
پاکستانی سیاست میں فوج کا کردار بہت زیادہ توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔ بہرحال فوج نے یہاں برسوں سے کچھ دیگر بڑے اور مختلف النوع معاشی مفادات میں بھی دلچسپی پیدا کر لی ہے۔ جہاں فوج کے ذریعہ بہت اہم زمینوں کو اپنے قبضے میں لیے جانے کی پریس میں رپورٹس آرہی ہیں، وہیں دیگر تجارتوں میں بھی فوج داخل ہو چکی ہے۔ اس تجارت کا دائرہ لیزنگ اور ڈیری فارم سے لے کر ناشتے کے دلیہ (Cereals) تک دراز ہے۔ جبکہ حقیقتاً پاکستان کے مڈل کلاس کی پوری آبادی فوجی کارن فلیکس کو ناشتے میں استعمال کرتے ہوئے پروان چڑھی ہے، شاید بہت کم لوگ ہوں گے جن کی نظر اپنی مادر کمپنی فوجی فائونڈیشن پر مرکوز ہوئی ہو گی جو کہ ایک فوجی ادارہ ہے۔ فوج کی سرپرستی میں چلنے والا دوسرا ادارہ Army Welfare Trust (AWT) ہے۔ AWT اپنے ہدف کی وضاحت میں اعلان کرتا ہے کہ ’’یہ فوج کا بہت ہی اہم فرض ہے کہ وہ اپنے ریٹائرڈ ارکان کی فلاح و بہبود اور آبادکاری کی فکر کرے، کیونکہ انھوں نے اپنی زندگی کا بہترین حصہ اپنے مادرِ وطن کے لیے وقف کیے رکھا۔ AWT کی ویب سائٹ (www.awt.com.pk) مزید اعلان کرتی ہے کہ ’’یہ فوج کی بہت بڑی ذمہ داری ہے کہ ریٹائرڈ فوجی اہلکاروں کی دیکھ بھال کرنا فوج کے نزدیک ایک مقدس اور لازمی فریضہ ہے‘‘۔
اس کا جاننا باعثِ دلچسپی ہے کہ فوج نے اپنی نگہداشت و دیکھ بھال کے لیے کس طرح ایک جامع نظام اپنے طور سے تشکیل دیا ہے، سویلین سیکٹر میں جس کا فقدان ہے۔ بہرحال کیا یہ نظام پبلک اور پرائیوٹ کمپنیوں کے ذریعہ چلایا جارہا ہے؟ اگر یہ پرائیوٹ کمپنیاں ہیں تو سرکاری رقوم اور وسائل اس کی سرگرمیوں کے لیے استعمال نہیں کیے جا سکتے۔ اگر یہ حکومتی کارپوریشن ہیں تو ان کے سربراہان عوامی نمائندوں اور عوام کے سامنے جوابدہ ہیں۔ پارلیمانی ارکان خود یہ اعتراف کرتے ہیں کہ اُن پر یہ واضح نہیں ہے کہ آیا فوجی فائونڈیشن اور آرمی ویلفیئر ٹرسٹ پبلک کمپنی ہے یا پرائیوٹ کمپنی۔
سینٹ میں سینیٹر فرحت اﷲ بابر نے فوجی فائونڈیشن کی سرگرمیوں کے حوالے سے سوال اٹھایا تو لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ جاوید اشرف قاضی نے ان کے سوال کے جواب میں سرکاری موقف کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ فوجی فائونڈیشن ایک نجی ادارہ ہے۔ اس سے پہلے ۲۰۰۵ء میں جب پارلیمانی کمیٹی نے فوجی فائونڈیشن کے منیجنگ ڈائریکٹر کو طلب کیا تو انھوں نے اس کمیٹی کے سامنے پیش ہونے سے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ فوجی فائونڈیشن چونکہ ایک نجی ادارہ ہے، اس لیے وہ کمیٹی کے سامنے پیش ہونے کے پابند نہیں ہیں۔ حکومت کا بھی ٹھیک یہی موقف تھا۔ ۲۲ نومبر ۲۰۰۵ء کو وفاقی وزیرِ تعلیم نے فلور پر یہ اعلان کیا کہ فوجی فائونڈیشن کو کوئی سرکاری رقوم نہیں دی جاتیں۔ وزیر نے کہا کہ ’’اس (فوجی فائونڈیشن) کو حکومت کی طرف سے کوئی رقوم نہیں ملتی ہیں۔ یہ (سوچ) صحیح نہیں ہے۔ اگر کوئی ضمانت دی بھی گئی ہے تو وہ آرمی ویلفیئر ٹرسٹ کو دی گئی ہے نہ کہ فوجی فائونڈیشن کو‘‘۔ بہرحال ۲۸ دسمبر ۲۰۰۵ء کو Compensation سے متعلق سوال کا جواب دیتے ہوئے مالیات کے وزیرِ مملکت عمر ایوب خان نے یہ اعلان کیا کہ ’’حکومتِ پاکستان نے فوجی اردن فرٹی لائزر کمپنی جس کا اب نیا نام فوجی فرٹی لائزر بن قاسم لمیٹڈ ہے، اس کے خساروں کی تلافی کے لیے رقوم دینے پر اتفاق کر لیا ہے، اس بنا پر کہ ۱۹۸۹ء کی فرٹی لائزر پالیسی پر وژن کا اطلاق نہیں ہوا تھا۔ کل رقم ۵؍ارب روپے تھی جو سات سال کی مدت میں ادا کی جانی ہے جس کا آغاز ۲۰۰۲ء سے ہونا طے پایا تھا‘‘۔ تلافی کی اس رقم کے ساتھ فوجی فرٹی لائزر ملک کی وہ واحد فرٹی لائزر کمپنی ٹھہری جس کے خساروں کی تلافی کی گئی ہو۔ اس پس منظر میں وزیرِ تعلیم سے یہ سوال پوچھا گیا کہ انھوں نے یہ اعلان کیوں کیا کہ فوجی فائونڈیشن کبھی کسی حکومتی رقوم سے مستفید نہیں ہوئی؟ انھوں نے جواب میں فرمایا کہ میں سینٹ میں ان کا بیان اور وزیرِ مالیات کا وہ بیان جو انھوں نے فوجی فرٹی لائزر کمپنی کو دی جانے والی رقوم کی تلافی سے متعلق دیا تھا، باہم متضاد نہیں ہیں۔
جنرل قاضی نے یہ بھی کہا کہ فوجی اردن فرٹی لائزر کمپنی ایک آزاد کمپنی تھی اور فوجی فائونڈیشن اس میں صرف ایک شریک کے طور پر شامل تھی۔ فوجی فائونڈیشن کی ویب سائٹ (www.fauji.org.pk) کا پہلا صفحہ فائونڈیشن کو اپنی مدد آپ کرنے والا ایک نجی ادارہ کے طور پر متعارف کراتا ہے۔ یہ مزید وضاحت کرتا ہے کہ فوجی فائونڈیشن کا ادارہ اپنی فلاحی ذمہ داریوں کی تکمیل کے لیے خود اپنے تجارتی و صنعتی منصوبوں سے وسائل پیدا کرتا رہا ہے۔ اپنے قیام سے لے کر اب تک یہ ۹۰ لاکھ لوگوں کو فائدہ پہنچا چکا ہے اور خدمتِ خلق کے شعبے میں ۱۶؍ارب روپے خرچ کر چکا ہے۔ ویب سائٹ فائونڈیشن کے حوالے سے یہ مزید دعویٰ کرتی ہے کہ یہ ادارہ ملک کا سب سے بڑا فلاحی اور صنعتی گروپ ہے۔ اس دعوے کی بنیاد پر جو نتیجہ فطری طور سے اخذ کیا جاسکتا ہے وہ یہی ہے کہ فوجی فائونڈیشن ایک نجی ادارہ ہے اور یقینی طور سے ملک کے عظیم ترین صنعتی گروپ میں سے ایک ہے جس نے ۱۶؍ارب روپے کی خطیر رقم فلاحی کاموں میں خرچ کی ہے۔ بہرحال اسی صفحے پر فائونڈیشن کے حوالے سے یہ دعویٰ موجود ہے کہ فوجی فائونڈیشن ایک خیراتی ٹرسٹ ہے جو سابق فوجی اہلکاروں اور ان کے خاندان کی فلاح و بہبود کے لیے قائم کیا گیا ہے۔ اس کی کارپوریٹ سرگرمیوں کا آغاز ۱۹۵۴ء میں ہوا جب پاکستان آرمی کے زیرِ کنٹرول جنگ کے بعد کی صورتحال میں تعیمرِ نو کے لیے پھر سے فنڈ اکٹھا کرنے کی ضرورت درپیش ہوئی۔ فائونڈیشن کو ایک انتظامی کمیٹی اور بورڈ آف ڈائریکٹرز کے ذریعہ چلایا جاتا ہے۔ ان کے سینٹرل بورڈ آف ڈائریکٹر کا چیئرمین حکومتِ پاکستان کی وزارتِ دفاع کا سیکرٹری ہوتا ہے۔ انتظامی کمیٹی کا چیئرمین بھی وزارتِ دفاع کا سیکرٹری ہوتا ہے اور اس کے اراکین چیف آف دی جنرل اسٹاف، ایڈجو ٹینٹ جنرل پاکستان آرمی، کوارٹر ماسٹر جنرل پاکستان آرمی، چیف آف لاجسٹک اسٹاف پاکستان آرمی، ڈپٹی چیف آف دی نیول اسٹاف پاکستان نیوی اور ڈپٹی چیف آف ایئر اسٹاف پاکستان ایئرفورس ہیں۔ دوسرے الفاظ میں کئی سرکاری ملازمین ہیں جن میں جنرلز بھی شامل ہیں جو اپنی مدد آپ کرنے والے نجی ادارے کی انتظامی کمیٹی کا کام کر رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا سرکاری ملازمین کو نجی کارپوریشنوں کی انتظامی کمیٹی کا رکن بننے کی اجازت ہے؟ فوجی فائونڈیشن نے یہ بھی اعلان کیا ہے کہ وہ غریب اور معذور سابق فوجیوں کی فلاح و بہبود کے لیے سروس ہیڈ کوارٹر کو سالانہ گرانٹ بھی دیتا ہے۔ ۲۰۰۵ء کے اعداد و شمار دستیاب نہیں ہیں البتہ فائونڈیشن کی ویب سائٹ کے مطابق ۲۰۰۴ء میں پاکستان آرمی کے جنرل ہیڈ کوارٹرز آرمی، نیول ہیڈ کوارٹرز اور ایئر ہیڈ کوارٹرز میں سے ہر ایک کو ۳۹ء۲۱ ملین روپے دیے گئے۔ یہ فراخدلانہ گرانٹ بعض سوالات کو جنم دیتا ہے۔ مثلاً: (i)اگر فوجی فائونڈیشن ایک پرائیوٹ کارپوریشن ہے تو پھر کیوں یہ پرائوٹ کارپوریشن پاکستان کے تینوں سروسز کو ۷۷ء۶۴ ملین روپے بانٹ رہا ہے۔ (ii)اگر فائونڈیشن اس پوزیشن میں ہے کہ وہ یہ رقم بطور عطیہ دے سکے تو اسے مالی سہارے کی کیوں ضرورت پیش آئی جس کی بنا پر اس نے اپنی فرٹی لائزر کمپنی کے لیے سرکاری خزانے سے رقوم کی تلافی حاصل کیں؟ فوجی فائونڈیشن کے سات ملحقہ ادارے ہیں جن کے نام
Marri Gas Company Ltd.
Fauji Cement Company Ltd.
Fauji Fertiliser Company Ltd.
Fauji Fertiliser Bin Qasim Ltd.
Foundation Securities
Fauji Kabirwala Power Company Ltd.,
Fauji Oil Terminal & Distribution Company Ltd.
ہیں۔ مالیات کے وزیرِ مملکت عمر ایوب خان نے اعلان کیا ہے کہ فوجی فرٹی لائزر بن قاسم لمیٹڈ جس کا پرانا نام فوجی اردن فرٹی لائزر کمپنی لمیٹڈ ہے، کو ایک سرکاری کمپنی سے رقومِ تلافی دی گئی ہے۔ بہرحال وفاقی وزیرِ تعلیم کا کہنا ہے کہ یہ صحیح نہیں ہے۔ آرمی ویلفیئر ٹرسٹ کو صرف گرانٹ دی گئی ہے۔ یہ واضح نہیں ہے کہ آخر کیوں وزیرِ تعلیم نے اپنے فرض کا حصہ تصور کیا کہ وہ وزارتِ مالیات کے بیان کو متنازعہ بنائیں جبکہ یہ امور وزارتِ مالیات سے متعلق ہیں نہ کہ وزارتِ تعلیم سے۔
ہم جائزہ لیتے ہیں وزیرِ تعلیم کے اس بیان کا کہ آرمی ویلفیئر کو صرف گرانٹ دی گئی تھی لیکن فوجی فائونڈیشن کو کوئی رقم نہیں دی گئی تھی۔ آرمی ویلفیئر ٹرسٹ کا قیام ۱۹۷۱ء میں عمل میں آیا اور اس کی ویب سائٹ (www.awt.com.pk) کے مطابق ’’AWT کی ذمہ داری ازخود فلاح و بہبود کی سرگرمیاں انجام دیے بغیر فلاح و بہبود و نو آبادکاری کے لیے رقوم کی فراہمی تک محدود ہے‘‘۔ ویب سائٹ کے صفحۂ اول میں مزید یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ ’’آرمی ویلفیئر ٹرسٹ لازمی طور سے ایک بزنس ہائوس کے طور پر کام کرے گا‘‘۔ اگر کوئی وزیرِ تعلیم کے بیان کو دوسرے الفاظ میں بیان کرنا چاہے تو یہ کہے گا کہ جبکہ یہ سچ ہے کہ کوئی سرکاری رقم فوجی فائونڈیشن کو نہیں دی گئی لیکن ۵؍ارب روپے کی سرکاری رقم کی ضمانت ایک ایسے ادارے کو دی گئی جو ’’لازمی طور سے ایک بزنس ہائوس کے طور پر کام کرتا ہے‘‘۔ کیا یہ قانونی ہے؟ یہاں یہ بتانا اہم ہے کہ کسی دوسرے بزنس ہائوس کو بھی اگرانٹس یا رقومِ تلافی نہیں دی گئی، اس وجہ سے کہ وہ ۱۹۸۹ء کی فرٹی لائزر پالیسی کے شرائط کے عدم انطباق کے سبب وہ خسارے سے دوچار ہوا تھا۔ آرمی ویلفیئر ٹرسٹ کی حیثیت اور ہیئتِ ترکیبی کے حوالے سے بھی بعض سوالات اٹھتے ہیں۔
دی ایڈجو ٹینٹ جنرل (AG) برانچ آف آرمی جس کا دفتر جنرل ہیڈ کوارٹر میں ہے، ریٹائرڈ اور حاضر اہلکاروں کے اُمورِ فلاح و بہبود کی نگرانی کرتا ہے۔ AG برانچ میں The Welfare and Rehabilitation Directorate (W&R) اس ویلفیئر میں براہِ راست شریک ہوتا ہے اور AWT ماتحت ہے W&R Directorate کے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں کہانی بہت دلچسپ ہو جاتی ہے کیونکہ AWT درحقیقت ایک کارپوریٹ ہے اور پاک فوج کا وہ بازو ہے جو رقوم کی فراہمی کا کام کرتا ہے۔ AWT کی ویب سائٹ پر خود یہ اعلان موجود ہے کہ یہ سوسائٹی رجسٹریشن ایکٹ کے تحت ۱۹۷۱ء میں قائم ہوئی اور ’’لازمی طور سے ایک بزنس
ہائوس کی حیثیت سے کام کرتی ہے‘‘۔ دوسرے الفاظ میں AWT سے مختلف ڈویژنوں کے ذریعہ منافع کمانا ہے اور پھر اسے W&R Directorate کو ویلفیئر کی سرگرمیوں کے لیے حوالے کرنا ہے۔ ویب سائٹ پر بہت ہی واضح اعلان ہے کہ ’’AWT کی ذمہ داری صرف رقوم کی فراہمی تک محدود ہے جو کہ فلاح و بہبود اور نوآبادکاری کے لیے ہے اور یہ کہ AWT ازخود کوئی فلاحی سرگرمی انجام نہیں دے گا‘‘۔ یہ بھی دلچسپ ہے کہ ایک ادارہ جو سوسائٹی رجسٹریشن ایکٹ کے تحت رجسٹرڈ ہو، وہ منافع کمانے والے بزنس ہائوس کے طور پر کام کرے۔ اعداد و شمار یقینی طور سے اس کی منافع کمانے کی صلاحیتوں کی نشاندہی کرتے ہیں۔ AWT نے سات لاکھ کے متوسط سرمائے کے ساتھ ۱۹۷۱ء میں کام کا آغاز کیا لیکن اب اس کی ویب سائٹ کے مطابق اس کے اثاثے ۵۰؍ارب روپے کی مالیت سے بھی زیادہ ہو چکے ہیں۔ تیسری یہ بات جاننے میں دلچسپی رکھتے ہیں کہ آیا یہ سات لاکھ کی ابتدائی رقم سرکاری خزانے سے تھی۔ AWT کے سات ڈویژنز ہیں جن کے نام درج ذیل ہیں:
Army projects, Corporate development, Farms,
Finance, Industries, Real Estate and Technical
فوجی منصوبوں کے جو ڈویژن ہیں وہ چار منصوبوں پر مشتمل ہیں یعنی Shoes، Woolen Mills، Al-Ghazi Travel اور Services Travel۔ موخر الذکر دونوں ٹریول ایجنسیاں۔ ویب سائٹ کے مطابق سویلین اور فارنیرس کی سروسز فراہم کرتی ہیں۔ آرمی شو پراجیکٹ کوٹ لکھپت کا اپنا بہت بڑا صنعتی کارخانہ ہے، فوج کو جوتے سپلائی کرتا ہے اور بیرونی مارکیٹوں کو بھی۔ کارپوریٹ ڈیولپمنٹ ڈویژن منافع کمانے والے سات بزنس ہائوسز پر مشتمل ہے جن کے نام ہیں: عسکری کمرشل بینک لمیٹڈ، عسکری لیزنگ، عسکری انشورنس، عسکری گارڈز، عسکری ایسوسی ایٹس، عسکری ایویشن اور عسکری موبل۔ یہ ساتوں بزنس ہائوسز اچھا منافع کماتے ہیں جبکہ عسکری کمرشل بینک کو ۱۹۹۴ء اور ۱۹۹۶ء کا بہترین بینک قرار دیا جا چکا ہے۔ فارمس ڈویژن بدین شوگر ملز اور AWT کے پانچ زراعتی فارموں پر مشتمل ہیں جو ملتان، اوکاڑہ، پاک پتن اور بدین میں ہیں۔ فنانس ڈویژن مجموعی طور سے AWT کے مالی امور کی دیکھ بھال کرتا ہے۔ صنعتی ڈویژن عسکری سیمنٹ فیکٹری واہ، عسکری سیمنٹ نظام پور اور عسکری فرما لاہور پر مشتمل ہے۔ ریئل اسٹیٹ ڈویژن AWT کی زیرِ ملکیت کمرشل پلازہ، ہائوسنگ پراجیکٹس، زمینیں اور ریسٹورانٹس پر مشتمل ہے۔ ٹیکنیکل ڈویژن عسکری انفارمیشن سسٹمس، کمپیوٹر سیکشن اور عسکری کمرشل انٹرپرائزز پر مشتمل ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ عسکری کمرشل انٹر پرائزز کی ذمہ داری ایسے ریٹائرڈ آرمی پرزوینل اور منتخب سویلینز کی مدد کرنا ہے جو ابھرتے ہوئے تاجروں کی انفرااسٹرکچرل سرمایہ کاری کا دائرہ محدود کر سکیں۔ عسکری کمرشل انٹرپرائزز AWT مالی اداروں کے توسط سے عالی شان دفتر، رہائش، مفت رہنمائی، قرضے اور لیزنگ کی سہولیات اور دیگر سہولیات فراہم کرتا ہے تاکہ ابھرتے ہوئے تاجروں کو میدان سے بے دخل کیا جاسکے۔ مختصر یہ کہ AWT کے خود اپنے اعتراف کے مطابق کہ یہ ایک بزنس ہائوس کی حیثیت سے جوتوں سے لے کر شادی ہال، انشورنس، زمینیں، عالی شان دفاتر، لیزنگ تک کی سہولیات فراہم کرتا ہے۔ بزنس ہائوس جو سوسائٹی رجسٹریشن ایکٹ کے تحت رجسٹرڈ ہے اور جس کا مطلب غیرتجارتی ادارہ ہے، کا ایک بورڈ آف ڈائریکٹرز اور ایک انتظامی کمیٹی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ انتظامی کمیٹی ایڈجو ٹینٹ جنرل پاکستان آرمی، دی چیف آف جنرل اسٹاف، پاکستان آرمی، دی کوارٹر ماسٹر جنرل پاکستان آرمی، ماسٹر جنرل آرڈی نینس اور منیجنگ ڈائریکٹر آف AWT پر مشتمل ہے۔ آخر کو چھوڑ کر انتظامی کمیٹی کے تمام ارکان حاضر جنرل ہیں۔ بورڈ آف ڈائریکٹرز ساتوں ڈویژن کے ڈائریکٹرز، AWT کے منیجنگ ڈائریکٹر اور ایڈجو ٹینٹ جنرل پر مشتمل ہے۔ اس لیے سوال یہ ہے کہ کیا آرمی ویلفیئر ٹرسٹ (AWT) نجی ادارہ ہے یا سرکاری۔ اسے سرکاری نام دیا جاسکتا ہے کیونکہ یہ AG برانچ آف پاکستان آرمی کے تحت ہے اور ابتدا میں یہ سرکاری رقوم سے قائم کیا گیا تھا۔ بہرحال آرمی ویلفیئر ٹرسٹ اپنے حوالے سے خود یہ اعلان کرتا ہے کہ یہ بحیثیتِ مجموعی اور اپنے ساتوں ڈویژن کے توسط سے ایک منافع بخش بزنس ہائوس کے طور پر کام کرتا ہے جس کا مقصد رقوم مہیا کرنا ہے۔ اگر یہ بزنس ہائوس کے طور پر کام کرتا ہے تو کیا حاضر فوجی اہلکار بزنس ہائوسز کے بورڈ میں ہو سکتے ہیں یا کسی بھی طریقے سے کسی منافع کمانے والے ادارے سے وابستہ ہو سکتے ہیں؟ کیوں حکومت نے، جیسا کہ وزیرِ تعلیم نے اعتراف کیا، ۵؍ارب روپے کی AWT کو گرانٹ دی یعنی سرکاری خزانے سے ایک بزنس ہائوس کو؟ اس سے بھی زیادہ دلچسپ سوال یہ ہے کہ کیسے ایک بزنس ہائوس سوسائٹی رجسٹریشن ایکٹ کے تحت رجسٹرڈ ہوا جبکہ یہ ایکٹ صرف غیرمنافع بخش اداروں کے لیے ہے؟ یہ وہ سوالات کا مجموعہ ہے جس میں لوگوں کی دلچسپی ہے۔
دوسرا سوال یہ ہے کہ آبادی کے سویلین سیکٹر کے متعلق کیا کچھ ہے؟ اس اشتباہ کے باوجود جو اس کی سرکاری اور نجی حیثیت سے متعلق ہے، فوجی فائونڈیشن اور AWT ایک فرد کو جس کا دور کا بھی تعلق فوج سے ہے، پُرتعیش زندگی کی ضمانت دیتے ہیں، فوج کا دفاعی بجٹ اور کارپوریٹ مفادات اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ یہ اپنی دسترس میں کافی وسائل رکھیں جس کے ذریعہ یہ اپنے اہلکاروں کی ضروریات کی تکمیل کی طرف توجہ دے سکیں۔ بہرحال وہ سرکاری ملازمین جن کا تعلق فوج سے نہیں ہے، اس طرح کی مراعات سے لطف اندوز نہیں ہو پاتے۔ ایک آدمی یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ باوردی اور بے وردی سرکاری ملازمین کے مابین یہ تفریق و امتیاز کیونکر ہے؟ اگر فوجی اہلکاروں کی فلاح و بہبود ایک مقدس فریضہ ہے تو پھر اُن ملازمین کی ضروریات کے بارے میں کیا خیال ہے جنھوں نے اپنی پوری زندگی ریلوے، گیس، تعلیم اور صحت کے محکموں میں خدمت کرتے ہوئے گزار دی؟ ایک فلاحی ریاست کی وکالت سے منع کرتے ہوئے کوئی مدد نہیں کر سکتا ہے لیکن کم از کم مطالبہ کر سکتا ہے کہ تمام سرکاری ملازمین کے ساتھ یکساں سلوک کرنا چاہیے اور ان کا یکساں احترام کرنا چاہیے اور مزید یہ کہ فوج کی تمام تجارتی کمپنیوں کو سرکاری تحویل میں ہونا چاہیے۔
(بشکریہ: ماہنامہ ’’نیوز لائن‘‘۔ شمارہ: دسمبر ۲۰۰۶ء)
Leave a Reply