
تیونس جس خطے میں واقع ہے وہاں خاصا عدم استحکام پایا جاتا ہے، مگر اس کے باوجود تیونس نے اب تک خاصے استحکام کا مظاہرہ کیا ہے۔ عرب دنیا میں بیداری کی لہر اٹھی، تب شمالی افریقا بھی اس سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔ تیونس میں بھی انتخابات ہوئے اور اب دوسری بار انتخابات ہوئے۔
عراق اور دیگر علاقائی ممالک میں نسلی، مسلکی، لسانی اور ثقافتی اختلافات نے بہت سی خرابیوں کو جنم دیا ہے۔ معاشرے تقسیم ہوکر رہ گئے ہیں۔ مگر تیونس میں ایسا نہیں ہے۔ وہاں مختلف مذاہب اور فقہوں کے لوگ رہتے ہیں۔ لسانی اور ثقافتی فرق بھی کم نہیں مگر اس کے باوجود تیونس کا معاشرہ اب تک تقسیم سے بہت دور ہے۔ جنوری ۲۰۱۱ء میں تین عشروں سے حکمرانی کرنے والے زین العابدین بن علی کا تختہ الٹنے کے بعد سے تیونس میں دوسرے انتخابات ہو رہے ہیں۔ یہ کوئی معمولی کامیابی نہیں۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ تیونس کس قدر مستحکم ہوچکا ہے اور اُس نے اندرونی اختلافات اور ناہمواریوں کو کس حد تک دور کرلیا ہے۔ شام، عراق، مصر، لیبیا، یمن اور بحرین میں طرح طرح کے اختلافات نے سَر اُٹھایا ہے۔ بیشتر معاملات بگاڑ کی نذر ہوگئے ہیں۔ لگتا ہے پورا نظام ہی تلپٹ ہوکر رہ گیا ہے۔ مگر تیونس نے ثابت کیا ہے کہ وہ کسی بھی مثبت تبدیلی کو گلے لگانے کی بھرپور سکت بھی رکھتا ہے اور ایسا کرنے کا خواہش مند بھی ہے۔
تیونس نے نیا آئین کھلے دل سے قبول کیا ہے۔ نئے آئین کو سیاسی جماعتوں کی طرف سے ۹۳ فیصد سے بھی زائد تائید و حمایت ملی ہے۔ عرب دنیا میں تیونس کا آئین سب سے زیادہ پروگریسیو اور روشن خیال ہے۔ اس میں خواتین کے حقوق کی ضمانت دی گئی ہے۔ اظہار رائے کی مکمل آزادی کی ضمانت دی گئی ہے۔ مذہبی یا فقہی بنیاد پر تشدد کے لیے اکسانے والوں کو آئین کی رُو سے بالکل برداشت نہیں کیا جائے گا۔ تمام مذاہب اور فقہوں سے تعلق رکھنے والوں کو عبادت کی مکمل آزادی دینا اس نئے آئین کے تحت یقینی بنایا گیا ہے۔ تیونس میں انتخابات کی موثر نگرانی یقینی بنانے کے لیے ایک خود مختار کمیشن قائم کیا گیا ہے۔
کیا تیونس کی مشکلات ختم ہوگئی ہیں؟ اس سوال کا جواب پورے یقین سے اثبات میں نہیں دیا جاسکتا۔ لیبیا میں حالات بہت خراب ہیں۔ کوئی نظامِ حکومت بچا نہیں۔ ہر طرف انتشار ہے۔ مسلح گروپوں کے پاس بڑے پیمانے پر ہتھیار ہیں۔ لیبیا میں کرنل معمر قذافی کی حکومت ختم کیے جانے کے بعد سے اب تک امن قائم ہوسکا ہے نہ استحکام آسکا ہے۔ دوسری طرف مالی میں بھی حالات اب تک درست نہیں ہوپائے۔ دہشت گردی ہے کہ بڑھتی جاتی ہے۔ ایسے میں تیونس کے لیے اپنا استحکام برقرار رکھنا بہت بڑا چیلنج ہے۔ خلیج کی ریاستیں چاہتی ہیں کہ عرب دنیا میں اٹھنے والی بیداری کی لہر دم توڑ دے۔ وہ کسی بھی بڑی سیاسی تبدیلی سے بچنے کے لیے کچھ بھی خرچ کرنے کو تیار ہیں اور کر رہی ہیں۔ جن ممالک میں بیداری کی لہر اٹھی وہاں کے حالات اتنے خراب رہے ہیں کہ خلیج کا کوئی بھی ملک ایسی کسی بھی تبدیلی کو گلے لگانے کے لیے تیار نہیں۔ تیونس خوش قسمت ہے کہ عرب دنیا میں اٹھنے والی بیداری کی لہر کے مرکز سے کچھ دور ہے مگر خیر اِسے مکمل طور پر محفوظ قرار نہیں دیا جاسکتا۔
تیونس میں بھی قبائلی اور دیگر اختلافات ہیں مگر اس کے باوجود سیاسی اختلافات معاشرے کو تقسیم در تقسیم کے عمل سے گزار نہیں رہے۔ ایسا شاید اِس لیے ممکن ہوسکا ہے کہ حکومت نے تمام معاملات پر گہری نظر رکھی ہوئی ہے۔ عوام کی بہبود پر سب سے زیادہ توجہ دی جارہی ہے۔ لوگوں کو بنیادی سہولتیں میسر ہیں۔ گڈ گورننس کا تصور بہت حد تک رُو بہ عمل ہے۔ لوگوں میں انتشار کم پایا جاتا ہے۔ سب اپنی مرضی کے مطابق زندگی بسر کر رہے ہیں۔ ایسے میں تیونس کا معاشرہ تقسیم ہوگا، فی الحال یہ خدشہ نہیں۔ مگر خیر تمام معاملات سے مکمل مطمئن ہو رہنا کسی بھی طور آدرش صورت حال نہیں۔ تیونس کے حکمران بھی اس نکتے کو اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ اگر لوگوں میں عدم اطمینان ہوگا تو خرابیاں بھی پیدا ہوں گی اور سَر اُٹھائیں گی۔
عرب دنیا میں آزادی کی لہر اٹھی تو مصر اور تیونس میں بڑی تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ مصر میں حسنی مبارک کا تختہ الٹا تو فوج نے جمہوریت کو چلنے نہیں دیا اور دوبارہ اقتدار پر قبضہ کر لیا۔ اخوان المسلمون کو زیادہ دیر اور زیادہ دور تک چلنے نہیں دیا گیا۔ دوسری طرف تیونس میں جمہوریت بحال ہوئی اور عوام کی امنگوں کے مطابق حکومت قائم ہوئی، فوج نے پسپائی اختیار کی اور بیرکس میں چلی گئی۔ اس کا نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ تیونس میں اب تک استحکام ہے اور معاملات بہت اچھی طرح چل رہے ہیں۔ آزادی کے بعد کے پہلے صدر حبیب برغوبہ کو فوج کے حوالے سے تحفظات تھے۔ انہوں نے سخت گیر پالیسی اپنائی اور جہاں جہاں ضرورت پڑی، وہاں پولیس کو بھی استعمال کیا۔ اس کے نتیجے میں ملک بہت حد تک پولیس اسٹیٹ دکھائی دینے لگا۔ زین العابدین بن علی کے دور حکومت نے ملک کو حقیقی معنوں میں پولیس اسٹیٹ میں تبدیل کر دیا تھا۔
مصر میں اخوان المسلمون نے بھرپور انتخابی کامیابی کے بعد تنہا پرواز کرنا مناسب جانا اور دیگر جماعتوں کو ساتھ ملانے کی بھرپور کوشش نہیں کی۔ تیونس میں ایسا نہیں تھا۔ میرے والد نے النہضہ پارٹی کی کامیابی کے بعد تمام سیاسی قوتوں کو ساتھ ملا کر چلنے کی کوشش کی اور قومی طرز کی حکومت قائم کرنے پر توجہ دی۔ ۲۰۱۱ء میں النہضہ پارٹی کے الیکشن جیتنے پر میرے والد نے بائیں بازو کی طرف جھکاؤ رکھنے والی دو جماعتوں، دی کانگریس فار دی ری پبلک اور دی ڈیموکریٹک فورم، کو بھی اقتدار میں شریک کیا۔ اس کے نتیجے میں تیونس میں اتفاق رائے کی حکمرانی ممکن ہوئی اور نظریاتی اختلافات کو غیر موثر بنانے میں مدد ملی۔ مصر میں یہی ہوا تھا۔ وہاں نظریاتی اختلافات نے انتہائی تباہ کن شکل اختیار کی۔
جب مصر میں فوج نے اخوان المسلمون کی حکومت کا تختہ الٹ کر دوبارہ اقتدار پر قبضہ کیا تو اُس کے بُرے اثرات تیونس پر بھی مرتب ہوئے۔ اپوزیشن کی ایک اہم شخصیت کے قتل سے معاملات اور بگڑ گئے اور عام انتخابات سے قبل النہضہ پارٹی نے اقتدار نگراں سیٹ اپ کو دے دیا۔
تیونس میں سیاست دانوں کو اندازہ ہے کہ خطہ کس طرف جارہا ہے۔ ان کے لیے اقتدار کی منتقلی سب سے اہم معاملہ ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ جمہوریت کی راہ پر گامزن نہ رہنے کی صورت میں ایک بار پھر فوج اقتدار میں آجائے گی اور ملک دوبارہ پولیس اسٹیٹ میں تبدیل ہوجائے گا۔ النہضہ پارٹی کے بیشتر رہنماؤں نے جلا وطنی کا زمانہ یورپ میں گزارا ہے اور وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ معاملات کو بہتر انداز سے چلانے کے لیے ہم آہنگی اور سمجھوتہ پسندی لازم ہے۔ دوسروں کو برداشت کرنے ہی میں معاشرے اور سیاست کی بہتری ہے۔ انہیں اندازہ ہے کہ سیاست مذاکرات، ہم آہنگی، سمجھوتے، اتحاد اور اتفاق رائے کا نام ہے۔
تیونس صرف خطے کے لیے نہیں بلکہ پوری دنیا کے لیے ایک واضح مثال ہے۔ تین عشروں کی فوجی حکمرانی کے باوجود تیونس کی سیاسی زمین میں جمہوریت کا پودا تیزی سے پروان چڑھ رہا ہے۔ تین سال قبل تیونس فوجی حکمرانی کے قید خانے سے نکلا اور جمہوریت کی راہ پر گامزن ہوا۔ جن کے ہاتھ سے اقتدار چھینا گیا، وہ اب بھی اپنا کھویا ہوا وقار اور اقتدار بحال کرنے کو بے تاب ہیں۔ مگر اب ملک میں جمہوریت ہے، جس کی حفاظت کرنے کا عزم بھی پایا جاتا ہے۔ ملک کا سیاسی تناظر بہت دھندلایا ہوا ہے۔ ایک عرصے تک فوجی حکمرانی کے تحت جینے والوں کو تمام سیاسی اصولوں اور طریقوں سے ہم آہنگ کرنا آسان نہیں، مگر تیونس کے سیاست دان اس حوالے سے خاصے پرعزم ہیں۔
“Tunisia is showing the Arab world how to nurture democracy”. (“Guardian”. Oct.25, 2014)
Leave a Reply