
چاند۔۔۔ تاریک راتوں میں آسمان پر نظر آنے والا وہ سیارہ ہے جسے دیکھ کر انسان مسرت محسوس کرے‘ قصے‘ کہانیوں یا رومانوی داستانوں میں کسی حسین چہرے کو چاند سے تشبیہ دے۔ مگر اکتوبر ۱۹۵۲ء میں سوویت یونین کا ایک خلائی جہاز SPUTNIK-1 اور ۱۹۵۸ء میں امریکا کا Explorer-1 نامی خلائی جہاز چاند پر اترے تو کچھ ایسے انکشافات ہوئے جن کی بنا پر حسیناؤں نے اپنے آپ کو چاند سے تشبیہ دینا چھوڑ دیا۔ دو خلائی ماہرین نیل آرم اسٹرونگ اور ایڈون ایلڈرن کا نام اس سلسلے میں اہمیت کا حامل ہے۔ ان دونوں خلائی ماہرین نے ہی سب سے پہلے چاند پر قدم رکھا تھا اور تقریباً ۲ گھنٹے وہاں پر قیام بھی کیا تھا۔
عورتوں نے اس انکشاف کے بعد کہ ’’چاند پر گڑھے موجود ہیں‘‘ اپنے آپ کو حسین کہلوانے کی خواہش تو ترک نہیں کی لیکن چاند سے تشبیہ دینا ضرور چھوڑ دیا۔ چاند پر گڑھوں کی وجہ دراصل شہابی پتھروں کی زبردست گولہ باری ہے۔ یہ شہابی پتھر زمین سے بھی ٹکرانے آتے ہیں لیکن جب زمینی آب و ہوا میں داخل ہوتے ہیں تو زمینی آب و ہوا میں موجود گیس (ہوائے بسیط) کے سالہات و ذرّات کے باعث یہ شہابی پتھر جل جاتے ہیں۔ مگر چاند پر تو کوئی آب و ہوا ہی موجود نہیں ہوتی لہٰذا یہ شہابی پتھر چاند کی زمین سے باآسانی ٹکراتے ہیں اور گڑھے پیدا کر دیتے ہیں۔ اس انکشاف سے یہ بات بھی خواتین کے علم میں آئی کہ اگر ہم اپنے آپ کو چاند سے تشبیہ دیں گے تو غالباً جس طرح چاند کی سطح محفوظ نہیں ہے‘ اسی طرح ہماری جلد بھی محفوظ تصور نہ کی جائے گی۔
چاند کی گردش کا راستہ اصل میں ۲۷ دن‘ ۷ گھنٹے اور ۴۳ منٹ ہوتا ہے جبکہ محوری یا مداری گردش کا وقفہ تقریباً برابر یا ایک جیسا ہی ہوتا ہے۔ جیسے ہی چاند زمین کے گرد اپنا ایک چکر مکمل کرتا ہے‘ ساتھ ہی ساتھ وہ اپنے محور پر گھومتا رہتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ ہم چاند کا صرف ایک ہی رخ دیکھ پاتے ہیں۔
چاند کا خطِ استواء کے نزدیک قطر ۳۴۷۶ کلو میٹر ہے۔ اس کا فاصلہ زمین سے (جب یہ زمین سے کافی دور ہوتا ہے) 406،699 کلو میٹر یعنی 252،711 میل ہوتا ہے۔ لیکن اس کا فاصلہ زمین سے جب یہ زمین سے قریب ہوتا ہے‘ 356،399 کلو میٹر یعنی 221،456 میل ہوتا ہے۔ یہاں یہ بات ثابت ہو رہی ہے کہ چاند قریب ہو یا دور‘ اس تک رسائی ہر کسی کے لیے ابھی بھی ممکن نہیں۔ چاند تقریباً ۸۵ فیصد پہاڑی حصے اور ۱۵ فیصد میدانی علاقے پر مشتمل ہے۔ اس میدانی علاقے کو MARIA کہا جاتا ہے۔ چاند پر موجود پہاڑیوں کی بلندی تقریباً 20،000 فٹ ہوتی ہے۔ اس اعتبار سے اگر چاند اور حسین چہروں کے درمیان موازنہ کیا جائے تو حسین عورتیں اپنے آپ کو اس انکشاف کے بعد چاند سے تشبیہ دینا ہرگز پسند نہ کریں گی۔ اس انکشاف کے بعد بھی اگر وہ اپنے آپ کو مانندِ چاند تصور کرتی ہیں تو ذرا سوچیے ان کی شکلیں کیسی محسوس ہوں گی؟
چاند کا وزن (۲۲×۳۵۵ء۷ )کلو گرام ہے۔ یعنی اس کا وزن زمین کے مقابل کم ہے اور کششِ ارض بھی زمین کے مقابل کم ہے۔ (یعنی ۱/۶ زمین کے) اس اعتبار سے حسین چہروں اور چاند میں مماثلت پائی جارہی ہے۔ اگر چاند کا وزن زیادہ ہوتا تو بھلا کیا وہ چاند ہوتا؟ اگر چاند کا وزن زیادہ ہوتا تو کیا حسین عورتیں اپنے آپ کو چاند کہتیں؟ شکر ہے چاند کا وزن کم ہی ہے۔ Apollo5 اور Apollo17 یہ واضح کرتا ہے کہ چاند کا اندرونی حصہ حرارت کے اعتبار سے زندہ ہے اور چاند ہر سال تقریباً ۳۰۰۰ Termors یعنی ۳۰۰۰ جھٹکے یا تھرتھراہٹ محسوس کرتا ہے۔
تقریباً ۴ء۶ بلین یعنی ۴۶ کھرب سال پہلے چاند ایک گرم لاوے کی صورت میں موجود تھا مگر وقت کے ساتھ ساتھ یہ لاوا ٹھنڈا ہوتا گیا اور یوں سطح ٹھوس ہونا شروع ہو گئی اور اوپری حصہ (Crust) وجود میں آگیا۔ چاند کی سطح بہت سی Layers یا پرتوں پر مشتمل ہے۔ اس Crust کے نیچے تقریباً ۱۵۰ کلو میٹر گہرائی تک ایک بھاری مادہ سے بنی پرت موجود ہے جہاں سے Lithosphere نامی پرت کی ابتدا ہوتی ہے۔ Lithosphere کے نیچے Asthenosphere موجود ہے جو کہ تھوڑے نرم گودے سے بنی ہوئی ہے جو کہ تقریباً ۱۵۰۰ کلو میٹر تک ہے۔ آخر میں چاند کے درمیان میں ایک پگھلے ہوئے گودے سے بنی پرت موجود ہے۔ چاند کے اندر بہت سی Layers ہوتی ہیں مگر باہر کسی سطح پر کسی طرح کی کوئی Layer نہیں ہوتی۔
چاند پر ہوا کی قلت ہے لہٰذا اس کمی کے باعث ایک اہلِ نظر کے لیے چاند سے آسمان ہمیشہ کالا اور ستاروں سے بھرا دکھائی دیتا ہے۔ لہٰذا چاند پر قدم رکھنے والے ان انسانوں کے قدموں کے نشانات بھی آج تک وہاں مل جائیں گے کیونکہ وہاں کوئی ہوا کا جھونکا موجود ہی نہیں ہے جو کہ انہیں مٹا سکے۔ لیکن یہ بات بھی ہے کہ وہاں پر صرف ہائیڈروجن‘ ہیلیم‘ آرگن اور نیون جیسی گیسوں (ہوائے بسیط) کے آثار واضح طور پر مل جائیں گے۔
لہٰذا ان حقائق و انکشافات کی روشنی میں ہم یہ نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ وہ تمام عورتیں جو اپنے آپ کو چاند سے تشبیہ دیتی ہیں‘ صرف ایک بار یا ایک لمحے کے لیے ان سائنسی انکشافات کو ضرور جانچیں‘ ہو سکتا ہے کہ وہ اپنے کو چاند کی مانند کہنا ہی چھوڑ دیں۔ یا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ چاند کو برا کہیں یا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کوئی چاند نام رکھنا ہی چھوڑ دے۔ لیکن نتیجہ کچھ بھی نکلے یہ بات تو بالآخر درست ہی ہو گی کہ چاند کا بھی صرف ایک رخ ہی دیکھا جاسکتا ہے اور یہ بھی کہ وہ اپنے اندر لاوا چھپائے رکھتا ہے۔
(بشکریہ: سہ روزہ ’’دعوت‘‘ نئی دہلی۔ شمارہ: یکم ستمبر ۲۰۰۶ء)
Leave a Reply