو یہ ضرور احتیاط برتتا تھا کہ کسی سیاح کی تصویر شامل نہ ہو۔ جب میں اپنے ابتدائی فیلڈ اسٹڈی کے بعد اپنے مواد کی جانچ کر رہا تھا تو میں حیرانی کے عالم میں یہ دیکھنے کی کوشش کر رہا تھا کہ روایتی توراجا کلچر کے ادراک میں سیاحت کی حقیقت کو نظرانداز کر کے آیا میں نے کوئی غلطی تو نہیں کی۔ میں تانا توراجا یہ سوچ کر آیا تھا کہ یہاں کی روایتی ثقافت جوں کی توں ہو گی اور بربادی سے محفوظ ہو گی۔ مگر مجھے جلد ہی یہ احساس ہو گیا کہ ایسی کوئی چیز یہاں باقی نہیں رہی ہے۔ درحقیقت ایسے سراب کا تعاقب ایک افسانہ ہی ہو گا۔ ایک لمبے عرصے تک ماہرینِ ثقافت (Cultural Anthropolosist) فلسفۂ سیاحت سے گریزاں رہے۔ اپنے مطالعے کے دوران انہوں نے اپنے متعلق بھی یہ نہیں چاہا کہ انہیں سیاح شمار کیا جائے۔ وہ سیاحت کے ناقد رہے اور مقامی ثقافت کے لیے اسے تباہ کن سمجھتے رہے۔ ثقافت کی تاریخِ آغاز و نشوونما میں جن بڑے مسائل سے سامنا تھا‘ وہ مسائل‘ محو ہوتی ہوئی روایتی ثقافتوں کی بقا و تحفظ سے متعلق تھے۔ بہرحال توراجا عوام کے درمیان میں نے اپنے مطالعہ کا آغاز اس ایپروچ کے بارے میں سوال کے ذریعہ کیا۔ میں نے اپنے سیاحت کو اپنے ریسرچ پروجیکٹ میں شامل کرنے کا فیصلہ کیا۔ میں نے روایتی ثقافتوں کا تجربہ ان معاشرتی و ثقافتی تبدیلیوں کی روشنی میں کرنا چاہا جو رونما ہو رہی ہیں۔ اس طریقے سے میں نے سیاحت کو اپنی اینتھراپالوجی میں شامل کر لیا۔
س: سیاحت اپنی موجودہ شکل میں کب سے شروع ہوئی؟
ج: انسان قدیم زمانوں سے مختلف وجوہ کی بنا پر سفر کرتا رہا ہے لیکن جسے ہم سیاحت کہتے ہیں یہ سفر کی ایک نئی شکل ہے۔ یہ جدید زمانے کی دین ہے۔ ایک نئے تجربے کے طور پر سیاحت کا ظہور ۱۹ویں صدی کی پیدا کردہ ٹیکنالوجیز کی دین ہے بالخصوص ریل کے سفر کی۔ سب سے پہلی قابلِ ذکر ریلوے لائن دنیا میں ۱۸۳۰ء میں برطانیہ کے شہر مینچسٹر اور لیورپل کے درمیان بچھائی گئی۔ مینچسٹر نئے صنعتی انقلاب کا مرکز تھا جبکہ لیورپل میں عظیم بندرگاہ تھی جو کہ ملک کو باقی دنیا سے جوڑتی تھی۔ ریلوے ٹیکنالوجی نے صنعتی انقلاب کو بہت زیادہ سہارا اور فروغ دیا اور یہ ٹیکنالوجی ۱۹ویں صدی کے دوران پوری دنیا میں پھیل گئی۔ ایک جرمن سوشل تجزیہ نگار Wolfgang Schivelbusch کا کہنا ہے کہ یہ اعتراف کرنا بہت ضروری ہے کہ ریلوے نے نہ صرف سفر کو تیز اور آرام دہ بنایا بلکہ اس نے لوگوں کے طرزِ جہاں بینی کو بھی تبدیل کر دیا۔ ٹرین کی کھڑکی سے باہر جھانکنے پر ایک منظرِ مسلسل کا مشاہدہ ہوا۔ اس طرح ریلوے نے سیربینی یا مناظربینی کا ایک نیا تصور دیا۔ اس مناظر بینی میں گہرائی نہیں ہوتی تھی اور اس گہرائی کا فقدان کرسٹل پیلس کی جدید عمارت سازی میں بھی دیکھا جاسکتا ہے جسے لندن میں ۱۸۵۱ء کے گریٹ ایکزیبیشن کے لیے تعمیر کیا گیا تھا۔ اس سلسلے میں فوٹو گرافی بھی بہت اہم ہے۔ مناظربینی کی طرح کا مشاہدہ جو ٹرین کی کھڑکیوں سے کیا جاتا تھا اب پکچر پوسٹ کارڈز‘ فوٹو گراف کلیکشن‘ پوسٹرز اور گائڈ بک کے ذریعہ مزید اس کو فروغ ملا۔ سیاحت کو فروغ جدید ٹیکنالوجی کے فروغ سے حاصل ہوا‘ یہاں تک کہ متحرک تصاویر کی ایجاد ہوئی۔
س: آپ نے مطالعے کے لیے بالی کا انتخاب کیا ہے جو کہ ایشیا میں سیاحت کے عظیم ترین مراکز میں سے ہے۔ وہاں سیاحت اور مقامی ثقافت میں کیا ربط ہے؟
ج: بالی پہلی بار ۱۹۲۰ء کی دہائی میں سیاحتی مرکز بنا۔ پولی نیشیا میں تاپینی کی جگہ اس زمانے کے یورپیوں اور امریکیوں کے لیے یہ ’’آخری جنت‘‘ کی قسم کی کوئی چیز ہوا کرتی تھی جس کو عیسائیت نے اپنے زیرِ اثر لے لیا اور یہ اپنا مقامی کلچر گم کر بیٹھا۔ ۱۹۳۰ء میں امریکی مسافر Hickman Powell نے Bail: The Last Paradise شائع کی جس میں اس جزیرہ کی ۲۰ کی دہائی کے دوران کی صورتحال کو بیان کیا۔ اسی نام سے ایک فلم بھی ۳۰ کی دہائی میں بنائی گئی۔ اس وقت سے لے کر آج تک جنت کی تصویر ناقابلِ تغیر رہی۔ بالی کا امیج بطور جنتِ گم کردہ George Krause کا رہینِ منت ہے جو جرمنی کا باشندہ تھا اور جس نے اس جزیرہ کی تصاویر کا مجموعہ شائع کیا۔ وہ Dutch East Indies میں بطور فزیشن کام کرتا تھا اور بالی میں وہ ۱۹۱۲ء تا ۱۹۱۴ء مامور رہا۔ اس نے بالی کے قدرتی مناظر اور وہاں کے روز مرہ کی زندگی کی فوٹو گرافی کی‘ خاص طور سے غسل کرتی ہوئی دوشیزائوں کی تصاویر نے ایک مضبوط نقش قائم کیا۔ چارلی چپلن جس نے ۱۹۳۲ء میں بالی کا دورہ کیا‘ انہیں تصاویر ہی نے یہاں کے سفر پر اسے ابھارا تھا۔ ۳۰ کی دہائی کے وسط میں تقریباً ۳۰ ہزار سیاح ہر سال بالی کی سیاحت کو جاتے تھے۔ اسی دوران بالی کو ثقافتی احیا کا تجربہ ہوا۔ اس احیا کے مرکز میں فنکار اور موسیقار Walter Spies تھے جو کہ ایک روسی نژاد جرمن تھے۔ وہ بالی میں ۱۹۲۷ء سے ۱۹۳۸ء تک رہے اور انہوں نے اس جزیرے کی اپنی پینٹنگز بھی تیار کی۔ انہوں نے مقامی فنکاروں کی حوصلہ افزائی کی اور بالی کی جو اپنی روایتی موسیقی اور رقص کا سلسلہ تھا اس کو بڑھانے میں مدد دی۔ Spies کے گرد بہت سارے یورپی اور امریکی فنکار‘ مصنفین اور دانشور جمع ہو گئے‘ جنہوں نے بالی اور مغربی دنیا کے مابین پل کا کام انجام دیا۔ بالی کے جو بیرونی مناظر انہوں نے پیش کیے وہ دنیا کے چاروں طرف پھیل گئے۔ اس زمانے میں بالی ولندیزیوں کی نوآبادیاتی تسلط میں تھا۔ یورپی بالی کو تبدیل ہوتا نہیں دیکھنا چاہتے تھے۔ ان کی خواہش تھی کہ بالی کی مقامی ثقافت باقی رہے۔ چنانچہ ان کے نوآبادیاتی تسلط کے دوران بالیانے کا عمل شروع ہو گیا۔ بالی کے عوام سے یہ توقع کی گئی کہ وہ بالی کی وہ تصویر جو یورپیوں نے نقش کی ہیں‘ سے اپنے آپ کو ہم آہنگ کر لیں گے۔ بالی کے رقص کو اکثر اس جزیرے کی ثقافت کی روح سمجھا گیا۔ سیاح ابھی بھی کیکاک‘ بیرونگ‘ لیگونگ وغیرہ جیسے رقص کی قسموں سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔ دیہاتوں میں سیاحوں کے لیے ان رقصوں کا مستقل اہتمام ہوتا ہے۔ ہوٹلوں میں بھی ان رقصوں کا اہتمام ہوتا ہے۔ زیادہ زور اس امر پر ہوتا کہ یہ کس طرح ’’دیویوں کا جزیرہ‘‘ کی نمائندگی کرتے ہیں۔ اگرچہ یہ حقیقت ہے کہ یہ تمام مروجہ فنون ۱۹۳۰ء کی دہائی کے بعد سے دوبارہ تخلیق کیے گئے ہیں جو بالی کے عوام اور یورپی و امریکی عوام کے تال میل کا نتیجہ ہیں۔ اس رقص کی ایک مثال کیکاک رقص ہے۔ یہ بالی کے معروف ترین رقصوں میں سے ایک ہے۔ اس رقص کی جڑ خمارومستی پر مبنی مردوں کے ایک کورس میں پنہاں ہے۔ Spies اس کورس سے بہت متاثر ہوا۔ اس نے بالی کے کچھ لوگوں کے ساتھ اس کورس کا تعلق رامائن کی جنگوں سے جوڑا ہے‘ اس رقص کو ایک نیا رنگ دیتے ہوئے۔ بیرونگ رقص بھی مذہبی ناٹک جو ۱۹۳۰ء کی دہائی میں سیاحوں کے لیے اسٹیج کیے جاتے تھے‘ کی ایک سادہ شکل ہے۔ شروع میں یہ ڈرامہ بھوت کو بھگانے کے لیے کھیلا جاتا تھا۔ بالی کے فنون Spies جیسے فنکار اور سیاحوں اور ماہرینِ ثقافت کے ویژن کے مطابق ازسرِ نو تخلیق کیے گئے جنہوں نے بالی کی سیر کی۔بہ الفاظِ دیگر آج کے روایتی ثقافتی فنون جو بالی میں رائج ہیں وہ ہائبرِڈ کلچر کا حصہ ہیں جو بالی میں بالی کے مقامی لوگوں اور بیرونی ثقافت کے تعامل سے پیدا ہوئے ہیں اور یہ تعامل نوآبادیاتی دور میں ہوا۔
س: اگر بالی سیاحوں کی منزل نہ ہوتی تو یہاں جو قیمتی مروجہ فنون کی دنیا ہے‘ وہ ختم ہو جاتی؟
ج: ہاں! میرا خیال تو یہی ہے۔ اب تک سیاحت کو کلچر کے تعلق سے ہمیشہ منفی انداز میں لیا گیا ہے۔ دلیل یہ دی جاتی ہے کہ سیاحت کے فروغ سے روایتی کلچر تباہ ہو جائے گا۔ بہرحال روایتی ثقافت کی تباہی کو محض سیاحت کی ترقی سے منسوب نہیں کیا جاسکتا ہے۔ یہ دلیل روایتی ثقافت کو فطری حیثیت دیتی ہے اگرچہ یہ قدیم زمانے سے غیرمتبدل چلی آرہی ہے۔ بالی میں سیاحت نے روایتی ثقافت کو توانا کیا ہے اور نئی ثقافتی تخلیق پر اثرانداز ہوئی ہے۔ اس کے علاوہ جو ثقافت سیاحوں کے لیے پیدا ہوئی اس نے خود بالی کے معاشرے میں بھی جگہ بنالی۔ رقص جو ابتداً سیاحوں کے لیے تخلیق کیے گئے تھے‘ وہ آج مندروں میں مراسمِ عبودیت کے طور پر رواج پاگئے ہیں اور بالی آرٹس فیسٹول جو ۱۹۷۹ء میں شروع ہوا تھا‘ تاکہ مقامی کلچر و سیاحی کو فروغ دیا جائے‘ اب وہ ایک ایسے پلیٹ فارم میں تبدیل ہو گیا ہے جہاں بالی کے عوام آرٹس کے حوالے سے ایک دوسرے سے بڑھ کر اپنی کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہیں جو ثقافت میں مزید بہتری کا موجب ہے۔
س: لہٰذا آپ کے خیال میں راویتی ثقافت ایسی چیز نہیں ہے جسے عجائب گھر میں سجانا چاہیے بلکہ یہ وہ چیز ہے جس کی جدید معاشرہ کے ساتھ مستقل رابطے کے ذریعہ نئی صورت گری کی جانی چاہیے؟
ج: ہاں! یقینا بالی ایک شاندار ثقافت کا حامل ہے لیکن اس وجہ سے نہیں کہ یہ خالص ہے اور جدید مغربی تہذیب سے آلودہ نہیں ہے۔ اس کے برعکس بالی ثقافت کی مستقل ترقی کا راز ہی اس کا بیرونی اثرات کو قبول کرنا ہے۔ یہ کہنا کہ بالی ایک کمزور خزانہ ہے اور یہ کہ یہ اور مغربی تہذیب دونوں بعد المشرقین ہیں یا پھر یہ کہ یہ ایک ضائع شدہ کلچر ہے جسے مغربی تہذیب نے برباد کیا۔ یہ ایک طرح کی مستشرقانہ سوچ ہے‘ جس کا حقیقت کے ساتھ نباہ واقعتاً مشکل ہے۔ ایک امریکی ثقافتی تجزیہ نگار جیمز کلفورڈ کے مطابق شیکسپیئر نسل و ثقافت کی تاریخ ’’دو داستان ہائے عظمیٰ‘‘ یا ’’داستانوں کے متعلق داستان‘‘ کے مابین جھولتی رہی ہے یعنی ایک ہم آہنگیت یا نقصان کی اور دوسری ظہور اور ایجاد کی۔ ہم آہنگیت یا نقصان کا نظریہ یہ ہے کہ کم ہی ثقافتیں ہیں جو قدرے مضبوط اور غالب ثقافتوں میں ضم یا محو ہو جائیں گی۔ ظہور اور ایجاد کا نظریہ اس کے برعکس ہے۔ یہ اس حقیقت کو آشکار کرتا ہے کہ ثقافتیں مادۂ سیال کی طرح رواں دواں ہیں اور یہ دوسری ثقافتوں سے اشتراک و انضمام کی صلاحیت رکھتی ہیں اور مختلف النوع ثقافتوں کے مابین بھی بلکہ تخلیق کے مسلسل عمل سے گزرتی ہیں۔ آج کی مقامی ثقافتیں عالمی سیاسی و معاشی نظام کے تحت زندہ ہیں۔ ضرورت ہے کہ نئے حالات میں نئی ثقافتوں کی تخلیق کے حوالے سے سوچا جائے۔
آج ہمیں نئے حالات میں ثقافتوں کی تخلیق کے لیے فکرمند ہونا چاہیے نہ کہ ان کی موت کے لیے۔ یہ گلوبلائزیشن کا زمانہ ہے اور ہمیں توقع رکھنی چاہیے کہ مقامی ثقافتیں اپنی سرحدوں کو عبور کر کے دوسری ثقافتوں سے ملاپ کر سکتی ہیں۔ بالی کی مثال سے ظاہر ہوتا ہے کہ سیاحت ثقافتوں کی تخلیق میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔ بالی کے علاوہ بھی دوسری جگہوں پر اس کا مشاہدہ ہوا ہے جن میں ہمارا ملک جاپان بھی شامل ہے۔
س: آپ مستقل میں سیاحت اور ثقافت کو کس طرح دیکھتے ہیں؟
ج: میں خاص طور سے معاشی سیاحت کے لیے فکر مند ہوں۔ دی ورلڈ کنزرویشن یونین (IUCN) ایسے معاشی سیاحت (Eco-tourism) کے حق میں ہے جس میں ماحولیاتی اعتبار سے ذمہ دارانہ سفر کا مظاہرہ کیا جائے اور ایسے قدرتی علاقوں میں کیا جائے جن کے آلودہ ہونے کا نسبتاً کم خطرہ ہو۔ اس طرح سے فطرت سے لطف اندوز بھی ہوا جاسکتا ہے اور فطرت کے حسن اور اس سے وابستہ ثقافت کی قدردانی بھی کی جاسکتی ہے۔ IUCN اس امر پر بھی زور دیتا ہے کہ معاشی سیاحت کو تحفظِ ماحولیات میں معاون ہونا چاہیے اور اسے مقامی لوگوں کے لیے معاشی خوشحالی کے مواقع بھی پیدا کرنے چاہییں۔ ۱۹۹۸ء سے میں معاشی سیاحت کا مطالعہ کرتا رہا ہوں اور اسے میں سباح (Sabah) میں فروغ دینے میں مصروف رہا ہوں جو کہ ملیشیا کے بورنیو جزیرہ کا شمالی حصہ ہے۔ سباح کے ایک بڑے علاقے میں ٹراپیکل جنگلات گرائے گئے تاکہ ٹِمبر ایکسپورٹ کیے جاسکیں اور اس لیے بھی کہ ان علاقوں میں پام آئل کی پیداوار کے لیے پام درخت کی شجرکاری کی جاسکے۔ یوں جنگلات کا علاقہ بڑی حد تک کم ہو گیا۔ اب ایک صورت رہ گئی ہے کہ آئندہ کوئی بھی درخت نہ گرائے جائیں۔ اس صورتحال میں سباح کی حکومت معاشی سیاحت کو فروغ دیتی رہی ہے تاکہ بقیہ جنگلات کو محفوظ رکھا جاسکے۔ اس پالیسی پر حکومت ۹۰ کی دہائی سے ہی کاربند رہی ہے تاکہ معیشت کا انحصار صرف جنگلات کے درختوں کی آمدنی پر نہ رہ جائے۔ حالیہ برسوں میں میں نے سباح میں معاشی سیاحت کے پروگراموں میں شرکت کی ہے اور میں وہاں فطرت کے عجائب سے بڑا متاثر ہوا ہوں۔ بہرحال میں نے معاشی سیاحت کی ستم ظریفیوں کا بھی وہاں مشاہدہ کیا۔ مثلاً میں نے دیکھا کہ بہت سارے جنگلی جانور جو جنگلوں میں رہتے تھے اب وہ دریائے کیناباتنگن کے کنارے دلدلی علاقوں میں رہنے پر مجبور ہیں اس لیے کہ گرد و پیش کے جنگلات ڈھا دیے گئے ہیں۔ جب ہم کشتیوں پر سفر کرتے ہیں تو جنگلوں میں پائی جانے والی جگہوں میں قطار در قطار پام کے درختوں کی شجرکاری دکھائی دیتی ہے۔ مزید یہ کہ معاشی سیاحت کے متعلق یہ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ مقامی آبادی کے لیے خوشحالی کی موجب ہے لیکن حقیقتاً یہ تمام برادری کے افراد کو مطمئن کرنے میں ناکام رہی ہے۔ کئی انٹرویوز کے دوران مجھ سے گائوں والوں نے کہا کہ معاشی سیاحت ایک بیرونی سیاحت ہے یعنی یہ کہ اس کا فائدہ باہر کے لوگوں کو پہنچتا ہے ان کو نہیں پہنچتا۔ لہٰذا معاشی صحت کے سامنے یہ چیلنج ہے اور اسے ان مسائل کو حل کرنا ہو گا۔ معاشی ترقی کو کنٹرول کرنے اور ماحولیات کے تحفظ کے لیے جب تک ہم کوئی شعوری منصوبہ نہیں بناتے ہیں‘ اس وقت تک ہم ایک پائیدار عالمی ماحولیات سے لطف اندوز نہیں ہو سکتے ہیں۔ معاشی سیاحت‘ کنٹرول کے طریقوں میں سے ایک طریقہ ہے۔ لیکن یہ کنٹرول بے معنی رہے گا اگر کسی علاقے میں تحفظِ ماحولیات اور نئی معاشی سرگرمیوں کا تال میل نہیں بیٹھتا ہے۔ معاشی سیاحت اسی وقت کامیاب ہو سکتی ہے اگر اس کے مختلف کھلاڑیوں کے مابین تعاون کا ماحول پیدا ہوتا ہے‘ مثلاً مقامی آبادی‘ انتظامیہ کے اہل کار‘ تحقیق کار‘ سیاحتی صنعت اور خود سیاحوں کے مابین۔ دنیا میں سیاحتی معیشت خود آزمائش و غلطی (Trial and Earor) کے مرحلے سے گزر رہی ہے۔ اگر یہ کامیاب ہو جاتی ہے تو ہمیں نہ صرف یہ کہ سیاحت کی نئی شکلوں کی ضرورت پیش آئے گی بلکہ یہ تجارت کے ایک نئے ماڈل کی صورت گری کا وہ دور ثابت ہو گا جہاں ترقی و تحفظ ایک دوسرے کے ساتھ اور ایک دوسرے سے ہم آہنگ ہوں گے۔
(بشکریہ: ’’ایشیا پیسی فک‘‘۔ جاپان۔ نومبر ۲۰۰۴ء)
Leave a Reply