
صدر ٹرمپ مشرق وسطیٰ کے لیے جو عزائم رکھتے ہیں اس کی ایک مثال ماہ اپریل میں جنرل سیسی کے مطالبے پر اخوان المسلمون کو دہشت گرد تنظیم قرار دینے کی صورت میں منظر عام پر آئی۔
۹؍اپریل کو جنرل سیسی نے اپنے امریکا کے دورے کے دوران صدر ٹرمپ سے اخوان المسلمون کو دہشت گرد تنظیم قرار دینے کا دیرینہ مطالبہ دوبارہ پیش کیا اور بدلے میں فلسطین سے متعلق (Deal of the Century) صفقۃ القرآن کی مکمل حمایت کی یقین دہانی کروائی۔ جس کے نتیجے میں ۳۰؍اپریل کو امریکی حکومت نے اعلان کیا کہ وہ اخوان المسلمون کو دہشت گرد تنظیم قرار دینے کی باضابطہ کارروائی کا آغاز کر رہی ہے اور جلد ہی اخوان المسلمون کو عالمی دہشت گرد تنظیموں کی فہرست میں شامل کر دیا جائے گا۔
اس سے پہلے جنرل سیسی امریکا میں صدر بش اور صدر اوباما کے ادوارِ حکومت اور ۲۰۱۵ء میں برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون کے دورِ حکومت میں اخوان المسلمون کو دہشت گرد تنظیم قرار دینے کی ناکام کوششیں کرتے رہے ہیں۔ اب ٹرمپ سرکار کو سب سے پہلے امریکی خفیہ اور سیکورٹی اداروں کی مدد سے اخوان کے خلاف شواہد کی دستاویز تیار کرنا ہوگی، جس کے بعد سیکرٹری آف اسٹیٹ، اٹارنی جنرل سے مشورے کے بعد اخوان کو دہشت گرد تنظیم قرار دے سکیں گے۔ اس کے بعد امریکی کانگریس کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ سات دن کے اندر اندر ٹرمپ سرکار کے اس فیصلے کو بلاک کر سکتی ہے۔ نیز اخوان کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ تیس دن کے اندر اندر امریکی وفاقی عدالت میں اس فیصلے کے خلاف اپیل دائر کر سکتے ہیں۔ ’’سیاسی اسلام‘‘ کے مخالفین اور اخوان المسلمون کے شدید ترین ناقدین بھی صدر ٹرمپ کے اس فیصلے پر سر پیٹ کر رہ گئے ہیں۔
خود امریکی مبصرین کے مطابق امریکی پالیسیوں کی شدید مخالفت کے باوجود اخوان بہت سے مواقع پر امریکی پالیسیوں کے لیے بالواسطہ بہت مفید رہے ہیں۔ صدام حسین کا تختہ الٹنے کے بعد عراق میں امریکا کا شروع کیا گیا سیاسی و جمہوری عمل اخوان کی ہی مرہون منت معرض وجود میں آیا اور آج بھی اخوان کے ہی تعاون سے کسی نہ کسی شکل میں قائم ہے۔ عراق میں القاعدہ اور داعش جیسی دہشت گرد تنظیموں کے خلاف عسکری مہمات میں بھی اخوان کا بہت اہم کردار رہا ہے۔ اخوان القاعدہ یا داعش کی طرزپر چند سو یا ہزار افراد پر مشتمل تنظیم نہیں، بلکہ ایک ایک ملک میں اس کے ارکان کی تعداد لاکھوں تک پہنچتی ہے جبکہ اس کے ہمدرد اور حامیوں کی تعداد کروڑوں سے متجاوز ہے۔ ایسے میں پوری دنیا میں پھیلے کروڑوں افراد کو یکلخت دہشت گرد قرار دینا سمجھ سے باہر ہے۔
اسی طرح بہت سے امریکی اتحادی ممالک جیسے بحرین، مراکش، اردن، یمن، لیبیا اور ترکی وغیرہ میں قائم حکومتیں بھی بالواسطہ یا بلاواسطہ اخوان سے منسلک ہیں یا ان ممالک کی پارلیمانی نشستوں پر اخوان قابل ذکر تعداد میں براجمان ہیں۔ کیا ان ریاستوں میں قائم حکومتوں اور ان میں موجود پارلیمان کو بھی دہشت گرد قرار دیا جائے گا؟
کارنیگی انڈومینٹ فار پیس کے مطابق اخوان المسلمون کو دہشت گرد تنظیموں کی فہرست میں شامل کر دیا جاتا ہے تو اس کے نتیجے میں:
٭ اخوان کے ارکان پر امریکا میں داخلے پر پابندی ہوگی۔
٭ ان کے تمام اثاثے منجمد کر دیے جائیں گے۔
٭ اخوان المسلمون سے کسی بھی قسم کا رابطہ کرنا یا مشورہ لینا دہشت گردی پر محمول کیا جائے گا۔
٭ اخوان المسلمون کے کسی رکن کا انٹرویو کرنا، ان کا بیان یا موقف لوگوں تک پہنچانا، کسی اخوانی کی تحریر یا تقریر کا ترجمہ کرنا، یہ سب دہشت گردی کی Meterial Support گردانا جائے گا۔
ییل یونیورسٹی (Yale University) میں سیاسی علوم کے پروفیسر اینڈریو مارچ کے مطابق دہشت گردی کی ایسی وسیع تعریف سے خود امریکی صحافیوں اور محققین کو خطرہ لاحق ہے کیونکہ ماضی میں اخوانی رہنماؤں سے کیے گئے انٹرویوز اور اخوان پر لکھے گئے ڈاکٹریٹ کے مقالاجات کے دوران جو میل ملاپ یا تراجم مختلف امریکی صحافی، طلبہ اور پروفیسرز نے اب تک کیے ہیں وہ ان کے دہشت گرد گردانے جانے کے لیے کافی ہے۔
خود امریکی تھنک ٹینکس اور مفکرین اس بات پر متفق ہیں کہ اخوان جیسی پرامن اور جمہوری تنظیم کو دہشت گرد قرار دینے سے الٹا دہشت گردی کو ہوا ملے گی اور عرب اسٹریٹ کو ایک غلط پیغام جائے گا کہ تبدیلی کا کوئی پُرامن راستہ کارگر ثابت نہیں ہو سکتا۔ کارنیگی انڈومینٹ فار پیس سے وابستہ امریکی محقق میچل ڈیون کے بقول: ’’اگر ہم چاہتے ہیں کہ نوجوان عسکریت کی بجائے پُرامن طریقہ اپنائیں تو میرا نہیں خیال کہ اخوان کو دہشت گرد تنظیم قرار دینے سے زیادہ اُلٹا اقدام کوئی ہو سکتا ہے‘‘۔
امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے انسداد دہشت گردی کے سابق کوآرڈینیٹر ڈینیل بنجمین نے ۲۰۱۷ء اور ۲۰۱۸ء میں اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے تحت اخوان کے دہشت گردی میں ملوث ہونے پر تحقیقات کروائیں اور اس نتیجے پر پہنچے کہ اخوان کو دہشت گرد قرار دینے کے لیے کسی بھی قسم کے شواہد موجود نہیں ہیں۔ وہ آج بھی اپنی اس بات پر قائم ہیں کہ اخوان کو دہشت گرد تنظیم قرار دینا غیر قانونی عمل ہوگا اور ان کے مطابق اس کارروائی کا واحد مقصد ٹرمپ کا اپنا نسل پرست اور اسلاموفوبک ووٹ بینک مضبوط کرنا ہے:
[english]”There is no question that there has been an effort to meet the appetites of Trump’s very Islamophobic base”[/english]
امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے ایک اور سابق آفیسر جیسن بلیز کس کے مطابق اخوان صرف ایک بہانہ ہے، اصل مقصد امریکا میں موجود تمام اسلامی تنظیموں کو نشانہ بنانا ہے۔
خود امریکا میں اخوان کا بہت وسیع نیٹ ورک موجود ہے اور سیکڑوں مساجد، اسلامک اسکولز، کاروبار اور انسانی حقوق کی بیسیوں تنظیمیں اخوان سے وابستہ افراد چلا رہے ہیں۔ اسی طرح امریکی جامعات، اسپتالوں اور کاروباری مراکز، لاء فرمز میں لاتعداد اخوانی پروفیسر، ڈاکٹر، انجینئر اور وکلا اپنی پیشہ وارانہ خدمات انجام دے رہے ہیں۔
پچھلے کئی سالوں سے امریکی نسل پرست اپنے سیاسی مخالفین اور بالخصوص امریکا میں موجود مسلم کمیونٹی کی نمایاں شخصیات پر ’اخوان المسلمون‘ کا لیبل لگا کر اپنے سیاسی مقاصد حاصل کرنے میں سرگرداں ہیں۔ ماضی میں ہیلری کلنٹن کی قریبی ساتھی ہما عابدین اور خضر خان کے والد کو بھی صدر ٹرمپ نے ایسے ہی پروپیگنڈے کا نشانہ بنایا تھا۔ اسی طرح فروری ۲۰۱۲ء میں ٹرمپ نے خود صدر اوباما پر بھی اخوان المسلمون کی فنڈنگ کا مضحکہ خیز الزام لگایا تھا۔ ان کا کہنا تھا:
[english]”Barack Obama’s budget funds the “Arab Spring” with 800B$ and the Muslim Brotherhood in Egypt 1.3B$ in military aid. He loves radical Islam.”[/english]
[english]”Obama now wants to give another 450m$ to the Muslim Brotherhood. Money we don’t have going to people that hate hate us. Moronic.”[/english]
صدر ایردوان کے قریبی ساتھی اور معروف سیاست دان، یاسین اقطائی کے مطابق اخوان پر پابندیاں لگانے کا یہ عمل خود امریکا کی ساکھ کے لیے دھچکا ثابت ہوگا اور ’’اندیشہ ہے کہ یہ اقدام اخوان کے خلاف نہیں بلکہ اسلام کے خلاف جنگ تصور کیا جائے گا‘‘۔
اس سب معاملے کو اخوان کس نظر سے دیکھ رہے ہیں، اس سلسلے میں ترکی کی اناضول خبر رساں ادارے نے حال ہی میں اخوان المسلمون کے نائب مرشد عام الاستاذ ابراہیم منیر سے انٹرویو کیا، جس کا کچھ حصہ پیش خدمت ہے۔
س: ٹرمپ کے اخوان المسلمون کو دہشت گرد تنظیم قرار دینے کے متوقع فیصلے کو آپ کس نظر سے دیکھتے ہیں؟
ج: ظاہری بات ہے ہم امریکا کے اس موقف کا خیرمقدم نہیں کرتے اور ہمارے لیے یہ بات بھی بعیدازقیاس نہیں کہ امریکی انتظامیہ ٹرمپ کے اس اعلان پر عمل کرتے اخوان کو دہشت گرد تنظیم قرار دے دے۔ ابھی تک ہم نے قانونی چارہ جوئی کی طرف پیش رفت نہیں کی ہے۔ فی الوقت ہم ایک بھرپور سفارتی مہم کی تیاریوں میں ہیں، جس کے تحت ہم واشنگٹن اور وہاں موجود مقتدر حلقوں کو متحرک کر سکیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ہم عالمی سطح پر ایک مہم کی تیاریوں میں مصروف ہیں، جس کے تحت اخوان المسلمون کی اس دنیا میں امن سلامتی اور انسانی بھائی چارے کے فروغ کے لیے گراں قدر خدمات کو اجاگر کیا جائے۔
س: ۳؍جولائی ۲۰۱۳ء کے بعد سے اخوان المسلمون دوبارہ پچاس کی دہائی میں چلے گئے ہیں۔ مقدمے، پھانسیاں اور اب دہشت گرد تنظیموں کی فہرست میں نام، کیا آپ سمجھتے ہیں کہ اخوان ایک بار پھر مذمتی بیانات وغیرہ دے کر اس چیلنج سے نبرد آزما ہو جائیں گے خصوصاً جبکہ آج ہم اکیسویں صدی میں جی رہے ہیں؟
ج: پہلی بات تو یہ ہے کہ اخوان کے ساتھ حکومتوں کی جانب سے جو کچھ ہوا اور جو ہو رہا ہے، ایک دنیا جانتی ہے کہ یہ وہ حکومت ہے، جو ہر قانون اور دستور سے خود کو مبرا قراردیتی ہے اور اس کے تمام اعمال کا نتیجہ تاحال بجز تباہی کے اور کچھ نہیں۔ یہ تمام واقعات فی ذاتہ جماعت کے صدق و صفا کی دلیل اور ہر طرح کے فسادات کو رد کر دینے کا ثبوت ہیں اور اسی وجہ سے یہ نظام ان سے محاذ آرا ہے۔
دوسرا یہ کہ دنیا اب بدل رہی ہے اور تاریخ کسی ایک واقعہ پر آکر رک جانے والی نہیں، ایک وقت تھا جب بدعنوان حکومتوں کی پالیسیوں کے بارے میں کھوج لگانا مشکل تھا مگر آج کے دور میں اس کے ارادوں اور چالوں کا پردہ فاش کرنا خاصا آسان ہو گیا ہے اور بہرکیف اکیسویں صدی ہمارے لیے بیانات جاری کرنے یا الزامات کی تردید کرنے میں مانع نہیں اور اس پر مستزاد یہ کہ اخوان کے خلاف جاری مہم ان تک محدود نہیں بلکہ اس کا مقصد دین کو عبادت گاہوں تک محصور کردینا ہے اور ان عبادت گاہوں میں بھی جو بھی وعظ و نصیحت ہو اس پر بھی حکومتی سیکورٹی اداروں کا مکمل کنٹرول ہو اور ایسے ہر سیاسی اور سماجی کام پر پابندی ہو، جو قرآن و سنت کے صحیح فہم پر مبنی ہو۔ یہ کارروائیاں درحقیقت شروعات ہیں، امت مسلمہ کی خواب غفلت سے بیداری کی اور اس جدید شیطانی منصوبے کی اللہ کی زمین پر ناکام و نامراد ہو جانے کی، جس سے دینی حمیت کی ایک نئی لہر جنم لے گی۔
س: رمضان کے بعد آپ ’’صفقۃ القرآن‘‘ کے تناظر میں حالات کو کس کروٹ بیٹھتا دیکھ رہے ہیں؟ کیا آپ اس مزاحمت کے خلاف موقف اختیار کریں گے یا واشنگٹن سے دہشت گردی کا لیبل لگائے جانے کے ڈر سے خاموشی کا لبادہ اوڑھ لیں گے؟ یا آپ اس کی مزاحمت کریں گے اور اگر ایسا ہے تو اس ضمن میں آپ کی حکمت عملی کیا ہوگی؟
ج: یہ امر کسی سے مخفی نہیں کہ جسے یہ صفقۃ القرآن کا نام دے رہے ہیں، وہ دراصل ایک تباہ کن منصوبہ ہے جو ماضی کے سایکس پیکو معاہدہ سے مطابقت رکھتا ہے اور اب وہ بزور طاقت اس کو اس خطے پر مسلط کرنا چاہ رہے ہیں اور یہ چیلنج خطے میں موجود تمام اسٹک ہولڈر۔ جماعتیں اور ممالک۔ کو درپیش ہے اور اخوان بھی ان Stakeholders میں سے ایک ہیں اور اس بات کے ذمہ دار ہیں کہ ہر قیمت پر اپنے اقدار کا تحفظ کریں۔
اس منصوبے کی سب سے خطرناک بات یہ ہے کہ حکومتی سرپرستی کے تحت نوجوانوں کی کسمپرسی کو مزید ہوا دینے کے لیے دین کے ثوابت کے خلاف مہم کھڑی کی جارہی ہے، جس کا عندیہ عبدالفتاح السیسی نے عسکری انقلاب کے وقت ہی دے دیا تھا لہٰذا ہم اللہ کے ہاں بری الذمہ ہونے کی غرض سے دہشت گرد تنظیموں کی فہرست میں لاکھڑا کرنے کی امریکی دھمکی سے قطع نظر کمربستہ ہو کر اس کی بھرپور مخالفت کریں گے اور اس سلسلے میں دیے جانے والے ہر مشورے کا خیرمقدم کریں گے۔
س: سیسی، مرسی، مصری عوام اور ترکی کے نام آپ کا کوئی پیغام؟ یہ جانتے ہوئے کہ یہ دونوں ممالک خطے میں مرکزی اہمیت کے حامل ہیں؟
ج: سیسی کو ہم یہ کہنا چاہیں گے کہ یہ نہ بھولو اللہ سبحانہ و تعالیٰ تم سے، تمہارے مددگاروں سے قوی تر ہے اور تمہارا نصیب ہر انسان کی طرح قبر اور روزِ قیامت حساب و احتساب ہے لہٰذا اللہ کے عذاب سے نجات پانے کی راہ تلاش کرو۔
جہاں تک مصر کے دستوری حکمراں ڈاکٹر محمد مرسی حفظہ اللہ کا معاملہ ہے تو ہم انہیں کہتے ہیں کہ اللہ آپ کی آزمائش میں آپ کا حامی و ناصر ہو۔ ہم اور کُل عالم گواہ ہے کہ آپ اپنی قوم کے امین تھے اور آپ نے ان کے حقوق کی ادائیگی میں کوئی کسر نہیں چھوڑی اور تمام تر مصائب و دباؤ کے آگے آپ کا ڈٹ جانا ہر مصری نوجوان اور تمام دنیا کے احرار کے لیے باعث فخر ہے اور مصری عوام کو ہم یہ کہنا چاہیں گے کہ اب جبکہ حق باطل سے عیاں ہو چکا اور فراعنہ کے باطل منکشف ہو چکے تو جسد واحد کی مانند اس اساس پر لوٹ آؤ جس پر ۲۵ جنوری ۲۰۱۱ء کو تھے۔
اور ہم اپنے اخوانی ساتھیوں سے یہ کہنا چاہیں گے کہ اللہ آپ کے معاملات میں آپ کا کارساز ہو اور آپ کی تکالیف اور صبر پر آپ کو جزائے خیر دے۔ اللہ کے وعدے پر یقین کامل رکھیں جو پورا ہو کے رہتا ہے اور فتح باذن اللہ عنقریب آپ کی قدم بوسی کرے گی اور ترکی، ترک عوام اور ان کے محترم صدر کو ہم کہنا چاہیں گے کہ اللہ آپ کا حامی و ناصر ہو، آپ کی سمت درست رکھے اور آپ کی حفاظت فرمائے اور آپ کو اس تمام دباؤ کے مقابل ثابت قدم رہنے پر بے پناہ جزائے خیر عطا فرمائے، جس کا سامنا آپ کو اس ملک کی حقیقی قیادت کی حمایت کے سلسلے میں اور اللہ کے بعد ان کو پناہ دینے کے باعث کرنا پڑا۔
اور مملکت سعودی عرب سے ہم یہ کہنا چاہیں گے کہ دین اسلام کی امانت، حرمین کا تقدس اوربطریق احسن دعوۃ الی اللہ کا بار آپ کی گردنوں پر ہے۔
Leave a Reply