
یہ وہی چیز ہے جس نے حقیقی داعیوں کو اس بات پر مجبور کیا ہے کہ وہ تربیت کو جہاد پر مقدم سمجھتے ہیں اور تنظیم کو اقتدار سے پہلے۔
تربیت اور تنظیم سے ہماری مراد ایک انسانِ مومن کی تعمیر ہے جو دعوت کا بوجھ اٹھا سکے اور پیغامِ اسلام کی ذمہ داریوں کو انجام دے سکے۔ وہ نہ مال پر بخل کرے اور اور نہ جان سے دریغ کرے۔ وہ اللہ کی راہ میں پہنچنے والی مصیبتوں کی کوئی پروا نہ کرے۔ اس کے ساتھ وہ علمی نمونہ بھی ہو جس میں اس کی دینی اَقدار اور اس کی دعوتی اخلاقیات مجسم ہو کر سامنے آئیں۔ جس میں لوگ چلتا پھرتا اسلام محسوس کریں۔
اس طرح کے انسان کی تعمیر، اس کی تربیت اور اس کی تنظیم ہمیشہ ایک مطلوب امر رہا ہے۔ لیکن اس کی سب سے زیادہ ضرورت اس وقت محسوس ہوتی ہے، جب کسی نئے دین کی تاسیس پیشِ نظر ہو یا کوئی نیا پیغام لے کر ایک نئی امت وجود میں آرہی ہو۔ اسی طرح اس وقت بھی اس کی ضرورت شدید ہوتی ہے جب کوئی دین کمزور ہو جائے اور اس کی علمبردار امت وہن کی شکار ہو جائے اور پھر اس دین کو تجدید اور اس کی علمبردار قوم کو احیا کی ضرورت ہو۔ اس لیے تجدید و احیا اور اصلاح کے لیے ایک ضروری آغاز کے بغیر کوئی چارہ نہیں ہوتا۔ اور وہ آغاز ہے ایک نئی نسل کی تیاری جو اس قوم کے لیے ہراول دستے کا کام دے سکے۔
انسان کی یہ تعمیر اور تنظیم… ایک حقیقی مسلمان نسل کی صورت میں، جو اس بات کی اہل ہو کہ اصلاح اور انقلاب کی ذمہ داری اس پر ڈال دی جائے۔ اس وقت سے پہلے پہلے ضروری ہے جب کوئی تحریک اپنے کارکنوں کو معاشرے میں انقلاب برپا کرنے اور ایک اسلامی ریاست قائم کرنے کے لیے مسلح جہاد کا حکم دے۔
اسی بنا پر مکی سورتوں کا کام پورے تیرہ سال تک یہی رہا کہ اس انسان کی تعمیر کریں اور ایک ایسی نسل تیار کریں جو ہراول دستے کا کام دے، ایسی کامل تربیت جو اس کے ایمان، اخلاق اور عقل سب پر حاوی ہو۔ اس نسل کی کامل مثال خود رسول اللہﷺ ہیں: ’’درحقیقت تم لوگوں کے لیے اللہ کے رسول میں ایک بہترین نمونہ تھا‘‘۔ (الاحزاب: ۲۱)
مکی دور میں قرآن کا کام یہ تھا کہ عقیدے کی بنیاد مضبوط کی جائے، فضائل کو مستحکم کیا جائے، مکارمِ اخلاق کی تعلیم دی جائے، صحیح غور و فکر اور درست تحقیق و تفتیش کے لیے طریقِ کار مقرر کیا جائے، باطل عقائد کو مٹا دیا جائے، برائیوں کی بنیادیں اکھاڑ دی جائیں اور فکر و کردار میں اس کے بُرے اثرات کا راستہ بند کرکے انسان کا اس کے رب کے ساتھ ایسا تعلق قائم کیا جائے جس کی کڑیاں کبھی نہ ٹوٹ سکیں۔
سورۂ مزمل جو قرآن کی شروع شروع میں نازل ہونے والی سورتوں میں سے ہے، اس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’اے اوڑھ لپیٹ کر سونے والے! رات کو نماز میں کھڑے رہا کرو مگر کم، آدھی رات، یا اس سے کچھ کم کرلو، یا اس سے کچھ زیادہ بڑھا دو اور قرآن کو خوب ٹھہر ٹھہر کر پڑھو۔ ہم تم پر ایک بھاری کلام نازل کرنے والے ہیں‘‘۔ (المزمل: ۱۔۵)
یہ گہری تربیت جو رات کے مدرسے میں دی جارہی تھی اور قرآن کے نصاب کے ذریعے دی جارہی تھی، یہ اس بھاری کلام کو اٹھانے کی تیاری تھی جس کا انہیں انتظار تھا۔ اس کلام کے بھاری ہونے کی وجہ یہی تھی کہ وہ امانت بڑی بھاری تھی، جس کا یہ کلام ترجمان تھا۔
قرآنی آیتیں اسی طریق کار پر نازل ہوتی رہیں کہ وہ عقائد اور مفاہیم کے بیج بوتی رہیں اور اقدار و فضائل کو کاشت کرتی رہیں۔ وہ عقل اور دل کو جاہلیت کی نجاست سے پاک کرتی رہیں اور ایمان کے معانی سے ان کی تربیت کرتی رہیں۔ وہ اس میں ایسے مطالبے اور اقدار اُجاگر کرتی رہیں جو ان کو صبر و استقامت، ثابت قدمی حق کے غلبے کے لیے قربانی اور باطل کے خلاف جہاد پر آمادہ کریں۔ وہ عقل کو آبا و اجداد یا گمراہ لیڈروں کی اندھی تقلید سے پاک کرتی رہیں۔ اس قسم کے مضامین پر مشتمل آیتیں نازل ہوتی رہیں، قبل اس کے کہ مسلح جہاد اور شرک کے علمبرداروں کے خلاف خون ریز کشمکش کا حکم دینے والی ایک بھی آیت نازل ہوتی۔
بلکہ بعض صحابہ مارپیٹ اور زخم کھا کر آپﷺ کے پاس آتے اور آپﷺ سے شکایت کرتے رہتے کہ یہ ہمارے ساتھ کیا ہورہا ہے۔ وہ یہ مطالبہ کرتے کہ انہیں اپنے دفاع کے لیے اپنے اور دین کے دشمنوں کے مقابلے میں تلوار اٹھانے کی اجازت دی جائے۔ مگر نبیﷺ ان کو وہی بات کہتے تھے جو قرآن نے ان الفاظ میں نقل کی ہے: ’’اپنے ہاتھ روکے رکھو اور نماز قائم کرو‘‘۔
اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم جہاد کی اہمیت کم کر رہے ہیں۔ وہ تو اسلام کا چوٹی کا عمل ہے، مگر ہماری گفتگو ترجیحات کے بارے میں ہے اور یہاں ترجیح تربیت اور تنظیم کو حاصل ہے۔
حسن تربیت میں سے یہ بھی ہے کہ نفس کو جہاد کا وقت آنے کے لیے تیار کیا جائے، جیسا کہ سورۂ مزمل میں حکم دیا گیا ہے: ’’اسے معلوم ہے کہ تم میں کچھ مریض ہوں گے، کچھ دوسرے لوگ اللہ کے فضل کی تلاش میں سفر کرتے ہیں اور کچھ اور اللہ کی راہ میں جنگ کرتے ہیں‘‘۔ (المزمل: ۲۰)
جس جہاد کو مؤخر کیا گیا ہے وہ صرف وہی جہاد ہے جو مسلح ہو اور تیر و تفنگ کے ساتھ ہو۔ رہا دعوت و بیان یا قرآن کا جہاد تو وہ ہر وقت مطلوب اور پہلے ہی دن سے جاری ہے۔ سورۂ فرقان جو ایک مکی سورت ہے اس میں اللہ تعالیٰ اپنے نبی سے فرماتے ہیں: ’’پس تم کافروں کی بات ہر گز نہ مانو، اور اس قرآن کو لے کر ان کے خلاف زبردست جہاد کرو‘‘۔ (الفرقان:۵۲)
اسی طرح صبر و ثبات کا جہاد اور دعوت الیٰ اللہ کے راستے میں تکلیفیں اٹھانے کا جہاد تھا، جسے سورۂ عنکبوت کی ابتدائی آیات نے اجاگر کیا ہے: ’’کیا لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ وہ بس اتنا کہنے پر چھوڑ دیے جائیں گے کہ ’ہم ایمان لائے‘ اور ان کو آزمایا نہ جائے گا؟ حالانکہ ہم ان سب لوگوں کی آزمائش کرچکے ہیں جو ان سے پہلے گزرے ہیں، اللہ کو تو ضرور یہ دیکھنا ہے کہ سچے کون ہیں اور جھوٹے کون! … اور جو شخص بھی مجاہدہ کرے گا اپنے ہی بھلے کے لیے کرے گا۔ اللہ یقینا دنیا جہان والوں سے بے نیاز ہے‘‘۔ (العنکبوت: ۲۔۶)
ہم جس تربیت کی بات کر رہے ہیں، وہ اس نوع میں داخل ہے اور وہ بھی جہاد ہی ہے۔
امام ابن قیمؒ نے سنت نبوی میں جہاد کے تیرہ مراتب بیان کیے ہیں۔ ان میں سے چار مراتب نفس کے خلاف جہاد کے بارے میں ہیں، دو شیطان کے خلاف جہاد کے بارے میں، تین ظلم و بدعت اور منکرات کرنے والوں کے خلاف جہاد کے بارے میںاور چار مراتب کفار کے خلاف جہاد کے بارے میں ہیں۔ کفار کے خلاف کے مراتب جہاد بالقلب، باللسان، بالمال اور بالنفس یا بالید ہیں۔ ان میں سے آخری مرتبے کو بعض اوقات مؤخر کیا جاتا ہے۔
امام ابن قیمؒ فرماتے ہیں:
چونکہ افضل جہاد یہ ہے کہ حق بات کہی جائے خواہ اس کے راستے میں کتنی سخت رکاوٹیں موجود ہوں، مثلاً یہ کہ آپ یہ کلمہ حق ایسے شخص کے سامنے ادا کریں جس کی طرف سے سزا اور تکلیف کا خطرہ ہو، اس وجہ سے انبیا علیہم السلام کا اس میں بڑا حصہ تھا، خصوصاً ہمارے نبیﷺ نے تو اس سلسلے میں جہاد کا پورا پورا حق ادا کیا۔
اور چونکہ نفس سے باہر خدا کے دشمنوں کے خلاف جہاد انسان کے اپنے نفس کے خلاف اللہ کی خاطر جہاد کی فرع ہے جیسا کہ نبیﷺ فرماتے ہیں: ’’مجاہد وہ ہے جو اللہ کی اطاعت میں اپنے نفس سے جہاد کرے اور مہاجر وہ ہے جو اللہ کی منع کی ہوئی چیزوں کو چھوڑ دے‘‘۔
اس وجہ سے نفس کے خلاف جہاد خارجی دشمنوں کے خلاف جہاد پر مقدم اور اس کے لیے بنیاد ہے۔ اب اگر ایک شخص پہلے اپنے نفس کے خلاف جہاد نہیں کرتا… کہ وہ کام کرے جس کا اسے حکم دیا گیا ہے اور وہ کام چھوڑ دے جن سے اس کو روکا گیا ہے، اور ان کے خلاف اللہ کی خاطر جنگ کرے… اس کے لیے یہ کیسے ممکن ہوگا کہ وہ خارجی دشمن کے خلاف جہاد کر سکے اور اس کے ساتھ انصاف بھی کرسکے درآں حالیکہ اس کے پہلو میں جو دشمن چھپا ہے وہ اس پر غالب اور مسلط ہے۔ اس کے خلاف اس نے کوئی جہاد نہیں کیا اور اللہ کی خاطر اس سے کبھی نہیں لڑا۔ بلکہ اس کے لیے تو بیرونی دشمن کی طرف جانا بھی اس وقت تک ممکن نہیں جب تک کہ اپنے نفس سے نکلنے ہی کے لیے جہاد نہ کرے۔
یہ دو دشمن تو ایسے ہیں جن کے خلاف جہاد کی آزمائش میں تو انسان پھنسا ہوا ہے۔ ان دونوں کے درمیان ایک تیسرا دشمن بھی ہے، جس کے خلاف جہاد کیے بغیر ان دونوں سے جہاد نہیں کیا جاسکتا۔ وہ ان دونوں کے سامنے کھڑا ہے اور ان کے خلاف جہاد کے بارے میں انسان کی حوصلہ شکنی کرتا رہتا ہے، اسے پسپا کرتا ہے، اسے خوفزدہ کرتا ہے اور مسلسل اس کے دل میں یہ خیال ڈالتا رہتا ہے کہ ان دونوں کے خلاف جہاد میں کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا، اسے کون کون سی سہولتوں سے محروم ہونا پڑے گا، اسے کون کون سی لذتیں چھوڑنی پڑیں گی، اس بنا پر اس تیسرے دشمن کے خلاف جہاد کے بغیر ان دونوں کے خلاف جہاد نہیں کر سکے گا۔ معلوم ہوا کہ اس کے خلاف جہاد ان پہلے والوں کے خلاف جہاد کی اصل ہے۔ یہ تیسرا دشمن شیطان ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’یقینا شیطان تمہارا دشمن ہے، تم بھی اس سے دشمنی کرو‘‘۔ (الفاطر:۶)
اس کو دشمن بنانے کا حکم اس بات پر تنبیہ ہے کہ اس کی دشمنی اور اس کے خلاف جنگ میں اپنی پوری قوت صَرف کرو۔ یہ ایسا دشمن ہے جو کبھی تھکتا نہیں ہے اور وہ ایک لمحے کے لیے بھی انسان کے خلاف دشمنی سے کوتاہی نہیں کرتا۔
یہ تین دشمن ہیں جن کے خلاف جہاد اور جنگ کا انسان کو حکم دیا گیا ہے۔ وہ اس دنیا میں ان کے خلاف جنگ کے ذریعے آزمائش میں ہے۔ یہ دشمن اس پر مسلط ہی اسی مقصد کے لیے ہیں کہ اس کی آزمائش کی جائے اور اس کا امتحان لیا جائے۔ ان کو آپس میں بھی ایک دوسرے کے لیے فتنہ بنایا ہے تاکہ وہ ان کے حالات جانچے۔ جو لوگ اللہ اور اس کے رسولوں کے دوست ہوتے ہیں ان کو شیطان اور اس کے حواریوں کے ذریعے آزمایا جاتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو حکم دیا ہے کہ ’’ان کے خلاف جہاد کرو، جیسا کہ جہاد کا حق ہے‘‘۔ اسی طرح اس نے یہ بھی حکم دیا ہے کہ ’’وہ اللہ سے ڈریں جیسا کہ ڈرنے کا حق ہے‘‘۔ حق کے ساتھ ڈرنے کا مطلب یہ ہے کہ اس کی اطاعت کی جائے اور اس کی نافرمانی نہ کی جائے، اسے یاد رکھا جائے اور بھلایا نہ جائے، اس کا شکر کیا جائے اس کی ناشکری نہ کی جائے۔ کماحقہ جہاد یہ ہے کہ آدمی اپنے نفس کے خلاف جہاد کرے تاکہ وہ اپنے دل، اپنی زبان اور اپنے اعضا کو اللہ کے سپرد کرے۔ اس طرح وہ سارا کا سارا اللہ کا ہو جائے گا اور اللہ کے ذمے ہو جائے گا۔ نہ اپنے نفس کے لیے ہوگا اور نہ اپنے نفس کے ذمے ہوگا۔
انسان کو چاہیے کہ وہ شیطان کے خلاف جہاد کرے: اس کے وعدوں کو جھٹلا کر، اس کی نافرمانی کرکے اور اس کی منع کی ہوئی چیزوں کا ارتکاب کرکے۔ کیوں کہ وہ لوگوں سے مختلف وعدے کرتا ہے، ان کو غرور دلاتا ہے، ان کو فقر سے ڈراتا ہے، بے حیائی کا حکم دیتا ہے اور تقویٰ و ہدایت سے، عفت اور صبر سے اور تمام ایمانی اخلاق سے روکتا ہے۔ پس جس نے اس سے جہاد کیا: اس کے وعدوں کو جھٹلا کر اور اس کے حکم کو نہ مان کر، اس میں ان دونوں جہادوں کے بدلے میں وہ قوت پیدا ہو جائے گی اور اسے وہ اختیار اور اقتدار حاصل ہوگا، جس کے ذریعے وہ اللہ کے خارجی دشمنوں سے بھی جہاد کر سکے گا، دل سے بھی، زبان سے بھی اور ہاتھ اور مال سے بھی، تاکہ اللہ کا کلمہ بلند ہو۔
امام ابن قیمؒ مزید فرماتے ہیں:
جب یہ معلوم ہوگیا تو اب جہاد کے چار مراتب ہیں: نفس کے خلاف جہاد، شیطان کے خلاف جہاد، کفار کے خلاف جہاد اور منافقین کے خلاف جہاد۔
٭ نفس کے خلاف جہاد کے بھی چار مراتب ہیں: ایک یہ ہے کہ ہدایت اور دینِ حق کی تعلیم پر مجبور کرکے اس کے خلاف جہاد کرے، کہ اس کے بغیر کوئی چارہ نہیں اور دنیا و آخرت میں سعادت بھی اس کے علاوہ ممکن نہیں۔ اگر ان چیزوں کا علم ہی آدمی حاصل نہ کرسکا تو وہ دنیا اور آخرت کی سعادت سے محروم ہوگیا۔ دوسرا یہ کہ سیکھنے کے بعد اسے عمل پر مجبور کرکے اس کے خلاف جہاد کیا جائے۔ کیونکہ عمل کے بغیر صرف علم اگر نقصان نہ دے تو نفع بھی نہیں دیتا۔ تیسرا یہ کہ اسے دعوت پر مجبور کرکے اس کے خلاف جہاد کیا جائے۔ ان لوگوں کو تعلیم دیں جو علم کی دولت سے محروم ہیں۔ اگر یہ کام نہیں کریں گے تو ہمارا شمار ان لوگوں میں ہوگا جو قرآن کے مطابق: ’’ان ہدایات اور بینات کو چھپاتے ہیں جو اللہ نے نازل کر دیے ہیں، اور اسے چھپاتے بھی اس وقت ہیں جبکہ اللہ تعالیٰ نے انہیں کتاب میں خوب واضح کیا ہے‘‘ (البقرہ: ۱۵۹) ایسے شخص کو اس کا علم نہ کوئی فائدہ دیتا ہے اور نہ اسے اللہ کے عذاب سے بچاتا ہے۔ چوتھا یہ کہ دعوت الیٰ اللہ کے راستے میں پیش آنے والی مشکلات پر مجبور کرکے اس کے خلاف جہاد کیا جائے۔ وہ لوگوں کی طرف سے پہنچنے والی تکالیف اللہ ہی کی خاطر برداشت کرے۔ اگر اس نے یہ چار مراتب پورے کر لیے تو وہ ربانیین میں شمار ہوگا۔ سلف کا اس بات پر اجماع ہے کہ کسی عالم کو اس وقت تک ربانی نہیں کہہ سکتے جب تک کہ وہ حق کو جان نہ لے، اس پر عمل نہ کرے اور دوسروں کو اس کی تعلیم نہ دے۔ جس نے سیکھا، عمل کیا اور اس کی تعلیم دی تو وہ ملکوت السماوات میں عظیم شمار ہوگا۔
٭ شیطان کے خلاف جہاد کے دو مرتبے ہیں: ایک جہاد ان شبہات کو دفع کرنا جو شیطان اس کے دل میں ڈالتا ہے اور جو ایمان کے لیے نقصان دہ ہوتے ہیں۔ دوسرا ان غلط ارادوں اور خواہشات کو دفع کرنا جنہیں شیطان اس کے لیے خوشنما بناتا ہے۔ ان میں پہلی قسم کا جہاد یقین کے اسلحے سے ہوگا اور دوسرا صبر کے اسلحے سے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’اور جب انہوں نے صبر کیا اور ہماری آیات پر یقین لاتے رہے تو ان کے اندر ہم نے ایسے پیشوا پیدا کیے جو ہمارے حکم سے رہنمائی کرتے تھے‘‘۔ (السجدہ: ۲۴)
اس میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ امامت فی الدین صبر اور یقین کی دولت کے بغیر حاصل نہیں کی جاسکتی۔ صبر خواہشات اور برے ارادوں کو دفع کرتا ہے اور یقین شکوک و شبہات کے پردے چاک کردیتا ہے۔
٭ کفار اور منافقین کے خلاف جہاد کے چار مراتب ہیں: دل سے، زبان سے، مال سے اور جان سے۔ کفار کے خلاف جہاد ہاتھ کے ساتھ مخصوص ہے اور منافقین کے خلاف جہاد زبان کے ساتھ۔
٭ ظلم و جبر اور بدعات و منکرات کے خلاف جہاد کے تین مراتب ہیں: ایک ہاتھ سے، جب قدرت ہو، اگر اس کی قدرت نہ ہو تو جہاد باللسان کی طرف آئے گا اور اگر اس سے بھی عاجز ہو تو پھر دل سے جہاد کرے گا۔ یہ جہاد کے تیرہ مراتب ہوگئے۔ اور نبیﷺ کا ارشاد ہے کہ: ’’جو اس حال میں مرا کہ اس نے نہ جہاد کیا نہ اپنے دل میں اس کا خیال لایا تو وہ نفاق کی ایک حالت میں مرا‘‘۔ (امام مسلم)
تربیت کی ترجیح کیوں!
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جہاد پر تربیت کی یہ ترجیح کیوں ہے؟ اس کو ہم چند نکات یا اسباب کی صورت میں واضح کرسکتے ہیں:
٭ پہلی بات یہ ہے کہ اسلام میں جہاد محض ایک جنگ نہیں ہے بلکہ یہ ایک خاص نیت کے ساتھ ایک خاص مقصد کے لیے جنگ ہے۔ یہ ’فی سبیل اللہ‘ جہاد ہے۔ نبیﷺ سے اس شخص کے بارے میں پوچھا گیا جو حمیت یعنی قومی عصبیت کے لیے جنگ کرتا ہے، اور اس شخص کے بارے میں جو اس لیے جنگ کرتا ہے کہ اس کا مرتبہ اونچا ہو، یعنی اسے بہادر سمجھا جائے اور اس شخص کے بارے میں جو غنیمت کے لیے جنگ کرتا ہے۔ پوچھا گیا کہ ان میں سے کون اللہ کی راہ میں ہے؟ تو نبیﷺ نے فرمایا: ’’جو شخص اس مقصد کے لیے لڑتا ہے کہ اللہ کاکلمہ بلند ہو وہ اللہ کی راہ میں ہے‘‘۔ (احمد۔ صحاح ستہ)
ہر دنیوی محرک سے پاک اس قسم کا جہاد بِلاوجہ حاصل نہیں ہوسکتا بلکہ اس کے لیے طویل تربیت کی ضرورت ہے تاکہ آدمی کا دین اللہ کے لیے خالص ہو اور اللہ تعالیٰ بھی اسے خالص اپنے دین کے لیے چُن لے۔
٭ دوسری بات یہ ہے کہ ایک مسلمان مجاہد دنیا میں جہاد کے جس پھل کی امید رکھتا ہے وہ فتح و نصرت اور اقتدار ہوتا ہے اور یہ اقتدار اس وقت تک اپنا پھل نہیں دیتا جب تک کہ وہ ایسے لوگوں کے ہاتھ میں نہ ہو جو مومنین صادقین ہوں، اقتدار کے مستحق ہوں اور اپنی ذمہ داریاں ادا کرتے ہوں۔ یہ وہی لوگ ہیں جن کا ذکر اللہ تعالیٰ نے ان الفاظ میں کیا ہے: ’’اللہ ضرور ان لوگوں کی مدد کرے گا جو اس کی مدد کریں گے۔ اللہ بڑا طاقتور اور زبردست ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہیں اگر ہم زمین میں اقتدار بخشیں تو وہ نماز قائم کریں گے، زکوٰۃ دیں گے، نیکی کا حکم دیں گے اور برائی سے منع کریں گے‘‘۔ (الحج:۴۰۔۴۱)
’’اللہ نے وعدہ فرمایا ہے تم میں سے ان لوگوں کے ساتھ جو ایمان لائیں اور نیک عمل کریں کہ وہ ان کو اسی طرح زمین میں خلیفہ بنائے گا، جس طرح ان سے پہلے گزرے ہوئے لوگوں کو بنا چکا ہے، ان کے لیے ان کے اس دین کو مضبوط بنیادوں پر قائم کر دے گا جسے اللہ نے ان کے حق میں پسند کیا ہے، اور ان کی (موجودہ) حالتِ خوف کو امن سے بدل دے گا، بس وہ میری بندگی کریں اور میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں۔
وہ لوگ جو تربیتی پختگی سے پہلے فتح اور اقتدار حاصل کرتے ہیں، وہ اصلاح کے مقابلے میں فساد زیادہ کرتے ہیں۔
٭ تیسری بات: اللہ کی سنت ہے کہ یہ اقتدار اس سے پہلے نہیں ملتا کہ اس کے علمبردار آزمائش کی بھٹی میں پگھلائے جائیں اور مشکلات اور تکلیفیں ان کو صیقل بنا دیں، تاکہ اللہ ان کے سینوں کو
آزمائے اور ان کے دل کے خیالات کی چھانٹی کرلے اور خبیث کو طیب سے الگ کرلے۔ یہ عملی تربیت کا ایک رنگ ہے جو ہر دور میں انبیا اور دوسرے داعیان کا طریق کار رہا ہے۔ امام شافعیؒ سے پوچھا گیا کہ ایک مومن کے لیے آزمائش اور اقتدار میں سے کون سی چیز بہتر ہے؟ انہوں نے جواب دیا: کیا آزمائش سے پہلے اقتدار ممکن بھی ہے؟
اللہ تعالیٰ نے حضرت یوسف علیہ السلام کو بھی پہلے آزمایا اور پھر اقتدار عطا فرمایا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’اس طرح ہم نے اس سرزمین میں یوسف کے لیے اقتدار کی راہ ہموار کی۔ وہ مختار تھا کہ اس میں جہاں چاہے اپنی جگہ بنائے‘‘۔ (یوسف:۵۶)
وہ اقتدار جو آسانی سے حاصل ہو اور اس کے ثمرات قریب میں حاصل ہوں اس کے بارے میں خطرہ ہوتا ہے کہ اسے لوگ ضائع کردیں یا اس کے ثمرات میں حد سے آگے بڑھیں۔ مگر معاملہ اس کے برعکس ہوگا، اگر وہ اس کے لیے اپنی جان، مال اور آرام و راحت کو قربان کردیں، اس کے راستے میں انہیں تکالیف اٹھانی پڑیں اور ان کو سختیاں جھیلنی پڑیں، یہاں تک کہ ان کو ہلا کر رکھ دیا جائے اور آخر کار اللہ کی نصرت آجائے۔
☼☼☼
Leave a Reply