
الجزائر سے ایک معتبر ذرائع نے مڈل ایسٹ آئی (Middle East Eye) کو بتایا کہ باغیوں کا کوئی نقظہ نظر نہیں ہے اور یہ کہ الجزائر اب مزید کسی آمر کو تیونس پر حکمرانی کرتا برداشت نہیں کرنا چاہتا۔
تیونس کے صدر قیس سعید کی بغاوت اپنا اثر کھو رہی ہے۔ انہیں حکومت چلانے کے لیے جس بیرونی پشت پناہی کی ضرورت ہے وہ انہیں نہیں مل رہی اوراب داخلی امور کے حلقوں میں لوگوں کو اندازہ ہو رہا ہے کہ انہیں حکومت، ریاست اور عدلیہ چلانے کے لیے کون لوگ ملے ہیں۔
صدر قیس سعید کے نقطہ نظر سے چھانٹی اورنئی تعیناتی کے عمل کی رفتار اتنی تیز نہیں کہ جتنی درکار ہے۔ظہیر مغضوئی، جو کہ قیس سعید کی حکومت کی حامی پارٹی الحرکۃ الشعب کے سیکرٹری جنرل ہیں، نے قیس سعید کی جانب سے پارلیمان کی معطلی کو مزید چھ ماہ تک طول دینے کی تجویر پیش کی ہے۔
تیونس جیسے خستہ حال ملک کے لیے غیر ملکی پشت پناہی بے حد اہم ہے، جو کہ اپنے سرکاری شعبے کی بڑے پیمانے پر تنخواہوں/ اجرت کی رقم ادا کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا اور اس سال محض بیرونی قرضوں کی ادائیگی کی مد میں ۶ بلین ڈالر کا مقروض ہے۔ اسی لیے یہ بات بہت اہم ہے کہ تیونس کی معیشت میں بیرونی حصہ دار (foreign stakeholders) کیا سوچتے ہیں اوروہ قیس سعیدکو وہ نہیں کہہ رہے جو قیس سعید سننا چاہتا ہے۔
تیونس اور اطالوی ذرائع کے مطابق جرمنی، اٹلی اور امریکی سفراء نے اسے جلد سے جلد پارلیمنٹ کو بحال کرنے کا کہا ہے۔تیونس سے باخبر ذرائع نے بتایا ہے کہ امریکا نے قیس سعید کو کھوئی ہوئی طاقت دوبارہ مجتمع کرنے کی خاطر ایک بڑی ریلی کے انعقاد سے روک دیا ہے۔ ان تمام سفراء نے النہضہ پارٹی کے صدر اور پارلیمان کے اسپیکر راشد الغنوشی سمیت دیگر پارٹیوں کے قائدین کو تائیدی پیغامات بھیجے ہیں۔
اگرچہ قیس سعید کو بھیجے گئے غیر ملکی پیغامات نجی طور پر ارسال کیے گئے مگر ان ممالک کی جانب سے مذمتی بیانات بھی سامنے آئے ہیں۔امریکی سنیٹرباب میننڈز جو کہ سینیٹ کی خارجہ تعلقات کی کمیٹی کے چیئرمین ہیں اور جم رشی جو کہ ان کے نائب ہیں، نے کہا ہے کہ انہیں تیونس میں جاری کشیدگی پر گہری تشویش ہے۔ قیس سعید کو جمہوری اصولوں کی طرف رجوع کرنا چاہیے جو کہ امریکا اور تیونس کے مابین تعلقات کو مستحکم کرے گا اور فوج کو آئینی جمہوریت میں اپنے کردار کا جائزہ لینا ہوگا۔
قیس سعید کو پھسلایا جا سکتا ہے کہ وہ ان تمام باتوں کو نظر انداز کرے کیونکہ اس سے اماراتی اور سعودی حکومتوں نے وعدہ کیا ہے کہ وہ اسے مالی طور پر مستحکم کریں گے۔ مگر قبل اس کے کہ وہ ان وعدوں کو حقیقت سمجھنے لگے، اسے چاہیے کہ وہ سوڈانیوں سے پوچھے کہ ان کا ان وعدوں کے بارے میں کیا تجربہ رہا ہے۔
جب عمر البشیر کو اپریل ۲۰۱۹ء میں صدارت کی کرسی سے معزول کیا گیا تو سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے سوڈان سے ۳ بلین ڈالر کی امداد کا وعدہ کیا تھا۔اس امداد کا صرف ساڑھے سات سو ملین ڈالر پہنچایا گیا اور جب سے ۲۰۱۹ء میں فوج کے ساتھ طاقت کی تقسیم کا معاہدہ ہوا ہے اس کے بعد سے کچھ نہیں پہنچایا گیا۔ اب ۲۰۱۹ء کے وعدے کو وفا کرنے کی خاطر سعودیوں نے سوڈان میں ایک مشترکہ فنڈ میں ۳ بلین ڈالر سرمایہ کاری کا ایک اور وعدہ کیا ہے، جس کے محض ۳۰۰ ملین ڈالر پہنچ سکے ہیں۔
وعدہ کرنا اور اسے وفا کرنا دو الگ الگ چیزیں ہیں، جس کے درمیان سوڈان میں مہنگائی کی شرح ۴۰۰ فیصد تک بڑھ گئی ہے۔
الجزائر کا نقطۂ نظر
یہ الجزائر کی ہی حکومت ہے، جس کے بارے میں قیس سعید کو سب سے زیادہ پریشان ہونا چاہیے۔ تیونس ایک چھوٹا سا ملک ہے جس کے پڑوسی ممالک بہت بڑے ہیں۔نہ ہی مصر، جس نے اس بغاوت کو منظم کیا تھا اور نہ ہی متحدہ عرب امارات کہ جس نے اسے مالی امداد سے مستحکم کیا، تیونس کے پڑوسی ہیں۔ الجزائر نے نرمی سے قدم بڑھانا شروع کیے۔ وہاں کے وزیرِ خارجہ رمطان لعمامرۃ اپنے صدر عبدالمجید تبون کا زبانی پیغام لے کر تیونس گئے مگر اس پیغام کو منظرِ عام پر نہیں لایا گیا۔ رمطان لعمامرۃ مصری صدر سیسی سے ملنے قاہرہ بھی گئے جس کے بعد مصری صدر کی جانب سے یہ بیان آیا کہ تیونس کی سلامتی اور خوشحالی کی خاطر تیونس کے صدر قیس سعید کی حمایت اور ہر وہ عمل جس سے تیونس مستحکم ہو اور وہاں کے لوگوں کے فیصلوں پر عمل درآمد ہو، اسے پورا کرنے پر اتفاق ہوا ہے۔ مگر الجزائر کی طرف سے اس قسم کا کوئی بیان نہیں آیا۔
جب یہ بات واضح ہوگئی کہ الجزائر کے نقطہ نظر کی طرف کوئی دھیان نہیں دے رہا ہے تو الجزائر کے اگلے سرکاری افسر جن کا بیان سامنے آیا وہ وہاں کے چیف آف آرمی اسٹاف لیفٹیننٹ جنرل سعید شنقریحہ تھے۔ انہوں نے کہا کہ الجزائر اور اس کے باشندوں کے خلاف جو سازشوں کے جال بچھائے جا رہے ہیں وہ محض تخیلاتی نہیں ہیں جیسا کہ کچھ لوگ کہہ رہے ہیں بلکہ یہ حقیقت ہے اور سب کے سامنے عیاں ہے۔
کچھ دن قبل الجزائر نے سعودی ٹی وی چینل العربیہ ٹی وی پر جھوٹی خبریں پھیلانے کا الزام لگا کر اس کا لائسنس منسوخ کردیا۔ یہ جنرل کی جانب سے واضح پیغام تھا کہ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور مصر اس معاملے سے پیچھے ہٹ جائیں۔
عالمی مداخلت
الجیریا تیونس کو تریپولی کا راستہ سمجھتا ہے، اس لیے وہ تیونس اور لیبیا کے اندر ہونے والے واقعات میں بھر پور دلچسپی لیتا ہے۔مصر، متحدہ عرب امارات اور روس نے قذافی کے دور کے جنرل اور غدار خلیفہ حفتر کو لیبیا پر حکمران بنانے کی کوشش کی اور حفتر کی فوجیں لیبیا کے دار الخلافہ طرابلس کے مرکز سے چند کلومیٹر کے فاصلے تک پہنچ گئی تھیں جب ترکی کے ڈرون طیاروں نے مداخلت کرکے ان کو پیچھے دھکیلا اور یوں حفتر ناکام رہا۔اسی کی بدولت وہاں ایک قائم مقام حکومت قائم کی گئی جسے مشرق اور مغرب دونوں کی مشترکہ پشت پناہی حاصل ہے۔
الجزائر کا سمجھنا ہے کہ لیبیا میں ناکامی کے بعد متحدہ عرب امارات اب تیونس میں اپنے من پسند نتائج حاصل کرنے کے خواب دیکھ رہا ہے۔ الجزائر کا یہ نقطہ نظر درست بھی ہو سکتا ہے۔
الجزائر سے ایک معتبر ذرائع نے Middle East Eye کو بتایا کہ بغاوت کی کامیابی کے کوئی امکانات نہیں۔ انہوں نے قیس سعید سے درخواست کی ہے کہ وہ راشد الغنوشی سے گفت و شنید کرے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ کس طرح مصر اور متحدہ عرب امارات نے اس بغاوت کو ہوا دی تھی۔ انہوں نے کہا کہ وہ تیونس میں ایک اور ہفتار نہیں دیکھنا چاہتے ہیں، وہ نہیں چاہتے ہیں کہ تیونس میں بھی ایک ایسی حکومت ہو جو ان ممالک کی غلام ہو۔ یہ بہت صاف اور واضح ہے۔
اٹلی بھی تیونس کے حوالے سے فکر مندی کا مظاہرہ کر رہا ہے۔ وہاں کے سابق وزیر اعظم رومانو پروڈی نے کہا ہے کہ جو کچھ تیونس میں ہو رہا ہے وہ محض ان کے اندرونی مسائل نہیں۔ تیونس میں جمہوریت کو آمریت میں بدلنے کے نتائج تیونس کے سرحد پار بھی پہنچیں گے۔ ہم، اہلِ یورپ بحیرۂ روم کے جنوبی ساحلی خطے میں اپنا سیاسی اثر و رسوخ کھو رہے ہیں۔ یہ سب کچھ اٹلی کو بلاواسطہ متاثر کر رہا ہے، نہ صرف کورونا وائرس کے پھیلنے کے خطرے کے سبب بلکہ مہاجرین کی بڑی تعداد کے ممکنہ طور پر ہجرت کے سبب بھی۔
ترک حکومت بھی تیونس میں ہونے والے واقعات کے بارے میں فکرمند ہے۔ کم از کم اس خدشہ کی بنا پر کہ مصر اور متحدہ عرب امارات کی انقرہ حکومت کے ساتھ حالیہ کشیدگی ترکی کو اصل کارروائی سے بھٹکانے کی سازش ہو سکتی ہے، جو تیونس کے خلاف پیش قدمی تھی۔
ترکی کا لیبیا میں طاقت کا مظاہرہ فیصلہ کن تھا۔ اس نے نہ صرف حفتر کی پیش قدمی کو روک دیا تھا بلکہ روس، متحدہ عرب امارات، اسرائیل، فرانس اور ان تمام ممالک کی سازشوں کو ناکام بنا دیا تھا جنہوں نے حفتر کی بغاوت کی کوشش کو کبھی نہ کبھی ابھارنے میں اپنا کردار ادا کیا تھا۔ لیکن کیا ترکی طرابلس پر دباؤ برقرار رکھنے کے منصوبے میں اپنی نظریں تیونس سے ہٹا سکتا ہے جو کہ ہمیشہ اس کی نظر کا مرکز رہا ہے؟
قیس سعید کان نہیں دھر رہا
وہاں تیونس میں قیس سعید کچھ نہیں سن رہا۔ اطالوی سفارتکار اپنا سر کھجا رہے ہیں۔ وہ یقیناً یہ بات نہیں سمجھ رہا کہ جمہوریت تکثیریت ہے۔یہ پارلیمنٹ کے خلاف سرگرم، ان پر بدعنوانی کے الزامات کا شور مچاتے ایک عوامی لیڈر کی طرح نہیں۔
۲۰۱۹ء میں جب قیس سعید کرپشن کے خلاف بیانات دیتا ایک صدارتی امید وار تھا، تب اس نے ایک انٹرویو میں اپنا پلان واضح سنا دیا تھا۔ جب ان سے ان کے انتخابی پروگرام کے بارے میں پوچھا گیا، تو انہوں نے جواب دیا،’’میں نے ایک پروجیکٹ (سالوں پر محیط) تجویز کیا ہے، ایک نئی بنیاد۔ اب ایک نئی سیاسی سوچ ہونی چاہیے اور ایک نیا آئینی متن‘‘۔
قیس سعید نے کہا کہ اگر وہ صدارتی انتخاب جیت جاتا ہے تو وہ قانون ساز اسمبلی کے انتخابات سے چھٹکارا پا لے گا۔ اس نے کہا، ’’مغربی ممالک میں پارلیمانی جمہوریت دیوالیہ ہو چکی ہے اور اب اس کا وقت ختم ہو گیا ہے۔ آپ دیکھیں کہ فرانس میں ییلو ویسٹ تحریک کے ساتھ اور الجزائر اور سوڈان میں کیا ہو رہا ہے۔ اب پارٹیاں ختم ہو جائیں گی۔ ہو سکتا ہے اس میں کچھ وقت لگے مگر چند سالوں میں یقیناً ان کا کردار ختم ہو جائے گا۔ تکثیریت بذاتِ خود معدوم ہو جائے گی۔ ہم تاریخ کے ایک نئے دور میں داخل ہو چکے ہیں۔ یہ ایک نیا انقلاب ہے‘‘۔
انٹرویو کرنے والے نے سوال کیا کہ، ’’کیا یہ مسئلہ تیونسی لوگوں کا ہے کہ جو پڑھتے نہیں یا ان پارٹیوں کے ساتھ ہے؟‘‘ سعید نے جواب دیا، ’’یہ پارٹیاں اصل مسئلہ ہیں۔ ان کا کردار اب ختم ہو چکا ہے‘‘۔
انہوں نے تیونس میں سول سوسائٹی کی تنظیموں پر قابو پانے کے اپنے واضح ارادے کو ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ میرے پاس ایک پلان ہے جس کا مقصد تمام سول سوسائٹیوں کی حمایت کو ختم کرنا ہے، چاہے وہ مقامی ہوں یا غیر مقامی، کیونکہ یہ ہمارے معاملات میں مداخلت کے لیے استعمال ہوتی ہیں۔
یہ نہ تو کوئی منشور ہے اور نہ ہی کوئی معاشی منصوبہ۔ جوبائیڈن کی جانب سے دشمنی پر قیس سعید کا ردِ عمل امریکی سفیر کو برطرف کرنا تھا، جسے اتفاق سے خود اسی نے ایک سال قبل نامزد کیا تھا۔ اس کا اقتصادی پروگرام دولت مند سیٹھوں کے ذریعے غریب علاقوں کی بھرپائی کرنا ہے۔ یہ کوئی منصوبہ نہیں ہے اور نہ ہی کوئی نیا خیال۔مالیاتی پالیسی کے متعلق اس کا خیال یہ ہے کہ وہ بینکوں سے شرح سود میں کمی کا مطالبہ کرے گا۔درحقیقت یہ صدر کے کرنے کا کام نہیں بلکہ یہ مرکزی بینک کا کام ہے۔ اور جیسا کہ ہم نے ترکی میں دیکھا ہے کہ یہ پالیسی مارکیٹ کے لیے سود مند ثابت نہیں ہوتی۔
خطرے کی گھنٹی، مگر کیوں؟
یہ بھی کہا جانا چاہیے کہ قیس سعید کا قریبی اتحادی مصر، کوئی اچھی مثال نہیں ہے۔مصر اس وقت کے مقابلے میں بہت کمزور ہے، جب سیسی نے ۲۰۱۳ء میں فوجی بغاوت کے ذریعے قبضہ حاصل کیا تھا۔جس دن مصر کے وزیرِ خارجہ قیس سعید سے ملے اور انہیں مکمل تائید کی یقین دہانی کروائی، اسی دن سیسی نے روٹی پر رعایت کم کرنے کے منصوبے کا اعلان کیا۔ سادات کے دور کے بعد پہلی بار ایسی کوشش کی گئی، اُس وقت بھی اس نے فسادات کو ہوا دی تھی۔
تیونس کے لیے مصر کی پیروی کرنے میں ستم ظریفی یہ ہے کہ اعداد و شمار کے مطابق مصر میں غربت کی شرح تیونس کے مقابلے میں نمایاں طور پر زیادہ ہے، یعنی ۲۰۲۰ء میں مصر میں ۳۱ فیصد تھی تو تیونس میں ۱۹ فیصد۔
اگر چہ قیس سعید نہیں سن رہا ہے، مگر اس کے گرد زیادہ سے زیادہ تیونسی یہ ضرور سن رہے ہیں، کیونکہ اس کے غیر روایتی، خود کو عقلِ کُل سمجھنے والے اور منہ پھٹ طرز کی حکمرانی کے عدم استحکام نے ان لوگوں کو بھی متاثر کرنا شروع کر دیا ہے۔ اس کی افواج نے جب ایک وکیل کو گرفتار کرنے کی کوشش کی تو تیونسی بار ایسوسی ایشن کو محاصرے میں لے لیا۔ سونے پہ سہاگہ یہ کہ وکلاء نے مضبوطی دکھائی اور وکیل مہدی زگروبہ کو گرفتاری کے لیے دینے سے انکار کر دیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ فوج اور عدلیہ پیچھے ہٹ گئے اور پیر کے دن زگروبہ اور چار دیگر ارکانِ پارلیمنٹ جو کہ پارلیمنٹ میں الکرامہ اتحاد کے ارکان تھے، کے خلاف مقدمات خارج کر دیے۔
یہ محض ایک آمر populist کے خلاف جنگ یا اسلام پسندوں کا پارلیمنٹ میں غلبہ نہیں ہے۔ بلکہ اب زیادہ سے زیادہ تیونسی خود سے یہ سوال کر رہے ہیں کہ آخر قیس سعید تیونس کو کہاں لے کر جا رہا ہے؟
بحیرۂ روم کے ارد گرد اس کے پڑوسی ممالک کے خدشات بنیادی طور پر براہِ راست اور نمائندہ جمہوریت کے مابین بحث میں نہیں ہیں۔ وہ تیونس کے استحکام کے بارے میں فکرمند ہیں۔ غیر مستحکم قیس سعید انہیں خطرے کی وجہ قرار دے رہا ہے۔ وہ اس پر یقین کرتے ہیں، نہ بھروسہ اور نہ اس کی پشت پناہی کر رہے ہیں۔میرے خیال میں اس بغاوت کے دن اب گنے جا چکے ہیں۔
(ترجمہ: ڈاکٹر عثمان)
“Tunisia coup: Why its days could be numbered”. (“middleeasteye.net”. Aug.5, 2021)
Leave a Reply