ڈونلڈ ٹرمپ نے نومبر میں جب امریکی صدارتی انتخاب میں کامیابی حاصل کی تھی تب ان کے بہت سے چینی دوست تھے۔ مگر پھر یہ ہوا کہ ان کی مقبولیت کا گراف تیزی سے نیچے آنے لگا۔ دوسرے بہت سے معاملات کی طرح صدر ٹرمپ نے چین اور تائیوان کے تنازع پر بھی ٹوئٹر اور دیگر سوشل میڈیا آؤٹ لیٹس پر اپنی بے لگام رائے دینے سے گریز نہیں کیا۔ بحیرۂ جنوبی چین کے بارے میں بھی ان کی آراء بیشتر چینیوں کو ناگوار گزرتی ہیں۔ اور ایسا تو ہونا ہی تھا۔ صدر ٹرمپ نے وہ سب کچھ کہا جو نہیں کہنا چاہیے تھا۔ ایسا کوئی پہلی بار نہیں ہوا کہ چین کے بارے میں کسی امریکی رہنما کا نقطۂ نظر تیزی سے تبدیل یا زوال پذیر ہوا ہو۔
چین کے معاملے میں ڈونلڈ ٹرمپ کی سوچ جس تیزی سے تبدیل ہوئی اور پھر ان کی مقبولیت گری اسے دیکھتے ہوئے سو سال پہلے کا ایک واقعہ یاد آ جاتا ہے۔ وڈرو ولسن نے امریکی صدر منتخب ہونے کے بعد ایک اقدام ایسا کیا کہ چینیوں کی نظر میں گرگئے۔ سو سال قبل اس وقت کے بڑے چینی دانشوروں اور نوجوان ماؤزے تنگ کی نظر میں وڈرو ولسن روشن خیال تھے اور ان سے امریکا چین تعلقات بہتر بنانے کے حوالے سے بہت سی امیدیں وابستہ کی جاسکتی تھیں۔ وڈرو ولسن پرنسٹن یونیورسٹی کے صدر بھی رہ چکے تھے۔ ایسے میں انہوں نے صدر منتخب ہوکر معاہدۂ ورسائی کی حمایت کرتے ہوئے جب چین کے صوبے شینڈونگ کا کنٹرول جرمن اتھارٹیز سے لے کر جاپان کے حوالے کردیا تب چینی ان سے بدظن ہوگئے۔
مگر ان سو برسوں میں اچھا خاصا فرق بھی واقع ہوچکا ہے۔ سو سال قبل چینی کمزور تھے اور انہوں نے وڈرو ولسن کو ناپسند کیا تو اس کا سبب یہ تھا کہ انہوں نے چین کے مفادات کو نظر انداز کیا تھا اور وہ (چینی) کچھ کرنے کی پوزیشن میں نہیں تھے۔ اب ایسا نہیں ہے۔ اب اگر چینیوں کو امریکی صدر کی پالیسی پسند نہیں آئی ہے تو ناپسندیدگی محض کمزوری کی علامت نہیں بلکہ وہ طاقتور ہیں اور کچھ کر دکھانے کی صلاحیت ہی نہیں، عزم بھی رکھتے ہیں۔
۱۹۱۶ء میں جب وڈرو ولسن دوسری بار امریکی صدر منتخب ہوئے تب چین کمزور تھا۔ اس کی فوج کا پورے ملک پر بھرپور کنٹرول نہیں تھا۔ ۱۹۱۲ء میں ریاست قائم تو ہوچکی تھی مگر اس کا کوئی باضابطہ نظام نہ ہونے کے باعث بھرپور استحکام ممکن نہیں بنایا جاسکا تھا۔ ملک کے بہت سے علاقوں پر جنگجو سرداروں کا کنٹرول تھا۔ بیرونی قوتیں رشوت دے کر یا مراعات سے نواز کر ان جنگجو سرداروں کو اپنے مفادات کے لیے بلا دریغ استعمال کرتی تھیں۔ چین کے بیشتر دانشور وڈرو ولسن کو ایک ایسے لیڈر کی شکل میں دیکھ رہے تھے جو ان کے ملک کو جنگجو سرداروں کے چنگل سے کسی حد تک نکال سکتا تھا۔
چین سمیت کئی نو آبادیات میں وڈرو ولسن کی مقبولیت اتنی تیزی سے بڑھی کہ دنیا حیران رہ گئی۔ ۱۹۱۸ء میں وڈرو ولسن نے کانگریس سے اپنے خطاب کے دوران قومی بنیاد پر حق خود ارادیت کی اس قدر وکالت کی کہ امریکا میں جم کرو کی حمایت اور ہیٹی پر امریکی حملے کو بھی نظرانداز کرکے مصر سے کوریا تک ہر نو آبادی اُنہیں اپنے نجات دہندہ کے روپ میں دیکھنے لگی۔ تمام مظلوم اقوام نے اس خطاب کو دل پر لیا اور یہ توقع وابستہ کر بیٹھیں کہ وڈرو ولسن اب اُن کے بُرے دن ختم کرنے میں کلیدی کردار ادا کریں گے۔
چین کے محب وطن عناصر کو امید تھی کہ وڈرو ولسن ایشیا کے معاملات میں زیادہ دلچسپی لیں گے جس کے نتیجے میں چین کو جاپانی سامراج کے پنجے سے نکالنے میں مدد ملے گی، مگر جب انہوں نے معاہدۂ ورسائی کی حمایت کی تو چین میں رائے عامہ تبدیل ہوئی۔ اور بہت سوں کو ایسا محسوس ہوا جیسے وڈرو ولسن نے ان سے غداری کی ہے۔
۲۰۱۷ء کا چین یقینی طور پر ۱۹۱۶ء کے چین سے بہت مختلف اور بہت مضبوط ہے۔ آج چین نے کئی بڑی معیشتوں کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ ترقی کی راہ پر اُس کا سفر تیزی سے جاری ہے۔ ایسے میں اُسے ۱۹۱۶ء کے تناظر میں دیکھنا اور پرکھنا درست نہ ہوگا۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ آج چین کی قیادت بہت مضبوط ہاتھوں میں ہے۔ ملک مجموعی طور پر متحد ہے اور بیشتر معاملات کے حوالے سے قومی اتفاق رائے پایا جاتا ہے۔ معاشی اعتبار سے چین بہت متحرّک اور کامیاب ہے۔ قیادت کی پوری توجہ ملک کو مضبوط سے مضبوط تر کرنے پر مرکوز ہے۔ جغرافیائی اعتبار سے چین آج بہت بڑا ہی نہیں، بہت مضبوط بھی ہے۔ تائیوان اگرچہ الگ ہے اور خود مختار ملک کا درجہ رکھتا ہے تاہم ’’ون چائنا‘‘ پالیسی کے تحت چینی قیادت اور عوام دونوں کو یقین ہے کہ ایک نہ ایک دن تائیوان چینی جغرافیے کا حصہ بن جائے گا۔
قصہ مختصر، اب چین کو امریکا سے کسی بھی طرح کی مدد کی ضرورت نہیں۔ وہ اپنے تمام معاملات کو خود دیکھ سکتا ہے، سمجھ سکتا ہے۔ وہ کسی بھی معاملے میں امریکی پالیسی کو اپنے حق میں کرنے کا محتاج نہیں۔ چینی قیادت ایک ایسا امریکی صدر دیکھنا پسند کرے گی جو اندرون ملک زیادہ الجھا ہوا ہو اور دنیا بھر میں مہم جوئی کی فرصت نہ پاسکے۔ اُسے ایسا امریکی صدر پسند نہیں جو چین کو تیزی سے اُبھرتا ہوا دیکھ کر پریشان ہو اور اس حوالے سے کچھ نہ کچھ کرنے پر مجبور ہو جیسا کہ براک اوباما کے معاملے میں ہوا۔ اوباما کو چین کی کچھ زیادہ ہی فکر لاحق تھی جس کے نتیجے میں چینی قیادت کو بھی بعض معاملات میں غیرضروری پریشانی کا سامنا کرنا پڑا۔ چینی قیادت چاہتی ہے کہ ایشیا میں امریکی مداخلت زیادہ نہ ہو تاکہ وہ اپنی مرضی اور مفادات کے مطابق ایشیائی ریاستوں سے تعلقات بہتر بنائے اور معیاری اشتراکِ عمل کے ذریعے ترقی کی راہ ہموار کرتی رہے۔ صدارتی انتخاب سے قبل ڈونلڈ ٹرمپ نے چینی معیشت، بالخصوص تجارت کو خاص طور پر نشانہ بنایا اور ایسی باتیں کیں جن سے چینی قیادت کا تھوڑا بہت بے مزا ہونا غیر فطری نہ تھا۔ مگر یہ بات چینی قیادت کے نزدیک اطمینان بخش تھی کہ امریکا کا ممکنہ صدر خارجہ پالیسی کی نزاکتوں سے زیادہ آشنا نہ تھا۔ ان کی حریف سابق خاتون اول اور سابق وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن کے بارے میں کون نہیں جانتا کہ وہ روایتی سیاست دان ہیں اور خارجہ پالیسی کے تمام اسرار و رموز سے بہت اچھی طرح واقف ہیں۔ ایسے میں چینی قیادت کے لیے صدر کی حیثیت سے ڈونلڈ ٹرمپ کا انتخاب زیادہ کارگر اور سودمند تھا اور یہی ہوا۔ جب ٹرمپ نے کہا کہ وہ اپنے کسی بھی پیش رَو کی طرح ایشیا میں روایتی حلیفوں (جاپان، جنوبی کوریا) وغیرہ کو زیادہ اہمیت نہیں دیں گے تو چینی قیادت کو بہت اچھا لگا۔ اِسی طور روس کو بھی ٹرمپ بہت اچھے لگے جب انہوں نے کہا کہ وہ معاہدۂ شمالی بحر اوقیانوس کی تنظیم (نیٹو) سے بہتر اشتراکِ عمل میں زیادہ دلچسپی نہیں رکھتے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے یہ تاثر بھی دیا ہے کہ وہ اپنے خیالات کا اظہار کرنے میں زیادہ محتاط نہیں۔ وہ ٹوئٹر پر اپنی رائے بہت تیزی سے دیتے ہیں۔ جہاں دیدہ سیاست دان ایسا نہیں کرتے۔ چین کے صدر شی جن پنگ ہی کی مثال لیجیے جو ایک ایک لفظ تول کر بولتے ہیں۔ انہیں اچھی طرح اندازہ ہے کہ کوئی ایک غلط لفظ کیا گل کھلا سکتا ہے۔ روایتی اور جہاں دیدہ سیاست دانوں کو مطالعے کا شوق ہوتا ہے۔ وہ جاننا چاہتے ہیں کہ دنیا بھر میں کیا کیا لکھا جارہا ہے مگر ڈونلڈ ٹرمپ کو بظاہر اِس سے کچھ خاص غرض نہیں۔
۲۰۱۱ء میں چین کے لیے امریکی سفیر مقرر ہونے والے گیری لاک کا رویہ بھی عجیب رہا ہے۔ جس طور ڈونلڈ ٹرمپ نے لوگوں کو چونکا دیا بالکل اسی طور گیری لاک نے بھی چینیوں کو چونکا دیا۔ انہوں نے چین میں تعیناتی کے دوران سادگی سے پُر طریقے اختیار کیے۔ وہ اپنا سامان خود اٹھاکر چلتے ہیں اور چھوٹی موٹی خریداری بھی خود کرتے ہیں۔ چینیوں کو یہ دیکھ کر بہت حیرت ہوتی ہے کہ امریکی اتنے مختلف بھی ہوسکتے ہیں۔ چین میں سادگی کی بہت سی مثالیں ملتی ہیں مگر اس وقت معاملہ یہ ہے کہ تیزی سے کمائی ہوئی دولت کو خرچ کرنے یعنی پرتعیش زندگی بسر کرنے کے معاملے میں بیشتر مالدار چینی گھرانے امریکا اور یورپ کے لوگوں کو بھی پیچھے چھوڑنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ چین کے بعض مالدار گھرانے وہی اطوار اختیار کر رہے ہیں جو گزرے ہوئے ادوارِ شاہی میں اختیار کیے جاتے تھے۔
جو کچھ سو سال قبل ہوا وہ کچھ اور تھا اور اب جو کچھ ہو رہا ہے وہ کچھ اور ہے۔ ایسے میں چین کے لیے ڈونلڈ ٹرمپ کا غیر ذمہ دارانہ رویہ خاصا پریشان کن ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ ٹرمپ یا کوئی اور امریکی لیڈر اگر کچھ کہے تو سوچ سمجھ کر، سنبھل کر، محتاط رہتے ہوئے۔ سو سال قبل چین کے خلاف کچھ ہوتا تھا تو وہ کمزور ہونے کے باعث دیکھنے اور برداشت کرنے پر مجبور تھا۔ اب معاملہ یہ ہے کہ چین طاقتور ہے۔ ایسے میں لازم ہے کہ مرضی کے خلاف کوئی بات ہو تو اس کا جواب دیا جائے۔ طاقت رکھتے ہوئے بھی جواب نہ دینا چین کے لیے بدنامی کا سودا ہوگا۔
(جیفرے این ویزراسٹارم یونیورسٹی آف کولمبیا ارون میں تاریخ کے پروفیسر ہیں۔)
(ترجمہ: محمد ابراہیم خان)
“Trump Through Chinese Eyes”. (“project-syndicate.org”. jan.10, 2017)
Leave a Reply