
تیونس کے سابق صدر محمد الباجی قائد السبسی کی وفات سے تیونس آنے والے انتخابات میں مزید مشکلات کا شکار ہوسکتا ہے۔ ان کی وفات سے ممکنہ طور پر تیزی سے ابھرنے والی النداء پارٹی اپنی سیاسی اہمیت سے محروم ہو سکتی ہے۔ ۹۲ سالہ محمد الباجی قائد السبسی ملک کے پہلے منتخب صدر تھے۔ اس منصب پر عبوری طور پر ۸۵ سالہ محمد الناصر نے صدر کے عہدے کا حلف اٹھایا۔ اب یہ ذمہ داری محمد الناصر کے کاندھوں پر آچکی ہے کہ وہ فوری طور پر آئینی فورم کو مکمل کریں۔ کیوں کہ اس فورم کی عدم موجودگی کی وجہ سے ملک میں جمہوری عمل تعطل کا شکار ہے۔ تیونس میں پہلے ہی ۱۷ نومبر کو صدارتی انتخابات کا اعلان کیا جاچکا ہے۔ تاہم تیونس کی ’’الیکٹورل باڈی‘‘ نے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ اب وہ ۱۵ ستمبر کو صدارتی انتخابات منعقد کرائے گی، تاکہ اس آئینی شق پر عمل کیا جا سکے، جس کے مطابق صدر کی وفات کے ۹۰ دن کے اندر انتخابات کا انعقاد ضروری ہے۔ اس الیکٹورل باڈی کو پہلے سے وسائل کی کمی اور سیاسی مشکلات کا سامنا ہے۔ بظاہر اس صورتحال میں ستمبر میں انتخابات کا انعقاد ممکن نظر نہیں آرہا۔ ۸ ہفتوں سے بھی کم مدت میں صدارتی امیدواروں کے لیے انتخابی مہم چلانا خاصا مشکل ہے۔
عبوری صدر کے لیے ضروری ہے کہ جون میں منظور کی گئی قانون کی متنازع شق کے بارے میں جلد فیصلہ کریں۔ اس قانون کی رو سے آئینی ترمیم کے لیے پارلیمان میں کم ازکم ۵ فیصد ووٹ ضروری ہے۔ اس آئین کی موجودگی میں کچھ معروف صدارتی امیدوار بشمول نبیل القروی صدارتی انتخاب میں حصہ نہیں لے سکیں گے۔ السبسی نے اپنی وفات سے قبل اس قانون پر دستخط نہیں کیے تھے۔ اگر اسی پارٹی کے رکن محمد الناصر اس پر دستخط کرتے ہیں تو وہ مرحوم صدر کی خواہش کے برخلاف عمل کریں گے۔ السبسی کی وفات سے کیا النداء پارٹی اپنے اندرونی انتشار پر قابو پاسکے گی۔
النداء کی حریف اسلامی النہضہ پارٹی کی مقبولیت اور سیاسی اثرات میں غیر معمولی اضافہ اس وقت ہوا جب النہضہ پارٹی کے رہنما عبدالفتاح مورو نے اسمبلی کے اسپیکر کی حیثیت سے حلف اٹھایا۔ تیونس کے وزیراعظم یوسف الشاہد کو السبسی اور اس کے بیٹے کی طرف سے سخت مخالفت کا سامنا رہا۔ قبل ازوقت ہونے والے اس انتخاب سے یوسف الشاہد کو سیاسی فائدہ حاصل ہوگا۔
۴۲ سالہ کم سیاسی تجربات کے حامل الشاہد نے اپنے وژن اور ایجنڈے کے لیے بھرپور جدوجہد کی ہے۔ انہیں یہ ثابت کرنا ہوگا کہ ان کی تیونس پارٹی ملک کے معاشی چیلنجوں کے حل کے لیے موثر کردار ادا کر سکتی ہے۔
(ترجمہ: محمود الحق صدیقی)
“Tunisian President’s death could bring political shifts in its wake”. (“carnegieendowment.org”. July 25, 2019)
Leave a Reply