
صدر تیونس نے انتظامِ حکومت خود سنبھال لیا ہے۔ حکومت کو برخاست کردیا ہے اور پارلیمان کو معطل کر دیا ہے۔ تیونس کے صدر قیس سعید نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ میں یہ قدم ریاست تیونس اور تیونسی معاشرے کو بچانے کے لیے اٹھا رہا ہوں، پارلیمان کی معطلی ۳۰ دن کے لیے ہے۔
اسپیکر پارلیمان تحریک النہضہ کے سربراہ جناب راشد الغنوشی نے صدر کے اس اقدام کو مسترد کرتے ہوئے اسے دستور کی کھلم کھلا خلاف ورزی اور بغاوت سے تعبیر کیا ہے۔ علاوہ ازیں تیونس کی زیادہ تر جمہوری طاقتوں نے صدر کے اس اقدام کو مسترد کیا ہے۔
۲۶ جولائی کی صبح اسپیکر پارلیمان راشد الغنوشی پارلیمان تشریف لائے تو فوجی جوانوں نے انہیں پارلیمان کی عمارت میں داخلے سے روک دیا۔
اس موقع پر راشد الغنوشی نے کہاکہ اسپیکر پارلیمان کا محافظ اور سربراہ ہوتا ہے اور میں جس ادارے کا سربراہ ہوں، آج اسی کے باہر عاجز کھڑا ہوں اور داخلے سے قاصر ہوں۔ انہوں نے اراکینِ پارلیمان سے کہاکہ وہ جہاں بھی ہوں پارلیمان پہنچیں۔ وہ پارلیمان کے منتخب ممبر ہیں، قوم نے ان کو پارلیمان کا ممبر بنایا ہے۔ وہ تیونس کی جمہوریت اور عرب بہار کے ثمرات کو بچانے اور اپنے فرائض کی بجا آوری کے لیے پارلیمان میں پہنچے۔
اس موقع پر ڈپٹی اسپیکر سمیرہ شواشی نے کہاکہ صدر کا یہ اقدام دستور کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ فوج کو سیاسی اختلافات میں فریق نہیں بننا چاہیے، اپنی دستوری ذمہ داری پوری کرنی چاہیے۔ دستور میں پارلیمان کے فوجی محاصرے کی کوئی دفعہ موجود نہیں ہے۔
صدر تیونس قیس بوسعید نے اپنے اقدامات کے لیے جواز تیونسی دستور کی دفعہ نمبر۸۰ کو بنایا ہے۔
حزبِ اختلاف کا کہنا ہے کہ صدر نے دستور میں بیان کی گئی مذکورہ شق کی خود ہی خلاف ورزی کی ہے۔ آرٹیکل کہتا ہے کہ ایمرجنسی نافذ کرنی ہو تو صدر، وزیراعظم اور اسپیکر پارلیمان سے اس بارے میں مشورہ کرنے کا پابند ہے۔
دوسری خلاف ورزی یہ ہے کہ دستور صریحاً کہتا ہے کہ ایمرجنسی کے ایام میں پارلیمان مسلسل کام جاری رکھے گی اور اس کا اجلاس جاری و ساری رہے گا جبکہ صدر نے پارلیمان کو ۳۰ دن کے لیے معطل کر دیا ہے۔
اسی شق کے دوسرے فقرے میں درج ہے کہ ایمرجنسی میں لی جانے والی تدابیر کا ہدف کم سے کم مدت میں معمول کے حالات کی طرف لوٹنا ہے۔
اس دوران صدر پارلیمان کو برخاست نہیں کرسکتا اور نہ ہی حکومت کو چارج شیٹ کیا جاسکتا ہے۔
ہمیں جان لینا چاہیے کہ یہ انقلاب، دستور کی خلاف ورزی اور بغاوت ہے اور باغیوں کے پاس کسی مشکل کا کوئی حل نہیں ہوتا۔ موجودہ انقلاب اگر کامیاب ہوگیا تو ملک کی معیشت اور نظامِ صحت جس کا بہانہ بنایا گیا ہے مزید بگڑ جائے گا۔
Leave a Reply