
عام طور پر ایم بی ایس “MBS” کے نام سے مشہور سعودی ولی عہد محمد بن سلمان سعودی عرب جیسے انتہائی قدامت پسند معاشرے کو بدلنے اور جدید خطوط پر استوار کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
لیکن دوسری طرف انھوں نے سعودی عرب کو یمن کی جنگ میں جھونکا اور حقوق کے لیے مظاہرے کرنے والی خواتین، مذہبی علماء اور بلاگرز کو قید کروایا۔ بہت سے لوگ اس بات پر بھی یقین رکھتے ہیں کہ گذشتہ سال سعودی حکومت کے نقاد صحافی جمال خاشقجی کے استنبول میں قتل میں بھی ان کا ہاتھ ہے۔
تو آخر ایم بی ایس کہلانے والے یہ شخص کون ہیں؟
’چپ چاپ نوٹس لینے والا لڑکا‘
ستمبر ۲۰۱۳ء میں جدہ کی چلچلاتی دھوپ میں شاہی محل کے گارڈز نے مضبوط آہنی دروازوں سے آتی ہوئی ہماری گاڑی کو اندر جانے دیا۔ اس وقت کے عمر رسیدہ ہو چکے سعودی ولی عہد اور وزیرِ دفاع سلمان بن عبدالعزیز سے ملنے کا وقت لینے کے لیے ہمیں کئی دن انتظار کرنا پڑا تھا۔
کئی سال پہلے ۲۰۰۴ء میں شہزادہ سلمان ریاض کے گورنر تھے، جب ہماری بی بی سی کی ٹیم پر حملہ ہوا۔ مجھے چھے گولیاں مار کر مرا ہوا سمجھ کر چھوڑ دیا گیا جبکہ میرے آئرش کیمرہ مین سائمن کمبرز کو ہلاک کر دیا گیا۔ مجھے بعد میں بتایا گیا کہ شہزادہ سلمان نے اسپتال میں میری عیادت کی تھی، لیکن مجھے اس کا کوئی علم نہیں کیونکہ میں اس وقت ہوش میں نہیں تھا۔
آج سلمان بادشاہ ہیں اور ان کی صحت بھی کوئی اچھی نہیں۔ ۲۰۱۳ء میں بھی میں نے یہ بات نوٹ کی تھی کہ جب ہم محل کے استقبالیہ کمرے میں شاندار سنہری کرسیوں پر بیٹھے تھے تو ان کا ہاتھ چلنے والی چھڑی پر ہی تھا۔
جب وہ آہستہ آہستہ مگر بلند آواز میں انگریزی میں گفتگو کرتے ہوئے مجھے بتاتے تھے کہ انھیں لندن کتنا پسند ہے، تو ان کے لمبے سنجیدہ چہرے پر اکثر مسکراہٹ آ جاتی تھی۔
انہوں نے بہت غیر معمولی تبدیلیاں دیکھی ہیں۔ وہ ۵۰ سال سعودی دارالحکومت ریاض کے گورنر رہے اور انھوں نے اس دوران اسے محض دو لاکھ افراد پر مشتمل ایک صحرائی قصبے سے پچاس لاکھ نفوس پر مشتمل شہر بنتے دیکھا ہے۔
مجھے ہلکا سا یاد ہے کہ اس شاہی مجلس کے دوران میں نے کمرے میں میرے پیچھے بیٹھے ایک شخص کو چپ چاپ نوٹس لیتے ہوئے بھی دیکھا۔
میں سمجھا کہ وہ کوئی سینئر سرکاری ملازم یا ولی عہد کے پرائیویٹ سیکرٹری ہوں گے۔ میں یہ دیکھ سکتا تھا کہ وہ اونچے قد اور مضبوط جسم کے مالک تھے جبکہ ان کی داڑھی نفاست سے تراشی ہوئی تھی۔ وہ بشت کہلانے والا روایتی چوغہ پہنے ہوئے تھے، جس پر کی گئی سنہری دھاگے کی کشیدہ کاری سے اس شخص کے درجے اور رتبے کا پتا چلتا ہے۔
ملاقات ختم ہونے کے بعد میں نے خاموشی سے نوٹس لینے والے شخص سے اپنا تعارف کروایا۔ ہاتھ ملانے کے بعد میں نے پوچھا کہ آپ کون ہیں؟ تو ان کا جواب تھا کہ ’میں شہزادہ محمد بن سلمان ہوں۔‘ انھوں نے انکساری سے کہا کہ ’میں ایک وکیل ہوں اور آپ میرے والد سے بات کر رہے تھے‘۔
جدہ کی اس شدید گرم دوپہر میں مجھے اس وقت خیال تک نہیں آیا کہ یہ آہستہ بولنے والا اور نسبتاً گمنام ۲۸ سالہ شخص ایک دن عرب دنیا کے آج تک کے سب سے زیادہ طاقتور اور متنازع رہنماؤں میں سے ایک بن کر ابھرے گا۔
جمال خاشقجی کا قتل
۲؍ اکتوبر ۲۰۱۸ء کو دوپہر ایک بج کر ۱۴؍منٹ پر جمال خاشقجی استنبول کے علاقے لیونٹ کی ایک سادہ سی خاکستری رنگ کی عمارت میں داخل ہوتے ہیں۔
ایم بی ایس پر کھلم کھلا تنقید کرنے والے ایک ممتاز لکھاری جمال خاشقجی سعودی قونصل خانے میں اپنے طلاق کے کاغذات کی تصدیق کروانے آئے تھے۔
لیکن جب وہ عمارت کے اندر پہنچے تو ریاض سے بھیجی ہوئی سیکورٹی اور انٹیلی جنس ایجنٹوں کی ایک ٹیم نے انھیں قابو کرنے کے بعد قتل کیا، ٹکڑے ٹکڑے کیا اور جسم کو ایسا غائب کیا کہ وہ آج تک نہیں ملا۔
یمن کی جنگ میں ہزاروں افراد مارے جا چکے ہیں، جن میں سے زیادہ تر سعودی فضائی حملوں میں ہلاک ہوئے۔ ایم بی ایس کی پالیسیوں پر تنقید کرنے والے سینکڑوں سعودی باشندے جیلوں میں قید ہیں لیکن اس صحافی کے سفاکانہ قتل کی وجہ سے زیادہ تر دنیا سعودی ولی عہد کے خلاف ہو گئی۔
سعودی عرب کی سرکاری تردید کے باوجود مغربی انٹیلی جنس ایجنسیوں کو یقین ہے کہ اگر کچھ اور نہیں تو کم از کم ایم بی ایس کو خاشقجی کو خاموش کرنے کے آپریشن کا پہلے سے علم تھا۔ اطلاعات کے مطابق سی آئی اے کو یقین ہے کہ قتل کا حکم انھوں نے دیا تھا۔
۲۹ ستمبر کو سی بی ایس کے پروگرام ’۶۰ منٹ‘ میں ولی عہد نے یہاں تک کہا کہ جو کچھ ہوا وہ اس کی ’پوری ذمہ داری‘ لیتے ہیں۔ سی بی ایس کو دیے گئے ایک اور انٹرویو میں انھوں نے کہا تھا کہ یہ ’ان کے دور‘ میں ہوا۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ اس جرم کی ذمہ داری قبول کر رہے ہیں، جس کی وہ اور ان کی حکومت تردید کرتی ہے۔
اس سفاکانہ اور پراسرار قتل کے اہم لنک ایم بی ایس کے ایک قریب ترین سابق مشیر ۴۱ سالہ سعود القحطانی ہیں۔ یہ پہلے ایئر فورس میں ہوا کرتے تھے۔
خاشقجی کے قتل سے پہلے تک شاہی دربار میں ایم بی ایس تک پہنچنے کا راستہ انھیں ہی تصور کیا جاتا تھا۔ انھیں اس واردات کے فوراً بعد شاہ سلمان کے حکم پر نوکری سے نکال دیا گیا تھا۔
القحطانی کے متعلق کہا جاتا ہے کہ انھوں نے مخصوص سافٹ ویئر پروگرام کی مدد سے ملک اور بیرونِ ملک میں موجود سعودی باشندوں کی نگرانی کی ایک جارحانہ حکمت عملی جاری رکھی ہوئی تھی۔ کچھ اطلاعات کے مطابق اس میں کسی کے بھی موبائل فون کو اس کے علم کے بغیر جاسوسی کی ڈیوائس میں تبدیل کرنا شامل تھا۔
جو بھی ایم بی ایس یا ان کی پالیسیوں پر تنقید کرتا، سوشل میڈیا پر انھیں بیہودہ اور دھمکی آمیز پیغامات ملنے شروع ہو جاتے۔ دس لاکھ سے زائد ٹوئٹر فالوورز رکھنے والے القحطانی دشمن سمجھے جانے والے افراد کو ہراس اور ذلیل کرنے کے لیے فوراً ہی لوگوں کو کام سے لگا دینے کی قوت رکھتے تھے۔
۲۰۱۷ء کے موسمِ گرما میں جب سعودی بلاگرز، جمہوریت کے لیے مہم چلانے والوں، انسانی حقوق کے سرگرم کارکنوں اور دیگر افراد کو پکڑ کر جیلوں میں ڈالا جا رہا تھا تو جمال خاشقجی کو احساس ہوا کہ ان کو بھی خطرہ ہے۔
اسی سال جون میں جب ایم بی ایس ولی عہد بنائے گئے تو خاشقجی چپکے سے ملک سے چلے گئے اور امریکا میں پناہ لے لی۔
۵۹ سالہ صحافی ہمیشہ سے خود کو محبِ وطن سعودی کہتے تھے۔ وہ ۲۰۰۰ء کی دہائی کے اوائل تک لندن میں سعودی سفیر کے میڈیا کے مشیر تھے اور میں ان دنوں ان کے ساتھ کافی بھی پیا کرتا تھا۔ لیکن امریکا جانے کے بعد انھوں نے واشنگٹن پوسٹ میں کالم لکھنے شروع کر دیے، جن میں ایم بی ایس کے آمرانہ انداز حکمرانی پر کڑی تنقید کی جاتی۔ کہا جاتا ہے کہ ولی عہد کو اس سے بہت غصہ آتا تھا۔
خاشقجی کو ریاض سے ٹیلیفون آنا شروع ہو گئے کہ وہ واپس آ جائیں، انھیں کچھ نہیں کہا جائے گا بلکہ انھیں سرکاری نوکری بھی دی جائے گی۔
خاشقجی نے ان یقین دہانیوں پر بھروسہ نہیں کیا۔ انھوں نے اپنے دوستوں کو بتایا کہ القحطانی کی ٹیم نے ان کی ای میل اور ٹیکسٹ میسیجز کو ہیک کیا ہے اور ولی عہد کے دیگر مخالفین کے ساتھ ان کی گفتگو کو بھی پڑھ چکے ہیں۔
خاشقجی اور دیگر افراد عرب دنیا میں آزادی اظہار کی ایک تحریک لانا چاہتے تھے۔ ان کے ٹوئٹر پر ۱۶؍لاکھ فالوورز تھے اور وہ مشرقِ وسطیٰ کے نمایاں ترین صحافیوں میں سے ایک تھے۔
ایم بی ایس اور ان کے قریبی مشیروں کے لیے خاشقجی ایک واضح خطرہ بن جاتے لیکن سی بی ایس کے ساتھ انٹرویو میں ولی عہد نے اس بات کی بھی تردید کی ہے۔
ماضی میں سعودی قیادت کے حکم پر متعدد مرتبہ ’بھٹکے ہوئے‘ شہریوں، یہاں تک کہ شہزادوں کو بھی اغوا کیا اور ریاض واپس لایا گیا ہے تاکہ بقول تجزیہ کاروں کے ’انھیں لائن پر واپس لایا جا سکے۔‘ لیکن کسی کو بھی قتل نہیں کیا گیا۔ کسی غیر ملکی شہر میں قتل ان کے روایتی طریقہ کار سے کوسوں دور کا کام ہے۔
خاشقجی کی موت فوراً ہی ایک بین الاقوامی اسکینڈل بن گئی۔
ابتدائی طور پر ایک بھونڈی سی وضاحت کے بعد کہ خاشقجی کے ساتھ استنبول میں کیا ہوا ہوگا، سعودی حکام نے پوری کوشش کی کہ ایم بی ایس کو اس سکینڈل سے دور رکھا جائے۔
کہا گیا کہ یہ اپنے طور پر کی گئی ایسی کارروائی تھی جس میں لوگ دیے گئے احکامات سے آگے نکل جاتے ہیں اور معاملات کو اپنے ہاتھوں میں لے لیتے ہیں۔ لیکن سی آئی اے اور دیگر مغربی خفیہ ایجنسیوں نے وہ لرزہ خیز آڈیو ٹیپس سنی ہیں، جو ترکی کی خفیہ ایجنسی ایم آئی ٹی نے سعودی قونصل خانے کے اندر سے خفیہ طور پر ریکارڈ کی تھیں اور جب امریکا نے ان ۱۷؍افراد کے خلاف پابندیاں لگائیں جن پر شک تھا کہ قتل میں ان کا ہاتھ ہے تو اس لسٹ میں سعود القحطانی اول نمبر پر تھے۔ لیکن آج تک ایسا کوئی واضح ثبوت نہیں مل سکا ہے جس سے ایم بی ایس بلا شک و شبہ اس قتل سے منسلک قرار دیے جا سکیں۔
لیکن وال اسٹریٹ جرنل نے سی آئی اے کی حاصل کردہ ایسی خفیہ دستاویزات شائع کی ہیں، جن کے مطابق خاشقجی کے قتل سے پہلے، دوران اور بعد میں ایم بی ایس نے سعود القحطانی کو کم از کم ۱۱؍ٹیکسٹ پیغامات بھیجے۔
لیکن ایک بات واضح ہونی چاہیے کہ خلیجی عرب ممالک میں جہاں میں رہا ہوں اور کئی سال کام کیا ہے، وہاں کوئی کارروائی ’اپنے طور پر‘ نہیں ہو جاتی۔ خلیج میں اوپر کے احکامات کے بغیر کبھی بھی کچھ نہیں ہوتا۔
اگست ۲۰۱۸ء میں قتل سے پہلے سعود القحطانی نے ایک معنی خیز ٹویٹ کی تھی۔ وہ یوں تھی: ’کیا آپ کو لگتا ہے کہ میں رہنمائی کے بغیر فیصلے کرتا ہوں؟ میں شاہ اور ولی عہد کے احکامات پر عمل کرنے والا اور ان کا ملازم ہوں۔‘
کسی نے اب تک یہ نہیں کہا کہ شاہ سلمان کا قتل سے کوئی تعلق ہے۔ لیکن لگتا ہے کہ منصوبہ ان کے پسندیدہ صاحبزادے کے اندرونی دائرے میں ہی بنایا گیا ہے۔ ایک سابق برطانوی انٹیلی جنس افسر کہتے ہیں کہ ’یہ ناقابلِ فہم ہے کہ ایم بی ایس کو اس کا علم نہ ہو‘۔
سو القحطانی کہاں ہیں اور ان پر مقدمہ کیوں نہیں چل رہا؟
میں نے یہی سوال حال ہی لندن میں تعینات ہونے والے نئے سعودی سفیر شہزادہ خالد بن بندر السعود سے پوچھا۔ انھوں نے مجھے یقین دلایا کہ القحطانی کو ان کے عہدے سے ہٹا دیا گیا ہے اور ان کے خلاف تحقیقات ہو رہی ہیں۔ انھوں نے مجھے کہا کہ اگر ثابت ہوگیا کہ وہ جرم میں شامل تھے تو ان کے خلاف قانونی چارہ جوئی ہوگی۔ لیکن ریاض سے آنے والی اطلاعات کے مطابق القحطانی اگرچہ منظرِ عام پر نہیں آ رہے، لیکن ان کو حراست میں بھی نہیں لیا گیا ہے۔
ایم بی ایس کے قریبی حلقے کی قریبی معلومات رکھنے والے ایک خلیجی رہائشی کے مطابق ’وہ عدالت میں حاضر نہیں ہو رہے لیکن وہ اب بھی سائبر سیکیورٹی کے معاملات اور پراجیکٹس میں شامل ہیں۔‘ وہ زیادہ سامنے نہیں آ رہے لیکن وہ ان کی مہارت سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ایم بی ایس کے گرد لوگوں کے مطابق القحطانی وہ شخص ہیں جنھوں نے ’ٹیم کے لیے خطرہ مول لیا۔‘ وہ کہتے ہیں کہ ’ہاں (استنبول والا) آپریشن غلط سمت میں گیا لیکن انھوں نے خود کو ملنے والے احکامات پر عمل کیا تھا۔‘
خاشقجی کے کیس میں سعودی عرب نے ۱۱؍افراد پر مقدمہ قائم کیا ہے۔ کارروائی جنوری میں شروع ہوئی تھی لیکن نو ماہ گزر جانے کے باوجود ابھی تک کسی کے خلاف جرم ثابت ہونے اور کسی کو سزا دیے جانے کے متعلق کچھ بھی نہیں کہا گیا اور نہ ہی ایسا کوئی اشارہ دیا گیا ہے کہ مقدمہ کب ختم ہو گا۔
سعودی نظامِ انصاف ویسے ہی انتہائی غیر شفاف ہے، جس میں عدالتی فیصلوں کا انحصار تعزیرات کے بجائے اکثر جج کی مرضی پر ہوتا ہے۔
ایک سینیئر اہلکار جن کا کارروائی میں نام لیا جا رہا ہے، وہ میجر جنرل احمد العسیری ہیں۔ وہ انٹیلی جنس کے نائب سربراہ ہیں اور اس سے قبل سعودی عرب کی یمن کے خلاف متنازع جنگ کے ترجمان بھی رہ چکے ہیں۔
میری ان سے ریاض میں کئی مرتبہ ملاقاتیں ہوئی ہیں اور مجھے کبھی وہ ایسے شخص نہیں لگے جو اوپر سے اجازت لیے بغیر کوئی ایسا منصوبہ بنا سکتے ہوں۔
اس غیر واضح ٹرائل کا جو بھی فیصلہ آئے، لیکن ایک بات واضح ہے کہ خاشقجی کے قتل نے ایم بی ایس اور سعودی عرب کی عالمی ساکھ کو زبردست اور دیرپا نقصان پہنچایا ہے۔
ستمبر میں سعودی سفیر نے مجھے لندن میں کہا تھا کہ ’میں واضح کر دوں کہ خاشقجی کا قتل ہمارے ملک، ہماری حکومت اور ہمارے عوام پر ایک دھبہ ہے۔ میری خواہش ہے کہ یہ نہ ہوا ہوتا۔‘ سعودی شاہی خاندان کے اتنے سینیئر فرد کی جانب سے ایسا غیر رسمی انداز بہت حیران کن تھا۔
ایک نرم سعودی عرب
وسط دسمبر میں دارالحکومت ریاض سے تھوڑا باہر الدرعیہ کے مضافات میں آدھی رات کا وقت ہے۔ مغربی ملبوسات پہنے سعودی نوجوانوں کا ایک مخلوط ہجوم موسیقی پر تھرک رہا ہے۔ انھوں نے سمارٹ فونز اٹھائے ہوئے ہیں اور آڈیٹوریم میں لیزر لائٹس ادھر ادھر پڑ رہی ہیں۔
فرانسیسی ڈی جے ڈیوڈ گوئٹا اسٹیج پر موجود ہے۔ اسی جگہ پر خواتین گاڑی چلانے کے اپنے نئے حق کو استعمال کرتے ہوئے ریاض کی پہلی فارمولا ای ریس دیکھنے کے لیے اپنی جدید ترین اسپورٹس کاروں میں آئی ہیں۔ بلیک آئیڈ پیز اور اینریکے اگلیسیاس کے کنسرٹ بھی ہوئے ہیں۔
یہ جدت پسند ولی عہد کے حکم سے نیا سعودی عرب ہے۔ انٹرٹینمنٹ اپنا راستہ بنا چکی ہے اور ثقافتی قدامت پسندی باہر ہو چکی ہے۔
گذشتہ ۴۰ سال کے دوران سعودی عرب میں رہنے والے یا وہاں کا دورہ کرنے والے کسی بھی شخص کے لیے یہ تبدیلی بہت غیر معمولی ہے۔
لڑکیوں اور لڑکوں کا پارٹی کے ماحول میں اس طرح آزادانہ اکٹھے ہونا کچھ عرصہ پہلے تک ناقابلِ فہم تھا۔ یہ ان قدامت پسند مذہبی علماء نے ممنوع قرار دیا ہوا تھا، جن کی حمایت پر سعودی خاندان اپنی حکومت کے جواز کے لیے انحصار کرتا ہے۔
جس سعودی عرب کو میں جانتا ہوں اس کا عوامی چہرہ ایک زاہدانہ اور مسرت سے عاری چہرہ ہے۔ یہ وہ جگہ تھی جہاں مذہبی پولیس ’مْطوّع‘ نے شریعت کی اپنی تشریح کے مطابق ریاض میں مشہور شیشہ کیفے بند کروا دیے تھے اور دکانوں کو حکم دیا تھا کہ وہ موسیقی نہ بجائیں۔
۲۰۱۷ء میں ولی عہد بننے کے بعد ایم بی ایس نے شاہ کی حمایت کے ساتھ سعودی عرب کا تشخص بدلنے کی کوشش کی ہے۔ سنیما، عورتوں کی ڈرائیونگ، عوامی مقامات پر تفریحی پروگراموں پر کئی برسوں سے پابندی تھی۔ اب وہ کہتے ہیں کہ وہ اسے ایک نرم اور مہربان ملک بنانا چاہتے ہیں۔
ایم بی ایس نے اکتوبر ۲۰۱۷ء میں کہا تھا کہ ’گذشتہ ۳۰ سال میں جو کچھ ہوا، وہ سعودی عرب کا حقیقی روپ نہیں تھا۔ ۱۹۷۹ء کے ایرانی انقلاب کے بعد لوگوں نے مختلف ممالک میں اس کی نقل کرنی چاہی تھی، ان میں سے ایک سعودی عرب بھی تھا۔ ہمیں نہیں معلوم تھا کہ اس سے کیسے نمٹا جائے۔ اور یہ مسئلہ پوری دنیا میں پھیل گیا۔ اب وقت آ گیا ہے کہ اس سے چھٹکارا حاصل کیا جائے‘۔
حقیقت میں انتہائی قبائلی اور قدامت پسند ملک ہونے کی وجہ سے سعودی عرب نے کبھی بھی قاہرہ اور بغداد جیسے شہروں کی طرح کی دلکشی اور توجہ حاصل نہیں کی تھی۔ بہرحال ایم بی ایس کے یہی الفاظ تھے جو وائٹ ہاؤس سننا چاہتا تھا۔
اس وقت تک واشنگٹن اور نئے ولی عہد کے درمیان قریبی تعلقات قائم ہو چکے تھے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے صدارت کے بعد مئی ۲۰۱۷ء میں اپنے غیر ملکی دورے کے لیے ریاض کو چنا اور ان کے داماد جیرڈ کشنر نے ایم بی ایس کے ساتھ قریبی تعلقات بنائے۔
’اعتدال پسند اسلام‘ کی پالیسی اپناتے ہوئے ایم بی ایس نے عوامی کنسرٹس کے اجازت نامے جاری کیے اور قبطی مسیحیوں کے اجتماع کا اجازت نامہ بھی جاری کیا۔
ملک کے اندر ان کی مقبولیت میں اضافہ ہوا، خصوصاً نوجوانوں میں جو خود سے ۵۰ سال بڑے افراد کی حاکمیت سے تنگ آ چکے تھے۔ ایم بی ایس ۳۴ سال کے ہیں۔ وہ پہلے قومی رہنما ہیں جس سے سعودی نوجوان خود کو جوڑ سکتے ہیں۔
ایک خلیجی تاجر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’انھیں فاسٹ فوڈ پسند ہے، ہاٹ ڈاگ پسند ہیں اور وہ بہت زیادہ ڈائیٹ کوک پیتے ہیں‘۔ کہا جاتا ہے کہ ایم بی ایس مشہور ویڈیو گیم کال آف ڈیوٹی کھیلتے ہوئے بڑے ہوئے ہیں اور ٹیکنالوجی کے بڑے مداح ہیں۔
نومبر ۲۰۱۸ء میں ایک سرمایہ کاری فورم پر نوجوان سعودی خواتین ولی عہد کے ساتھ سیلفیاں لینے کے لیے بے تاب تھیں۔ انھوں نے اسے بخوشی قبول کیا۔ ان کے سخت اور جذبات سے عاری چہرے پر ایک فلمی اداکار جیسی مسکراہٹ آگئی۔
ایک بین الاقوامی وکیل مالک دہلان کہتے ہیں کہ ’سعودی عرب ان جیسے لیڈر کا طویل عرصے سے انتظار کر رہا تھا۔ سعودی عرب نے ان کے دادا شاہ عبدالعزیز کے بعد سے ایسی کرشماتی شخصیت کو نہیں دیکھا۔‘
سر ولیم پیٹے ۲۰۰۶ء سے ۲۰۱۰ء تک ریاض میں برطانیہ کے سفیر رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’میرے خیال میں زیادہ تر سعودی خصوصاً نوجوان، ولی عہد اور اس سفر کی سمت کی حمایت کرتے ہیں‘۔
ایم بی ایس کی جانب سے طاقت کے اپنے ہاتھوں میں غیر معمولی ارتکاز کا حوالہ دیتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ ’روایتی طور پر انھوں نے پھیلا ہوا اختیار دیکھا ہے لیکن وہ جانتے ہیں کہ بڑی تبدیلیوں کے لیے زیادہ فیصلہ کن اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔‘
ایم بی ایس سے کئی مرتبہ مل چکے ایک اور سابق برطانوی سفارت کار نے دیگر کئی لوگوں کی طرح نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا: ’ایم بی ایس کو اپنی صلاحتیوں پر غیر معمولی اعتماد ہے۔ وہ شمسی شعلے کی طرح ہیں۔ ان سے اچانک آئیڈیاز اور توانائی کا ذخیرہ باہر آتا ہے۔ وہ ضرورت سے زیادہ پر اعتماد ہو سکتے ہیں اور یہاں ناتجربہ کاری کا شائبہ ہوتا ہے‘۔
لیکن یہاں اس سے بھی زیادہ ایک خطرناک چیز کا شائبہ ہے۔
’مخالفین سے نمٹنا‘
اگر آپ ایم بی ایس کی غیر معمولی سماجی اور اقتصادی اصلاحات کے بارے میں ان کے رویے کو جانچیں تو یہ ہوگا کہ: ’میری مانو یا اپنا راستہ ناپو‘۔ اگر اسے صاف الفاظ میں لکھا جائے تو یہ ہے کہ ایم بی ایس کو اختلاف پسند نہیں۔
بلاگرز، علما، حقوق کے لیے آواز اٹھانے والی خواتین، لبرل اور قدامت پسند گروہوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں، سبھی کو ان سخت ظالمانہ قوانین کے تحت جیلوں میں ڈال دیا گیا ہے، جن کے تحت اختلاف یا بحث پر پابندی ہے۔
اپنی سالانہ رپورٹ میں ہیومن رائٹس واچ نے انکشاف کیا کہ سعودی حکام نے ۲۰۱۸ء میں ’پرامن مخالفین اور کارکنان کی گرفتاریوں، ٹرائلز اور انھیں سزائیں دینے کو تیز کیا، جس میں خواتین کے حقوق کی مہم کے خلاف بھی ایک وسیع اور مربوط کریک ڈاؤن شامل ہے‘۔
لیکن کیا یہ وہی حکمران نہیں جنھوں نے بالآخر سعودی خواتین کو گاڑی چلانے کا حق دیا؟ ہاں یہ وہی ہیں۔ لیکن مبصرین کے مطابق ایم بی ایس چاہتے ہیں کہ تبدیلی اوپر سے نیچے آئے، مطلب شاہی دربار سے۔
سڑکوں پر برپا ہونے والی کسی عوامی تحریک کے نتیجے میں کسی قانون میں تبدیلی یا اصلاحات چاہے جتنی بھی چھوٹی ہوں، ان کا اشارہ بھی ایک ایسے ملک میں انتہائی خطرناک سمجھا جاتا ہے جہاں کوئی سیاسی جماعت یا حزبِ اختلاف نہیں۔
لْجین الھذلول کی ہی مثال لے لیں۔ پڑھی لکھی، ذہین، سوشل میڈیا پر سرگرم خاتون جنھوں نے اپنی ۳۰ ویں سالگرہ اس جولائی جدہ کی ایک جیل میں گزاری۔
ان کے خاندان کا کہنا ہے کہ ان کا واحد جرم عورتوں کے ڈرائیونگ کے حق کے لیے مہم چلانا اور عورتوں پر مردوں کی سرپرستی کی پابندی کے خلاف آواز اٹھانا تھا، جس کی وجہ سے مردوں کا بیویوں اور خواتین رشتہ داروں کی زندگیوں پر بہت کنٹرول رہتا ہے۔
یہ دونوں قوانین ہی اب بدل دیے گئے ہیں۔ عورتیں ڈرائیونگ کر سکتی ہیں اور ولی کے نظام میں نرمی لائی گئی ہے۔ لیکن لگتا ہے کہ الھذلول اور کئی دوسری سرگرم خواتین کارکنوں نے کھلے عام اس چیز کا مطالبہ کر کے سعودی قیادت کو ناراض کیا، جس کا کریڈٹ ایم بی ایس خود لینا چاہتے تھے۔ آپ سلطنت میں تبدیلی کی رفتار کو بدلنے کی کوشش نہیں کر سکتے۔
الھذلول پہلی مرتبہ ۲۰۱۴ء میں متحدہ عرب امارات سے ڈرائیو کرتے ہوئے سعودی عرب آنے پر گرفتار ہوئی تھیں۔ مارچ ۲۰۱۸ء میں امارات میں قانونی طور پر گاڑی چلاتے ہوئے مبینہ طور پر سیاہ گاڑیوں کے ایک قافلے نے انھیں روکا، گرفتار کیا اور ریاض بھیج دیا جہاں انھیں کچھ عرصے کے لیے حراست میں رکھا گیا۔ مئی ۲۰۱۸ء میں وسیع پیمانے پر ہونے والے ایک اور کریک ڈاؤن میں انھیں دوبارہ گرفتار کر لیا گیا۔
الھذلول اور دوسری خواتین کارکن کہتی ہیں، انھیں قیدِ تنہائی میں رکھا گیا اور تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کی لِن معلوف کہتی ہیں کہ ’پہلے تین ماہ میں تفتیش کے دوران ان کو اذیت کا نشانہ بنایا گیا اور بُرا سلوک کیا گیا، جس میں کوڑے مارنا، بجلی کے شاک دینا اور جنسی طور پر ہراساں کرنا شامل ہے‘۔
سعودی حکام اپنی جیلوں اور پولیس سیلز میں ایسے کسی سلوک کی تردید کرتے ہیں۔ انھوں نے اس کی تحقیقات کا وعدہ کیا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ انھیں مبینہ طور پر اذیت دینے والوں کو مقدمات کا سامنا کرنا پڑتا لیکن ان ہی خواتین کے خلاف مقدمات بنا دیے گئے۔
لْجین کے بھائی ولید الھذلول جو ملک سے باہر رہتے ہیں، کہتے ہیں کہ استغاثہ نے کبھی بھی تشدد کے الزام کی تحقیقات نہیں کیں۔ ’ہم نے تین شکایتیں بھیجیں لیکن انھوں نے کبھی جواب نہیں دیا۔ استغاثہ نے اپنا فیصلہ سعودی انسانی حقوق کمیشن کے مطابق کیا نہ کہ آزادانہ تحقیقات کے بعد‘۔
ولید الھذلول سعود القحطانی سے تفتیش کا بھی مطالبہ کر رہے ہیں کیونکہ لْجین نے الزام عائد کیا تھا کہ القحطانی نے حراست کے دوران ان پر تشدد میں ذاتی طور پر حصہ لیا تھا۔
۶۰ منٹ کے انٹرویو میں ایم بی ایس سے خواتین قیدیوں کے ساتھ بدسلوکی کے متعلق پوچھا گیا۔ انھوں نے وعدہ کیا کہ وہ ذاتی طور پر تحقیقات کریں گے۔
۳۰ سے زائد ممالک نے سعودی عرب سے سرگرم کارکنان کو رہا کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ کچھ کو ضمانت پر رہا بھی کر دیا گیا ہے اور برطانوی اور امریکی حکومتوں نے بھی کہا ہے کہ انھوں نے اعلیٰ سطح پر اس مسئلے کو اٹھایا ہے۔ لیکن اس کے باوجود اگست ۲۰۱۹ء میں لْجین الھذلول کے خاندان کا کہنا تھا کہ سکیورٹی افسروں نے جیل میں ان سے ملاقات کی اور ان پر زور دیا کہ وہ ایک ایسے بیان پر دستخط کریں، جس میں ان کے رشتہ داروں کے اس دعوے کی تردید کی گئی کہ ان پر دورانِ حراست تشدد کیا گیا تھا۔ لْجین نے انکار کر دیا۔
حراست میں لی جانے والی دوسری خواتین کارکنوں میں ثمر بداوی بھی ہیں، جنھوں نے سرپرستی کے قانون کو چیلنج کیا تھا۔ ان کے علاوہ بلاگر اور خواتین کو ڈرائیونگ کا حق دلوانے کے لیے مہم چلانے والی ایمان النفجان اور خواتین کو گھریلو تشدد سے بچ نکلنے میں مدد کرنے والی ریٹائرڈ یونیورسٹی پروفیسر عزیزہ الیوسف بھی حراست میں لیے جانے والی خواتین میں شامل ہیں۔
لیکن ملک میں عورتوں کی حالتِ زار کے بارے میں کوئی عوامی ہمدردی نہیں پائی جاتی۔ میڈیا بھی ان معاملات پر بات نہیں کرتا۔ ان خواتین کے بارے میں منفی مہم چلائی گئی اور انھیں غیر محب وطن اور غدار قرار دیا گیا۔ حکام کا دعویٰ ہے کہ انھوں نے ریاست کے دشمنوں کو معلومات فراہم کیں۔
مرد کارکنوں کو پکڑنے اور سزائیں دینے کے بھی بہت واقعات ہیں۔
ستمبر ۲۰۱۸ء میں سعودی استغاثہ نے کسی بھی ایسے شخص کے لیے پانچ سال قید اور ۳۰ لاکھ ریال جرمانے کا اعلان کیا جو سوشل میڈیا پر کوئی بھی ایسی چیز شیئر کرتا ہوا پکڑا گیا جو حکام کے مطابق امن عامہ اور اخلاقیات کو متاثر کرتی ہو۔
لیکن ابھی تک ایم بی ایس مخالفت برداشت نہ کرنے کی عادت پر معذرت خواہ نہیں۔ اپنے انٹرویو میں انھوں نے تسلیم کیا کہ لوگوں کی ایک بڑی تعداد جیلوں میں ہے۔ وہ کہتے ہیں جب آپ کو اس طرح کے وسیع و عریض اصلاحاتی پروگرام کو لے کر چلنا ہو تو اس قسم کی ضروری قیمت تو ادا کرنا پڑتی ہے۔
سوال پیدا ہوتا کہ کس طرح ایک شخص جسے چھ سال پہلے کوئی نہیں جانتا تھا، وہ مشرقِ وسطیٰ کا سب سے طاقتور حکمران بن گیا۔
(مضمون نگار بی بی سی کے سیکورٹی کے نامہ نگار ہیں)
(۔۔۔ جاری ہے!)
Leave a Reply