تیونس : جمہوریت اور فسادات

تیونس میں جمہوریت کو حقیقی معنوں میں متعارف ہوئے زیادہ وقت نہیں گزرا مگر اس چھوٹے سے ملک کو پھر فسادات نے لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ سب چاہتے ہیں کہ جو کچھ عشروں میں بگڑا ہے، وہ لمحوں میں درست ہو جائے۔ ایسے میں بہتری کی توقع کس طور رکھی جاسکتی ہے؟ تیونس میں لوگ معاشی مشکلات سے پریشان ہیں۔ عوامی انقلاب کے برپا ہونے سے بہت کچھ الٹ پلٹ گیا ہے۔ ایسے میں لازم ہے کہ معاملات کو درست کرنے کے لیے کچھ وقت دیا جائے۔ مگر قوم حکومت کو وقت دینے کے لیے تیار نہیں۔

تقریباً دو سال قبل جب عرب دنیا اور شمالی افریقا میں عوامی انقلاب کی لہر اٹھی تو سب سے پہلے تیونس میں زین العابدین بن علی کی حکومت کا دھڑن تختہ ہوا۔ عوامی انقلاب نے ملک بھر میں یکجہتی کا ماحول پیدا کیا۔ جمہوریت نواز قوتیں ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوئیں، سب نے مل کر ایک آمر کو رخصت کیا اور یوں ملک میں جمہوری دور شروع ہوا۔ انقلاب نے جس جمہوریت نوازی کو فروغ دیا تھا، وہ لہر کی صورت تھا۔ لہر اب اتر چکی ہے اور محاذ آرائی کو راہ مل رہی ہے۔ ۴ دسمبر کو دارالحکومت تیونس میں اسلام پسند افراد کا تصادم بائیں بازو کے حامیوں سے ہوا ہے اور دوسری طرف ایک صوبائی صدر مقام سیلیانا میں مظاہرین اور پولیس کے درمیان جھڑپیں ہوئیں، جن میں پولیس نے پتھراؤ کے جواب میں گولیاں برسائیں۔

سیلیانا میں صورت حال کچھ دن کشیدہ رہی۔ پولیس نے بتایا کہ مظاہرین کے پتھراؤ سے اس کے ۷۲؍اہلکار زخمی ہوئے جبکہ پولیس کی کارروائی سے ۲۵۰ سے زائد مظاہرین زخمی ہوئے۔ کشیدہ صورت حال کے دوران عوام میں پولیس اور فوج کے لیے بہت غصہ تھا۔ دیواروں پر فوج کے خلاف نعرے بھی لکھے گئے۔ مظاہرین کا تعلق ملک کی سب سے بڑی مزدور انجمن ٹیونیشین جنرل لیبر یونین سے تھا اور اس نے حکومت کے خلاف اپنی جدوجہد میں کامیابی کا دعویٰ کیا ہے۔ حکومت سے ’’جنگ بندی‘‘ کا جو معاہدہ ہوا ہے، اس کی بیشتر شرائط ٹیونیشین جنرل لیبر یونین کے حق میں جاتی ہیں۔ حکومت نے صوبے کے گورنر کو ہٹانے کا مطالبہ ماننے کے ساتھ ساتھ جیل میں ڈالے جانے والوں سے انصاف اور سب سے بڑھ کر سیلیانا میں سرمایہ کاری بڑھانے پر رضامندی ظاہر کردی۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ لیبر یونین اور حکومت کے درمیان جو معاہدہ طے پایا ہے، اس پر عمل ہوگا یا نہیں۔ سیلیانا ایک چھوٹا سا قصبہ ہے جو دارالحکومت تیونس سے دو گھنٹے کے فاصلے پر ہے، راستہ دشوار گزار ہے۔ یہاں کی آبادی ۲۵ ہزار نفوس پر مشتمل ہے۔ اس دیہی علاقے کو سرمایہ کاری کی اشد ضرورت ہے۔ لیبر یونین کا کہنا ہے کہ سیلیانا کو سلطنتِ عثمانیہ کے زمانے سے نظر انداز کیا جاتا رہا ہے۔ اس علاقے میں بے روزگاری عام ہے، جس کے باعث عوام میں اشتعال بڑھ رہا ہے۔ ملک کے چند علاقے ترقی یافتہ ہیں۔ سیلیانا ایسا علاقہ ہے جسے ترقی دینے کے بارے میں کم ہی سوچا گیا ہے۔

سیلیانا واحد علاقہ نہیں ہے جو حکومت کے لیے خطرے کی گھنٹی بن کر نمودار ہوا ہے۔ ملک کے بہت سے دوسرے علاقوں میں بھی لوگ یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ زین العابدین بن علی کو ہٹانے اور جمہوری قوتوں کو اقتدار کے ایوان تک پہنچانے سے کیا ملا؟ تیونس میں عام آدمی کا خیال یہ ہے کہ جمہوریت کے آنے سے اسے کچھ بھی نہیں ملا۔ صدر کو بھی اس کا شدت سے احساس ہے۔ انہوں نے حقیقی مفہوم میں عوامی انقلاب کے بار آور ہونے کے حوالے سے عوام کے تحفظات پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ لوگوں میں مایوسی بڑھتی جارہی ہے۔ وہ اپنی جدوجہد کا پھل چاہتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ آمریت نہیں رہی تو اب معیشت بہتر حالت میں ہونی چاہیے۔ اگر کوئی بڑی تبدیلی رونما نہ ہو تو آمریت کو ہٹانے اور انقلاب برپا کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ احتجاج سیلیانا تک محدود نہیں۔ تیونس کے کئی شہروں میں لوگ بنیادی مسائل حل کرنے میں حکومت کی ناکامی کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے سڑکوں پر نکلے ہیں۔ پولیس سے مظاہرین کی جھڑپیں بھی ہوئی ہیں اور سرکاری املاک کو بھی نقصان پہنچا ہے۔

ایک سال قبل لوگوں نے جس گورنر کو ووٹ دیا تھا، اسی کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ وہ فرق دیکھنا چاہتے ہیں۔ جب تک فرق دکھائی نہیں دے گا، وہ احتجاج کی راہ پر گامزن رہیں گے۔

(“Tunisia: Democracy and Riots”… “The Economist”. Dec. 8th, 2012)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*