
میڈیا کبھی یہ راگ الاپتے نہیں تھکتا کہ انٹرنیٹ کے ذریعے انقلاب برپا ہو رہا ہے۔ چین میں انٹرنیٹ کے فروغ نے یہ رائے عام کردی کہ اب جمہوریت کو فروغ لازمی طور پر ملے گا۔ ایران میں ٹوئٹر کی مقبولیت بڑھی تو مغربی میڈیا نے زور لگاکر یہ بات کہنا شروع کی کہ اب ایران میں حکومت مخالف جذبات کو ہوا دینا کچھ مشکل نہ ہوگا۔ مگر انہوں نے یہ حقیقت نظر انداز کردی کہ ایران میں ٹوئٹر کے رجسٹرڈ ارکان کی تعداد ملک کی آبادی کا صرف ایک فیصد ہے!
برطانیہ کے حالیہ الیکشن کے بارے میں کہا جارہا تھا کہ یہ ویب ٹو زیرو کے بعد کے پہلے الیکشن ہیں اس لیے نتائج حیرت انگیز ہوں گے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ دوسری جنگ عظیم کے برطانیہ میں اس قدر حیرت انگیز انتخابی نتائج برآمد نہیں ہوئے۔
ٹی وی پر براہ راست نشر کیے جانے والے ایک مباحثے نے سب کچھ بدل دیا۔ انتخابی امیدواروں اور بالخصوص وزیر اعظم کے منصب کے امیدواروں کے درمیان مباحثوں کی روایت نے برطانیہ میں جنم لیا تھا۔ بعد میں امریکا اور دیگر ممالک نے اسے اپنایا۔ امریکا میں اس روایت پر ۵۰ سال سے عمل ہو رہا ہے۔ ۹۰ منٹ کے پہلے مباحثے میں تو لبرل ڈیموکریٹک پارٹی کے سربراہ نک کلیگ نے کامیابی حاصل کی تھی۔ اس مباحثے میں نک کلیگ کی کارکردگی اس قدر شاندار رہی تھی کہ لبرل ڈیموکریٹس کی حمایت کرنے والوں کی تعداد ۵۰ فیصد سے زیادہ ہوگئی۔ یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ برطانوی انتخابی نتائج کو ۱۹۲۵ء کی ایجاد (ٹی وی) نے تبدیل کردیا۔
برطانوی انتخابات کا سب سے یادگار لمحہ وہ تھا جب شمالی انگلینڈ میں ایک ۶۶ سالہ بیوہ نے وزیر اعظم گورڈن براؤن کو روک کر ان سے قدرے تلخ لہجے میں بات کی اور عام آدمی کے مسائل بیان کیے۔ بعد میں خاتون نے بتایا کہ وہ لیبر پارٹی ہی کو ووٹ دیں گی۔ گورڈن براؤن سے غلطی یہ ہوئی کہ وہ ریڈیو کا مائکروفون بند کرنا بھول گئے اور برطانوی قوم نے ریڈیو پر سنا کہ وزیر اعظم نے خاتون کو متعصب قرار دیا! دو دن تک اخبارات نے اس جملے کو ہیڈ لائن بنایا۔ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ لیبر پارٹی کو اس ایک جملے نے کتنا نقصان پہنچایا ہوگا جو بیسویں صدی کے اوائل کی ایک ایجاد کے ذریعے ادا کیا گیا۔
لیبر پارٹی کے ایک امیدوار نے ٹوئٹر پر نازیبا ریمارکس کی پوسٹنگ کی جس سے پارٹی کی پوزیشن مزید غیر مستحکم ہوئی۔ چند ایک وڈیوز نے بھی کام خراب کیا۔
ان تمام باتوں سے کوئی یہ نہ سمجھے کہ انٹرنیٹ غیر اہم ہے۔ برطانیہ کی بیشتر سیاسی جماعتیں اپنی ویب سائٹس کے ذریعے لوگوں سے رابطے کرتی ہیں، انہیں بنیادی معلومات فراہم کرتی ہیں اور گھر گھر رابطے کی مہم میں انٹرنیٹ کو عمدگی سے استعمال کرتی ہیں۔ کنزر ویٹو پارٹی نے بھی انٹرنیٹ کو انتخابی مہم کے لیے استعمال کیا۔ گوگل ایڈز پر وقت اور جگہ خرید کر ایک سطر کے پیغامات چلائے۔ رائے عامہ کا جائزہ لینے والے بہت سے ادارے انٹرنیٹ کو بنیاد بناکر کام کرتے ہیں۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو براہ راست نشر کیے جانے والے پہلے ٹی وی مباحثے میں نک کلیگ کو فاتح قرار نہ دیا گیا ہوتا۔
انٹرنیٹ کا ایک بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ اس پر ضرورت یا خواہش سے زیادہ معلومات پائی جاتی ہیں۔ برطانیہ میں گھر گھر ڈاک پہنچانے کے نظام اور کتابچوں یا ہینڈ بل کے ذریعے بھی انتخابی مہم چلائی گئی۔ کیا یہ بات حیرت انگیز نہیں کہ برطانیہ میں صرف ۹ فیصد باشندے سیاسی جماعتوں سے متعلق معلومات کے لیے انٹرنیٹ کا سہارا لیتے ہیں۔ نیشنل اینڈومنٹ فار سائنس، ٹیکنالوجی اینڈ دی آرٹس کے لیے اوپینین میٹرز نے ایک سروے کیا جس میں ۶۳ فیصد رائے دہندگان نے کہا کہ وہ سیاسی معلومات کے لیے ٹی وی پر بھروسہ کرتے ہیں! ۴۷ فیصد نے اخبارات کو اہم ذریعہ بتایا اور ۲۷ فیصد نے ریڈیو کو معلومات کا اہم ذریعہ قرار دیا۔ میڈیا میں، ظاہر ہے، اس سروے کو اہمیت نہیں دی گئی۔ جس سروے میں انٹرنیٹ کی اہمیت کم بیان کی گئی ہو اسے بہتر کوریج نہیں دی جاتی۔ حالیہ برطانوی الیکشن میں ڈاک کے نظام اور ہینڈ بلوں کی تقسیم کے طریق کار سے بھی مدد لی گئی۔ میڈیا نے ان دو روایتی ابلاغی طریقوں کا ذکر کرنا ضروری نہیں سمجھا، ہاں بلاگز کی انٹریز کا خوب چرچا رہا۔
(فلپ کاؤلے ناٹنگھم شائر یونیورسٹی کے سینٹر فار برٹش پولیٹکس میں پارلیمانی حکومت کے پروفیسر ہیں۔)
(بشکریہ: ’’نیوز ویک‘‘۔ ۱۷ مئی ۲۰۱۰ء)
Leave a Reply