
سرزمین کا اپنا بیٹا
سعودی عرب کے تقریباً ۵ ہزار سینئر شہزادوں کی طرح، ۳۱؍اگست ۱۹۸۵ء کو پیدا ہونے والے محمد بن سلمان باقی دنیا سے دور انتہائی پرتعیش اور مراعات سے بھرپور ماحول میں پلے بڑھے۔ اپنے باقی ۱۳؍بہن بھائیوں کی طرح ان کا بچپن بھی پہرے داروں کے سائے میں ریاض میں واقع شاہی محل میں گزرا۔ محل میں ان کا ہر حکم اور فرمائش پوری کرنے کے لیے ملازموں، خانساموں، ڈرائیوروں اور دیگر غیر ملکی ملازمین کی ایک فوج ہر وقت موجود تھی۔
۱۹۹۰ء کی دہائی کے وسط میں محمد بن سلمان کو جن اساتذہ نے ٹیوشن پڑھائی، ان میں رشید سکئی بھی شامل ہیں، جو آج کل بی بی سی میں کام کرتے ہیں۔ رشید سکئی بتاتے ہیں کہ انھیں اچھی طرح یاد ہے کہ کیسے روزانہ ایک شاہی ڈرائیور محل کی گاڑی میں انہیں لینے آیا کرتا تھا۔ بی بی سی عربی سروس سے بات کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ محل کے سخت پہرے والے مرکزی دروازے سے گزرنے کے بعد ایسے شاندار بنگلوں کا سلسلہ شروع ہو جاتا کہ آپ کا منہ کھلا کا کھلا رہ جائے۔ سفید وردی میں ملبوس ملازم ان بنگلوں کے سامنے لگی گھاس اور پودوں کی باریکی سے تراش خراش کرتے دکھائی دیتے۔ وہاں ایک کار پارک بھی تھا جس میں قطار در قطار دنیا کی مہنگی ترین گاڑیاں کھڑی ہوتی تھیں۔
محمد بن سلمان کو پڑھانے والے کچھ اساتذہ کا کہنا تھا کہ وہ ایک ذہین شاگرد تھے، جو ہمیشہ بڑی توجہ کے ساتھ نوٹس بناتے تھے، لیکن رشید سکئی کے خیال میں شہزادے کا دھیان سبق سے زیادہ محل کے محافظوں کے ساتھ وقت گزارنے میں ہوتا۔ ’لگتا ہے کہ انھیں اس بات کی اجازت تھی کہ وہ جو جی میں آئے کریں‘۔
ان جیسے دیگر شہزادوں کی طرح جب والد نے محمد بن سلمان کو پڑھائی کے لیے امریکا یا برطانیہ جانے کی پیشکش کی تو شہزادے نے انکار کر دیا۔ اس کے برعکس انھوں نے سعودی عرب کی کِنگ سعود یونیورسٹی جانے کا فیصلہ کیا، جہاں سے انھوں نے قانون میں بیچلر کی ڈگری حاصل کی۔ کئی مبصرین کہتے ہیں کہ شہزادے کے اس فیصلے نے ان کی مدد بھی کی اور یہی فیصلہ ان کی راہ میں رکاوٹ بھی ثابت ہوا۔
سعودی لوگ بہت زیادہ محب وطن ہوتے ہیں، اور چونکہ محمد بن سلمان نے اپنی ساری زندگی ملک کے اندر گزاری ہے، اس لیے لوگ انھیں ’وطن کا بیٹا‘ سمجھتے ہیں۔ لیکن اس کا نقصان یہ ہوا کہ کئی سال تک ایم بی ایس کی انگریزی کمزور رہی اور ان میں دیگر شہزادوں کے برعکس آج تک کبھی مغربی ذہنیت کی گہری فہم پیدا نہیں ہو پائی ہے۔
ایک ایسے ملک میں جہاں مردوں کے لیے چار بیویاں رکھنا کوئی غیر معمولی بات نہیں، ایم بی ایس نے ایک ہی اہلیہ پر اکتفا کیا ہے۔ انھوں نے ۲۰۰۹ء میں اپنی کزن شہزادی سارہ بنت مشور بن عبدالعزیز سے شادی کی، جن سے اب ان کے دو بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں۔ اور جہاں تک ایم بی ایس کے اپنے بیوی بچوں کا تعلق ہے، تو انھوں نے اپنے خاندان کو لوگوں کی نظروں سے مکمل طور پر مخفی رکھا ہے۔
یہاں یہ سوال اٹھتا ہے کہ وہ سعودی شاہی خاندان کے ہزاروں افراد میں سے، اور قانون کے ایک گمنام طالب علم سے دیکھتے ہی دیکھتے اتنے زیادہ طاقتور ولی عہد کیسے بن گئے؟
اس سوال کا جواب شاطرانہ سیاست، ان کے والد کی خاص مہربانی اور خود محمد بن سلمان کے کردار کی بے پناہ قوت کے امتزاج میں ملتا ہے۔
ابھی محمد بن سلمان صرف ۲۳ برس کے تھے اور انھوں نے اپنی جماعت کے اچھے طالبعلموں کی طرح اپنی ڈگری مکمل ہی کی تھی، کہ ان کے والد نے انھیں بڑے عہدے کے لیے تیار کرنا شروع کر دیا۔
ایم بی ایس نے اپنے والد کے دفتر میں کام شروع کر دیا، جہاں وہ ریاض کے گورنر کی حیثیت میں اپنے والد سے کام سیکھنے لگے۔ اس دوران شہزادے نے بڑی توجہ سے سیکھا کہ شہزادہ سلمان جھگڑوں کا تصفیہ کیسے کرتے ہیں، مختلف فریقوں کے تنازع میں درمیانی راہ کیسے نکالتے ہیں اور یوں انھوں نے سعودی ریاست کو چلانے کے گُر سیکھنا شروع کر دیے۔
پھر جب ۲۰۱۳ء میں ایم بی ایس صرف ۲۷ سال کے تھے تو انھیں ولی عہد کے دربار کا سربراہ بنا دیا گیا، جس کا مطلب یہ تھا کہ ان پر سعودی عرب میں طاقت اور اثر ورسوخ کے دروازے کھول دیے گئے اور پھر اگلے ہی سال انھیں ترقی دے کر کابینہ میں وزیر کا عہدہ دے دیا گیا۔ ۲۰۱۵ء آیا تو ایم بی ایس کے اثرو رسوخ میں نہایت تیزی سے اضافہ ہونے لگا۔
جب جنوری ۲۰۱۵ء میں شاہ عبداللہ کا انتقال ہوا تو ان کا جانشین خاندان کی طاقتور سدیری شاخ سے تعلق رکھنے والے ان کے سوتیلے بھائی سلمان کو بنا دیا گیا۔ جب نئے بادشاہ نے اقتدار سنبھالا تو اس وقت وہ ۸۰ برس کے ہونے والے تھے۔
شاہ سلمان کے لاڈلے بیٹے محمد کو بہت جلد نہ صرف وزیر دفاع مقرر کر دیا گیا بلکہ شاہی دربار کا سیکرٹری جنرل بھی بنا دیا گیا۔
اس وقت سعودی عرب کو اپنی جنوبی سرحد پر بڑھتی ہوئی کشیدگی کا سامنا تھا۔ سرحد پار یمن کے شمالی پہاڑی علاقے سے تعلق رکھنے والے حوثی قبیلے کا ایک گروہ آگے بڑھتا ہوا دارالحکومت صنعا تک پہنچ چکا تھا، جبکہ ملک کے زیادہ آبادی والے تمام مغربی علاقے منتخب صدر اور ان کی حکومت کی گرفت میں تھے۔
ایران کے ساتھ حوثیوں کے نظریاتی اور مذہبی تعلقات نے سعودی عرب کی نیندیں اڑا دیں۔ اور کئی اہم شہزادوں سے بات کیے بغیر اور سعودی اتحادیوں کو خبردار کیے بغیر، مارچ ۲۰۱۵ء میں محمد بن سلمان نے آؤ دیکھا نہ تاؤ ۱۰؍ممالک کا اتحاد بنا کر حوثیوں کے خلاف فضائی بمباری شروع کر دی۔
سرکاری سطح پر سعودی عرب کی توجیہہ یہ تھی کہ وہ یمن میں اس حکومت کو بحال کرنا چاہتا ہے، جسے اقوام متحدہ بھی تسلیم کر چکی تھی، تاہم اپنے جس مقصد کا سعودی عرب نے اقرار نہیں کیا وہ ایران کو یہ واضح پیغام پہنچانا تھا کہ سعودی عرب اپنی شمالی سرحد پر ایسے کسی گروہ کا قبضہ برداشت نہیں کرے گا، جسے ایران کی پشت پناہی حاصل ہو۔
سعودی عرب کا خیال تھا کہ یمن میں فوجی کارروائی سوویت یونین کے زمانے کے چھوٹے موٹے ہتھیار رکھنے والے بے سرو سامان جنگجوؤں کے ایک گروہ کے خلاف فوری اور فیصلہ کن کارروائی سے زیادہ نہیں ہوگی۔ لیکن ہوا اس کے برعکس، یمن کی لڑائی ایک ایسا دلدل ثابت ہو رہی ہے، جہاں نہ صرف سعودی خون اور سرمایہ ضائع ہو رہا ہے بلکہ اس سے یمن بھی تباہ ہو رہا ہے۔
زمینی حالات کو دیکھا جائے تو ابھی تک سعودی قیادت میں قائم فوجی اتحاد کو یمن میں کوئی خاص کامیابی نہیں ملی ہے۔ آج تقریباً پانچ سال گزر جانے کے بعد یمن جنگ کی وجہ سے ٹکڑے ٹکڑے ہو چکا ہے اور ہزاروں لوگ مارے جا چکے ہیں۔ وہاں غذائی قلت، ہیضہ اور دیگر امراض وبائی شکل اختیار کر چکے ہیں اور تقریباً دو کروڑ لوگ، یعنی ملکی آبادی کا دو تہائی حصہ، عالمی امداد کا طلبگار بن چکا ہے۔ لیکن سرحد کے دوسری طرف، سعودی عرب کے اندر محمد بن سلمان کی مقبولیت میں اس وقت تیزی سے اضافہ ہوگیا، جب انھوں نے یمن پر چڑھائی کا آغاز کیا۔ ایم بی ایس کے پاس کسی قسم کا کوئی فوجی تجربہ نہیں تھا، لیکن سعودی ٹی وی پر انھیں ایک ایسے ’مجاہد شہزادے‘ کے طور پر دکھایا گیا جو فیصلہ سازی کی قوت سے مالا مال ہے اور ہر قدم ملکی مفاد میں اٹھا رہا ہے۔
شروع شروع میں مغربی ممالک بھی ایم بی ایس کے اقدامات کے زبردست حامی تھے۔ امریکا نے سعودی عرب کو خفیہ معلومات کے ساتھ ساتھ عسکری ساز و سامان بھی فراہم کیا جبکہ برطانیہ نے تکنیکی مدد کے علاوہ سعودی افواج کو ان آلات اور عسکری ساز و سامان کو استعمال کرنے کی تربیت اور معاونت بھی فراہم کی، جو برطانوی اسلحہ ساز کمپنی بی اے ای سسٹمز نے سعودی عرب کو فروخت کیے تھے۔ اس کے علاوہ برطانیہ کی رائل ایئر فورس کے دو اسکواڈرن لیڈر بھی ریاض میں قائم اتحادی فضائی آپریشنز کے مرکز میں تعینات کیے گئے، جن کا کام سعودیوں کے نشانے کرنے کے طریقہ کار کی نگرانی کرنا تھا، اگرچہ برطانوی وزارتِ دفاع کا اصرار ہے کہ انھوں نے اہداف منتخب نہیں کیے۔
سعودی فضائیہ کی بمباری اکثر و بیشتر خامیوں سے بھرپور پائی گئی ہے۔ ان حملوں میں عسکری اہداف کو نشانہ بنانے کے ساتھ ساتھ، کئی اسپتالوں، جنازوں، رہائشی علاقوں اور اسکول کی بسوں کو اڑا کر رکھ دیا گیا۔ اقوام متحدہ کے اندازے کے مطابق یمن میں ہلاک ہونے والے عام شہریوں میں اکثریت ایسے افراد کی ہے جو سعودی اتحاد کی فضائی بمباری میں مارے گئے۔ سعودی عرب پر یہ الزام بھی ہے کہ اس نے غیر فوجی علاقوں پر کلسٹر بم بھی پھینکے ہیں۔ دوسری جانب حوثیوں پر بھی جنگی جرائم کے ارتکاب کے الزامات ہیں، جن میں بغیر سوچے سمجھے بارودی سرنگیں بچھانا، کم عمر لڑکوں کو سپاہی بھرتی کرنا، گھروں پر بمباری اور متاثرین کے لیے آنے والی امداد کو اپنے قبضے میں لینا شامل ہے۔ سعودی عرب کا کہنا ہے کہ ستمبر ۲۰۱۹ء تک حوثی سرحد پار سے نہ صرف ۲۶۰ سے زیادہ بیلسٹک میزائل داغ چکے بلکہ ۵۰ دھماکا خیز ڈرونز بھی بھیج چکے ہیں۔ تاہم یہ حملے سعودی قیادت میں قائم فوجی اتحاد کی فضائی طاقت کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مغربی ممالک میں لوگ ایمنسٹی انٹرنیشنل جیسی انسانی حقوق کی تنظیموں کی آواز میں آواز ملا رہے ہیں، جو یمن میں ہونے والی ہلاکتوں کو منظر عام پر لا رہی ہیں۔
پانچ برس کے اندر اندر یمن کی صورت حال دنیا کے سب سے بڑے انسانی بحران کی شکل اختیار کر چکی ہے۔
طاقت اور اس کا اظہار
۲۰ جون ۲۰۱۷ء کو مکہ میں شاہی محل کے سنہری در و دیوار کے پیچھے کچھ ایسا ہوا جس نے سعودی تاریخ کے دھارے کو تبدیل کر دیا۔ شاہ سلمان نے اس وقت کے ولی عہد محمد بن نائف کو طلب کر کے حکم دیا کہ وہ اپنے سے کہیں کم عمر کزن ایم بی ایس کے حق میں دستبردار ہو جائیں۔
تجربہ کار محمد بن نائف برسوں تک معاملات کو نہایت مہارت سے چلاتے رہے تھے۔ ۲۰۰۰ء کے عشرے میں جب وہ انسداد دہشت گردی (کے محکمے) کے سربراہ تھے تو انھوں نے نہایت کامیاب حکمت عملی اپنائی، جس کی بدولت ملک میں القاعدہ کی خطرناک شورش کو شکست دی گئی۔ امریکیوں کو بھی ان پر اعتبار تھا اور وہ محمد بن نائف کو پسند بھی کرتے تھے۔ اگرچہ وہ کبھی بھی متحرک شخصیت کے مالک نہیں تھے، تاہم سب لوگ یہی سمجھتے تھے کہ شاہ سلمان کے بعد محمد بن نائف ہی تخت نشین ہوں گے۔ لیکن سننے میں یہ آتا تھا کہ وہ ابھی تک اس ناکام قاتلانہ حملے کے اثرات سے باہر نہیں نکل پائے جب ۲۰۰۹ء میں القاعدہ کا ایک خود کش بمبار اس کمرے کے اندر پہنچنے میں کامیاب ہو گیا تھا جہاں محمد بن نائف موجود تھے۔
سعودی عرب میں بادشاہ کا حکم حرف آخر ہوتا ہے اور اس پر کسی قسم کی نہ بحث کی جا سکتی ہے، نہ مزاحمت۔ چنانچہ تب سے محمد بن نائف عوامی زندگی سے مکمل طور پر غائب ہو چکے ہیں۔ یوں محمد بن سلمان اور ان کے والد ایک سینئر شہزادے کو اتنے زبردست طریقے سے راستے سے ہٹانے میں کامیاب ہو گئے کہ نہ کسی کو آنچ آئی نہ کوئی خون بہا۔
ملک کو نئے خطوط پر استوار کرنے کے خواہش مند محمد بن سلمان نے فوراً ہی اقتدار پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کے لیے کام شروع کر دیا۔
۴ نومبر ۲۰۱۷ء کی شام تقریباً ۲۰۰ نمایاں شہزادوں، کاروباری شخصیات اور دیگر اہم لوگوں کی گرفتاری کے احکامات جاری کر دیے گئے۔ ان لوگوں پر نہ کوئی الزامات عائد کیے گئے، نہ جیل بھیجا گیا، بلکہ ان سب کو ریاض کے پرتعیش رٹز کارلٹن ہوٹل میں محصور کر دیا گیا۔ کچھ افراد کو تو یہاں کئی ماہ تک محصور رکھا گیا۔
اس ساری کارروائی کا مقصد بدعنوانی کی بیخ کنی بتایا گیا، اور ہوٹل کے ان نئے ’مہمانوں‘ کو حکم دیا گیا کہ وہ اپنی آزادی کی قیمت کے طور پر مبینہ طور پر غیر قانونی ذرائع سے کمائے گئے اربوں ریال واپس کریں۔ لیکن ایم بی ایس کے ناقدین کہتے ہیں کہ ان لوگوں کو حراست میں لینے کی وجہ بدعنوانی نہیں تھی، بلکہ ایم بی ایس طاقت کے اس برہنہ اظہار کے ذریعے ہر اس شخص کو خاموش کر دینا چاہتے تھے، جو انھیں چیلنج کرنے کا سوچ سکتا تھا۔
اس کارروائی کے ساتھ ساتھ ایم بی ایس نے وفات پا چکے شاہ عبداللہ کے کبھی طاقتور رہ چکے خاندان کی شاخ سے تعلق رکھنے والے سینئر شہزادوں کے خلاف بھی اقدامات کیے۔
تب سے وہ ملکی دفاع اور سیکورٹی کے تینوں محکمے یعنی نیشنل گارڈ، وزارتِ داخلہ اور فوج کو اپنے کنٹرول میں لا چکے ہیں۔ بظاہر ایم بی ایس اب فیصلہ کن قوت رکھتے ہیں۔
بڑی بڑی شخصیات کو پکڑ کر رٹز کارلٹن میں بند کر دینے نے کاروباری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا اور غیر ملکی سرمایہ کاروں کو بھی پریشان کر دیا۔ اب لوگوں کو کیسے معلوم ہو کہ سعودی عرب میں کس شخص کے ساتھ کاروبار کرنا محفوظ ہے؟ اگلا گرفتار کیے جانے والا شخص کون ہوگا؟
اس بے یقینی کے باوجود سعودی لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے ایم بی ایس کی ان کارروائیوں کو بہت سراہا۔ سعودی عرب دنیا میں تیل برآمد کرنے والا سب سے بڑا ملک ہوسکتا ہے لیکن اس کی ایک بڑی آبادی، خاص طور پر ملک کے جنوبی حصے کے شہری غربت کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ اسی لیے جب لوگوں نے یہ مناظر دیکھے کہ محمد بن سلمان نے کس طرح ان تاجروں اور شہزادوں کو ’ہلا کر‘ رکھ دیا جنھیں کوئی ہاتھ نہیں لگا سکتا تھا، تو ملک کے اندر ایم بی ایس کے حامیوں میں مزید اضافہ ہو گیا۔
ایک اور چیز جس سے ملک کے اندر ان کی مقبولیت میں اضافہ ہوا، وہ ایم بی ایس کی وہ کوششیں ہیں، جن کے تحت وہ تیل سے آمدن کے علاوہ دیگر معاشی شعبوں کو بھی ترقی دے رہے ہیں۔ ایم بی ایس نے معیشت میں تنوع پیدا کرنے کے لیے سعودی عرب کو ایک ایسا ملک بنانے کی کوشش کی ہے جہاں زیادہ سے زیادہ سرمایہ کاری ہو اور کم تنخواہ پر کام کرنے والے لاکھوں سعودی نوجوانوں کو روزگار کے اچھے مواقع ملیں۔
ایم بی ایس کا ’وژن ۲۰۳۰ء‘ منصوبہ نہایت پرعزم ہے۔ اس پروگرام میں مستقبل قریب کا ایک ایسا تصور پیش کیا گیا ہے، جس میں سعودی عرب یورپ، ایشیا اور افریقا کو جوڑنے والا عالمی مرکز بن جائے گا۔
وژن ۲۰۳۰ء میں تفریح کے شعبے کو فروغ دینے کے لیے ۶۴؍ارب ڈالر کا ایک منصوبہ بھی شامل ہے، جبکہ سیاحت کے شعبے میں روزگار کے دس لاکھ نئے مواقع پیدا کرنے کا منصوبہ بھی ہے۔ لیکن باقی چیزوں کی طرح وژن ۲۰۳۰ء کے اہداف پر بھی جمال خاشقجی کے قتل کے سائے لہرا رہے ہیں۔ مثلاً، کچھ غیر ملکی سرمایہ کاروں نے سعودی عرب میں اپنی سرمایہ کاری اس خوف سے کم یا منسوخ کر دی ہے کہ کہیں ان کا نام اس شخص کے ساتھ نہ منسلک ہوجائے جو اب بھی اس قتل کے سلسلے میں بین الاقوامی سطح پر مشکوک ہے۔
لیکن اس کے باوجود وژن ۲۰۳۰ء پر عمل جاری ہے اور اس میں ایک شاندار معاشی مستقبل کا منصوبہ بھی شامل ہے، جسے ’نیوم‘ کا نام دیا گیا ہے۔ یہ نیوم مستقبل کا مخفف ہے، جس کے معنی ہیں ایک ’جدید مستقبل‘۔
سعودی عرب کے شمال مشرقی کونے میں جہاں بحیرہ احمر کا نیم گرم پانی مصر، اردن اور اسرائیل کے ساحلوں کو چھوتا ہے، وہاں ۲۱ویں صدی کے تقاضوں سے ہم آہنگ ایک بہت بڑا شہر بسانے کا منصوبہ بھی اس میں شامل ہے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ جہاں آج تیز صحرائی ہواؤں سے بکھرتی ریت اور سیاہ چٹانیں ہیں، جہاں پہلی عالمی جنگ کے دوران تھامس ایڈورڈ لارنس (لارنس آف عریبیہ) اور عرب فوج اپنے اس وقت کے ترک دشمنوں سے نبرد آزما تھی، عین اس جگہ پر ۵۰۰؍ارب ڈالر کے تعمیراتی منصوبے کو عملی جامہ پہنایا جائے گا، جو سرحد کے آر پار ۲۶ ہزار مربع کلومیٹر پر پھیلا ہوگا۔ نیوم نامی یہ شہر اتنا جدید ہوگا کہ وہاں ہر طرف ڈرونز اڑ رہے ہوں گے، ڈرائیور کے بغیر چلنے والی کاریں ہوں گی، آپ کا ہاتھ بٹانے کے لیے قسم قسم کے روبوٹ ہوں گے، مصنوعی ذہانت کا دور دورہ ہوگا، شمسی توانائی سے لیس ماحول دوست مکان ہوں گے، بائیوٹیکنالوجی ہوگی اور ’انٹرنیٹ آف تھنگز‘ یعنی چیزوں کا انٹرنیٹ بھی ہوگا۔
حکومت کے مطابق یہ شہر ۲۰۲۵ء تک معرض وجود میں آ چکا ہوگا، لیکن کچھ ماہرینِ معاشیات کو ان اندازوں پر شک ہے۔ ان میں سے ایک ماہر کا کہنا ہے کہ ’نہیں، یہ بالکل بھی حقیقی نہیں ہے۔ نیوم ہمیشہ سے ایک خواب رہا ہے اور یہ خواہشات اور حقیقت کے درمیان فاصلہ کا عکاس ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ خود محمد بن سلمان دنیا کو کس نظر سے دیکھتے ہیں‘۔ لیکن اس کے باوجود ایک شخص نے مجھے بتایا کہ ایم بی ایس اتنے زیادہ پراعتماد ہیں کہ ان کے خیال میں یہ شہر ٹیکنالوجی کی دنیا میں امریکی ریاست کیلیفورنیا کے شہر پالو آلٹو کا ہم پلہ ہوگا جو ٹیکنالوجی کا مرکز ہے۔
جہاں تک کسی منصوبے کے تحت نئے شہر بسانے کا تعلق ہے، تو سعودی عرب کا اس حوالے سے کوئی شاندار ریکارڈ نہیں رہا ہے۔
خلیج میں مقیم ایک ماہر معاشیات کے بقول ’آپ کنگ عبداللہ اکنامک سٹی کی ہی مثال لے لیں۔ منصوبے کے مطابق ۲۰۲۰ء تک اس شہر کی آبادی ۲۰ لاکھ ہونا تھی، لیکن ابھی تک یہاں صرف ۸ ہزار لوگ آباد ہوئے ہیں۔ اس لیے میرا جواب نفی میں ہوگا، وہ اپنے اس اقتصادی خواب کو عملی شکل نہیں دے سکتے‘۔
اس کے باجود نیوم کا شہر ممکنہ طور پر تعمیر ہوگا، لیکن اس پر کام کی رفتار سست رہے گی۔ اس حوالے سے ابھی بہت کچھ داؤ پر لگا ہوا ہے۔ کیا یہ شہر غیر ملکی سرمائے کو اپنی جانب کھینچ سکتا ہے اور کیا یہاں روزگار کے بہت زیادہ موقع پیدا ہو جائیں گے، ان اندازوں پر ابھی بہت بڑے سوالات موجود ہیں۔‘
اس سب کا نتیجہ
ستمبر ۲۰۱۸ء میں برطانیہ کے موجودہ وزیر اعظم بورس جانسن نے سعودی عرب کا دورہ کیا تھا، جس پر خرچ ہونے والے ۱۴؍ہزار پاؤنڈ ان کے سعودی میزبانوں نے ادا کیے تھے۔ یہ تمام اخراجات پارلیمان کے سامنے پیش کیے گئے تھے۔ جانسن کو اس دورے کے بارے میں پہلے سے کوئی اطلاع نہیں تھی، لیکن یہ دورہ جمال خاشقجی کے قتل سے صرف دو ہفتے پہلے ہوا تھا۔
ان سے پہلے سعودی عرب میں حقوق کے لیے سرگرم کارکنوں کی گرفتاریوں کے بارے میں غیر ملکی ذرائع ابلاغ میں خبریں کم ہی دکھائی دیتی تھیں اور مغربی رہنماؤں میں ایم بی ایس کی شہرت بہت اچھی تھی۔ اس کے بعد کے حالات میں، بورس جانسن کے دورہ سعودی عرب کے بارے میں شاید سوچا بھی نہیں جا سکتا تھا۔ اور اب حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ وہ مغربی ممالک جہاں ایم بی ایس کو سعودی عرب میں معاشرتی تبدیلیوں کا بہت بڑا علمبردار سمجھا جاتا تھا، اب وہاں کم از کم عوامی سطح پر تو ایم بی ایس کو کافی برا سمجھا جاتا ہے۔
کئی دیگر مبصرین کی طرح نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ایک خلیجی مبصر کا کہنا تھا کہ خاشقجی کے قتل نے سعوی عرب کو ’قاتلوں کے کلب‘ میں شامل کر دیا ہے۔ بظاہر اس واقعے نے ایم بی ایس کو قذافی، صدام حسین اور بشارالاسد کی صف میں لاکھڑا کیا ہے اور یہ وہ کلب ہے جس میں سعودی عرب کو اس سے پہلے کبھی بھی شامل نہیں کیا جاتا تھا‘۔
نجی سطح پر سعودی عرب کے ساتھ بہت سے لوگ کاروبار کر رہے ہیں کیونکہ سعودی عرب کی معیشت بہت بڑی ہے اور یہ ملک اتنے پرکشش ٹھیکے دیتا ہے کہ مغربی تاجر ان سے انکار نہیں کر سکتے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ابھی تک سعودی عرب کے پکے اتحادی ہیں۔
امریکی کانگریس سعودی عرب کو کئی ارب ڈالر کا اسلحہ فروخت کرنے کے معاہدے کو روکنے کی ناکام کوشش کر چکی ہے، لیکن اسے اس میں کامیابی نہیں ملی۔ صدر ٹرمپ نے کانگریس کی اس کوشش کو معاشی اور اسٹریٹیجک بنیادوں پر رد کر دیا تھا۔
سعودی مارکیٹ کی وسعت، اور ایران کے توسیع پسندانہ اقدامات کے خلاف اسے ایک مضبوط بند سمجھے جانے کا مطلب ہے کہ مغربی رہنما سعودی عرب پر تنقید ہمیشہ نرم الفاظ میں ہی کریں گے۔ لیکن اس کے باوجود مغربی ممالک کی طرف سے سعودی عرب میں انسانی حقوق کی صورتحال پر تنقید کی وجہ سے ریاض میں اضطراب پیدا ہو چکا ہے۔ اسی لیے سعودی عرب نے صورت حال پر قابو پانے کی کوششیں شروع کر دی ہیں۔ مثلاً شہزادی ریما بنت بندر السعود کو امریکا میں سعودی عرب کا سفیر تعینات کیا گیا ہے، جو نہ صرف ملک کی پہلی خاتون سفیر ہیں بلکہ ایک ایسی نفیس کاروباری شخصیت ہیں، جو کئی سال تک امریکا میں مقیم رہی ہیں۔
یوں اس دارالحکومت میں جہاں ارکان کانگریس اور دیگر لوگ امریکا اور سعودی عرب کی شراکت داری کے جواز پر سوال اٹھا رہے ہیں، وہاں عوامی سطح پر سعودی سفارت کاری کی شناخت ایک تجربہ کار اور پراعتماد خاتون کو بنا دیا گیا ہے۔ لیکن سعودی عرب روس، چین اور پاکستان کے ساتھ شراکت کے امکانات کا بھی بڑی مستعدی سے جائزہ لے رہا ہے۔ یہ ممالک سعودی عرب میں انسانی حقوق کے حوالے سے کبھی ایسے سوالات نہیں اٹھاتے جن پر اسے خفت کا سامنا کرنا پڑے۔
گزشتہ ۱۲ ماہ کے دوران امریکی انٹیلی جنس حکام اور اقوام متحدہ کی خصوصی نمائندہ ایگنس کیلامارڈ سمیت کئی سخت بیانات اور الزامات منظر عام پر آ چکے ہیں، جن سے یاد دہانی ہوتی ہے کہ مغربی دنیا کے نزدیک جمال خاشقجی کے قتل کا حکم ذاتی طور پر ایم بی ایس نے ہی دیا تھا۔ ایگنس کا اصرار ہے کہ آخر کار اس قتل کا ذمہ ایم بی ایس کو ہی ٹھہرایا جانا چاہیے۔
لیکن ملک کے اندر محمد بن سلمان کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ ایک مبصر کے بقول ’آپ ۱۶ سے ۲۵ سال کے درمیان کے کسی شخص سے بات کر کے دیکھ لیں، یہ سب انھیں ایک ہیرو سمجھتے ہیں۔ ایم بی ایس نے جو معاشرتی تبدیلیاں کی ہیں اور جس طرح مذہبی بنیاد پرستوں کی طاقت کو ختم کر رہے ہیں، یہ چیزیں نوجوانوں کو بہت اچھی لگ رہی ہیں‘۔
اس بات کے اشارے بہت کم ہیں کہ ایم بی ایس کی قیادت میں سعودی عرب میں جمہوریت کے حوالے سے کوئی حقیقی اقدامات کیے جائیں گے۔ تنقید تو دور کی بات ہے، اگر آپ حکمران خاندان اور اس کی پالیسی کے بارے میں کھلے بندوں بات بھی کریں تو آپ کو جیل میں ڈال دیے جانے کا خطرہ ہو سکتا ہے۔
کئی برسوں سے ایم بی ایس کو اپنے والد، شاہ سلمان کی مکمل حمایت اور سرپرستی حاصل رہی ہے، اور محمد بن سلمان کی حکمرانی کو بظاہر کسی طرف سے کوئی خطرہ نہیں ہے۔
ایم بی ایس کے اپنے دربار کے حلقے میں بھی یہی تاثر پایا جاتا ہے کہ مغرب میں جمال خاشقجی کے قتل میں ایم بی ایس کے مبینہ کردار کے حوالے سے جو ہنگامہ برپا ہے، ایک دن وہ بھی ختم ہو جائے گا۔ شاید ان لوگوں کا خیال درست ہی ہے۔
دیکھا جائے تو کئی اعتبار سے سعودی عرب ایم بی ایس کی ذات ہی ہے۔ وہ کوئی جمہوری شخص نہیں ہیں اور نہ ہی کوئی مصلح، بلکہ اکثر لوگوں کے خیال میں وہ ایک ڈکٹیٹر ہیں اور ۳۴ سالہ ایم بی ایس یہ بات جانتے ہیں کہ جب موجودہ بادشاہ کا انتقال ہو گا تو مشرق وسطیٰ کے سب سے بڑے ملک کی باگ ڈور ان کے ہاتھ میں آ جائے گی، ایک آدھ عشرے کے لیے نہیں، بلکہ اگلے ۵۰ برس کے لیے۔
(بشکریہ: ’’بی بی سی اردو ڈاٹ کام‘‘۔ ۱۴؍اکتوبر ۲۰۱۹ء)
Leave a Reply