خطے کی صورت حال غیر یقینی ہے۔ جہادی کلچر پورے خطے پر چھایا ہوا ہے۔ خانہ جنگی نے کئی ممالک کو تباہ کر کے رکھ دیا ہے۔ شام اور لیبیا میں صورت حال بہت بری ہے۔ مصر میں خانہ جنگی تو نہیں ہو رہی مگر جمہوریت پر شب خون مار کر فوج نے ایک بار پھر سب کچھ اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے۔ ایسے میں ۲۶؍اکتوبر کو ہونے والے انتخابات کو تیونس کے لیے اہم موڑ قرار دیا جاسکتا ہے۔ ۲۰۱۱ء میں عرب دنیا میں بیداری کی لہر کے پیدا ہونے کے بعد سے تیونس جمہوریت کی راہ پر گامزن ہے۔ فوج ایک زمانے تک سیاہ و سفید کی مالک رہی ہے مگر اب وہ بیرکس میں ہے۔ ریاست کو چلانے کی ذمہ داری سیاست دانوں نے اپنے کاندھوں پر لے رکھی ہے۔ تیونس کے حالیہ پارلیمانی انتخابات میں حیرت انگیز بات یہ ہوئی کہ خطے کے رجحانات کو یکسر نظرانداز کرتے ہوئے عوام نے اقتدار سیکولر عناصر کو سونپ دیا۔ النہضہ پارٹی کا اقتدار ختم ہوا، اب ندا تونس پارٹی اقتدار میں ہے۔ النہضہ پارٹی نے عوام کے فیصلے یعنی اپنی شکست کو انتہائی پُرامن انداز سے تسلیم کر لیا۔ النہضہ کے رہنما راشد غنوشی نے پُرامن انتقال اقتدار کو یقینی بنانے میں مرکزی کردار ادا کر کے جمہوریت کی اچھی خدمت کی۔ مبصرین اور تجزیہ کار انہیں خراج تحسین پیش کر رہے ہیں۔
۲۱۷؍رکنی پارلیمنٹ میں النہضہ پارٹی کی ۶۹ نشستوں کے مقابلے میں ندا تونس پارٹی نے ۸۵ نشستیں حاصل کی ہیں۔ النہضہ پارٹی کو پارلیمانی انتخابات میں شکست کا منہ ضرور دیکھنا پڑا ہے مگر اب بھی ملک بھر میں اُس کے جاں نثار موجود ہیں اور اُس کا تنظیمی ڈھانچا اِتنا عمدہ ہے کہ دیگر سیاسی جماعتیں اُسے رشک کی نظر سے دیکھتی ہیں۔ ووٹرز کی اکثریت النہضہ پارٹی کی دو سالہ کارکردگی سے زیادہ متاثر دکھائی نہیں دی۔ النہضہ پارٹی کی حکومت معیشت کا جمود توڑنے میں ناکام رہی اور جہادیوں کے بڑھتے ہوئے اثرات کے آگے بند باندھنے میں بھی اُسے خاطر خواہ کامیابی حاصل نہ ہوسکی۔ النہضہ پارٹی کے مرکزی رہنماؤں نے اب اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ ملک کو چلانا اُن کے لیے اندازے سے زیادہ مشکل کام تھا۔
ندا پارٹی میں اختلافات زیادہ ہیں اور اُس میں سابق صدر زین العابدین بن علی کے دَور کے بہت سے لوگوں کی موجودگی بھی مشکلات پیدا کر رہی ہے مگر پھر بھی پارٹی کو دوبارہ زندگی دینے اور توانا کرنے میں مرکزی کردار پارٹی کے لیڈر بیجی سعید سبسی نے ادا کیا ہے۔ وہ تین مرتبہ مرکزی کابینہ کا حصہ رہ چکے ہیں۔ ۲۰۱۱ء میں وہ دوبارہ سیاست میں فعال ہوئے اور اپنی پوزیشن مستحکم کرنے کا سلسلہ شروع کیا۔ انہوں نے عام انتخابات سے قبل قائم کیے جانے والے عبوری سیٹ اپ کی قیادت بھی کی۔ شفاف انتخابات یقینی بنانے کے لیے نگراں حکومت کا قیام ناگزیر تھا۔ النہضہ پارٹی نے جب دیکھا کہ مصر میں منتخب حکومت کا تختہ الٹ کر فوج ایک بار پھر اقتدار پر قابض ہوگئی ہے تو اُس نے اقتدار ٹیکنوکریٹس پر مبنی سیٹ اپ کے حوالے کر دیا اور ملک کے نئے آئین کا اسلامی رنگ بھی ذرا ہلکا کر دیا۔
النہضہ پارٹی مخلوط حکومت کا حصہ بننے کو تیار ہے۔ مگر ایسا لگتا ہے کہ ندا پارٹی چھوٹی جماعتوں کو ساتھ لے کر چلے گی، خواہ حکومت کمزور ہی ہو۔ ایسا کرنا اس لیے ناگزیر ہے کہ ندا پارٹی کو بھرپور کامیابی النہضہ پارٹی کی حکومت پر تنقید کی صورت ہی تو ملی ہے۔ وہ نہیں چاہے گی کہ النہضہ پارٹی کو ساتھ ملا کر ووٹروں کو ناراض کیا جائے۔ النہضہ پارٹی کی حکومت نے تیونس میں مذہب اور سیاست کو الگ رکھنے کی پالیسی ترک کرنے کی طرف سفر شروع کر دیا تھا۔ تیونس میں اب بھی بہت سے لوگ مصر میں اخوان المسلمون کی حکومت کے خاتمے اور اقتدار پر فوج کے دوبارہ قبضے کی حمایت کرتے ہیں۔
اسلام اور سیکولراِزم کے درمیان اور معیشت کی بحالی سے ہٹ کر بھی تیونس میں کئی مسائل ہیں۔ سکیورٹی کا مسئلہ اب تک پوری طرح حل نہیں ہوسکا ہے۔ ملک کو ہر طرح کے اندرونی اور بیرونی خطرات سے پاک رکھنا انتہائی ناگزیر ہے۔ یہ ایسا معاملہ ہے جس پر تھوڑا سا متحرک ہوکر ووٹروں کو بہت تیزی سے اپنی طرف کیا جاسکتا ہے۔ اپوزیشن کی دو بڑی شخصیات کے قتل نے النہضہ پارٹی کی حکومت کو کمزور کرنے میں مرکزی کردار ادا کیا۔ ان وارداتوں سے تیونس میں سکیورٹی کا مسئلہ ایک بار پھر اُبھر کر سامنے آگیا۔ حالیہ انتخابات کے موقع پر بھی سکیورٹی کا غیر معمولی انتظام کیا گیا۔ پولنگ اسٹیشنز کے باہر سکیورٹی اہلکاروں کی موجودگی نے انتخابی ماحول کا جوش و جذبہ تھوڑا سا گہنا دیا۔
سابق حکمراں جماعت کانسٹی ٹیوشنل ڈیموکریٹک ریلی کی بعض سرکردہ شخصیات نے اپنا اثر و رسوخ بحال کرنے کی کوشش شروع کردی ہے۔ ندا تونس پارٹی کو اس محاذ پر بھی لڑنا ہے۔ کانسٹی ٹیوشنل ڈیموکریٹک ریلی نے ملک پر تنہا حکومت کی۔ تب ایک ہی پارٹی تھی۔ طویل اقتدار کے دوران اس پارٹی نے ہر سطح پر تعلقات بنائے اور ملک کے بیشتر طبقوں کو متاثر کیا۔ معاشرے کا ہر طبقہ اپنا مفاد چاہتا تھا۔ آر سی ڈی اب ختم ہوچکی ہے مگر اس سے تعلق رکھنے والوں کا اثر و رسوخ بہرحال برقرار ہے۔ مبصرین کا خیال ہے کہ پولنگ پر ان شخصیات کے اثرات بھی اثرانداز ہوئے ہوں گے۔
۲۳ نومبر کو صدارتی انتخابات ہونے والے ہیں۔ تب تک حکومت کی تشکیل غیر متوقع دکھائی دیتی ہے۔ صدارتی انتخابات کے نتائج بھی حکومت کی تشکیل پر اثرانداز ہوں گے۔ جنوری میں منظور کیے جانے والے نئے آئین میں وزیراعظم اور پارلیمنٹ کے اختیارات بڑھا دیے گئے ہیں۔ سعید سبسی کی عمر ۸۸ سال ہے۔ وہ بھی صدارتی امیدوار ہیں۔ النہضہ پارٹی نے امیدوار کھڑا نہیں کیا۔ ایسے میں یہ بات واضح نہیں کہ وزیراعظم کا منصب کون سنبھالے گا۔ معروف ٹیکنوکریٹ مہدی جمعہ کو ملک کے بیشتر حصوں میں احترام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ ہوسکتا ہے اُنہیں حکومت تشکیل دینے کی دعوت دی جائے۔ مہدی جمعہ نے حکومت کی تشکیل میں حصہ لینے کو خارج از امکان قرار نہیں دیا ہے۔
“Tunisia’s election: The secularists have it”. (“The Economist”. Nov. 1st, 2014)
Leave a Reply